کتاب ’’محاسن کنزالایمان’’کاایک تجزیاتی مطالعہ
کتاب ’’محاسن کنزالایمان’’کاایک تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر سراج احمد قادری،ایم اے،پی ایچ ڈی
۱۹۸۶ء میں حکیم محمد موسیٰ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ نے پاکستان کے مشہور قدیمی شہر لاہور میں امام اہل سُنّت الشاہ امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے عقائد ونظریات پر مبنی ایک دینی تنظیم’’مرکزی مجلس رضا’’کی بنیاد رکھی تھی۔ حضرت حکیم صاحب مرحوم و مغفور نے کس خلوص دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی کہ آج تک اس کی روشنی سے دنیائے اہل سُنّت کے آنگن میں روشنی ہی روشنی اوراُجالاہی اُجالاہے۔اس تنظیم نے بہت سے لوگوں کو ایمان کی طلعت سے منور کررکھا ہے۔مرکزی مجلس رضا صرف ایک تنظیم ہی نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس نے ارباب علم و فضل کواپنی جانب سے اس کشش کے ساتھ متوجہ کیا کہ جس نےبھی اس کے لٹریچر کا مطالعہ کیا، وہ اس کا اسیر ہوکر رہ گیا۔ میرتقی میرؔ نے سچ کہاتھا؎
خوب روخوب کام کرتے ہیں |
اک نگہ میں غلام کرتے ہیں |
جو لوگ امام احمدرضا فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کے نظریا ت سے ناواقف تھے جن لوگوں تک آپ کے علم وفضل کی روشنی نہیں پہنچ سکی تھی، جن کے دلوں میں آپ کے خلاف نفرت وعداوت کی آگ جل رہی تھی وہ حکیم صاحب کی دعوت پر اس تنظیم سے وابستہ ہوئے۔ ان لوگوں نے آپ کے نظریات، افکار و خیالات کا گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کیا، پھر کیا ہوا سچائی اور حقیقت ان کی نظروں کے سامنے آنے لگی۔اُن کواپنے ماضی کی زندگی پر شرمندگی و ندامت کا احساس ہونے لگا۔انہوں نے عزم کیا کہ اب آگے امام احمد رضافاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کا ہی مطالعہ کریں گے۔انھیں کے افکارونظریات کی نمائندگی کریں گے۔ ان کے نظریات کا پرچم پوری دنیا میں لہرائیں گے۔ وہ زندگی بھر کے لیے امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کے ہوکررہ گئے۔
چنانچہ ماہ نامہ جہان رضا،لاہور کےمدیراعلیٰ حضرت علامہ اقبال فاروقی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’مرکزی مجلس رضاکی خدمات کو دیکھ کر پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب مظہری ایم اے، پی ایچ ڈی کراچی سے آگے بڑھے۔ڈاکٹرمحمدمسعود احمد صاحب ایک علمی سُنّی خانوادے سے تعلق رکھنےکی وجہ سے سُنّی دانش وروں میں شمار ہوتےتھے۔مگر فاضل بریلوی کےافکار سے انھیں لگاؤ نہ تھا۔حکیم صاحب نے انھیں استدعا کی کہ وہ مرکزی مجلس رضا کے اسٹیج پر اپنے قلم کے جوہردکھائیں۔پروفیسرڈاکٹرمحمدمسعود احمدصاحب نے لبیک کہا اور سب سے پہلی کتاب ’’فاضل بریلوی اور تحریک تک موالات’’لکھی۔۔۔۔۔۱؎
