رمضان المبارک اور معمولات نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
رمضان المبارک کا مہینہ نہایت ہی برکتوں اورسعادتوں والا مہینہ ہے۔ حدیث پاک ہے : الرمضان شہر اللہ (رمضان اللہ کا مہینہ ہے)۔ حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک سے بہت زیادہ محبت فرماتے اور اس کے پانے کی اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اس مبارک مہینے کا خوش آمدید کہہ کر استقبال کرتے۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دریافت کیا کہ تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے؟ (یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ فرمائے) (الترغیب والترہیب، 2 : 105)۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور ﷺنے فرمایا : نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : تم رمضان کا استقبال کر رہے ہو جس کی پہلی رات میں تمام اہل قبلہ کو معاف کر دیا جاتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، 2 : 105)۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا استقبال ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ فرماتے تھے۔ جب رمضان المبارک شروع ہوتا تو حضور نبی اکرم صﷺکے معمولاتِ عبادت و ریاضت میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا۔ کیونکہ آپ ﷺ کے معمولاتِ رمضان پر عمل ہی ہماری کامیابی کا ذریعہ ہے ۔
لہذا ذیل میں ہم رمضان المبارک میں حضور ﷺ کے چیدہ چیدہ معمولات بیان کرتے ہیں اور انہی معمولات کی روشنی میں ہی ہم اس مہینے کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ یاب ہوسکتے ہیں۔
رمضان المبارک کا چاند دیکھنے پر خصوصی دعا :
جب حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو فرماتے : یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے، میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 10 : 400، رقم : 9798)۔
سحری اور معمولِ نبوی:
حضور ﷺ بالالتزام روزے کا آغاز سحری کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے امت کو تلقین فرمائی کہ سحری ضرور کھایا کرو خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا : سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری میں برکت ہے (صحیح البخاری، 1 : 257، کتاب الصوم، باب برک السحور من غیر ایجاب، رقم حدیث : 1823)۔ ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل السحور، رقم حدیث : 1096)۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔ (مسند احمد بن حنبل، 3 : 12)۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا : سحری کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، 3: 12)۔
رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہے۔ روحانی فیوض و برکات کے علاوہ سحری دن میں روزے کی تقویت کاسبب بنتی ہے۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : دن کو قیلولہ کرکے رات کی نماز کے لئے مدد حاصل کرو اور سحری کھا کر دن کے روزے کی قوت حاصل کرو۔ (سنن ابن ماجہ : 123، کتاب الصیام، باب ما جا ء فی السحر، رقم حدیث : 1693)۔
امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سحری میں برکت کے فوائد کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں :
