کنزالایمان اوراس کااسلوب
کنزالایمان اوراس کااسلوب
محمدشمشادحسین رضوی(ایم ۔اے)
کنزالایمان کیاہے؟عقیدہ وایمان،عشق ووفا،خلوص ومحبت کاخزانہ اوراس کاحسین وخوبصورت گلدستہ ہے۔یہی کنزالایمان صحیح معنی میں قرآن مقدس کاترجمہ اوراس کاسچا ترجمان ہے۔امام احمدرضافاضل بریلوی نے۱۳۳۰ ھ میں قرآن مقدس کااردوزبان میں ترجمہ کیااوراس کاتاریخی نام کنزالایمان رکھا۔رشدوہدایت کایہ ایساچشمۂ سیال ہےجس سے ہزاروں فیضیاب ہوئے،اوراب بھی ہورہےہیں انشاءاللہ آئندہ بھی ہوتےرہیں گے۔ جس وقت ترجمۂ قرآن کنزالایمان چھپ کرمنظرعام پرآیااس وقت اردوزبان وادب میں کافی حد تک متانت وسنجیدگی اورشائستگی آچکی تھی۔اس کاذخیرۂ الفاظ بھی وسیع ہوچکاتھا۔محاورے، استعارےاورتشبیہات بھی اس ذخیرہ میں کافی حد تک موجودتھے۔اردوادب کی خوبصورت بزم میں جہاں نظموں کاگلدستہ اوراس کاحسین پیکرموجودتھاوہیں اردونثرکی تخلیقات بھی تھیں جواپنےحسین جلوؤں سےاردوزبان وادب کونوازرہی تھیں کنزالایمان بھی انھیں میں ایک ادبی شاہکاراورعظیم شہ پارہ تھا۔اس کی زبان بھی کوثروتسنیم سےدھلی ہوئی تھی۔ لب و لہجہ میں حسن وبانکپن،رعنائی اورشگفتگی تھی۔کنزالایمان اس لائق تھاکہ ہمارےنقاد اورادبی ذوق وشوق رکھنےوالےافراداس پراپنی توجہ مبذول کرسکتےتھےاوراس کےاسلوب بیان اور اندازنگارش پرکھلےدل ودماغ سےسوچ سکتےتھے۔مگرانھوں نےایسانہ کرکےاپنی تنگ نظری اورکم ظرفی کاثبوت دیا۔کیافن تنقیداس بات کی اجازت دیتاہے؟اورجن افراد نے ایساکیا،ان کی تحریریں کیاچشم کطاہوسکتی ہیں؟انصاف ودیانت کاتقاضایہ ہےکہ ان کی تحریر کبھی بھی چشم کشانہیں ہوسکتی ہے۔اردوتاریخ وتنقیدکایہ زبردست المیہ ہےکہ اردونثر کی تاریخ وارتقامیں نقادباغ وبہار،فسانۂ عجائب،طوطی نامہ،امراؤجان ادااوراس صنف ادب سے تعلق رکھنےوالی دوسری تخلیقات کاتذکرہ کرتےہیں حتی کہ مولاناشاہ رفیع الدین،مولانا شاہ عبدالقادراورڈپٹی نذیراحمدکےاردوترجموں کابھی ذکرکرتےہیں مگرکنزالایمان کاکوئی ذکر نہیں،کوئی تذکرہ نہیں۔کیااس چشم پوشی کاان کےپاس کوئی جوازہے؟میں ایسےافرادسے پوچھناچاہتاہوں اس چشم پوشی کی کیاوجوہات ہوسکتی ہیں؟
کیاصرف اس لئےکہ یہ ایک مولوی کاترجمہ قرآن ہےجواردوادب کاپروفیسرنہیں،ڈاکٹر نہیں اورنہ ہی اردوادب وتنقیدکامحقق ونقاد یاصرف اس لئےکہ کنزالایمان کےمترجم اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ہیں۔اگرصرف یہی وجوہات ہیں تومجھےایسےافرادورجال پرافسوس ہوتاہےاوران کی ہوشمندی اوردانشوری پرروناآتاہےکہ انھوں نےیہ رویہ اپناکراخلاق و دیانت اورانصاف وبصیرت کی بلی چڑھادی۔یہ ظلم وستم کب تک؟ایک دورایساضرورآئے گا کہ تاریکیاں چھٹ جائیں گی۔اندھیرےدورہوجائیں گےاورحقیقت وواقعیت کاسویرا ضرور نمودارہوگا۔انواروتجلیات کی چاندنی بکھرجائےگی اورکنزالایمان کااجالایقیناًہمارےدل و دماغ پرچھاجائےگااورکنزالایمان کی خوبیاں ہماری زبانوں پرہوں گی۔خدائےوحدہ لاشریک کاشکرواحسان ہےکہ اب وہ دورآچکاہے۔ایک اندازہ کےمطابق کنزالایمان کے تعلق سےاب تک جس قدرمقالے،مضامین اورتحقیقات شائع ہوچکی ہیں۔میرےخال میں اس ترجمۂ رضاکےعلاوہ کسی اورترجمہ کی بابت شائع نہیں ہوئی ہیں۔یہ خدائےپاک کا فضل ہےجب وہ دینےپرآتاہےتوبےحساب دیتاہے،اتنادیتاہےکہ لینےوالوں کادامن تنگ ہوجاتاہےمگراس کےخزانہ میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی۔
سعودی حکومت نےاس پرپابندی عائدکردی۔ایساکرناتوبہت زیادہ آسان ہےمگردلیلوں سےاس پابندی کاجوازثابت کرناجوئےشیرجاری کرنےسےبھی زیادہ مشکل ہے۔سب ملک کرکوشش کریں اس کےباوجودیہ اس کاجوازثابت نہیں کرسکتےاورنہ صبح قیامت تک اس کو جائزبتاسکتےہیں۔ہاں یہ بات اورہےکہ اندھیروں کونوروضیاسےاورجہل ونادانی کوعلم وادب اورفکروشعورسےفطری عداوت رہی ہےاورآئندہ بھی رہےگی۔اگریہ بات کچھ اس طرح کی ہےتوپھرہمیں اس تعلق سےبات کرنےکاکوئی حق حاصل نہیں۔لہٰذایہ بات یہیں ختم کی جاتی ہےاورکنزالایمان کااسلوبیائی مطالعہ وتجزیہ پیش کیاجاتاہے۔تحریروتخلیق کسی کی ہو،اس کاایک اسلوب ہوتاہے۔لب ولہجہ اوراندازنگارش ہواکرتاہے۔ کسی بھی ادبی شاہکارکےلئےاسلوب کوہوناایک ضروری امرہےاوریہ بھی جانناضروری ہے کہ اسلوب ایک طرح کانہیں ہوتا بلکہ اس میں فرق وامتیازہواکرتاہے۔ہرفن کارکااسلوب الگ ہوتاہےکسی اسلوب میں کچھ نمایاں خوبیاں ہوتی ہیں اورکسی اسلوب میں دوسری قسم کی خصوصیات ہواکرتی ہیں۔
اسلوب اوراس کی تشکیل
اسلوب عربی زبان وادب کالفظ ہےاوراس کی جمع اسالیب آتی ہےازروئےلغت لب ولہجہ، طریقۂ تحریراوربات کہنےکےڈھب کواسلوب کہاجاتاہے۔یہ اس کاعام تصورہےجوسب کےذہنوں میں موجودہوتاہے۔مگرجب گہرائی میں اترکراسلوب کی حقیقت پرغورکیاجاتا ہے۔تووہ ایک فلسفہ نظرآتاہےاوراس میں بےپناہ وسعتیں دکھائی پڑتی ہیں کیونکہ اس کی جڑیں مختلف سمتوں میں پھیلی ہوئی نظرآتی ہیں۔نفسیات سےبھی اس کاتعلق ہےاورسماجیات سےبھی،یہ مذہبیات سےرابطہ رکھتاہےاورمعاشیات سےبھی۔جذبات کی لہریں بھی اسلوب کےپیکرمیں نظرآتی ہیں اورفکروشعور کی شعاعیں بھی۔حزن وملال،فرحت وانبساط کے آثاروعکوس بھی اُسلوب کےآئینہ میں نظرآتےہیں مگرشرط یہ ہے کہ دیکھنےوالی آنکھوں میں بھی تاب وتوانائی ہو۔اسی لئےاہل تحقیق کےنزدیک اسلوب ایک فلسفہ ہے۔وہ خود میں تنہانہیں،بلکہ اس میں مختلف چیزیں شامل ہوتی ہیں،تب کہیں جاکراسلوب تشکیل پاتاہے۔ اس اعتبارسےدیکھئےتواسلوب ایک مرکب ہے،ایک خوبصورت مجموعہ ہےاور اس کے تشکیلی عناصربھی ہیں جوذیل میں درج کئےجارہےہیں۔۔۔۔۔
