پاکستان میں شریتِ اسلامیہ کا نفاذ

 

تحریر: علامہ مفتی سیّد شجاعت علی قادری﷫

 

الحمد للہ وکفٰی و الصلٰوۃ و السلام علی خاتم الانبیاء، اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم و من لم یحکم بما انزل اللہ فاولٰئک ھم الظالمون۔

جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف دو ہی مملکتیں اسلامی نظریہ کی اساس اور بنیاد پر وجود پذیر ہوئیں، ایک وہ جو سر زمینِ مدینہ میں قائم ہوئی اور دوسری وہ جو پاکستان کے نام سے یاد کی جاتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ دشمنانِ اسلام مدینہ طیبہ کی حکومت کے بارے میں بھی مختلف باتیں کیا کرتے تھے اور پاکستان کے بارے میں بھی کرتے رہتے ہیں کہ اس کے وجود میں آنے کی اساس اسلامی نظریہ و عقیدہ نہیں بلکہ اس کے محرکات واسباب کچھ اور ہیں۔ مثلاً یہ کہ پاکستان اس لئے بنا ہے کہ مسلمان ہندوؤں کے معاشی استحصال سے نجات حاصل کر لیں، دراصل یہ ایک مغالطہ ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو غیر ضروری الجھاؤ میں مبتلا کرنا ہے۔ اگر انصاف سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلامی نظامِ حیات کے نفاذ اور معاشی استحصال کے خاتمے میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ معاشی استحصال کا خاتمہ اسلامی نظامِ حیات کے نتائج میں سے ایک نتیجہ اور ثمرات میں سے ایک ثمرہ ہے اور ہمارے لیڈروں نے اگر کبھی معاشی استحصال اورمعاشرتی انصاف کی بات کی ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اسلامی نظامِ حیات کے نفاذ کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے اور ہم اس مقصد کو کسی اور ذریعے سے نہیں، بلکہ اسلام کے زریں اصولوں سے ہی حاصل کریں گے  اور ایسا کرنے کے ہم اخلاقاً وقانوناً پابند ہیں۔ مسلمانوں کے عظیم اور نمائندہ اجتماع نے یک زبان ہو کر ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی منظوری دی، یہ قراردادِ مقاصد پاکستان کے ہر آئین کا سرنامہ یا دیباچہ بن گئی۔ مرحوم ایوب خان کے دور میں اسی قراردادِ مقاصد کی روشنی میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ وجود میں آئی، جس کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کی رہ نمائی اسلامی اصولوں کے مطابق کرے، یہ بڑی تسلّی بخش بات ہے کہ اس کونسل میں علمائےدین اور مختلف علوم کے ماہرین شامل رہے ہیں، پھر ہر مسلک کے علما کو نمائندگی دی گئی ہے۔ اس کونسل نے ملک کے تمام قوانین کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائز لیا، اور حکومتوں کو تجاویز بھیجیں کہ وہ قوانین بدل دیے جائیں جو قرآن و سنّت کے خلاف ہیں۔ اگر چہ ملک میں ایک مخصوص طبقے کی طرف سے ہمیشہ شور وغوغا ہوتا رہا ہےکہ علما، ہر چیز میں اختلاف کرتے ہیں اور وہ فرقہ واریت کا پرچار کرتے ہیں لیکن اسلامی نظریاتی کونسل میں شامل مختلف مکاتبِ فکر کے علما نے کبھی اختلاف نہ کیا بلکہ متفقہ طور پر قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کی سفارشات تیار کیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی قانون کے نفاذ کی حد تک علمائے ملّت کے کوئی ایسے اختلافات موجود نہیں ہیں جو اس مقصد کےلئے سدِراہ بن جائیں۔

۱۹۷۷ء سے پہلے تک ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے لئے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی، جو ادارے اس مقصد کے لئے وجود میں آئے ہمیشہ ان کو غیر مؤثر بنا کر رکھا گیا۔ ۱۹۷۷ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کی حکومت نے ملک میں شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کے لئے ٹھوس اور مثبت اقدامات کیے، اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیلِ نو ہوئی اور اسلامی نظریاتی کونسل سے کہا گیا کہ وہ  ’’حدود‘‘ کے قوانین مرتّب (codify)کرے تاکہ انہیں ملک میں نافذ کیا جاسکے۔

چناں چہ کونسل نےیہ قوانین مرتّب کرکے دیے اور حکومت نے ان کو نافذ کردیا:

  1. Offences against property (Enforcement of Hudood) Ordinance 1979 (VI of 1979)
  2. Offence of zina (Enforcement of Hudood) Ordinance 1979 (VII of 1979)
  3. Offence of Qazf (Enforcement of Hudood) Ordinance 1979 (VIII of 1979)
  4. Prohibition (Enforcement of Hadd) order of drinking wine 1979 (P.O of 1979)
  5. Execution of the Punishment of whipping ordinance 1979 (IX of 1979)
  6. Code of criminal Procedure (Amendment) ordinance (IX of 1979)

