کنزالایمان پر ارباب علم و دانش کے تاثرات

‘‘کنزالایمان’’پر ارباب علم و دانش کے تاثرات

کلیم احمد قادری

قرآن کریم دین اسلام کا حقیقی منبع و سرچشمہ ہے اور اس کے مفہوم و مطلوب تک ترجمہ رہنمائی کرتاہے۔ دنیا کی متدد زبانوں میں اس کے ترجمے کیے جاچکے ہیں۔ اور قرآن کریم کے تراجم میں اردوزبان کو یہ شرف و امتیازحاصل ہے کہ اس میں ترجموں کی تعداد دنیاکی ہر زبان سے زیادہ ہے۔ اس صنف میں زبردست عالم وفاضل عربی و اردو داں حضرات نے زور آزمائی کی ہے۔ مگر ان تراجم کا بغورجائزہ لیے پر یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ متعدد تراجم سے صفاتِ باری تعالیٰ پر حرف گیری، شان انبیاو مرسلین میں گستاخی و بے ادبی اور عظمت اسلام مجروح ہوئی ہیں۔ ان کے خود ساختہ ترجموں سے حرمت قرآن، عصمت انبیا، عقائد مسلمین اور وقار انسانیت کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ کیونکہ ان تراجم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معاذاللہ اپنے بندوں سے خدادل لگی کرتاہے، ہنسی اڑاتاہے، دھوکے میں ڈالتا ہے، مکروفریب کرتاہے اور بعض امورکا علم اللہ رب العزت کوبھی نہیں ہوتا۔ وہ بھی اعضا کا محتاج ہے۔ انبیاو مرسلین بھی قبل اسلام گنہ گار، بھٹکے ہوئے اور بے راہ تھے۔ معاذاللہ ثم معاذاللہ۔ان مترجمین نے بغیر تائید ربانی کے مترجم کہلائے جانے کے شوق میں ایسی ایسی ٹھوکریں کھائیں کہ ان کے ایمان و اسلام ہی کی خیر نہ رہی۔قرآن کریم جیسی لاریب کتاب کا مترجم بننے کےلیے تائید ربانی و رحمت خداوندی اولین شرط ہے۔ اس ضمن میں بدر ملت علامہ مفتی بدرالدین احمدقادری علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:

‘‘ایک انسان اپنی دماغی کوشش سے بلند پایامصنف وقابل صد افتخار ادیب تو بن سکتاہے۔ اپنی ذاتی قابلیت کے زور سے اردو، عربی، فارسی، انگریزی وغیرہ مختلف زبانوں کا ماہر تو ہوسکتا ہے۔ اپنے ذہن ثاقب کی تیزی سے نحو و صرف، معانی وبیان، تاریخ و فلسفہ کا محقق تو ہوسکتا ہے۔لیکن قرآن حکیم کا مترجم بنناتو یہ اس کےاپنے بس کی بات نہیں۔ قرآن مجید کی ترجمانی کرنا، کلام الٰہی کے اصل منشاومرادکوسمجھنا، آیات ربانی کے انداز کو پہچاننا، آیات محکمات و متشابہات میں امتیاز کرنا یہ صرف اس عالم دین کاکام ہےجس کا دماغ انوارربانی سے روشن اس کا قلب عشق مصطفیٰ کا مدینہ اور اس کا ذہن بصیرت دینیہ کا حامل ہو۔ رہے وہ لوگ جو زبان و ادب، نحو و صرف، فلسفہ وتاریخ وغیرہ علوم کے فاضل ہونے کے باوجود باطل پرستی کےحامی وطرف دار ہیں توانھیں بارگاہ رسالتﷺ سے قرآن مجید کی ترجمانی کے لیے تائید رحمانی کا کوئی حصہ نہ ملا، کیوں کہ علم قرآن ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھرے کھوٹے کا فرق ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن فہمی ہی وہ معیار ہے جو علمائے حق وعلمائے باطل کے درمیان خط امتیاز کھینچتاہے’’۔