(۱) شخصیت
(۲) ماحول
(۳) مقاصد
(۴) ابلاغ خیال
(۵) مخاطب
یہ پانچ چیزیں ہیں جن سےاسلوب طریقۂ اظہارکی تشکیل ہوتی ہے۔بعض مفکرین کاقول ہے اسلوب شخصیت کامظہراورماحول کاآئینہ دارہوتاہے۔اس سےآپ خودبھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلوب تودیکھنےمیں صرف پانچ لفظوں کامرکب نظرآتاہےمگراس کی گہرائی میں معنیاتی نظام کاکوئی ناپیداکنارسمندرہےجوموجیں مارتاہوانظرآتاہے۔
کنزالایمان بھی ایک ادبی شاہکاراورفن ترجمہ نگاری کاآئینہ دارہے۔اس کابھی ایک اسلوب ہے اورطریقۂ اظہاربھی،جس میں انفرادیت بھی ہےاورامتیازی شان وشوکت بھی۔یہ اسلوب بھی سب سے الگ اورمنفردہےکیونکہ اسلوب کبھی بھی ایک جیسانہیں ہوتا، اس میں کسی نہ کسی زاویہ سےانفرادیت ضرورہوتی ہےورنہ ادبی تخلیقات میں سرقہ کی روایت تسلیم کےلائق نہیں،لہٰذایقینی طورپرکہاجاسکتاہےکہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کےترجمۂ قرآن کنزالایمان میں منفرداسلوب پایاجاتاہے۔لیکن اس اسلوبیاتی انفرادیت کی نشونماکن اسباب ووجوہات کےسبب ہوئی یہ ضرورتحقیق طلب ہیں۔اس لئےہمیں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کےترجمۂ قرآن کنزالایمان میں منفرداسلوب پایاجاتاہے۔لیکن اس اسلوبیاتی انفرادیت کی نشوونمان کن اسباب ووجوہات کےسبب ہوئی یہ ضرورتحقیق طلب ہیں۔اس لئےہمیں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی شخصیت کنزالایمان کےپس منظراورپیش منظر حالات،مقاصداورابلاغ خیال کاجائزہ لیناضروری ہے،ایسانہ کرنےکی صورت میں مسئلہ ادھورارہ جائےگا۔
اعلٰی حضرت کی عظیم شخصیت
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی ذات محتاج تعارف نہیں انھیں ایک جائزہ کےمطابق۵۵علوم وفنون پرمکمل عبور حاصل تھااورمختلف علوم وفنون کتابوں،رسالوں کاتالیف فرمانامہارت تامہ اور قدرت کاملہ کابین ثبوت ہے۔اب آپ خودہی اندازاہ لگائیں کہ امام احمدرضاکی معلومات کس قدروسیع اور گہری تھیں۔جہاں تک ان کےذخیرۂ الفاظ کی وسعت کامعاملہ ہےوہ اظہرمن الشمس ہے کہ اس کادارومدارصرف اورصرف معلومات کی وسعتوں پرہے۔جس قدرمعلومات وسیع ہوں گی،ذخیرۂ الفاظ بھی اسی قدروسیع ہوگااورمعلومات کاوسیع نہ ہوناذخیرۂ الفاظ کی تنگ دامنی کولازم،جہاں تک عربی زبان وادب کاتعلق ہے،اس میں میرےسرکاراعلیٰ حضرت کو کیاکمال حاصل تھایہ ان کی تصانیف اوررسائل سےظاہرہے۔لفظوں کےمعانی اوران کے وجوہ استعمال سےآپ بخوبی واقف تھے۔کون سالفظ کس موقعہ پرکلام عرب میں بولاجاتا ہے اورموقعہ ومحل کی مناسبت سےکس لفظ کاکون سامعنی متعین ہوتاہےاس پربھی آپ کو قدرت حاصل تھی۔اس کاواضح مطلب یہ ہواکہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی زبان وادب کا صحیح اورکامل مذاق رکھتےتھےاورعبارت فہمی میں توآپ کاکوئی جواب ہی نہ تھا۔قوتِ حافظہ کا یہ عالم تھاکہ جوباتیں اس میں نقش ہوجاتی تھیں وہ دائمی طورپربرقراررہتی تھیں اورلفظوں یہ عالم تھاکہ ہاتھ باندھےکھڑےرہتےتھے۔ان کےمذاق سخن اورطبعی مناسبت سےجملہ و کلام کےریشمی دھاگوں میں ازخودپروجاتےتھے۔یہی وجہ ہےکہ ان کےیہاں صرف اور صرف آمدہی آمدکی کیفیت نظرآتی ہے۔آوردتصنع اورتکلف کادوردورتک اتاپتہ نہیں۔ یہی کیفیت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کےاسلوب اورکنزالایمان کےطریقۂ اظہارمیں دکھائی دیتاہے۔میں تویہاں تک کہتاہوں کہ کنزالایمان کاانصاف کےتقاضوں کوپیش نظر رکھ کرمطالعہ کرلیجئے،آپ کوہرمقام پرعالمانہ شان،فنی کروفراورآمدکی خوبصورت کیفیت دیکھنےکوملےگی۔اسی علمی شخصیت کانتیجہ ہےکہ کنزالایمان کااسلوب بیان،علم وادراک فن و شعوراورفکرونظرکاآئینہ دارنظرآرہاہےاوراس پرمزیدخوبی یہ ہےکہ یہ اسلوب آمد کے تسلسل سےمنفرداورنادرونایاب بن کرابھرا۔بطورنمونہ سورۂ فاتحہ کاترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔۔
“اللہ کےنام سےشروع،جوبہت مہربان رحمت والا،سب خوبیاں اللہ کو،جومالک سارے جہان والوں کا،بہت مہربان رحمت والاروزِجزاکامالک،ہم تجھی کوپوجیں اورتمہیں سے مدد چاہیں،ہمیں سیدھاراستہ چلا۔راستہ ان کاجن پرتونےاحسان کیانہ ان کاجن پر غضب ہوا اور نہ بہکےہوؤں کا“۔(کنزالایمان)
اس ترجمۂ پاک کےخط کشیدہ الفاظ ؟اسم جلالت کی تقدیم“شروع“،“خوبیاں“،“چلا“اور “غضب“پرغورکیجئےاورسنجیدگی سےاس کامطالعہ کیجئے۔یہ تمام الفاظ اوران کامناسب استعمال اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی علمی شخصیت اورفنی استعدا وصلاحیت کونمایاں کررہے ہیں۔
(الف) اسم جلالت لفظ اللہ کوترجمہ میں سب سےپہلےلانامخصوص،مصلحتوں پرمبنی ہے اور وہ مصلحتیں درج ذیل ہیں۔۔۔۔۔
(۱)اس مقام پرلفظ اللہ اس تقدیم کامستحق ہے۔