شریعت بینچ:

اہم اقدام جو شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کے لئے اٹھایا گیا، وہ یہ تھا کہ ۱۹۷۹ء میں آئین میں ایک ترمیم کی گئی، اس ترمیم کی رو سے ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں شریعت بینچیں قائم کی گئیں، مگر یہ تجربہ کچھ زائد کامیاب نہ رہا، لہٰذا ایک مستقل کورٹ کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی، چناں چہ ۲۶ مئی؍۱۹۸۰ء میں’’فیڈرل شریعت کورٹ‘‘ کا قیام عمل میں آیا، اس کی ہیئت اس طرح تشکیل پائی کہ ایک ایک جج تو ہر ہائی کورٹ سے لیا گیا اور ایک جج سپریم کورٹ کے معیار کا بطورِ چیئرمین لیاگیا، آئین کی دفعہ ۲۰۳ ٹی کی رو سے اس کورٹ کے اختیارات یہ ہیں:

یہ کورٹ یا تو بذاتِ خود، یا پاکستان کے کسی شہری کی درخواست پر، یا وفاقی حکومت یا صوبائی حکومتوں کی درخواست پر کسی بھی قانون کو جانچ سکتی ہے اور فیصلہ کرسکتی ہے کہ آیا یہ قانون یا اس کی کوئی شق قرآن و سنّت کے مخالف ہے یا نہیں۔

  1. (8) Where the court takes up the examination of any law or provision of law under clause (1) and such law or provision of law appears to it to be repugnant to the injunction of islam, the court shall cause to be given to Federal Government in the case of law with respect to a matter not enumerated in the either of those lists, a notice specifying the particular provisions that appear to it to be so repugnant to have its point of view placed before the court.

(ا) اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ کوئی قانون یا اس کی کوئی شق قرآن و سنّت کے خلاف ہے تو اسے اپنے فیصلہ میں کہنا ہوگا۔

(ب) اس کے اس فیصلے کے اثبات کیاہیں۔

(ج) کسی حد تک یہ قانون یا اس کی کوئی شق مخالفِ قرآن و سنّت ہے، یہ بھی وضاحت کرنا ہوگی کہ کس تاریخ سے اس کا فیصلہ نافذ العمل ہوگا، یہ تاریخ لازماً اپیل کی مدت گزر جانے کی تاریخ کے بعد سے ہوگی۔

اگر عدالت کسی قانون یا اس کی کسی شق کو خلافِ قرآن و سنّت قراردے دے تو اس کی بابت یہ ہے کہ:

(a)The president in the case of a law with respect to a matter in the Federal Legislative list of the concurrent legislative list or the governor in the case of a law with respect to a matter not enumerated in either of those lists, shall take steps to amend the law so as into conformity with the injunctions of Islam: and so repugnant cease to have effect on the day on which the decision of the court takes effect.

جون ۱۹۸۰ء میں ایک اور قانون نافذ کیاگیا: یہ ’’زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس‘‘ ہے، جس کی رو سے زکوٰۃ و عشر کا جمع کرنا لازمی قرار دیا گیا۔

 اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے ۱۹۸۰ء میں جامعہ اسلامیہ اسلام آباد قائم کیا گیا، ۱۹۸۵ء میں اس یونیورسٹی کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، یونیورسٹی اسلامک لاء کی تعلیم میں اہم اور معیاری کردار ادا کررہی ہے۔

فیڈرل شریعت کورٹ میں علما کی شمولیت:

چوں کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں قدم قدم پر قرآن و سنّت کی رہنمائی کی ضرورت تھی، اس لئے اس امر کی ضرورت محسوس کی گئی کہ شریعت کورٹ میں جیّد علمائے دین کو بحیثیت جج شامل کیا جائے، چناں چہ آئین کی رو سے ۱۹۸۱ء میں علما ججوں کا اضافہ کرلیا گیا، اور ان کووہ تمام حقوق و مراعات دی گئیں جو ہائی کورٹ کے جج کے لئے ہوتی ہیں۔

نظرِثانی کے اختیارات:

۱۹۸۱ء میں فیڈرل شریعت کورٹ کو Powers of Review  دی گئی۔

شریعت پٹیشن:

فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے جب کوئی شریعت پٹیشن آتی ہے تو وہ اس کو نمٹانے کے لئے درجِ ذیل طریقہ استعمال کرتی ہے:

(۱) متعلقہ سوال پر قرآنِ کریم کی آیات سے استدلال۔

(۲) احادیثِ رسولِ اکرمﷺ سے استدلال۔

(۳) علما و مجتہدین کی آرا سے استفادہ۔

(۴) قرآن و سنّت کی روسے مناسبت رکھنے والا استدلال۔

فیڈرل شریعت کورٹ اب تک ۳۱۰ شریعت  پٹیشنز نمٹا چکی ہے۔

Suo Moto Powers (ذاتی اختیارات)

فروری ۱۹۸۲ء میں فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیارات میں مزید وسعت دینےکے لئےآئین میں ۲۰۳۔ ٹی کا اضافہ کیاگیا، اس کی رو سے فیڈرل شریعت کورٹ  کو مندرجۂ ذیل اختارات ملے:

(۱) وفاقی شرعی عدالت از خود کسی قانون یا اس کی کسی شق پر غور کرسکتی ہے کہ آیا وہ قرآن و سنّت کے منافی تو نہیں ہے، اور اپنا فیصلہ صادر کرسکتی ہے۔

(۲) اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرسکتی ہےجو اس نے ذاتی اختیار کے تحت دیا تھا؛ نیز کسی مجرم کی سزا میں، جوقوانینِ حدود کے تحت دی گئی ہو، اضافہ کرسکتی ہے۔

(۳) عدالتوں نے حدود یا تعزیرات میں جو فیصلے بھی دیے ہوں، اگر ان میں سزا دو سال یااس سے زائد کی ہو تو ان کی اپیل یہ عدالت سن سکتی ہے۔

عدالتی نظرِثانی(Judicial Review):

وہ قوانین جو پارلیمنٹ نے ترتیب دیے ہیں، یہ عدالت ان میں سے کسی قانون کو اگر کتاب و سنّت کے منافی سمجھتی ہے تو اسے اختیار ہے کہ اس قانون یا قانون کی شق کو کالعدم قرار دے دے، لیکن اس کے لئے کوئی تاریخ مقرر کرنا ہوگی کہ فلاں تاریخ سے یہ قانون کالعدم ہوگا، ظاہر ہے کہ یہ تاریخ یا تو سپرم کورٹ میں اپیل کا فیصلہ ہو جانے کے بعد ہوگی یا مدّتِ اپیل گزر جانے کے بعد کی ہوگی۔

 

 

ذاتی اختیار کی بنیاد پر وفاق اور صوبائی قوانین کی اسلامائزیشن:

۱۹۸۲ء میں ذاتی اختیار(Suo Moto) حاصل ہوجانے کے بعد اس عدالت نے وفاقی اور صوبائی قوانین کی جانچ پڑتال شروع کی، اس کے لئے وقتاًفوقتاً جانچنے کے لئے قوانین کی فہرست اردو، انگریزی روزناموں میں مشتہر کی گئی تاکہ پبلک میں سے کوئی شخص عدالت میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرنا چاہے تو  کر سکے، جیّد علمائے دین اور ہر فن کے ماہرین کو بلایا گیا، گورنمنٹ کے نمائندے، وکلا بھی تشریف لائے، ان سب کے سامنے قانون پر بحث و تمحیص ہوئی۔

چوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل وفاقی قوانین کی کوڈ کی جلد ۱ تا ۸ کو پہلے ہی جانچ چکی تھی، اس لئے عدالت نے جلد نمبر ۹ سے آخر تک تمام جلدوں کو جانچا، اس طرح ۵۱۲ وفاقی قوانین کی پڑتال کی، ان میں سے ۵۸ قوانین کی بعض، دفعات کو قرآن و سنّت کے منافی پایا، چناں چہ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ ان کو بدل کر قرآن و سنّت کے مطابق بنادیا جائے۔

اس کے بعد اسی انداز پر عدالت نے صوبائی قوانین کو جانچنا شروع کیا۔ عدالت نے ۹۹۹ صوبائی قوانین کو جانچا، ان میں سے۲۱۲ قوانین قرآن و سنّت کے منافی قرار دیے گئے۔

اس دوران عدالت نے بعض قوانین پر تفصیلی فیصلے بھی دیے۔

جیسا کہ میں نے ابتداء میں آیتِ کریمہ کا حوالہ دیاہے،اس میں یہ حکم نہیں ہے کہ ہم ایسے قوانین رائج نہ کریں جو قرآن و سنّت کے منافی ہوں، بلکہ حکم یہ ہے کہ ہم ایسے قوانین رائج کریں جوقرآن و سنّت کے مطابق ہوں، یہ دوسرا اصول مدِّ نظر رکھ کر اسلامائزیشن کرنا ہوگا، تب ہی اسلامی نظام کے قیام کی راہ ہم وار ہوگی۔

(مقالاتِ ابنِ مسعود مفتی سیّدشجاعت علی قادری، ص۲۵۱تا۲۵۷)

 


متعلقہ

تجویزوآراء