سحری میں برکت کی وجوہات ظاہر ہیں جیسا کہ یہ روزے کو تقویت دیتی ہے اور اسے مضبوط کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں زیادہ کام کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ ہے اور یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سحری کھانے کی برکت کئی طرح سے حاصل ہوتی ہے، مثلا اتباع سنت، یہود و نصاری کی مخالفت، عبادت پر قوت حاصل کرنا، آمادگی عمل کی زیادتی، بھوک کے باعث جو بدخلقی پیدا ہوتی ہے اسکی مدافعت، سحری میں کئی حق داروں اور محتاجوں کو شریک کرلینا جو اس وقت میسر آ جاتے ہیں۔ تاہم سحری کھانے کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ جانوروں کی طرح بے تحاشا کھایا جائے۔ علامہ ابن دقیق العید رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روزے کا مقصد چونکہ پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات کو توڑنا اور درجہ اعتدال میں لانا ہے لیکن اگر آدمی اتنا کھا جائے کہ جس سے روزے کے مقاصد پورے نہ ہوں بلکہ ختم ہی ہو جائیں تو یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے۔ جبکہ عیش پسند لوگ ایسا کرتے ہیں کہ دن بھر کی کسر شام کو اور رات بھر کی کسر سحری کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
افطاراور معمول ِنبوی:
افطاری میں حضور ﷺ اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔ (جامع الترمذی، 1 : 83، کتاب الزکو، رقم حدیث : 658)۔ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر افطاری کے وقت عجیب مضحکہ خیز صورت نظر آتی ہے۔ ہماری مجلسی زندگی کا خاصہ ہے، جو الا ماشا اللہ افراتفری، بدنظمی اور ذہنی انتشار کی آئینہ دار ہے۔ ادھر مغرب کی اذان بلند ہوئی، اس کے ساتھ ہی ایک ہنگامہ شروع ہو گیا اور افطاری کے لئے بھاگم دوڑ مچ گئی۔ یہ ہماری کم علمی اور کج فہمی اور بد اخلاقی وبے صبری کی عکاس ہے۔
افطاری میں جلدی کرنا :
سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی کرنا آنحضور ﷺ کا زندگی بھر معمول رہا۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔ (صحیح مسلم، 1 : 350، کتاب الصیام، باب فضل السحور، رقم حدیث : 1098۔ ) اسی طرح دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔ (سنن ابی داد، 1 : 328، کتاب الصوم، رقم حدیث : 2350)۔ حدیث قدسی ہے کہ : اللہ تعالی فرماتا ہے : میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔ (جامع الترمذی، 1 : 88، کتاب الصوم، باب ما جا فی تعجیل الافطار، رقم حدیث : 700)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں میں یہ دونوں باتیں ( یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا) رہیں گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مجھے روزہ جلدی افطار کرنے اور سحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے۔ (السنن الکبری، 4 : 238)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی افطاری کر لیتے تھے ۔
راتوں کا قیام اور معمول ِنبوی:
حضور نبی اکرمﷺکا دوسرا مبارک معمول رمضان المبارک کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ قیام، نماز تراویح، تسبیح و تہلیل اور ذکر الہی میں محویت سے عبارت ہے۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے، اسی معمول کا حصہ تھی۔ حضور ﷺنے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے باب میں ارشاد فرمایا : جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جاتا ہے، جس دن وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت بے گناہ تھا۔ (سنن نسائی، 1 : 308، کتاب الصیام، رقم حدیث : 2208)۔ اس ارشاد گرامی کی رو سے روزے کے آداب کی بجا آوری اور اس میں عبادت اور ذکر الہی کے لئے کھڑے رہنے سے انسان کے گناہ بارگاہ ایزدی کی طرف سے عفو و کرم سے اس طرح مٹا دیئے جاتے ہیں، گویا وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ رات کے قیام کے لئے جو محبوب عمل سنت نبوی سے ثابت ہے نماز تروایح ہے جس میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔
تراویح کی شرعی حیثیت :