(۲)اس تقدیم سےعملی طورپربرکتوں،رحمتوں کاحصول اولین مقصدہے۔
(۳)ترجمہ نگاری کےعمل میں توفیق ایزدی کی شمولیت کانظریہ۔
(۴)قول وعمل میں موافقت۔
(ب) شروع کرتاہوں سےاحترازاورصرف شروع پراکتفاعلم وادراک اورفنی نزاکتوں کا آئینہ دارہے۔اگروقتِ نظراورتمعقِ فکرسےکام لیاجائےتوصرف لفظ شروع ہی اصول ترجمہ نگاری کی پاسداری کرتاہے۔یہ خوبی شروع کرتاہوں والےترجمہ میں نہیں پائی جاتی کیونکہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنےوالوں میں مردحضرات بھی ہیں اورعورتیں بھی انھیں میں شامل ہیں مگرشروع کرتاہوں،والےترجمہ نےپڑھنےوالوں کومحدودکردیااورعورتوں کواس زمرہ سےنکال باہرکیامیں دعویٰ سےکہتاہوں کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے علاوہ دوسرےمترجمین اصل متن کی عمومیت کوترجمہ میں برقرارنہ رکھ سکےاورمعنیٔ خصوصیت پیداکرکےاسےمردوں کےلئےخاص کردیااورعورتوں کوبھلابیٹھے۔اب آپ خودہی سوچ لیجئے،یہ کیساترجمہ ہےجس میں ترجمانی کی ناقص کیفیت پائی جاتی ہے۔اس کےباوجود ان ترجموں کوسراہاجارہاہے۔کیایہ انصاف ودیانت کاخون نہیں؟توپھراسےکیاکہاجائے،عقل و ہوش آپ کےپاس بھی ہے،فیصلہ کیجئےاوربتائیے۔
(ج) الحمدللہ کےترجمہ میں سب خوبیاں اللہ کولاناہی بہترومناسب ہے۔علم وادراک بھی اسی کاتقاضہ کرتےہیں۔یہ مقام حمدہےاس میں ایسےہی لفظوں کااستعمال کرناچاہیےجن سےصرف اورصرف حمدکاتصورہولیکن اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کےسواتمام مترجمین نے اس کاترجمہ سب تعریفیں اللہ کےلئے،کرکےمقام حمدکی نزاکتوں،رعنائیوں کونظرانداز کر دیاکہ تعریفیں ازروئےلغت مدح اورذم دونوں پہلوؤں کااحاطہ کرتی ہیں۔اس لئےاس مقام پر’تعریفیں’لانامناسب نہیں۔ہاں’خوبیاں’لاناہی علم وادراک اورفن وشعور کوجلابخشتاہے۔ یہ حصۂ خوب تربھی امام احمدرضافاضل بریلوی کوملا۔
(د) اھد نا الصراط المستقیمیہ ایک دعاہےجوایک بندۂ مومن کی زبان سے نکلتی ہےاگراس کاترجمہ یہ کیاجائےکہ ہمیں سیدھاراستہ دکھا،تومیں کہتاہوں یہ ترجمہ کسی زاویہ سےمناسب نہیں۔
(۱) بندۂ مومن توسیدھاراستہ دیکھ چکاہےتوپھروہ دکھاکی دعاکس طرح کرسکتاہے؟یہ تو تحصیل حاصل ہوئی جومحال ہے۔
(۲) اس دعامیں ہدایت کی نسبت ذات وحدہ لاشریک کی طرف کی گئی ہےاورقاعدہ یہ ہے جب ہدایت اللہ کی ذات کی طرف منسوب ہو،تووہاں ایصال الی المطلوب کامعنی لیاجاتاہے اور جب ہدایت کی نسبت غیرخدا یعنی رسولﷺ کی طرف ہوتی ہےتواس کامعنی اراءۃ الطریق لیاجاتاہے۔اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے ‘سیدھاراستہ چلا‘سےترجمہ کرکے ایصال الی المطلوب کالحاظ کیااور دوسرے مترجمین نےاراءۃ الطریق کوپیش نظررکھ کر‘راستہ دکھا‘ ترجمہ کردیااوریہ فراموش کربیٹھےکہ اھد ناالصراط المستقیممیں دعاہونےکے سبب ہدایت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کی طرف ہےاسےعلم کی کمی کہاجائے؟یاکچھ اور؟ یہ فیصلہ قارئین کےذمہ ہے۔
(س) سورۂ فاتحہ میں غیرالمغضوب علیھمبھی آیاہے۔المغضوب اسم مفعول ہے اور اس کاماخذغضب ہے۔یہ آیت بھی دعاکی حیزمیں ہےاس لئےاس پھربھی حکم دعاہی نافذ ہوگا۔اس اعتبارسےغضب کی نسبت بھی اللہ کی طرف ہوگی۔اس مقام پرغورکرنےکی بات یہ ہےکہ اس غضب کاترجمہ تمام مترجمین نے غصہ کیا۔اعلیٰ حضرت نےاس کاکوئی ترجمہ نہیں کیابلکہ انھوں نےترجمہ میں اس کوبعینہٖ رکھ کرفرمایا۔“نہ ان کاجن پرغضب ہوا“ میں کہتاہوں،اس مقام پرغضب کاترجمہ کرناہی نہیں چاہیےکہ اس کامتبادل لفظ غصہ ہےاوریہ اللہ تعالیٰ کےلئےمناسب نہیں کیونکہ
(۱) غصہ کااصل معنی ازروئےلغت گلےمیں کھانےکااٹک جانا،پھندہ لگنااوراُچھولگناہے۔ کیا غصہ کایہ معنی خداکی ذات کےلئےمناسب ہے۔ظاہرہےآپ کابھی فیصلہ یہی ہوگاکہ ہرگز مناسب نہیں۔
(۲) جب آدمی کسی خوف یالحاظ کےسبب اپنےدل کاجوش ظاہرنہ کرسکےاوروہ جوش و جذبہ گلےمیں ہی اٹک کررہ جائے،توایسی حالت میں چہرہ پرناگواری کےجواثرات مرتب ہوتے ہیں اورجوکیفیت نمایاں ہوتی ہےاس پربھی بطوراستعارہ غصہ کااطلاق ہوتاہے۔غصہ کایہ استعاراتی معنی بھی اللہ تعالیٰ کےلئےمناسب نہیں کہ اسےکس کاخوف؟اورکس کالحاظ؟ اور پھریہ کہ اس ذات تنزیہہ کےلئےجوش وجذبہ کااٹک جاناکیونکہ متصورہوسکتاہے؟
لہٰذاعلم وادراک،فکروشعورکایہی فیصلہ کہ غضب کاترجمہ غصہ سےقطعی نہ کیاجائے، بلکہ لفظ غضب“کوہی ترجمہ میں رکھ دیاجائےکہ اس کاکوئی بھی متبادل لفظ اس غضب کی نمائندگی نہیں کرتا۔جن لوگوں نےغضب کاترجمہ غصہ سے کردیامیں سمجھتاہوں انھوں نے علم و ادراک کےتقاضوں کوپورانہیں کیا۔یہ چندشواہدتھےجونمونےکےطورپربیان کردیئےگئےجن سے یہ ثابت ہوگیاکہ کنزالایمان کا اسلوب بیان علم وادراک،فکروشعوراورحسن تخیل کامکمل طورپرآئینہ داری کرتاہے۔ صرف سورۂ فاتحہ کےترجمہ اوراس کےاسلوب سےجس علمی شخصیت کی طرف تبادرِ ذہن ہوتاہے۔یقیناًوہ علمی شخصیت اپنےزمانہ میں منفرداورتنہانظرآتی ہے۔اسی انفرادی شان کے سبب کنزالایمان کااسلوب بھی منفرد علمی اسلوب نظرآتاہے۔
اسلوب اورماحول