اس طرح اس تنظیم نے پوری دنیا میں ایک انقلاب بپاکردیا۔اہل دانش وفکراپنی اپنی علمی صلاحیتوں کامحاسبہ ومحاکمہ کرنے لگے۔افکارِ رضا کی نئی نئی جہتوں اورسمتوں کے سراغ میں لگ گئے۔پھر کیاتھانغماتِ رضا سے گلستاں درگلستاں گونج اُٹھے۔ ہر چہار جانب امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا غلغلہ مچ گیا۔ہزاروں کی تعداد میں آپ کے افکارو نظریات پر مبنی ادارے، تنظیمیں، تحریکیں اور اکیڈمیاں وجود میں آگئیں۔ لیکن سب سے بڑا جو انقلاب آیا وہ قلم و قرطاس کی دنیامیں آیا۔ اسی انقلاب کا پیش خیمہ کتاب ’’محاسنِ کنزالایمان’’ کو بھی قرار دیاجاسکتا ہے۔اوراس کا سہراحضرت حکیم محمد موسیٰ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ کے ہی سر سجتا ہے۔ چنانچہ علامہ اقبال احمد فاروقی صاحب حضرت حکیم صاحب مرحوم و مغفور کی خدمات اوراُن کے حسنِ کارکردگی کی پذیرائی کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’حکیم محمد موسیٰ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ مرکزی مجلس رضا کے بانی تھے۔ حکیم تھے، طبیب تھے، نبّاض تھے۔اپنے مریضوں کے لیے سرگرم دم جستجواور نرم دم گفتگوتھے۔ بادشمنان تلطف،بادوستاں مدارااُن کی عادت تھی۔طبابت اُن کا پیش تھا مگر اُن کی ساری زندگی امام اہل سنت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے عشق میں گزری۔ آپ نے انھیں کے علمی مقامات اورنظریات کی اشاعت میں زندگی کی تمام توانائیاں صرف کردیں۔ آپ کے افکار کی اشاعت کواوڑھنابچھونا بنالیا۔ہزاروں نہیں لاکھوں کتابیں چھپواکرتقسیم کیں اور ہر پڑھے لکھے شخص کے دروازے پر دستک دی اور اس کے سامنے اعلیٰ حضرت کے نظریات پر کوئی نہ کوئی کتاب رکھ دی۔اس سلسلےمیں آپ نے اٹھارہ لاکھ سے زیادہ کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ کر کےپاکستان اوربیرونِ ممالک میں تقسیم کیں۔آپ کے اس کارنامے کوعلماء مشائخ اور دنیابھر کے دانش وروں نے سراہا۔حکیم صاحب مرحوم نے اپنے آپ کو صرف فاضل بریلوی کی تعلیمات اورنظریات کی اشاعت تک محدود نہ رکھابلکہ پاکستان کے اہلِ قلم ودانش وروں کو اعلیٰ حضرت کے قریب کرایا۔انھیں فکرِ رضا پر لکھنےکے لیے تیار کیا اور اس طرح مختلف موضوعات پر کام ہونےلگے۔ملک کے مختلف شہروں میں ایسےادارے قائم کرنے والوں کی رہنمائی اورحوصلہ افزائی کی جو فاضل بریلوی کے نظریات پر کام کرنے میں دل چسپی لیتے تھے۔چنانچہ سینکڑوں اہلِ قلم وعلم خیابانِ رضویت میں گل ہائے رنگارنگ بن کر مہکنے لگے۔حکیم محمد موسیٰ امرتسری مرحوم نے بےسروسامانی کے عالم میں وہ کام کیا جو بڑے بڑے ادارے، انجمنیں اوراشاعتی کارخانے نہ کرسکےتھے۔وہ دن رات کام کرتے۔اپنی مختصر سی ٹیم کے ساتھ آگے بڑھتےگئےاوران کی ہستی دستی دستِ صبا بن کراپنے معاونین کے قافلے کے ساتھ سارے برصغیر پر چھاگئی اوردنیائے رضویت کے صفِ اوّل کے اسکالر دنیائےسُنّیت کے رہنمابن کرآگے بڑھے۔۲؎