نماز تراویح کا سنت مؤ کدہ ہونا نصِ حدیث سے ثابت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے نماز تراویح مسجد میں باجماعت اور انفرادی طور پر گھر میں بھی ادا فرمائی۔ اس کا باجماعت ادا کرنا سنت کفایہ سے۔ بصورت دیگر موجودہ بیس رکعت نماز تراویح خلفائے راشدین کی سنت بھی ہے، جس نے اجماعِ امت کا درجہ اختیار کر لیا ہے۔ رمضان المبارک میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ جتنا قیام تنہا اس مہینے کیا جاتا ہے، وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ منشا ایزدی اس سے یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک میں راتوں کی زیادہ سے زیادہ ساعتیں اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے، قیامِ رمضان کا تقاضا ذکر و استغفار کی کثرت اور ذوق و شوق سے عبادت اور یاد الہی میں انہماک و استغراق ہے۔ رمضان المبارک کی رات کی ہر ساعت اتنی فضیلت اور قدر و منزلت کی حامل ہے کہ ہمارے لئے اس کا اندازہ کرنا محال ہے۔
معمول ِختمِ قرآن :
رمضان و قرآن میں گہرا باہمی ربط و تعلق پایا جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے۔ (البقر، 2 : 185)۔ حضور ﷺ کا دورانِ رمضان المبارک ایک بار ختمِ قرآن کا معمول تھا اور آپ ﷺ نے امت کو بھی اسی اعتدال پر چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ اسلام سادہ اور فطرت سے ہم آہنگ دین ہے اور تعلیماتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی اسی فطری سادگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ! کہ میرے دین میں تنگی پیدا نہ کرو۔ اسی لئے ہر امتی کی سہولت کے پیش نظر آپ ﷺ ماہ صیام میں ایک بار قرآن پاک ختم کرنے کے معمول پر زندگی بھر کاربند رہے، حفاظ و قرا ء کرام قرآن کریم کو اتنی مقدار میں نہ پڑھیں کہ ترتیل کے ساتھ تلاوت ممکن نہ رہے۔ قرات میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ نماز تراویح کی جماعت میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس بنا پر قرأت کو اتنا طول دینا ہرگز مناسب نہیں، جو ان کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ صرف اتنی مقدار پر کفایت کی جائے کہ ہر شخص اطمینان و سکون کے ساتھ نماز تراویح کے دوران قرات کو سن سکے۔ حضورﷺ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو رمضان المبارک میں ایک ختم قرآن پر اِکتفا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
آپﷺکے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا معمول ہر روز ایک قرآن ختم کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی موصوف کو بلایا اور حسبِ دستور اس مہینے میں ایک قرآن ختم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور ! مجھے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے اور مجھے حافظ قرآن ہونے کے پیشِ نظر زیادہ کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ آپﷺ نے اس کے زیادہ اصرار پر پہلے بیس دن، پھر دس دن اور آخر میں ہر سات دن کے بعد ایک قرآن ختم کرنے کی اجازت ان الفاظ میں عطا فرما دی : سات دن میں ایک قرآن پڑھ لیا کرو۔ (مسند احمد بن حنبل، 2 : 162)۔
اس سے یہ نکتہ بڑی صراحت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک ایک دن میں قرآن مجید کے شبینے کرانے کا رواج صریحا خلافِ سنت ہے۔ بہرحال اگر شبینہ کرانا مقصود ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ختم قرآن کے لئے زیادہ سے زیادہ سات سے دس دن یا کم از کم تین رات کی محفل شبینہ کا اہتمام کیا جائے لیکن اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ تلاوت کردہ قرآنی الفاظ کو سننے والے اس کی نشست و برخاست اور مطالب و معانی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ رفتار اتنی تیز نہ ہو کہ الفاظ گڈمڈ ہو جائیں اور سننے والے کے کچھ بھی پلے نہ پڑے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل علیہ السلام کے دور ختم قرآن کا معمول :