اسلوب کسی بھی تخلیق وفن پارہ کی ہواس میں ماحول پسِ منظر کےحالات کی جھلک نظرآتی ہے۔دیگراصناف سخن کی طرح ترجموں میں بھی ماحول اورفضا کی نمائندگی نظرآتی ہے۔جب کنزالایمان کااملاکرایاجارہاتھااس وقت قرآن تراجم کے کیا حالات تھے؟اورمترجمین نےکیاماحول پیداکردیاتھا؟اس کاجائزہ بھی کنزالایمان کے اسلوب کاتعین کرتاہے۔عام طورپرمترجمین نےاردومیں قرآن کاترجمہ کرکےماحول میں تکدر اورفضا میں ناخوشگواری کی کیفیت پیداکردی تھی۔ڈاکٹرخلیق انجم کی درج ذیل تحریر پڑھئے،آپ کوترجمہ قرآن کاماحول سمجھ میں آجائےگا۔آنجناب لکھتےہیں۔۔۔۔۔
اُردومیں قرآن شریف کاپہلاترجمہ مولاناشاہ رفیع الدین نےکیایہ ترجمہ لفظی تھایعنی قرآن شریف کےہرلفظ کااس طرح ترجمہ کیاگیاکہ اردوفقروں کی ساخت بالکل بدل گئی اس ترجمہ میں سلاست اورروانی نہ ہونےکی وجہ سےاصل مفہوم سمجھنامشکل تھا۔شاہ رفیع الدین نے یہ ترجمہ ۱۷۷۶ ءمیں کیاتھا۔تقریباًنوسال بعدیعنی ۱۷۹۵ ء میں شاہ رفیع الدین کےچھوٹے بھائی شاہ عبدالقادرنےبھی قرآن شریف کااردومیں ترجمہ کیا۔یہ ترجمہ پہلےترجمہ کےمقابلہ میں زیادہ سلیس شگفتہ اورآسانی سے سمجھ میں آنےوالاتھا۔(فن ترجمہ نگاری،ص:۱۲)
مولاناشاہ رفیع الدین کاترجمہ کوئی ترجمہ نہ تھااوراس میں ابلاغ خیال کی زبردست کمی تھی۔ اس کےعلاوہ اس کااسلوب بھی ژولیدہ تھا۔اسی لئےاصل مفہوم کےسمجھنےمیں دشواری پیش آرہی تھی۔ہاں البتہ اتنی بات ضرورتھی کہ انھوں نےاردوترجمہ کی روایت کی شروعات کر دی۔عوام و خواص میں ترجمہ پسندنہیں کیاگیا۔اسی لئے مولاناشاہ عبدالقادرکوٹھیک نو سال بعدقرآن مقدسہ کااردومیں ترجمہ کرناپڑا۔کاش اگرشاہ رفیع الدین کاترجمہ قرآن شرف قبولیت سےمشرف ہوتاتواس ترجمہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔اس کامطلب یہ ہواکہ ترجمہ کرتےوقت مترجم کےدل میں جوجذبہ وجوش اورمقاصد ہونےچاہیےوہ اس ترجمہ میں مفقودتھے۔لہٰذا یہ بات روزَروشن کی مانند واضح ہوگئی کہ شاہ عبدالقادرکےترجمہ میں جو سلاست،روانی اورشگفتہ بیانی پائی جاتی ہے،وہ آمد کےتسلسل میں نہیں بلکہ کیفیت آورد کے نتیجےمیں پائی جاتی ہے۔اسی لئےاس ترجمہ میں کچھ متروک اورغیرمانوس الفاظ استعمال کئے گئے،جوفصاحت سےدوراورنظام بلاغت کےتقاضوں پرکھرےنہ اترپائے۔یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نےاس ترجمہ کےتعلق سےچندتبدیلیوں کاذکرکیا۔ آپ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔
فقیرکی رائےقاصریہ ہےکہ مولاناشاہ عبدالقادرصاحب کاترجمہ پیشِ نظرہے اوراس میں تبدیلیاں ملحوظ رہیں۔
(۱) وہ الفاظ کہ متروک یانامانوس آگئےہیں فصیح سلیس ورائج الفاظ سےبدل دیئےجائیں۔
(۲)مطلب اصح جس کےمطالعہ کوجلالیں کہ اصح الاقوال پراقتصارکاجن کاالتزام ہے، سرِدست بس ہے،ہاتھ سےنہ جائے۔
(۳)اصل معنی لفظ اورمحاورات عرفیہ دونوں کےلحاظ سےہرمقام پراس کےکمال پاس رہے۔
(۴)آیات متشابہات کےتعلق سےیہ کہناہےکہ اس کی تاویل نہ کریں بلکہ نصوص پر ایمان لائیں اوراگرتاویل کی بھی جائے،تویہ ضرورخیال رہےکہ اس کاظاہری معنی ذات اقدس کے لئے محال نہ ہو۔ان مذکورہ چارتبدیلیوں کوذہن میں رکھ کربتائیےکہ اس وقت قرآن مقدس کےترجمہ کرنےکاکیاماحول تھااورکسی فضاتھی؟بات اگراسی حد تک ہوتی تواس کےلئےاعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کےمذکورہ بالاچندمشورےہی کافی تھےاور قرآن کااردو میں ترجمہ کرنےکی کوئی ضرورت نہیں تھی۔اسی لئےاعلیٰ حضرت نےاس وقت کوئی ترجمہ نہیں کیا،مگربعدمیں کچھ ایسےنااہل مترجمین میدان میں اترآئےکہ ان کےترجموں سےماحول میں تعفن اورفضا میں تکدرپیداہوگیا۔ایسےمترجمین میں سرسید،نذیراحمد،اشرف علی تھانوی،محمودالحسن دیوبندی کےنام شامل ہیں۔ان کےترجموں کودیکھئےاورپھران کی چیرہ دستیوں کااپنےماتھے کی آنکھوں سےنظارہ کیجئے۔۔۔۔۔
(۱)اللہ ان سےٹھٹھاکرتاہے۔ ازسرسید
(۲)اللہ ان کوبناتاہے۔ ازنذیراحمد
(۳)ان منافقوں سےخداہنسی کرتاہے۔ فتح محمدجالندھری
(۴)اللہ جل شانہ ان سےدل لگی کرتاہے۔ محمودالحسن دیوبندی
ٹھٹھا/ہنسی/دل لگی/بنانا،یہ ایسےمخصوص الفاظ ہیں جو نہ صرف قوت سامعہ پرگراں محسوس ہوتےہیں بلکہ کرخت آوازاں،ناخوشگواراصوات پرمشتمل بھی ہیں۔اسی طرح ان مترجمین نےاپنےترجموں میں سرکاردوعالم ﷺ کےلئے“گمراہ“کالفظ استعمال کردیا جیسا کہ ووجدک ضالاکےترجمہ سےظاہرہوتاہے۔تمام ارباب ذوق اورانصاف پسندافراد سے صرف یہ التجاہےکہ وہ عشق وایمان کوپیش نظررکھ کربتائیں،کیاایک نبی معصوم کےلئے “گمراہ“کالفظ استعمال کیاجاسکتاہے؟اورغیرت ایمانی اس استعمال پرخاموش رہ سکتی ہے؟ انصاف ودیانت کااگردھندلاساعکس بھی آپ کی نگاہ میں ہےتوجواب نفی میں ہی ہوگا۔ ترجمہ کی یہ کیسی مسموم فضاتھی؟کہ غیرت وحمیت کواپناوجودبرقراررکھنامشکل ہورہاتھا۔
قرآن مقدس کےاردوترجموں میں سب سےزیادہ اہمیت ڈپٹی نذیراحمدکےترجمۂ قرآن کو دی جاتی ہےیہ وہ نذیراحمدہیں جواردوادب میں محتاج تعارف نہیں۔منفرداسلوب کےمالک ہیں،انشاءپردازاورافسانہ نگارہیں۔محاوراتی اسلوب انھیں کی شناخت اورامتیازی شان ہے۔ یہ روزمرہ کےلفظوں سےبزم ادب اورمحفل سخن کوسجانےمیں مہارت تامہ رکھتےہیں۔ترجمۂ قرآن میں بھی انھوں نےاسی اسلوب سے کام لیااوریہ بھول گئےکہ یہ قرآن مقدس ہے کوئی عام ادبی تخلیق نہیں کہ ہرمقام پراورہرموضوع میں اس اسلوب سےکام نہیں لیاجاسکتا، بلکہ موضوع ومقام کےاختلاف سےاسالیب بھی مختلف ہوجایاکرتےہیں۔نذیراحمدکی اس غلطی کااعتراف خوداردوادب کےتاریخ نویسوں اورتنقیدنگاروں نےکیاہے۔اس مقام پر ان کی رائےکاتذکرہ کردینامناسب سمجھتاہوں۔