(سوانح اعلیٰ حضرت ص۳۶۵مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

اب تک کنزالایمان کا دنیاکی تقریباًدس زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ کنزالایمان کے علمی محاسن و معارف پر اب تک سو سے زائدکتب ورسائل و مقالات تحریر کیے جاچکے ہیں۔ عالمی جامعات میں بھی اس کو موضوع تحقیق بنایاجارہا ہے۔ ماہر رضویات پروفیسرڈاکٹر محمد مسعود احمد کی نگرانی میں ڈاکٹرمجیداللہ قادری نے کراچی یونی ورسٹی سے ۱۹۹۳ء ‘‘کنزالایمان اور دیگر معروف قرآنی تراجم کا تقابلی جائزہ’’ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ جو ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا کراچی سے شائع ہوچکا ہے۔ روہیل کھنڈ یونی ورسٹی، بریلی شریف سے لیڈی اسکالر مس حامدہ کے مقالۂ ڈاکٹریت ‘‘اردو نثر اور مولانااحمد رضاخاں’’ کے چوتھے باب میں کنزالایمان کی علمی و ادبی اہمیت پر ایک گوشہ شامل ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر غلام غوث قادری نے بھی اپنے پی ایچ ڈی مقالہ ‘‘امام احمدرضا کی انشاپردازی’’ میں کنزالایمان کی علمی و ادبی اہمیت کا تذکرہ کیاہے۔ڈاکٹر صابر سنبھلی نےکنزالایمان کی زبان و بیان میں انفرادیت اور لسانی خوبیوں پر تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ جو سہ ماہی افکار رضا میں قسط وار شائع ہوچکا ہے۔

دنیائے اہل سنت ممنونے ہے علامہ محمدعبدالمبین نعمانی قادری کی کہ انھوں نے بڑی عرق ریزی اور شب وروز کی محنت سے کنزالایمان کی تصحیح کاکام انجام دیا ۔ ان کے اس تصحیح شدہ نسخے کی اشاعت رضااکیڈمی، مالے گاؤں نے کی اور اس کے بعد اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ لہٰذا تمام ناشرین کو چاہیے کہ وہ اس جدیدتصحیح شدہ ایڈیشن کو ہی شائع کریں۔

کنزالایمان حقائق ومعارف کا امنڈتاہواسمندر ہے۔ برصغیر ہندوپاک کے بے شمار ارباب علم و دانش نے کنزالایمان کی انفرادیت، جامعیت، ادبیت، معنویت، زبان وبیان کی چاشنی اور سلاست و روانی اور متعدد خوبیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جو تاثرات رقم فرمائے ہیں وہ ہدیۂ قارئین ہیں:

محدث اعظم ہند

‘‘علم قرآن کا اندازہ اگر صرف اعلیٰ حضرت کے اس ترجمے سے کیجیے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی کوئی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے نہ فارسی میں ہے اور نہ اردو میں اور جس کاایک ایک لفظ اپنے مقام پرایساہے کہ دوسرالفظ اس جگہ پرلایانہیں جاسکتا۔ جو بظاہر محض ترجمہ ہے مگردرحقیقت وہ قرآن کی تصحیح تفسیراور اردو زبان میں قرآن ہے۔ اس ترجمہ کی شرح حضرت صدرالافاضل استاذ العلماء مولاناشاہ نعیم الدین صاحب علیہ الرحمہ نے حاشیہ پر لکھی ہے ۔ وہ فرماتے تھے کہ دوران شرح میں کئی بار ایسا ہوا کہ اعلیٰ حضرت کے استعمال کردہ لفظ اٹل ہی نکلا۔ اعلیٰ حضرت خود شیخ سعدی کے فارسی ترجمہ کو سراہاکرتے تھے لیکن اگر حضرت سعدی اردوزبان کے اس ترجمے کو پاتےتو فرماہی دیتے کہ ترجمہ قرآن شے دیگراست وعلم قرآن شے دیگر است’’۔

(المیزان، امام احمدرضا نمبر، ممبئی ۱۹۷۶؁ءص۲۴۵)