صحیحین کی متفق علیہ حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر رمضان المبارک میں رات کے وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن پاک کا دور کرنے کے لئے آقائے دوجہاں ﷺکے حجرہ مبارکہ میں تشریف لاتے جہاں باری باری ان دونوں ہستیوں میں سے ایک کلام پاک کی تلاوت کرتے تو دوسری سماعت فرماتے۔ یہ معمول ہر رمضان میں جاری رہا، یہاں تک کہ وصال مبارک سے پہلے آخری رمضان آیا تو آپ ﷺ نے سابقہ معمول کے برعکس دو مرتبہ قرآن پاک کا دور جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ فرمایا۔ حفاظ و قراء کرام کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ وہ دوران تراویح ہر رمضان میں قرات اور سماعت کا فریضہ ادا کر کے بیک وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل علیہ السلام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
تہجّد اور معمول نبوی:
حضور ﷺنماز تہجد میں آٹھ رکعت ادا فرماتے، جس میں وتر شامل کر کے کل گیارہ رکعتیں بن جاتیں۔ تہجد کا یہی مسنون طریقہ حضورﷺسے منسوب ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : تم پر رات کا قیام (نماز تہجد) لازمی ہے کیونکہ تم سے پہلے صالحین کا یہ عمل رہا ہے اوریہ نماز تمہیں تمہارے ر ب سے قریب کرنیوالی اور گناہون کو مٹانیوالی اور (دیگر)برائیوں سے روکنے والی ہے ۔ (سنن الترمذی، 2 : 194، کتاب الدعوات، رقم حدیث : 3549)۔ نماز تہجد تمام نفلی نمازوں میں افضلیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے آنحضورﷺنے فرمایا : مومن کی بزرگی قیام الّلیل میں ہے اور عزت لوگوں سے استغنا میں ہے۔ (سنن الترمذی، 2 : 194، کتاب الدعوات، رقم حدیث : 3549)۔ نماز تہجد میں مداومت اختیار کرنے سے بندہ اپنے رب کی نظر میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کر لیتا ہے کہ اسے عزت و وقار اور شانِ استغنا نصیب ہوتی ہے، جس کے صلے میں اسے دنیا میں کسی کے آگے دستِ سوال دراز کرنے کی حاجت نہیں رہتی اور اس کی جبینِ نیاز آستانہ خداوندی کے سوا اور کسی در پر نہیں جھکتی۔ راتوں کی تنہائی میں خدا سے راز و نیاز اور اس کے آگے گڑگڑا کر خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں مانگنے سے بندہ دنیا سے مستغنی ہو جاتا ہے اور شیطان کو خاطر میں نہیں لاتا۔
رسول اکرم ﷺ نے اپنی امت کے شب زندہ دار اور نماز تہجد کی خاطر قیام اللیل کرنے والوں کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : میری امت کے برگزیدہ افراد وہ ہیں جو قرآن کو (اپنے سینوں میں) اٹھائے ہوئے ہیں اور شب بیداری کرنے والے ہیں۔ (شعب الایمان، 2 : 557، رقم حدیث : 2703)۔ امت مصطفوی ﷺ کے یہ پاک باز اور قدسی صفاتِ مردانِ باخدا ہیں، جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : بے شک رات کا اٹھنا نفس کو سختی سے روندتا ہے اور (وقتِ دعا دل و زبان کی یکسانیت کے ساتھ) سیدھی بات نکلتی ہے۔ (المزمل، 73 : 6)۔ ان نفوس قدسیہ کی راتیں یوں بسر ہوتی ہیں کہ ان کے پہلو شب کی خلوت میں بستروں سے الگ رہتے ہیں، جب دوسری خدائی خواب گراں کی لذتوں میں غلطاں ہوتی ہے، وہ اپنے رب کو منانے کے لئے اس کے حضور پیکر عجز و نیاز بنے گڑگڑا رہے ہوتے ہیں۔
ِ رمضان کی راتیں اور معمول نبوی:
رمضان المبارک کی راتوں میں حضور ﷺ کا معمول یہ تھا کہ آپ ﷺ نماز عشا و تراویح ادا کرنے کے بعد سونے کے لئے تشریف لے جاتے، پھر رات کے کسی حصے میں نماز تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو بشمول وتر گیارہ رکعتیں نمازتہجد کی ادا فرماتے۔ نماز تہجد کے لئے نماز عشا کے بعد کچھ سونا شرط اور مسنون ہے، یہی عمل افضل و مستحب ہے، جو سنتِ صحابہ رضی اللہ عنہ اور سنتِ صالحین سلف سے ثابت ہے، بغیر نیند کے نماز تہجد کا ادا کرنا مکروہ ہے۔ حضرت سید نا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں حضور ﷺ کی نماز تہجد کے بارے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں : جو شخص آخر عشا کے بعد دو رکعت اس طرح ادا کرے کہ ایک مرتبہ فاتحہ الکتاب اور بیس مرتبہ قل ھو اللہ احد پڑھتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں دو محل بنائے گا، جن کا جنت والے مشاہدہ کریں گے۔ (الدر المنثور، 6 : 415)۔