پروفیسرمنظرعباس نقوی تحریرکرتےہیں۔۔۔۔۔
مولوی نذیراحمدکےاسلوب میں اگرکوئی نقص ہےتوبس یہی کہ اس میں لچک بالکل نہیں۔ یہ محاوراتی اسلوب“مراۃ العروس“،توبتہ النصوح“،“رویائےصادقہ“اور“ایامی“جیسے قصوں میں توزیب دیتاہےلیکن ترجمۂ قرآن مجید‘الاجتہادات’اور’امہات الامہ’جیسی مذہبی کتابوں کےلئےموزوں نہیں۔(اسلوبیاتی مطالعے،ص:۱۵)
جناب خلیق انجم صاحب اپنی تشویش کااظہارکرتےہوئےلکھتےہیں۔۔۔۔۔
قرآن کاترجمہ مختلف مترجمین نےکیاان میں سب سے آسان اورروزمرہ کاترجمہ ڈپٹی نذیر احمدمرحوم کاسمجھاجاتاہے۔موصوف شستہ اوربامحاورہ زبان لکھنےمیں اپنی مثال آپ تھے۔ ’’امہات الامتہ“لکھتےوقت بھی اسی صفت کوبرت گئےاوربرےپھنسے۔رسول اللہ ﷺ کےراتوں رات مکہ سےباہرتشریف لےجانےکاتذکرہ یوں کیا“وہ راتوں رات سٹک گئے“ یہ سٹک کالفظ اگرچہ عوام کی بول چال میں استعمال ہوتاہےلیکن پیغمبرکی شان میں یہی لفظ ایک گستاخی سمجھاگیااوراس طرح کےالفاظ کی بناپرڈپٹی نذیراحمدکےخلاف عام جلوسوں میں تجویزیں پاس ہوئیں اوربہت شورمچا۔(فن ترجمہ نگاری،ص:۸۹)
ان عبارتوں کوپڑھئےآپ کواندازہ ہوجائےگاکہ قرآن کااردومیں ترجمہ کرنےکاکیاماحول تھا اورکیسی فضاتھی۔حقیقت یہ ہےکہ کوئی بھی دانش مندطبقہ اس ماحول سےمطمئن نہیں تھا بلکہ عوام وخواص کےدلوں میں کرب واضطراب اورتشویش پنپ رہی تھی۔اس مسموم فضا سےہرایک نکلناچاہتاتھا۔اسی ماحول کےبطن سےمقاصدکاتعین ہوتاہےکہ عوام کے دلوں میں کیاتھا؟اورخواص کیاچاہتےتھے۔
تعین مقاصد:
ماحول کی گہرائی سےجائزہ لینےکےبعداہل علم پرمختلف قسم کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔۔۔۔۔
اولاً:۔ یہ کہ قرآنی تراجم میں جن مقامات پرغلطیاں ہوتی ہیں یامترجم ترسیل خیالات میں ناکام ہوئےہیں ان کی نشاندہی کی جائےاورایسےغلط ترجموں کےمطالعہ سےعوام اہل سنت کو بچایاجائے۔
ثانیاً:۔یہ کہ ان ترجموں کےمطالعہ کےسبب قلب وذہن پرجومضراثرات مرتب ہوئے ہوں ان کاازالہ کیاجائے۔
ثالثاً:۔ عوام اہل سنت کےہاتھوں میں ایک ایساترجمہ قرآن دیدیاجائےجوتمام سابقہ ترجموں سےبہتروافضل ہواوراس میں قرآن مقدس کی مکمل ترجمانی پائی جاتی ہواوروہ ترجمہ عظیم شاہکارکی حیثیت رکھتاہو۔زبان وبیان،اسلوب نگارش،فصاحت وبلاغت اوردیگر تمام خوبیوں کاجامع ہوتاکہ لوگوں میں اس کےمطالعہ کاذوق وشوق پرورش پائےاوردلجمعی کے ساتھ اس کامطالعہ کرے،اگراس ترجمہ میں بھی دوسرےتمام ترجموں کےمقابلہ میں انفرادیت اورفوقیت نہ پائی جاتی توپھراس کی ضرورت ہی کیاتھی؟
حالات کےانھیں تقاضوں کااحساس حضرت صدرالشریعہ الشاہ مولانامحمدامجدعلی صاحب علیہ الرحمتہ کوہوااورانھوں نےحضرت سیدناامام احمدرضاکی بارگاہ میں ایک حسین و خوبصورت ترجمۂ قرآن کی ضرورت وافادیت کاتذکرہ کیااعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نےبھی انھیں حالات کےسبب کنزالایمان کااملاکرایا۔وہ مقاصدجوحالات اورمسموم ومکدرفضا کےبطن سے نکل کرسامنےآئے۔نہایت ہی اہم اورپُروقارتھے۔یہ علم وادراک،فکرونظراور فن و شعور کاجلوہ اورتابانیاں دکھانےکامقام نہ تھااورنہ اس کی ضرورت تھی اورپھریہ کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کاایسامزاج اورفطرت بھی نہ تھی۔علمی رعب ودبدبہ،فکری شان و شوکت کامظاہرہ ان کی مزاج وعادت سےکوسوں دورتھی۔آپ خودہی ارشادفرماتےہیں۔
نہ مرانوش زتحسین نہ مرانیش زطعن |
نہ مراگوش ہوئےنہ مراہوش ذمے |
منم وگنج خمولی کہ نگنجد دروے |
جزمن وچندکتابےودواتےقلمے |
یہاں مسئلہ تحفظ ایمان ووفاداراورخلوص وعشق کی صیانت کاتھا۔ذات وحدہ لاشریک کی تقدیس وتنزیہہ کاتھا۔اسی لئےاعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کنزالایمان کااملاکرارہےتھے اور صدرالشریعہ املاکررہےتھے۔دونوں طرف ایک ہی جذبہ تھا،ولولہ و جوش تھااور رفتہ رفتہ کنزالایمان نشوونمااورعروج وارتقاکی منزلیں طےکررہاتھا۔خلوص میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔اس میں اعلیٰ درجہ کی کشش اورجاذبیت ہوتی ہے۔میرےدوست!اسی جذب وکشش کا نتیجہ تھاکہ آج کنزالایمان میرےہاتھوں میں ہےاوراس کےمطالعہ سےمیرےدیدہ ودل روحانی قلبی مسرت محسوس کررہےہیں۔اعلیٰ حضرت اورابلاغ خیال۔امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت کی شخصیت علمی صلاحیت، وسعت معلومات اوران کےذخیرۂ الفاظ کی پنہائیوں کےجائزہ سےیہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوگئی کہ قرآن فہمی میں اعلیٰ حضرت کاکوئی جواب نہ تھا۔وہ اپنی مثال آپ تھے۔زبان و بیان،اسلوب ادااوراندازنگارش کےرمزشناس تھے۔لفظوں کےمعانی ومطالب،ان کے وجوہِ استعمال اورمواقع استعمال کی نزاکتوں،لطافتوں اوررعنائیوں کوخوب جانتےپہچانتے تھے اوراس بات سےبھی واقف تھےکہ کہاں طنزہےاورکس مقام پرزجروتوبیخ ہے۔ آپ کی قرآن فہمی میں یہ تمام خوبیاں موجودتھیں۔ترجمہ کیاہوتاہے؟ترجمانی کی کیفیت کس نوعیت کی ہونی چاہیے؟اس سےبھی آگاہ تھے۔خیالات وجذبات کی ترسیل کس طرح ہو؟اورکن لفظوں سےہو،اس پربھی آپ کوملکہ حاصل تھا۔اس ابلاغ خیال کی قوت بروئےکارلاتے ہوئے،اعلیٰ حضرت فاضل فریلوی نےکنزالایمان کااملاکرایااوراسلوب بھی ایسااپنایاکہ اس میں ترجمہ کی تمام خوبیاں،خصوصیات درآئیں اورپھرلب ولہجہ کابانکپن،شگفتگی سرچڑھ کر بولنےلگی۔کنزالایمان میں سلاست وروانی،کہیں سادگی وشگفتگی اورحسن ورعنائی کاجلوۂ زیبا ملتاہے۔مثال کےطورپرکنزالایمان کی اس درج ذیل عبارت کامطالعہ کیجئے۔آپ اس کے مطالعہ سےیقیناًمحظوظ ہوں گے۔