محبوب ملّت محمد محبوب علی خاں

‘‘یہ ترجمہ(کنزالایمان) اس نائب رسول، عالم دین، مفتی شرع متین، ماہر شریعت، واقف طریقت، مجدداعظم دین وملت کا ہے جس کو مکہ معظمہ و مدینہ منورہ کے اکابر علمائے کرام و مفتیان عظام نے اپنامقتدا و پیشوامانا۔ جس کو اس صدی کا مجدد تسلیم کیا۔ جس سے حدیث شریف کی سندیں لیں۔ اور ان سندوں پر فخرومباہات فرمایا۔اورجن سے شرف بیعت حاصل کیا۔ وہ ہیں حضور پرنور مرشد برحق سیدنااعلیٰ حضرت تاج داراہل سنت مجدداعظم دین و ملت شیخ الاسلام والمسلمین، تاج الفحول الکاملین، راس العلماالراسخین مولانامولوی حافظ و قاری الحاج مفتی شاہ علامہ عبدالمصطفیٰ محمداحمد رضاخاں قادری، جن کا مبارک ترجمہ حق و صحیح ہے اور جس ترجمہ کا تاریخی نام ہے۔‘‘کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن’’ یہی ایک ترجمہ ہے جو ایمان کو منور فرمانے والااور دلوں کوچمکانے والاہے’’۔

(دیوبندی ترجموں کا آپریشن، ص۹۹مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی)

مولاناسیّد شاہ محمد قائم رضوی چشتی۔۔۔سجّادہ نشین آستانہ چشتیہ نظامیہ، داناپور، بھار

‘‘قرآن عظیم کاترجمہ اکثر زبانوں میں ہوا ہے اور ہوتاہی رہتا ہے۔ ایک ترجمہ نائب رسولِ اعظم امام احمدرضاقدس سرہ کا بھی ہے۔ترجمہ کرنا خودایک مستقل فن اور بڑاہی نازک فن ہے۔ایک ایک لفظ کا صحیح معنی و مفہوم، محل استعمال و سیاق وسباق، شان نزول، مطلب وروئے سخن، ہمہ گیری کا پوری احتیاط کے ساتھ سمجھنااور سمجھانامنزل ادق و دشوار ہے۔ اور تراجم سے اس ترجمہ کا مقابلہ کرنے سے صاف ظاہر ہےکہ حضرت نے جس عالمانہ و محققانہ انداز میں پوری جزرسی وانسانی نفسیات کی کامل آگاہی کے ساتھ فن ترجمہ کی صبر آزمامنزل کو طےکیا ہے، وہ کچھ آپ ہی کا حصہ ہے۔ اب تو بیرونی یونی ورسٹیاں بھی اس طرف متوجہ ہو رہی ہیں۔ اس ترجمہ میں جو احتیاط کی گئی قابل قدر ہے’’۔

(المیزان،امام احمدرضانمبر،ممبئی ۱۹۷۶ء،ص۳۵۵)

مولاناعبدالحکیم اخترشاہجحاں پوری

‘‘مسلمانو!اے شمع رسالت کے پروانو!اگرخدانصیب کرے تو قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے صرف اور صرف کنزالایمان ترجمۂ قرآن ہی پڑھنا۔قرآن کریم کا اردو میں یہی سب سے صحیح ترجمہ ہے۔ اردو کے باقی جتنے ترجمے ہیں ان میں سے اکثر ترجمے بے دینوں نے کیےہیں اور انہوں نے بعض آیات کا ترجمہ منشائے ربانی کے خلاف کرکےمقدس شجر اسلام میں غیر اسلامی عقائدونظریات کی قلمیں لگائی ہوئی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ آپ یا آپ کے گھر والے ان ترجموں کو پڑھ کر اپنی دولت ایمان کو ضائع کربیٹھیں۔ ایمان کی حفاظت کے لیے بے ادبی وبےحرمتی سے مبرا‘‘کنزالایمان’’ کو پڑھنااشد ضروری ہے۔ کیونکہ یہ ترجمۂ قرآن تفاسیر معتبرہ کے عین مطابق ہے’’۔(سالنامہ معارف رضا، کراچی۲۰۰۳ء،ص۱۳۸)