حضور سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کے ترجمۂ قرآن پاک ’’کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن’’ کے محاسن و مناقب پر اب تک بہت ساری کتابیں، مقالات و مضامین اشاعت پذیر ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔
جناب غلام مصطفیٰ رضوی، مالے گاؤں(مہاراشٹر)نے ‘‘یادگارِ رضا’’ شمارہ ۱۴۲۶ ھ/ ۲۰۰۵ ء میں اپنے مضمون ‘‘کنزالایمان اور تحقیقی اُمور’’ میں حضور سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کے ترجمۂ قرآن کے موضوع پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اورکنزالایمان کے ابتدائی مراحل ومدارج سے لے کراب تک اس پر ہوئے کام کا ذکر بہت ہی سلیقےسے کیاہے۔ جیسے:(۱)اردو زبان کےتراجم، (۲)تقریب ترجمہ، (۳)محدث بریلوی اورفن تفسیر، (۴) کنزالایمان کی طباعت، (۵)کنزالایمان کی تصحیح، (۶)عرب میں کنزالایمان کی مقبولیت، (۷)لسانی جائزہ اور خصوصیات، (۸)کنزالایمان کے دوسری زبانوں میں تراجم، (۹)کنزالایمان پر مقالہ جات، (۱۰)تاثرات۔
محترم رضوی صاحب نے‘‘کنزالایمان’’ پرلکھےگئے ۳۶/مقالات و مضامین کی فہرست تحریر کی ہے جن کو اربابِ علم و فضل نے وقتاً فوقتاًمختلف ماہ ناموں اوررسالوں کےلیے تحریر فرمائے تھے۔ ان میں کچھ مقالات ومضامین کتابی صورت میں نشریاتی اداروں نے شائع کیے ہیں۔ ایک فہرست انہوں نے زین الدین ڈیروی کے حوالے سے شاملِ مقالہ کی ہے، جس کو ڈیروی صاحب نے ۱۹۹۶ء میں مرتب کیاتھا، جسے ملاکر کنزالایمان سے متعلق کُل کتابو، مقالات و مضامین کی تعداد۸۰/تک پہنچتی ہے۔
‘‘محاسنِ کنزالایمان’’ مؤلف ملک شیرمحمدخان اعوان آف کالا باغ بھی انھیں کتابوں میں سے ایک ہے، جسے حکیم محمدموسیٰ امرتسری رحمتہ اللہ علیہ نے پہلی بار ذی قعدہ۱۳۹۴ ھ مطابق ۱۹۷۳ء میں مرکزی مجلسِ رضا لاہور کے زیراہتمام ایک ہزار کی تعداد میں شائع فرما کر ملک و بیرون ملک تقسیم کی۔ اس کی دوسری اشاعت ماہ ربیع الآخر۱۳۹۵ ھ مطابق ۱۹۷۴ء میں دو ہزار کی تعداد میں مرکزی مجلسِ رضالاہور کےزیر اہتمام ہوئی۔ اس طرح ۱۴۰۰ ھ مطابق ۱۹۷۹ء تک مسلسل اس کی اشاعت میں اضافہ ہوتارہا۔
مؤلف نے اپنی اس کاوش کو خلیفۂ اعلیٰ حضرت شیخ المشائخ حضرت علامہ ضیاء الدین مہاجر مدنی علیہ الرحمتہ کے نام معنون کیاہے۔ اس کتاب پر حضرت علامہ غلام رسول سعیدی صاحب مدرس جامعہ نعیمیہ لاہور نے‘‘پیش لفظ’’ تحریر کیاہے۔ علامہ سعیدی صاحب کے تعارف کے لیے صرف اتناہی کہہ دینا کافی ہوگا کہ محاسنِ کنزالایمان کے طبع ہوکر منظر عام پر آنے کے بعد ماہ نامہ ‘‘فاران’’ کے ایڈیٹر ماہر القادری صاحب نے شمارہ مارچ ۱۹۷۶ء میں ملک شیر محمد اعوان صاحب کی مذکورہ کتاب پر تبصرہ شائع کیاتھا۔ تبصرہ کیا تھا اپنے عقائد وایمان کی روشنی میں دل کی بھڑاس تھی۔ مولانا غلام رسول سعیدی صاحب نے مذکورہ تبصرے سے متاثر ہو کر حقیقت کو عیاں کرنے کے لیے ‘‘ضیائےکنزالایمان’’ کے نام سے ۷۲/صفحات پر مشتمل ایک کتاب تحریر فرما ڈالی۔ اس کتاب کے پانچ ایڈیشن سات ہزار کی تعداد میں طبع ہوکر ملک و بیرون ملک تقسیم ہوچکے ہیں۔