یہ آپس میں کاہےکی پوچھ گچھ کررہےہیں،بڑی خبرکی جس میں وہ کئی راہ ہیں ہاں ہاں،اب جانیں گے۔پھرہاں ہاں جائیں گے،کیاہم نےزمین کوبچھونانہ کیااورپہاڑوں کومیخیں اور تمہیں جوڑےبنایااورتمہاری نیندکوآرام کیااوررات کوپردہ پوش کیااوردن کوروزگار کے لئےبنایااورتمہارےاوپرسات مضبوط چنائیاں چنیں اوران میں ایک نہایت چمکتاچراغ رکھا اورپھربدلیوں سےزورکاپانی اُتاراکہ اس سےپیدافرمائیں،اناج اورسبزہ اورگھنےباغ،بیشک فیصلہ کادن ٹھہراہواوقت ہےجس دن صورپھونکاجائےگاکہ تم چلےآؤگے،فوجوں کی فوجیں اورآسمان کھولاجائےگا،کہ دروازےہوجائیں گےاورپہاڑچلائےجائیں گےکہ ہوجائیں گےجیسےچمکتاریتادورسےپانی کادھوکہ دیتا۔بیشک جہنم تاک میں ہے،سرکشوں کا ٹھکانا،اس میں قرنوں رہیں گے۔اس میں اس طرح کی ٹھنڈک کامزہ نہ پائیں گےاورنہ کچھ پینےکو،مگرکھولتاپانی اوردوزخیوں کوپیپ،جیسےکوتیسابدلہ بیشک انھیں حساب کاخوف نہ تھا اورانھوں نےہماری آیتیں حدبھرجھٹلائیں اورہم نےہرچیزلکھ کرشمارکررکھی ہے۔اب چکھو کہ ہم تمہیں نہ بڑھائیں گےمگرعذاب۔(ازکنزالایمان،ص:۷۸۶،پارہ۳۰،سورۃ انباء)
کنزالایمان کےاس اقتباس کوپڑھئےاوردل کھول کرپڑھئے۔انصاف ودیانت سےکام لیجئے۔ اس عبارت منقولہ کےاسلوب اورلب ولہجہ پرغورکیجئے۔آپ کوحیرت ہوگی کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نےکس خوبصورت لب ولہجہ میں قرآن مقدس کااردومیں ترجمہ کیاہے۔ اب تک جس قدرتراجم قرآن موجودہیں ان میں کسی کااسلوب اتنااچھوتااورندرت لئےہوئے نہیں ہے۔خواہ یہ ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب کاہویامولاناعبدالقادرصاحب کا۔اردو ادب کےکوہ گراں ڈپٹی نذیراحمدبھی اس اسلوب کونہ چھوسکےاورنہ ہی محمودالحسن دیوبندی وغیرہ۔ جہاں تک میں نےاس اقتباس کوپرکھاہےاس میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔۔۔۔۔
(۱)اس عبارت منقولہ میں سادگی وپرکاری،زبردست اندازمیں پائی جاتی ہے۔الفاظ نہایت ہی ہلکےپھلکےاورچست اورشگفتہ استعمال کئےگئےہیں۔مگران سادہ لفظوں میں بھی فصاحت و بلاغت اورمانوسیت کےسبب حسن ورعنائی کاایساتیکھارنگ چڑھاہواہےکہ عبارت کی پوری فضاایک خوبصورت نگارخانہ دکھائی پڑتی ہےاورجگہ جگہ محاوروں کےاستعمال نےایساجلوہ بکھیراہےکہ اس کی خوبصورت شعاعیں ہرسادہ لفظوں کےپیکرمیں نظرآتی ہیں۔یہی وہ اسلوب ہےجس نےارباب ذوق کےلبوں پرتبسم کی کیفیت نمودارکردی ہےاورعلم وشعور کےدلدادگان کومحوحیرت کردیاہے۔اس نادرونایاب اسلوب بیان پرہم اہل سنت جس قدر نازکریں کم ہے۔
(۲)کاہےکی پوچھ گچھ،کئی راہ ہیں،ہاں ہاں۔نیندکوآرام کیا،چنائیاں چنیں،فوجوں کی فوجیں، چمکتاریتا،پانی کادھوکہ دینا،تاک میں ہے،جیساکوتیسا،حدبھرلکھ کرشمارکررکھی ہے،نہ بڑھائیں گےمگرعذاب،وغیرہ یہ وہ الفاظ وجملےہیں جوفصیح وبلیغ ہونےکےساتھ ساتھ مروجہ اورمانوس بھی ہیں۔ان میں کوئی ایسالفظ نہیں جس سےاجنبیت اوروحشی پن کااحساس ہوتا ہو،روزمرہ میں الفاظ بولےجاتےہیں مگریہ بازاری اوردیہاتی بولیوں سےتعلق نہیں رکھتے۔ جس عبارت میں ایسےالفاظ استعمال کئےجائیں اس کےحسن وبانکپن کاکیاکہا؟اس کا احساس تو وہی لوگ کرسکتےہیں جوادبی ذوق رکھتےہیں اورزبان وبیان کی رعنائیوں سےواقف ہیں۔
(۳)اس عبارت میں ایک خاص خوبی اوروصف یہ پایاجاتاہےکہ جولفظ جس مقام پراستعمال ہواہےوہ نگینہ کی مانندجڑاہواہےاورموقع ومحل کی مناسبت سےایسااٹوٹ رشتہ قائم کرلیا ہے،کہ اس مقام سےاس کی جدائی عبارت کےحسن وکمال اوراسلوب کی ندرت کومتاثر کر سکتی ہے۔موقع ومحل سےلفظوں کی یہ مناسبت صرف مناسبت نہیں۔بلکہ فطری اورطبعی مناسبت ہےجواعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کےحسن انتخاب اورخوبصورت شعور وفکرکی نمائندگی کررہی ہے۔دل چاہتاہےاس حسن انتخاب کوسوبارسلام کیاجائےاوراس کےتذکرہ سےمحظوظ ہواجائے۔ترجمۂ قرآن کنزالایمان کےاسلوب ادامیں جہاں سلاست،روانی،حسن ورعنائی،شگفتگی پائی جاتی ہےوہیں تخیل کاجلوۂ زیبابھی دیکھنےکوملتاہے۔کہیں تشبیہ واستعارہ کی قوس وقزح ہے تو کہیں رمزوکنایہ کی ضیاپاشی ہے۔لفظی ومعنوی صنعتوں کےاستعمال سےاسلوب بیان میں ایسا نکھار اورایسی ندرت پائی جاتی ہےاورقلب ونظراس کےمطالعہ سےتکان محسوس نہیں کرتے۔یہ ایک ایسی خوبی اورحسن وجمال ہے،جوصرف کنزالایمان میں پایاجاتاہے۔یہ بھی اس کی انفرادی اورامتیازی شان ہے۔سورۂ مریم کی شروع کی آیتوں کاترجمہ کرتےہوئے لکھتےہیں۔۔۔۔۔