مولاناعطامحمدبندیالوی، پاکستان

‘‘حضرت بریلوی قدس سرہ نے ایک ہزار کے لگ بھگ تصانیف ارقام فرمائیں اور جس مسئلے پر قلم اٹھایاالم نشرح کرکے چھوڑا۔ ان تمام تصانیف کا سرتاج اردو ترجمۂ قرآن پاک ہے، جس کی نظیر نہیں ہے۔ اور اس ترجمہ کا مرتبہ اسی کو معلوم ہوتاہے، جس کی اعلیٰ درجے کی تفاسیرپر نظر ہے۔ اس ترجمۂ مبارک میں مفسرین کا اتباع کیا گیا ہے۔ اور جن مشکلات اور ان کے حل مفسرین نے صفحات میں جاکر بمشکل بیان فرمائے ہیں اس محسنِ اہل سنت نے اس ترجمہ کے چند الفاظ میں کھول کر رکھ دیا ہے’’۔

(حیات مولانااحمدرضاخاں بریلوی از پروفیسر مسعود احمد، مطبوعہ ممبئی،ص۲۲،۲۱)

علامہ ارشدالقادری

‘‘عربی زبان پھیلے ہوئے معانی کو اپنے اندر سمیٹنے کی جو صلاحیت رکھتی ہے اردو زبان بہت حد تک اس سے محروم ہے لیکن اس زبان اور تعبیر پرامام احمدرضابریلوی کی غیر معمولی قدرت ہی کہاجائےگاکہ اردو کی تنگ دامنی کے باوجود انہوں نےاپنے اردو ترجمے میں اختصار اور جامعیت کی نادر مثال قائم کی ہے۔اختصار کاحال تو آپ حروف کو گن کر معلوم کرلیں گے لیکن جامعیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پورے کنزالایمان میں آیت کا مفہوم واضح کرنے کےلیے انہیں عبارت میں ہلالین کا پیوند جوڑنے کی کہیں ضرورت پیش نہیں آئی۔ کیونکہ ترجمہ ہی اتنا جامع اور صاف ہے کہ وہ وضاحت کے لیے بہت کافی ہے’’۔

(تجلیات رضا،کنزالایمان کا مطالعہ تین رخ سے،ص۵۳مطبوعہ دارالکتب دہلی)

مولانا عبدالحکیم شرف قادری جامعہ نظامیہ، لاہور، پاکستان

‘‘قرآن کو سمجھنےکے لیے صرف عربی زبان، صرف ونحو، علم معانی، بیان، بدیع وغیرہ علوم میں مہارت کافی نہیں، تفسیر و حدیث، عقائد و کلام اور تاریخ و سیرت کا وسیع مطالعہ ہی کافی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ اور صاحب قرآنﷺ سے صحیح ایمانی و روحانی تعلق بھی ضروری ہے۔ اور ترجمہ نگاروں میں امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز ممتاز ترین مقام پر فائز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پچاس سے زیادہ علوم میں حیرت انگیز مہارت عطافرمائی تھی۔ وہ عارف باللہ بھی تھے اور صبغۃ اللہسے مزین بھی۔ساتھ ہی آپ علیہ الرحمتہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب اکرمﷺ کی محبت میں فدا تھے۔سرکاردوعالمﷺ کے توسط سے ان کے دل پر فیوض الہیہ کی بارش ہوتی تھی۔ اسی لیے انھوں نے قرآن پا ک کا بے مثل اردو ترجمہ ‘‘کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن’’ کے نام سے کیا۔مخالفین کی سازشوں کی بنا پر بعض ممالک میں اس پر پابندی عائد کی گئی لیکن بحمداللہ اس کی خدادادمقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کی مانگ سب تراجم سے زیادہ ہے’’۔

(کنزالایمان کی عرب دنیامیں پذیرائی ص۹؎،۱۰؎ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی)

علامہ اختر رضاخاں ازھری۔۔۔جانشین حضور مفتی اعظم ہند

‘‘معترض بہادریہ سنتے چلیں کہ امام احمد رضا کا وہ ترجمہ جسے انہوں نے اردو کے ترجموں کی بنا پر غلط بتایاتھاوہ علما کے نزدیک نہ صرف صحیح ہے بلکہ ایسا مشہور ہے کہ محتاج بیان نہیں۔ تو وہ جو ہم نے کہاتھا کہ ہر غیر مشہور غلط نہیں ہوتا محض تنزل تھا اور اردو کے ترجموں کی ہی حد تک تھا نیز ان ارشادات کے پیش نظر ترجمۂ رضویہ کو دیگر تراجم پر فوقیت ظاہر جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے تو اس کے مقابل دیگر تراجم کو لاناجہل ہے۔