علامہ غلام رسول سعیدی صاحب اس کتاب کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:
‘‘اغیار نے تاریخ مسخ کرکے جس طرح حقائق کو پامال کیا ہے اس کے سبب اسکول اور کالج کے طلبہ میں اعلیٰ حضرت اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کے بارے میں مختلف قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہورہی تھیں۔ اس کے دفاع کے لیے ایسے پاکیزہ، شستہ اور دیدہ زیب لٹریچر کی ضرورت تھی، یہ کتاب کی حقیقت یاسچائی کی آئینہ دار ہے’’۔
چنانچہ محمد حنیف ازہر صاحب اس کتاب کے تعارف کے حوالے سے فرماتے ہیں:
‘‘جیسا کہ نام ہی سے واضح ہے کہ یہ کتاب اعلیٰ حضرت کے ترجمۂ قرآن ‘‘کنزالایمان’’ کے علمی و ادبی، لغوی اور اعتقادی محاسن کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب اپنی مقبولیت کے لحاظ سےمجلسِ رضا کی کتابوں میں انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔ سات ایڈیشنوں میں ۱۳/ہزار کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے’’۔۔۔۔۔۳؎
محاسنِ کنزالایمان درج ذیل موضوعات پر مشتمل ہے: (۱)انتساب، (۲)پیش لفظ، (۳)ابتدائیہ، (۴)سخن ہائےگفتنی، (۵)تعارفِ صاحبِ کنزالایمان، (۶)کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن کے محاسن، (۷)کنزالایمان کے ادبی کمالات۔
اس وقت میرے پیش نظر ‘‘محاسن کنزالایمان’’ کا جونسخہ ہے وہ بار ہشتم محرم الحرام۱۴۰۰ ھ میں مرکزی مجلسِ رضالاہور کے زیراہتمام دوہزار کی تعداد میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ اس کی ایک اشاعت کا ذکر غلام مصطفیٰ رضوی نے اپنے مذکورہ مضمون ’’کنزالایمان اور تحقیقی اُمور’’ میں رضا اکیڈمی ممبئی کے حوالے سے بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور ادارے نے اس کی اشاعت کی ہے یانہیں اس کا علم مجھے نہیں ہوسکا۔ مگر یقینِ کامل ہے کہ دوسرے نشریاتی اداروں نے بھی ضرور طبع کیا ہوگا۔
اس کے بعد سخن ہائے گفتنی ہے۔اس عنوان کے تحت انہوں نے ترجمے کے متعلق بحث کی ہے۔چناچہ آیت کریمہ اَفَلَا یَتَدَ بَّرُونَ القُرآن اَم عَلٰی قُلُوبٍ اَقفَالَھَا۔تو کیا وہ قرآن کو سوچتے نہیں یا بعض دلوں پر ان کے قفل لگے ہیں۔
اس مضمون کی بےشمار آیات ہیں جوقرآن میں تدبّر وتفکّر کی دعوت دیتی ہے۔ اس لیے ہر ایک مسلمان کا فرضِ اوّلین ہے کہ قرآن کریم کو خود پڑھے، اوروں کو پڑھائے، خود سمجھے دوسروں کو سمجھائے، خود عمل کرے دوسروں کوعمل کرانے کی جدوجہد کرے۔ قرآن حکیم چونکہ عربی مبین میں ہے اور ہر آدمی عربی کا فاضل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ ناگزیرہے۔ اور پھرترجمے کی مشکلات کااندازہ حسب ذیل واقعہ سے کیاجاسکتاہے۔ جناب مُلّا واحدی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘سلطنتِ حیدرآباد دکن کے آخری سلطان نظام الملک ہفتم میر عثمان علی خان کے پاس ایک صاحب تھے، جنھیں آج سے چالیس پچاس سال پہلے دوہزارروپےماہ وار تنخواہ ملتی تھی۔ اُن کا کام فقط یہ تھا کہ جسے میر عثمان علی خان زبانی پیغام بھیجنا چاہیں اسے وہ اس طرح پہنچادیں جس طرح میر عثمان علی خان نے پیغام دیا ہے۔ پیغام سُناتے وقت پیغام پہنچانے والے صاحب پر ان کیفیات کا طاری ہونا ضروری تھاجو پیغام بھیجتےوقت میر عثمان علی خان پر طاری ہوتی تھی۔ میر عثمان علی خان خوش ہوکر کوئی بات کہتےتووہ بھی خوش ہوکر اسے نقل کرتے۔ میر عثمان علی خان بگڑ کر،تیوری چڑھاکر بات کرتے تو وہ بھی بگڑتے اور تیوری چڑھاکر الفاظ کوبدلنا ممکن ہی نہیں تھا۔ لہجہ اور طرز کلام بھی میر عثمان علی خان کا رہتاتھا۔ مخاطب جان جاتا تھا کہ مجھ پر عنایت ہوئی ہے یاعتاب ہوا ہے’’۔۵؎
ترجمہ نگاری ایک ایسا فن ہے جس کی مشکلات کا اندازہ اس کے ہر راہ رو کو ہے۔ مَیں خود اس مرحلے سے گزرچکا ہوں۔ جس وقت مَیں ‘‘عمدۃ الاسلام’’ کا فارسی سے اردو میں ترجمہ کررہا تھا تو بعض مقامات پر قلم ٹھہر گیا اور پھر لغات کی ورق گردانی شروع ہو گئی۔ معانی و مفاہیم کی تلاش کا سلسلہ کئی کئی دنوں تک جاری رہا۔ لُغات میں معانی ومفاہیم تو ملے مگر مصنف کی منشا اور اندازِ بیان کے مطابق نہیں۔آخرکار یہ کہہ کر سپر ڈال دینا پڑی کہ تخلیق اور ترجمے میں یہی فرق ہے۔
(۱)چنانچہ ڈاکٹر خالد ندیم صاحب تحریرفرماتے ہیں کہ:
علمی و ادبی اعتبار سے ترجمہ کسی زبان پر کیے گئے ایسے عمل کا نام ہے جس میں کی ایک زبان کے متن کی جگہ دوسری زبان کا متبادل متن پیش کیاجائے۔
(۲)تاہم مظفر علی سید کا کہنا ہے کہ عربی تعریف کے مطابق ترجمہ ‘‘نقلِ کلام’’ ہے جو نقل مطالب یا نقل معانی ہیں۔نقلِ کلام کا تقاضا یہی کہ کلام جس زبان میں نقل ہوجائے اس میں تقریباً ویساہی اثر پیدا ہو، جیسا اصل زبان میں تھا۔
(۳)یعنی ترجمہ متبادل متن ہی کا مطالبہ نہیں کرتا۔متبادل تاثروکیفیت کا بھی متقاضی ہے۔ گویا ترجمےکا عمل ایک علمی و ادبی پیکر کودوسرے پیکر میں دکھانا ہے اور وہ بھی اس احتیاط و خوبی سے کہ اس کا ڈیل ڈول،شکل و شباہت، نازوانداز اورجزئیات وخیالات پورے طور پر منتقل ہوجائیں۔
(۴)چنانچہ ڈاکٹر سید عابد حسین کے مطابق ترجمے کو ادبی قدروقیمت اس وقت حاصل ہوتی ہے، جب ایک زبان سے دوسری زبان میں مفہوم کے ساتھ آب ورنگ، وہ چاشنی، وہ مزہ بھی آجائے جو اصل عبارت میں موجود تھا۔
(۵)ترجمے کے باب میں یہ ساری خواہشات نہایت ہی مستحسن سہی لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں اور نہ ہی کوئی ترجمہ آج تک اس معیار پر پورا اُتر سکا ہے۔ اگر ایسا ہوسکتا تو ترجمے کو تخلیق کی کم تریا دوسرے درجے کی علمی و ادبی سرگرمی قرار نہ دیا جاسکا۔۶؎
قرآن پاک کی زبان کے بارے میں اللہ تعالیٰ خود ہی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّا اَنزَلنٰہُ قُرآناً عَرَبِیّاً لَعَلَّکُم تَعقِلُون۔
ترجمہ:بے شک ہم نے اسے عربی زبان اُتارا تا کہ تم سمجھو!