یہ مذکورہےتیرےرب کی اس رحمت کاجواس نےاپنےبندہ زکریاپرکی جب اس نےاپنے رب کوآہستہ پکارا،عرض کی،اےمیرےرب میری ہڈی کمزورہوگئی ہےاورسرسےبڑھاپے کابھبھوکاپھوٹا۔(کنزالایمان،ص:۴۱۱)
خط کشیدہ جملہ’’بڑھاپےکابھبھوکاپھوٹا’’خالص استعاراتی نظام کی نشاندہی کررہاہےکہ بڑھاپے کےسبب سرکےکچھ سفیدبالوں کو’’بھبھوک’’بطوراستعارہ کہاگیاہےاورپھراسی کی مناسبت سے’’پھوٹا’’استعمال کیاگیاہے۔اس کودوسرےلفظوں میں اس طرح بھی کہہ سکتےہیں کہ ’’سفیدبالوں کاگچھا’’مشبہ’’بہ اوراس کی مناسبت سےفعل پھوٹالایاگیااوردونوں میں وجہ تشبیہ پھیل جاتاہے جس طرح آگ کی روشنی پھیلتی ہے،اسی طرح سفیدبال بھی پھیل جایاکرتے ہیں۔
اسلوب ادامیں استعاراتی نظام کی شمولیت مترجم کی قوت تخیل اورفکری صلاحیت کواجاگر کررہی ہےاورترجمانی کی کیفیت کونمایاں کررہی ہےکہ ہرایک مترجم ترجمہ کرتےوقت ترجمانی کی ذمہ داریوں اوراس کےتقاضوں کوپورانہیں کرپاتےکہ مترجم اگراصل متن کے معنیاتی نظام کاپاس ولحاظ کرتاہےتولفظوں،جملوں اورموقعہ ومحل کی نزاکتیں فراموش کر بیٹھتاہےاوراگروہ لفظیاتی نظام کالحاظ وپاس کرتاہےتومعنیاتی نظام میں خلل واقع ہوتاہے۔اسی لئےترجموں میں کہیں،ناقص عبارت فہمی کاحادثہ پیش آتاہےاورکسی مقام پر ترسیل کی ناکامی کاشکارہوکرمترجم کی شخصیت مجروح نظرآتی ہےلیکن امام احمدرضافاضل بریلوی نےکنزالایمان میں دونوں کاپاس ولحاظ رکھاگیااوروہ لفظیاتی ومعنیاتی نظاموں کاحسین سنگم دکھائی دیتاہے۔اگرلفظیاتی نظام کےتحت کہیں،ماضی کاترجمہ حال سےیاحال کاماضی سےنظرآجائےتوآپ یہ سمجھیں کہ موقع ومحل اوربلاغتی نظام اسی کامتقاضی تھا اوراعلیٰ حضرت نےوہی ترجمہ کیاجس کابلاغت متقاضی تھی۔اس اعتبارسےکنزالایمان میں اصل عبارت یعنی قرآن مقدس کےاسلوب بدیع کی زیادہ ترخوبیاں،خصوصیات اورانفرادی امتیازات درآئی ہیں۔انہیں خوبیوں کامشاہدہ کرکےکہنےوالوں نےکہااگراردومیں قرآن نازل ہوا ہوتاتووہ کنزالایمان ہوتا۔یہ تعریفی جملہ میری نگاہ میں قطعی غلط نہیں بلکہ فکرواستدلال اورمشاہدہ کامنھ بولتاثبوت ونمونہ ہے۔مگرشرط یہ ہےکہ جذبۂ اعتدال و توازن کودلوں میں سجاکراس کامطالعہ کیاجائے،تعصب اورتنگ نظری سےاپنےآپ کودوررکھا جائے۔
کنزالایمان اورنظام تنزیہ
اس بات کادھیان رکھئےکہ اردوزبان میں تراجم قرآنی کےجومخدوش حالات اورمسموم فضاتھی،اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نےاپنےترجمۂ قرآن کنزالایمان کواس کی ہوابھی نہ لگنےدی بلکہ اس مسموم فضاوتسلسل سےانحراف کرتے ہوئے،تقدیس وتنزیہہ کےنظام کوبرقراررکھااورکنزالایمان میں وہی جملےاورالفاظ استعمال کئے جوخداورسولﷺاوربزرگان خاص کی ذوات قدسیہ کی شان کےمناسب تھے۔ کنزالایمان کھنگالنےکےبعدبھی کوئی ایسالفظ نہیں مل پائےگاجس سے دلوں میں سوئےادب کاشائبہ گذرتاہواورذوق طبع جسےقبول کرنےکوتیارنہ ہو۔امام احمدرضافاضل بریلوی کایہ نظام تنزیہہ خالص ان کےعشق ووفااورتائیدایزدی پرقائم ہےبلکہ میں کہتاہوں اسی کا کرشمہ ہےجودیکھنےکومل رہاہے۔یہی تودلوں میں سروراورآنکھوں میں نوربھررہاہےچشم بصیرت کھولئےاورنظام تقدیس وتنزیہہ کےخوبصورت جلوؤں کامشاہدہ کیجئے۔
(الف)اللہ تعالیٰ کی ذات قدس کےلئےامام احمدرضافاضل بریلوی نےجوالفاظ استعمال فرمائےہیں وہ تقدیس وتنزیہہ سےپرنورنظرآتےہیں۔کنزالایمان کےحوالہ سےچند ترجمے پیش کئےجارہےہیں۔۔۔۔۔
(۱) اوراللہ ان سےاستہزافرماتاہے۔ (کنزالایمان،ص:۴)
(۲) بیشک اللہ سب کچھ کرسکتاہے۔ (کنزالایمان،ص:۵)
(۳) اللہ اپنی خفیہ تدبیرفرماتاتھااوراللہ کی خفیہ تدبیرسب سے بہتر۔(کنزالایمان،ص:۲۴۳)
(ب) اب ذرااس بارگاہ ذی وقارمیں سلام شوق پیش کیجئے،جس کےتصورہی سے دیدہ و دل کےکوچوں میں عشق وایمان،خلوص ویقین کی کلیاں مسکرااٹھتی ہیں اورسوزوگداز،محبت وشیفتگی کاپورامنظرخوشبوؤں میں بس جاتاہے۔وہ بارگاہ سرکاردوعالمﷺکی ہےجواصل کائنات روح ایمان اورجان یقین ہیں،جس کاتصوربھی ادب واحترام کےسانچےمیں ڈھل کر کرناچاہیے۔بادصبابھی سراپاادب ہوکہ اس راہ سےگزرتی ہے۔نوری مخلوق بھی اس بارگاہ میں آکرعقیدتوں،محبتوں کاخراج پیش کرتےہیں۔اب آپ خودہی سوچ لیجئےکہ یہ بارگاہ کس ادب واحترام اورعزت ووقار کامتقاضی ہے،مگرعام مترجمین نےاپنےترجموں میں جو خلاف ادب لفظوں کااستعمال کیا،کیاآپ کاشعورودانش اسےقبول کرنےکوتیارہے؟ انصاف اوردیانت سےبتایئے۔میں مذکورہ ترجموں کوپیش کرکےاس خارستان میں جانانہیں چاہتا، جہاں جیب وگریباں تارتارہوجاتےہیں اورقلب وروح نیم بسمل کی مانندتڑپنےلگتےہیں، مگر امام احمدرضافاضل بریلوی نےکنزالایمان میں پاکیزہ کلمات اورخوبصوت لفظوں اورجملوں کا استعمال کرکے،زخم خوردہ افرادکےدلوں میں نسلی اورمضطرب ذہنوں کوچین وسکون عطا کردیا۔سورۃ والضحیٰ میں ایک آیت ووجدک ضالاآئی ہے۔عام مترجمین نے ضالاً کےلفظیاتی نظام میں الجھ کررسول کریمﷺکوگمراہ اورراہ سےبھٹکاہوابتادیا،لیکن امام احمدرضا کا عشق و کمال اوربالغ نظری دیکھئےکہ انھوں نے،اس ضالاًکااس خوبصورت اندازمیں ترجمہ کردیاکہ ذوق جمال بھی مستی میں جھومنےلگااورطبع نازک بھی مچل مچل سی گئی۔آپ یوں ترجمہ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔اورتمہیں اپنی محبت میں خودرفتہ پایا،تواللہ کی طرف راہ دی،اس ترجمہ میں نہ گمراہ کالفظ آیااورنہ ہی راہ سےبھٹکاہوا،کہ یہ دونوں لفظ شان رسالت مآبﷺ کےخلاف ہےاورخودرفتہ ایک ایسالفظ ہےجوادب واحترام،عزت ووقارکاآئینہ دارہےاورناموس عشق کاتحفظ کررہاہے۔کیاکنزالایمان کایہ لفظ حیرت میں ڈالنےوالانہیں؟