کثرتِ صدقات و خیرات :
حضور نبی اکرم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ ہر وقت صدقہ و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے، کوئی سوالی ان کے در سے خالی نہیں لوٹتا تھا۔ لیکن رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار باقی مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب جبرئیل امین (علیہ السلام) آجاتے تو آپ کی سخاوت کی برکات کا مقابلہ تیز ہوا نہ کر پاتی۔ (صحیح البخاری، 1 : 255، کتاب الصوم، رقم حدیث : 1803)۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام چونکہ اللہ تعالی کی طرف سے پیغام محبت لیکر آتے تھے اور رمضان المبارک میں چونکہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی اکرم ﷺ ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔
اِعتکاف اور معمول نبوی:
رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ بڑی باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے معمولِ اعتکاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں : حضور نبی اکرمﷺرمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ للہ تعالی سے جا ملے۔ (صحیح البخاری، 1 : 271، کتاب الاعتکاف، رقم حدیث : 1922(
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن تک اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپﷺ نے وصال فرمایا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیس دن تک معتکف رہے۔ (صحیح البخاری، 1 : 272، کتاب اعتکاف، رقم حدیث : 1939)۔ اعتکاف میں انسان دنیاوی معاملات سے علیحدگی اختیار کرکے خدا کی رضا کی تلاش میں گوشہ تنہائی اختیار کرتا ہے۔ صوفیا کرام اور اولیا کرام حضور نبی اکرمﷺکی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں چلہ کشی کے عمل کو اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ اس عمل کے ذریعے خدا کو راضی کرسکیں اور تزکیہ نفس کے مقام کو حاصل کرسکیں۔
رمضان المبارک میں ہمارا معمول۔۔۔۔۔۔ایک لمحۂ فکریہ
مندرجہ بالا معمولات نبوی پڑھنے کے بعد اب ہم رمضان المبارک کے با برکت ایام میں اپنے معمولات کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ہم نے رمضان المبارک کے حقیقی پیغام کو نہیں سمجھا۔رمضان المبارک کی ہر ہر ساعت ہمارے لئے سعادتوں کی پیامبر اور خدائے ذوالجلال کی بے پایاں رحمتوں کی نوید بن کر آتی ہے، لیکن کیا ہم ان سے مستفیض ہو کر اپنے لئے اخروی نجات اور کامیابی کا توشہ و سامان فراہم کرتے ہیں؟ کیا ہم اس ماہ مقدس کے شب و روز کے سعید لمحوں کو غنیمت جان کر اپنی عاقبت سنوارنے کا اہتمام کرتے ہیں؟ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر سوچنا چاہئے کہ ہم اس ماہ مبارک کا حق کہاں تک ادا کر رہے ہیں؟۔
ہمیں اپنا یہ معمول بنانا چاہئے کہ جب ہم سحری کے لئے بیدار ہوں تو باوضو ہو کر کچھ وقت نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے نکالیں اور پھر پورا ماہ اس کی پابندی کے لئے کوشاں رہیں۔ کیا بعید ہے کہ اس مشق سے ہماری نماز تہجد کی عادت مداومت اختیار کر جائے اور ہماری بقیہ زندگی میں تہجد کا معمول اس قدر راسخ ہو جائے کہ پھر اسے ترک کرنے کا تصور بھی نہ ہو سکے۔ رمضان المبارک کو یہ شرف اور فضیلت حاصل ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد کے درمیان سونے کا وقفہ بھی شامل عبادت تصور کر لیا جاتا ہے۔ گویا اس مقدس اور مبارک مہینے کی ہر ہر ساعت فیوض و برکات کی حامل ہو کر نامہ اعمال میں بطور عبادت لکھ دی جاتی ہے۔