قرآن پاک اہلِ عرب کی زبان میں اُتارا گیااور قبائل عرب میں اس قبیلے کی زبان میں جس کی زبان خطۂ عرب یا جزیرۃ العرب میں سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھی۔ مگر اس کا پیغام پوری دنیا کے لوگوں کے لیے عام ہے۔ قرآن ارشاد فرماتاہے:
قُل یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّی رَسُو لُ اللہِ اِلَیکُم جَمِیعاً۔
ترجمہ:تم فرماؤ اے لوگو!میں تم سب کی طر اس اللہ کارسول ہوں۔
لہٰذا ایسی صورت میں اس کے پیغام کو ہر فرد بشر کی زبان میں پہنچانے کے لیے اس کے ترجمے کی ضرورت زمانۂ رسولِ اکرمﷺ ہی میں محسوس کی گئی ہوگی۔ قرآن پا ک کے ترجمے کا عمل آج کوئی نیا نہیں بلکہ زمانۂ اقدسﷺ ہی سے ہے۔چنانچہ اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر مجید اللہ قادری رقم طراز ہیں:
ابتدا میں قرآن کی کسی دوسری زبان میں ترجمے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ خود صاحبِ قرآن کے دور میں اور جب اسلام سرزمینِ عرب سے نکل کر دوسری اقوام و ممالک میں پہنچا توپھر قرآن کے مطالب کی دوسری زبان میں شدت سے ضرورت محسوس ہونے لگی اور اس وقت قرآن کا فارسی، عبرانی، چینی، ہندی زبان میں وہاں آباد اصحاب ایمان کو سمجھانے کے لیے ترجمہ کیا جاتا ہوگا۔ امام سرخسی (المتوفی۴۸۳ ھ۔۱۰۹۰ء) کی رائے کے مطابق سب سے پہلےقرآن کاترجمہ فارسی زبان میں ہوا۔ جو عجم کی مقبول زبان تھی اور یہ ترجمہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ (المتوفی۳۵ ھ/۶۵۵ء) نے صرف سورۂ فاتحہ کا کیا تھا۔ لیکن غالب گمان یہ ہے کہ قرآن پاک کا ترجمہ خود رسالت مآبﷺ کے زمانے میں جزوی طور پر یقیناً دوسری زبانوں میں ہوا ہوگا۔ خصوصاً اس وقت جب رسول اللہﷺکے تبلیغی خطوط دوسرے فرماں رواؤں کے پاس جاتے ہوں گے اور یقیناً عجم کے لوگ عربی سے نابلد ہونے کی صورت میں اس کاترجمہ و تشریح اپنی زبان میں سنتے ہوں گے۔۷؎
اس کے بعد صاحب کنزالایمان یعنی حضور سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کا تعارف پیش کیا ہے۔ اس موضوع کے تحت انہوں نے صاحب کنزالایمان کے علمی، ادبی اور سیاسی کمالات پربھرپور روشنی ڈالی ہے۔ اس عنوان کے تحت آخر میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘اعلیٰ حضرت کا ایک عظیم ترین کارنامہ اور علمی شاہ کار قرآن حکیم کا اردو ترجمہ ‘‘کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن’’ کے نام سے موسوم ہے۔ تمام اردو تراجم سامنے رکھ لیجیے اور اعلیٰ حضرت کے ترجمے کے ساتھ ان کا تقابلی مطالعہ کیجیے۔ آپ واضح ترین فرق محسوس کریں گے۔ اعلیٰ حضرت کا ترجمہ لغوی، معنوی، ادبی اور علمی کمالات کا جامع ترین مرقع ہے۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو عربیت اور قرآن فہمی کا کس قدر ملکہ حاصل تھا’’۔۸؎
تعارف صاحب کنزالایمان کے موضوع کے بعد ‘‘کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن کے محاسن’’ کا موضوع ہے کس کو اس کتاب کی روح قرار دیا جاسکتاہے۔ اس موضوع کے تحت صاحب کتاب نے خوب خوب اپنی علمی بصیرت کا مظاہرہ کیاہے اور اردو کے دیگر مترجمین قرآن کے ترجمے سے موازنہ کر کے یہ ثابت کیا ہےکہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کا ترجمۂ قرآن درحقیقت ایسا نایاب و نفیس ترجمہ ہے جس میں کسی طرح کی کوئی بے راہ روی اور کجی نہیں ہے۔ جبکہ دیگر مترجمین قرآن کے یہاں یہ بات نہیں پائی جاتی ہے۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کو یہ تفوق محض علمی استعداد کی بنا پر حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ اور اس کے رسول مقبولﷺ کی سچی و پکی محبت نے ان کو یہ شعور و آگہی عطا کردی تھی کہ جب وہ اپنے شاگرد عزیز حضرت صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمتہ کو قرآن پاک کا ترجمہ املا کرارہے تھے تو ان کی زبان حق ترجمان سے وہی الفاظ نکلتے تھے جو قرآن کے معانی و مفاہیم کے شایان شان ہوتے تھے۔ اس موضوع کے تحت انہوں نے ۳۵/منتخب آیات مقدسہ کاانتخاب کر کے دیگر اردو مترجمین کے ترجمۂ قرآن سے موازنہ کر کےکنزالایمان کے اختصاصی پہلو کو روشن ونمایاں کیا ہے۔ ملاحظہ ہو، آیت کریمہ:
یَا مَعشَرَ الجِنَّ وَ الاِ نسِ اِنِ استَطَعتُم اِن تَنفُذُ و ا مِن اَقطَارِ السَّمٰوٰ ت وَالاَرضَ فَانفُذُ وط لَا تَنفُذُ ونَ اِلَّا بِسُلطَانٍ۔
ترجمۂ مولانا اشرف علی تھانوی: اے گروہ جن اور انسان کے اگر تم کو یہ قدرت ہے کہ آسمان اورزمین کی حدود سے کہیں باہر نکل جاؤ تو ہم بھی دیکھیں نکلو مگر بدون زور کے نہیں نکل سکتے اور زور ہے نہیں۔
ترجمۂ اعلی حضرت: اے جن و انس کے گروہ اگر تم سے ہوسکے کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ جہاں نکل کر جاؤگے اسی کی سلطنت ہے۔
حضرت علامہ اعوان صاحب مذکورہ آیت کریم کے ترجمے کے موازناتی پہلو کے مدنظر تحریر فرماتے ہیں:
تھانوی صاحب کے مندرجہ بالا ترجمے سے تاثر ملتاہے کہ انسان کرّۂ ارض سے باہر نہیں نکل سکتا ہے۔ حالانکہ آج سے چند سال پہلے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ انسان کرّۂ ارض سے باہر نکل کر چاند پر جا پہنچا ہے۔اس قسم کے ترجموں سے نژادِ نو کے اذہان میں اسلام کے خلاف شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، کیونکہ انہوں نے قرآن کریم کو ترجمے کی وساطت سے سمجھا ہے اور جب سائنس کے مشاہدات و تجربات کے خلاف ان کو ترجمہ نظر آئے گاتو قرآن حکیم پر ان کا ایمان متزلزل ہوجائے گا۔ اعلیٰ حضرت نے اس آیت کاجو ترجمہ کیا ہے وہ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔ اس پڑھ کر قرآن مجید پر ایمان تازہ ہوجاتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائنس نے کائنات کے جن سربستہ رازوں سے اب پردہ اُٹھایا ہے۔ قرآن حکیم نے چودہ سو سال پہلے ان کی طرف اشارہ کردیا تھا۔ اعلیٰ حضرت کے ترجمے کا مفاد یہ ہے کہ انسان زمین کے کناروں سے تو باہر نکل سکتا ہے لیکن اللہ کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتا۔ پس انسان چاند چھوڑ کر مریخ پر بھی جا پہنچے تو اس ترجمے کی روشنی میں قرآن کا خلاف لازم نہیں آتا۔۹؎
اس کتاب کا آخری موضوع ‘‘کنزالایمان کے ادبی کمالات’’ہے۔ اس موضوع کے تحت مؤلف نے حضور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کی زبان اور اس کی شستگی سے بحث کی ہے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ حضرت فاضل بریلوی کی زبان کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی ہے۔ اردو زبان پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کہیں بھی جھول کا احساس نہیں ہوتا۔ انہوں نے حضرت خواجہ میر درد کی ایک پیش گوئی نقل کی ہے جس کو پڑھ کر حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کے لیے ہی کی تھی۔ ملاحظہ ہو۔آپ فرماتے ہیں:
‘‘اے اردو! گھبرانا نہیں تو فقیروں کا لگایا ہوا پودا ہے، خوب پھلے پھولے گی۔ ایک زمانہ ایسا آئےگا کہ قرآن و حدیث تیری آغوش میں آکر آرام کریں گے’’۔۔۔۔۔۱۰؎
آخر میں قرآن مقدس کی آیت کریمہ: وَاستَغفِر لِذَ نبِکَ۔کے حوالے سے نیاز فتح پوری کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے، جوماہ نامہ ‘‘نگار’’ کراچی ماہ جون ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۲۔۳۳ میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ کلکتہ کے سید ذکی الدین صاحب کے دل میں مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمۂ قرآن کو پڑھنےکے بعد ‘‘ذ نب’’کے متعلق شکوک پیدا ہوئے تھے۔ نیاز فتح پوری نے اپنے مذکورہ مضمون میں بڑے پتے کی بات تحریر کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
‘‘سب سے پہلے اُصولی طور پر یہ دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہﷺ کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ ‘‘ذ نب’’یا گناہ کے مرتکب ہوسکتے تھے کس حد تک درست ہوسکتاہے۔ جس وقت ہم قرآن پاک کی ان آیات پر غور کرتے ہیں، جن سے رسول اللہﷺ کےکردارواخلاق پر روشنی پڑتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ سے کسی گناہ کا سرزد ہونا بہت مستبعد تھا۔ جس کے متعلق یہ کہا گیا:
لَقَد کَانَ فِی رَسُولِ اللہِ اُسوَۃً حَسَنَۃٌ۔اوروَمَایَنطِقُ عَنِ الھَوٰی اِن ھُو اِلَّا وَحیٌ یُّوحیٰ۔ وہ کیونکر کسی گناہ کا مرتکب ہوسکتا تھا’’۔
کتاب‘‘محاسن کنزالایمان’’ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ کے ترجمۂ قرآن پاک کے حوالے سے وہ منفرد کتاب ہے جس نے اردو زبان میں کیے گئے تراجم قرآن میں کنزالایمان فی ترجمتہ القرآن کی عزت و شہرت میں چار چاند لگایا۔ ارباب علم و دانش کی توجہات کو اپنی جانب منعطف کیا۔ اس کتاب نے یہ ثابت کردکھایاکہ امام احمدرضا کا ترجمۂ قرآن اردو کے دیگر تراجم قرآن میں سب سے اعلیٰ وارفع ہے۔ اس ترجمے میں وہ ساری خوبیاں ہیں جو ایک ترجمۂ قرآن پاک میں ہونا چاہیے۔ اس طرح اس کتاب کوامام احمد رضا کے ترجمۂ قرآن کے حوالے سے تحریر کی جانے والی کتابیں، مقالات و مضامین کا نقش اول قرار دیا جا سکتا ہے۔
حوالہ جات
۱۔ ماہ نامہ جہانِ رضا لاہور، شمارہ اکتوبر نومبر ۲۰۰۰ء خصوصی نمبر حکیم محمد موسیٰ امرتسری۔مرکزی مجلسِ رضا، لاہور، صفحہ۲۵۔
۲۔ ماہ نامہ جہانِ رضا لاہور، شمار ہ اکتوبرنومبر۲۰۰۰ء خصوصی نمبر حکیم محمد موسیٰمجلسِ رضا، لاہور، صفحہ۶/۵۔
۳۔ تعارف مرکزی مجلسِ رضا، لاہور۔ محمد حنیف ازہری، مرکزی مجلسِ رضا،لاہور، صفحہ۱۳۔
۴۔ محاسنِ کنزالایمان، ملک شیر محمد خان اعوان آف کالا باغ۔مرکزی مجلسِ رضا،لاہور، صفحہ ۱۶۔
۵۔ محاسنِ کنزالایمان، ملک شیر محمد خان اعوان آف کالاباغ۔مرکزی مجلسِ رضا،لاہور،صفحہ ۶۔
۶۔ ماہ نامہ اخبار اردو، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، شمارہ فروری ۲۰۰۹ء/صفحہ۲۰۔
۷۔ کنزالایمان اور معروف تراجم قرآن۔ ڈاکٹر مجید اللہ قادری، ادارۂ تحقیقاتِ اماماحمدرضا، کراچی، صفحہ۳۵۔۳۶۔
۸۔ محاسنِ کنزالایمان، ملک شیر محمد خان اعوان آف کالا باغ۔ مرکزی مجلسِ رضا،لاہور صفحہ۲۶۔
۹۔ محاسنِ کنزالایمان، ملک شیر محمد خان اعوان آف کالا باغ۔ مرکزی مجلسِ رضا،لاہور صفحہ۶۴۔۶۵۔
۱۰۔ محاسنِ کنزالایمان، ملک شیر محمد خان اعوان آف کالا باغ۔ مرکزی مجلسِ رضا،لاہور صفحہ۵۸۔