(دفاع کنزالایمان،مطبوعہ ادارسنی دنیا، بریلی شریف،ص۵۷)

علامہ سید محمدمدنی کچھوچھوی۔۔۔جانشین حضور محدث اعظم ہند

‘‘ان تمام مباحث کو بغور دیکھ لینے کے بعد امام احمد رضا کے ترجمے کی اہمیت کا اندازہ لگتا ہے کہ اس قدر طویل بحث وتمحیص کے بعد جو حقیقت سامنے آئی اس کو امام احمد رضا نے اپنے ترجموں کے مختصر سے فقروں میں سمودیا ہے اور اس احتیاط سے یہ کام انجام دیا کہ نہ کسی اسلامی عقیدے پر آنچ آئی، نہ بارگاہ رسالت کے آداب میں کوئی فرق ہوا،نہ محاورے کی پیشانی پر کوئی شکن پڑی، نہ اصحاب تاویل کی روش پر ارشاد ربانی کے مقصود کا دامن ہاتھ سے چھوٹا، نہ اصولی اور لغوی حقائق سے روگردانی کی اورنہ ہی اولیائے کاملین اور اسلاف متقدمین کے راستےسے ہٹے۔بے شک ایں سعادت بزور بازونیست تانہ بخشدخدائے بخشندہ’’۔

(المیزان، امام احمدرضانمبر، ممبئی ۱۹۷۶ء،ص۹۸)

پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کراچی

‘‘وہ ایک باخبر،ہوش مند اور باادب مترجم تھے۔ ان کے ترجمے کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے آنکھیں بند کرکے ترجمہ نہیں کیا بلکہ وہ جب کسی آیت کا ترجمہ کرتے تھے تو پوراقرآن،مضامین قرآن اور متعلقات قرآن ان کے سامنے ہوتے تھے، آپ کے ترجمۂ قرآن میں برسوں کی فکری کاوشیں پنہاں ہیں۔ مولیٰ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندے کو ایسی نظر عطافرمادے جس کےسامنے علم ودانش کی وسعتیں سمٹ کر ایک نقطہ پر آجائیں۔ فی البدیہہ ترجمہ قرآن میں ایسی جامعیت کا پیداہوجانا عجائبات عالم میں سے ایک عجوب ہے’’۔

(‘‘چشم و چراغ خاندان برکاتیہ’’مشمولہ سالنامہ معارف رضا ،کراچی ۲۰۰۴ء،ص۸۷)

مولانایٰسین اختر مصباحی۔۔۔دارالقلم دہلی

‘‘کنزالایمان عظمت توحیدکا محافظ ہے اور احترام انبیاو صالحین کا داعی بھی۔ کنزالایمان نے الفاظ قرآن کے پیکرکو سامنے رکھتےہوئے روح قرآن کو بڑی حد تک اپنے اندر جذب کرلیا ہے۔کنزالایمان میں صحبت مفہوم و معنی بھی ہے اور حسن ترجمہ بھی۔کمال و جامعیت اس کا طرۂ امتیاز اور اختصار و سلاست اس کا خوبصورت زیور۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ کنزالایمان اردوزبان کے اندر صحیح معنوں میں موضح قرآن بھی ہے اور ترجمان قرآن بھی، تفہیم قرآن بھی ہے اور تذکیر قرآن بھی، تدبر قرآن بھی ہے اور بیان قرآن بھی، ضیاء قرآن بھی ہے اور انوار قرآن بھی، روح قرآن بھی ہے اور فیضان قرآن بھی، معارف قرآن بھی ہے اور محاسن قرآن بھی، نظم قرآن بھی ہے اور جمال قرآن بھی۔

اوراس کابےمثال و باکمال مترجم ان عالمانہ صفات، مفسرانہ خصائص اور مومنانہ اوصاف و کمالات کا جامع ہے۔ جس کے بارے میں بڑے اعزاز وافتخار کے ساتھ یہ کہاجاسکتاہے کہ ؎