(ج)قرآن مقدس کی جن آیتوں میں بندگان خاص کاتذکرہ ہے،اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ نےان کےترجموں میں بھی اسی ادب واحترام کاالتزام رکھاہےاوران کے تصرفات کابھی خوبصورت پیرایہ میں بیان کیاہے۔کیایہ اکتسابی عمل وکیفیت کانتیجہ ہے؟ نہیں بلکہ خدااورذہانت وفطانت اورفکروشعورکاکرشمہ ہےجوشب دیجورکےاندھیروں میں آفتاب وماہتاب بن کردرخشاں ہےاوراپنی نوری کرنوں سےقلب وروح کوگرمارہاہے۔
کاش اگرمترجمین سابق اورہم عصراس رازسے واقف ہوتےتوان کی نوک قلم سےناموس رسالت کاتحفظ ہوتااورآئندہ بھی یہ صورت برقراررہتی ہے۔کنزالایمان اورمخاطبین۔چونکہ کنزالایمان کامطالعہ کرنےوالوں میں متعدد افراد ہیں جن میں خاص طورسےیہ پہلولائق تحسین ہےکہ یہ کنزالایمان وہ ترجمہ قرآن ہےجس میں عوام و خواص کےدلوں کابہتراندازمیں خیال رکھاگیاہےاورمخاطبین کےساتھ ہمدردی جتائی گئی ہے۔۱۳۳۰ ھ/۱۹۱۱ء اوراس کےقریب کےزمانوں میں جوقارئین اوراہل ذوق حضرات تھے۔ان کےشعور وفہم،نفسیات،ذہنی صلاحیتوں کااگرتجزیہ کیاجائےاورپھراس بات پرغور کیاجائےکہ ان ذہنی فکری صلاحیتوں کےاعتبارسےکنزالایمان میں اختیارکیاگیاطریقۂ اظہار کس قدرکامیان ہےتویہ بات بالکل روزروشن کی مانندواضح ہوجائےگی کہ یہ ذہنی صلاحیتیں اسی اسلوب اداکاتقاضہ کرتی ہیں۔امام احمدرضافاضل بریلوی نےکنزالایمان کااملا کراکرنہ صرف اس تقاضہ کوپوراکیابلکہ وقت کی ایک اہم ضرورت کوپوراکیاہےاورحقیقت یہ ہے کہ جووقت کی اہم ضرورت کااحساس کرلےوہ زمانےکےکاندھوں پرسوارہوتاہےاوروقت و زمانہ اس کےتصرف میں رہاکرتےہیں۔تجدیددین اوراحیائےملت اس کامنصب ہواکرتا ہے۔امام احمدفاضل بریلوی کایہ کارنامہ بھی ان کےتجدیدی خدمات سےتعلق رکھناہے۔ہم اہل سنت پران کایہ بھی ایک احسان ہے،پلکوں سےحرفوں کوچن کربھی ہم ان کےاس احسان کاقرض نہیں اتارسکتے۔ہم جیسےکم پڑھےلکھےافرادپرلازم ہےکہ ان کےتجدیدی کارناموں کااحترام کریں،تحسین آمیزنگاہوں سےان کی علمی شخصیت اورفنی صلاحیتوں کو دیکھیں اورجذبۂ شوق میں اپنےدیدہ دل کوان کی راہ کافرش بنائیں۔کنزالایمان اوران کے دوسرےکارناموں سےاستفادہ کریں لیکن استفادہ واکتساب کےساتھ ساتھ ان کی شخصیت کا بھی پاس ولحاظ رکھیں۔شخصیت کاپاس ولحاظ اورکارناموں سےبےاعتنائی یاکارناموں سے استفادہ اورذات و شخصیت سےلاپرواہی،دونوں صوتیں منفی اورمضراثرات کی حامل ہیں۔ دورِحاضر میں کچھ اسی قسم کےجذبات پنپ رہےہیں،جودین وملت کےپیکرنورونکہت کو مضمحل اورناتواں کررہےہیں،یہ سراسرظلم وزیادتی ہے۔دانشمندطبقوں کواس پرسنجیدگی سے غورکرناچاہیےکہ اس طرح کےمعاملات محسنین کی شان کےخلاف ہیں اوراصول دیانت اس کی اجازت نہیں دیتے۔
میں مانتاہوں کہ دورحاضرعلمی انحطاط اورزوال پذیرتہذیب کاآئینہ دارہے۔ہمارے ملت کےنوجوان اردوزبان وادب سےواقف نہیں اورنہ ہی اس کاذوق رکھتےہیں،فارسی اورعربی زبانوں کوتوجانےدیجئےمگراس کےباوجودکنزالایمان میں جوزبان وبیان،اسلوب نگارش اپنایا گیااس میں جوالفاظ جملےاورعبارتیں استعمال کی گئیں،کیاوہ دورانحطاط میں فہم وفراست سے بالاترہیں؟یامعانی ومطالب کی ادائیگی میں خلل ڈال رہی ہیں؟کیااس کےمحاورے،تشبیہات واستعارات دورازکارہیں؟کوئی بھی اس دورکاارسطووابن سیناہی کیوں نہ ہو،اس بات کادعویٰ نہیں کرسکتاہےجولوگ کنزالایمان کاپابندی سےمطالعہ کرتےہیں ان سے پوچھئےوہ اس کا مطالعہ کرتےہیں انھیں کیامزہ آتاہے؟اوروہ کس طرح محفوظ ہوتےہیں؟جہاں تک کنزالایمان میں کچھ ایسےلفظوں کاہوناجومتروک الاستعمال ہوچکےہیں یاپھرغیرمانوس ہیں؟ تو اس سلسلےمیں مجھےچندباتیں آپ سےکرنی ہیں۔۔۔۔۔
اولاً کنزالایمان میں ایساکوئی لفظ ہےنہیں۔
ثانیاً تلاشِ بسیار کےبعداگرکوئی ایسالفظ مل بھی جاتاہےتواس کےتعلق سےیہ دیکھتا ہےکہ وہ ہندوستان کی علاقائی بولیوں میں سےکس بولی سےتعلق رکھتاہےیاتمام بولیوں سے تعلق رکھتاہےاوریہ بھی متعین کرناہوگاکہ اس کااستعمال بالکلیہ متروک ہےیاجزوی طور پر متروک ہے۔
ثالثاً اگروہ لفظ جزوی طورپرمتروک ہےاوربعض علاقوں میں اس کااستعمال کیاجاتاہے توایسےلفظوں کومتروک الاستعمال نہیں کہاجاسکتاہے۔
رابعاً اگربالکلیہ متروک الاستعمال ہےتوکیااس کااستعمال،فصاحت وبلاغت اورادبی ذوق کومتاثرکرسکتاہے یانہیں؟نہیں کی صورت میں کنزالایمان سےایسےلفظوں کوخارج کرنا مناسب نہیں اوراگرمتاثرکرسکتاہےتوپھرباغ وبہار،فسانۂ عجائب اوردوسری قسم کی ادبی تخلیقات کوبھی زمرۃ ادب سےخارج کرناپڑےگا۔کیااس قسم کی جرأت وبیباکی کسی نقاد میں ہے؟
خامساً اوراگربالکل متروک الاستعمال ہےاورکنزالایمان کی ادبیت اس سےمتاثرہوسکتی ہےپھربھی ایسےلفظوں کوخارج کرناروانہیں،ہاں اس کی تشریح وتجزیہ کیاجاسکتاہے؟ اس پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں۔