سالہادر کعبہ و بت خانہ می نالد حیات

تازبزم عشق دانائے راز آید بروں

مفتی محمد مطیع الرحمان رضوی

‘‘امام احمد رضا نے صدرالشریعہ مولاناامجد علی کی درخواست اور مسلسل اصرار پر ۱۳۳۰ھ مطابق۱۹۱۱ء کو قرآن کریم کااردوزبان میں فی البدیہہ ترجمہ کرایا۔ مگر دوسرے مترجمین کی طرح لغت دیکھ کر لفظ کے نیچے لفظ نہیں رکھا۔ جس سے تقدیس باری پر حرف آئے یا شان رسالت کا خون ہو بلکہ کلام الٰہی کے تمام ممکنہ مقتضیات کا لحاظ رکھتے ہوئے نہایت ہی پاکیزہ اور مقدس لفظوں میں صاف، سلیس اور شستہ ترجمہ کیا ہے’’۔

(امام احمد رضا حقائق کے اجالے میں، مطبوعہ الجمع المصباحی مبارک پور، ص۱۱)

مولانامحمدعبدالمبین نعمانی۔۔۔دارالعلوم قادریہ چریا کوٹ مئو یوپی

‘‘قرآن پاک کے تراجم تو بہت سے منظرعام پر آئے اور آرہے ہیں مگر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے عشق وایمان میں ڈوب کر جو ترجمہ قرآن کنزالایمان اپنے خلیفہ و تلمذ صدر الشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کے ہاتھوں قلم بندکرایاہے، وہ علوم و معارف اور عشق ومحبت کا گنجینہ ہے۔ اس کی سطر سطر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے علمی مقام و مرتبے کی سچی تصویر ہے۔ اس ترجمے کو دیکھنےکےبعددیگر تراجم پھیکے نظرآتے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ ترجمہ ایک طرف اردو زبان و ادب کا شاہکار ہے تو دوسری طرف قرآن حکیم کی صحیح ترجمانی کا منہ بولتا ثبوت بھی اور ایجازبیانی میں بھی یہ ترجمہ قرآن اپنی مثال آپ ہے۔ یہ بات بھی توجہ کے لائق ہے کہ آج پوری دنیا میں کوئی ترجمۂ قرآن کثرت اشاعت میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔طویل تفسیر ی مباحث کو چند لفظوں میں سمیٹ کر بیان کرنا بڑے کمال کی بات ہے اوریہ کمال اہل علم کو کنزالایمان میں جگہ جگہ بکھراملےگا’’۔ (امام احمدرضا اور ان کی تعلیمات، نوری مشن مالے گاؤں،ص۳)

مفتی ڈاکٹرمحمد مکرم احمد شاھی امام مسجد فتح پوری، دھلی

‘‘یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فاضل بریلوی علمی اور ادبی صلاحیتوں میں معاصرین اور متأخرین میں بہت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ ان کے پایہ کا عالم نہ ان کے دور میں تھا نہ آج ہے۔ قرآن کریم کا محتاط اور جامع ترجمہ وہی عالم کرسکتا ہے جس عربی، فارسی اور اردوزبانوں میں مہارت ہو، جو محاورات اور ادبی فصاحت و بلاغت سے خوب واقف ہو۔ جو سیرت پاک مصطفیٰﷺ سے باخبر ہو۔ جس کو علوم قرآنیہ کے ساتھ ساتھ فن حدیث پر بھی مکمل دسترس ہو ۔جو آیت کریمہ کے شان نزول اور اس وقت کے کوائف وحالات سے باخبر ہو۔ جس کے پاس عشق مصطفیٰ کا خزانہ ہو۔ جو مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ بین الخوف و الرجا لکھنے کا عادی ہو۔ جب ہم فاضل بریلوی کی حیات اور علمی مقام ومرتبہ کا جائزہ لیتے ہیں تو صرف وہ ہی مجمع الکمالات کے پیکر میں سامنےآتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ‘‘کنزالایمان’’ دنیا بھر میں مقبول ہے۔ نہ صرف عوام و خواص بلکہ ہر طبقۂ فکرکے علمااس سے استفادہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں’’۔ (سہ ماہی افکا رضا ممبئی، جولائی تادسمبر۲۰۰۰ء،ص۱۱)

سیّد وجاھت رسول قادری۔۔۔صدر ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی

‘‘کنزالایمان، احادیث مبارکہ، صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین اور اسلاف کرام کی تفاسیر کا نچوڑ ہے اور یہ کہ اس میں کوئی خلاف شرع یا خلاف اسلام موادنہیں ہے۔ یہاں ہم امام احمد رضاسے علمی اور مسلکی اختلافات رکھنےوالے علمااور اسکالرز سے بھی درخواست گزار ہیں کہ آپ علم و تحقیق کے میدان میں ذاتی بغض و عناد، گروہی حسد اور مسلکی تعصب کی عینک اتار کر ‘‘نگاہ عشق و مستی’’ کی ٹھنڈی روشنی میں‘‘کنزالایمان’’ کا مطالعہ کریں ان شاءاللہ آپ کو یہاں ‘‘ایمان’’کا بیش بہا خزانہ اورعشق مصطفویﷺ کی ‘‘دولت بیدار’’ ملے گی۔ امام احمد رضا محدث بریلوی کو ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر علم کی کسوٹی پر پرکھیں۔ ان شاء اللہ ان کوکھراپائیں گے اور فکری اتحاد و یگانگت کی راہ پیدا ہوگی۔ جس کی آج ہمیں شدید ضرورت ہے۔‘‘دانش نورانی’’ کی روشنی میں ان کی شخصیت و تصانیف کا مطالعہ کریں ان شاء اللہ اندھیروں سے اجالوں میں آجائیں گے۔ اس لیے کہ نور بصیرت سے مزین مطالعہ اندھیروں سے اجالے کی طرف رہنمائی کرتا ہے’’۔

(سہ ماہی افکار رضا، ممبئی جولائی تا دسمبر۲۰۰۰ء،ص۱۴)

ڈاکٹرمجید اللہ قادری

‘‘امام احمدرضا بریلوی کے ترجمہ قرآن کا ایک امتیازی پہلو دیگرمعروف اردو قرآنی مترجمین کے مقابلے میں یہ ہے کہ جو جامعیت، معنویت اور مقصدیت قرآن کے کلمات میں پوشیدہ ہے اس کی مکمل جھلک امام موصوف کے ترجمے میں نمایاں ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ مترجم کے ذہن میں وہ تمام تفاسیر، لغوی معنی، اس کے متعلق احادیث مبارکہ اور اقوال صحابہ موجود ہوں۔ اورساتھ ہی ساتھ قوت حافظہ بھی اتنا قوی ہو کہ وہ کمپیوٹر کی طرح کام کرے، جس طرح کمپیوٹر کا بٹن دبا کر مطلوبہ معلومات(Information) یکجا طور پر ایک ہی نظرمیں اسکرین پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح مترجم کا ذہن بھی اتنا قوی اور فعال ہو کہ فوراً ان تمام کلمات کے مقامات کو یکجا کرکے اور ان کی جامعیت، معنویت اور مقصدیت کے پیش نظر ایسے الفاظ کا انتخاب کرے کہ ترجمہ میں کسی قسم کی تشنگی باقی نہ رہے اور نہ عبارت میں کوئی جھول۔ حقیقت میں بلاامتیاز اگرامام احمد رضا کے ترجمہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوگاکہ یہ ترجمہ تفاسیراور لغات کی مستندکتب کی عکاسی کرتا ہے’’۔

(کنزالایمان اور معروف قرانی تراجم، ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی، ص۵۳۲،۵۳۱)

ڈاکٹر صابر سنبھلی۔۔۔صدر شعبۂ اردوایم۔ایچ(پی جی) کالج مرادآباد

‘‘یہ ترجمۂ قرآن امام احمدرضا علیہ الرحمہ کا مسلمانوں کے لیے عمدہ تحفہ ہے۔ عام طور سے یہ بات بھی لوگوں کو معلوم نہیں کہ اس ترجمے کے لیے کوئی خاص اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ جو لوگ امام احمدرضا کی تصنیفی اور خاص کر فتاویٰ نویسی کی مصروفیات سے واقف ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے پاس وقت کی کتنی کمی تھی۔ ان کے عزیز شاگرد و صدرالشریعہ مولانا امجدعلی اعظمی مصنف بہار شریعت چاہتے تھے کہ اگر امام احد رضا قرآن کریم کا اردو ترجمہ کردیں تو وہ ان کے علم و فضل اور عشق رسولﷺ کی وجہ سے ایک لاثانی ترجمہ بن جائے گا۔ انہوں نے اس کے لیے کئی بار فاضل بریلوی سے عرض کیا لیکن باوجود وعدوں کے اس کے لیے وقت نہیں نکل سکا۔آخریہ طے پایا کہ صدرالشریعہ دوپہر کو قیلولہ کے وقت یا رات کو سوتے وقت فاضل بریلوی کے پاس پہنچ جایا کریں اور ایسا ہی ہوا۔ ترجمہ کا طریقہ یہ رہا کہ صدر الشریعہ آیات قرآن پڑھتےجاتےاور آپ علیہ الرحمتہ ان کا ترجمہ املاکراتے جاتے۔ مترجم کے پاس نہ تفاسیر قرآن دیکھنے کی فرصت تھی، نہ ترجمہ کی زبان پر نظر ثانی کرنے کا وقت، چاہیے تھا کہ ایسی رواداری(بلکہ بھاگ دوڑ) میں کیا گیا ترجمہ معمولی ترجمہ ہوتا، لیکن یہ مترجم علیہ الرحمہ پر اللہ رب العزت کا کرم خاص تھا کہ یہ ترجمہ اردوتراجم میں شاہ کار ہوگیا۔ یہ کام۱۳۳۰؁ ھ مطابق ۱۹۱۲ء؁ء میں مکمل ہوا’’۔

(سہ ماہی افکار رضا،ممبئی جولائی تا دسمبر۲۰۰۰،ص۱۶)

سید صابر حسین شاہ بخاری

‘‘یوں تو قرآن کریم کے کئی تراجم ہیں لیکن اعلیٰ حضرت بریلوی علیہ الرحمتہ کے ترجمہ ‘‘کنزالایمان’’ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کی اشاعت کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔اسے کئی زبانوں میں بھی منتقل کردیا گیاہے۔اس کے محاسن پر درجنوں مقالات منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس کی مقبولیت کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ عشق مصطفیٰﷺ میں ڈوب کر لکھاگیاہے’’۔(سہ ماہ افکار رضاممبئی، جولائی تاستمبر۱۹۹۹ء،ص۴۲)

مولانارضا المصطفیٰ اعظمی۔۔۔مھتمم المجدد احمد رضا اکیڈمی کراچی

‘‘یوں تو آپ کے علمی کارناموں کی تفصیل بڑی طویل ہے لیکن ان میں سب سے بڑا علمی کارنامہ ترجمۂ قرآن مجید ہے۔ ترجمہ کیا ہے قرآن حکیم کی اردو میں ترجمانی ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائےکہ آپ کایہ ترجمہ الہامی ترجمہ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

اعلیٰ حضرت نے جملہ مستندومروج تفاسیر کی روشنی میں قرآن حکیم کی ترجمانی فرمائی ہے۔ جس آیت کی وضاحت مفسرین کرام کئی کئی صفحات میں فرمائیں۔ مگر اعلیٰ حضرت کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی عنایت فرمائی کہ وہی مفہوم ترجمہ کے ایک جملہ یا ایک لفظ میں ادافرمایا۔ قلیل جملہ کثیر مطالب اسی کو کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حضرت کے ترجنے سے ہر پڑھنے والے کی نگاہ میں قرآن کریم کا احترام، انبیاعلیھم السلام کی عظمت اور انسانیت کا وقار بلند ہوتا ہے’’۔

(قرآن شریف کے غلط ترجموں کی نشاندہی، ص۴ مطبوعہ رضوی کتاب گھر بھیونڈی)

ڈاکٹرمحمد ھارون۔۔۔سابق استاذ آکسفورڈ یونی ورسٹی برطانیہ

‘‘امام احمد رضا نے رسول اکرمﷺ پر کسی بھی طرح کی تنقید کرنے یا ان کی عظمت و کمال میں کوئی بھی شک پیداکرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ انہوں نے پیغمبراسلامﷺ کے مرتبہ وکمال کو گھٹانے والے وہابی تراجم قرآن کے مقابلے میں اردو زبان قرآن حکیم کا بہت ہی خوبصورت ترجمہ پیش کیا۔(پیغام رضا کا خصوصی شمارہ مارچ۲۰۰۷ء،ص۶۲)


متعلقہ

تجویزوآراء