ساداتِ کرام کے اکرام کی برکت

ساداتِ کرام کے اکرام کی برکت

 حضرت ابو عبد اللہ رصّاع اپنی کتاب تحفہ میں لکھتے ہیں کہ بغداد میں ایک شخص فقیر ، حاجتمند، عیال دار، صابر و عابد رہتا تھا ایک دن وہ رات کو نماز کے لیے اُٹھا تو اُس کے بچے بھوک کی وجہ سے رو رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو اُس نے بچوں اور بیوی کو بلایا اور کہا بیٹھو اور اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر درودِ پاک پڑھو اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کیسے درودِ پاک کی برکت سے ہمیں غنی کرتا ہے اپنے فضل و جود اور احسان سے۔

لہذا وہ سب بیٹھ گئے اور درودِ پاک پڑھنا شروع کردیا۔ درودِ پاک پڑھتے پڑھتے بچے تو سو گئے، اور اللہ تعالیٰ نے اس مردِ صالح پر بھی نیند طاری کردی، جب آنکھ سو گئی تو قسمت جاگ اُٹھی۔ اور وہ شاہِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دیدار کی دولت سے مشرف ہوا۔اور آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے تسلی دی اور فرمایا جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے صبح ہوگی تو اے پیارے امتی!تجھے فلاں مجوسی کے گھر جانا ہوگا اور اسے میرا سلام کہنا، نیز یہ کہنا کہ تیرے حق میں جو دعا ہے وہ قبول ہوچکی ہے اور تجھے اللہ تعالیٰ کے رسول فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے دیے میں مجھے(یعنی قاصد کو)دے۔

یہ فرماکر رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لے گئے اور وہ مردِ صالح بیدا ر ہوا تو مسرّت و شادمانی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، لیکن اُس نے دل میں سوچا کہ جس نے خواب میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھا، اُس نے الحق حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) کو ہی دیکھا۔ کیونکہ شیطان(العیاذ باللہ) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شکل میں نہیں آسکتا۔ اور پھر یہ بھی محال ہے کہ حضور علیہ السلام مجھے ایک آگ کے پُجاری مجوسی کی طرف بھیجیں، اور اس کو سلام بھی فرمائیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر سو گیا تو پھر قسمت کا ستارہ چمکا، پھر نبیٔ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ہی حکم دیا۔

جب صبح ہوئی تو مجوسی کے گھر پوچھتا ہوا پہنچ گیا۔ مجوسی کا گھر تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی کیونکہ وہ بہت مالدار تھا اس کا کاروبار وسیع تھا۔جب مجوسی کے سامنے ہوا تو چونکہ مجوسی کے کارندے کافی تھے، اُس نے اسے اجنبی دیکھ کر پوچھا، کیا آپ کو کوئی کام ہے؟ اُس مردِ صالح نے فرمایا:وہ میرے تیرے درمیان علیحدگی کی بات ہے۔

اُس نے نوکروں، غلاموں کو حکم دیا کہ وہ باہر چلے جائیں۔ جب تخلیہ ہوگیا تو مردِ صالح نے کہا تجھے ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے سلام فرمایا ہے۔ یہ سُن کر مجوسی نے سوال کیا، کون تمہارا نبی ہے؟ فرمایا: محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ۔یہ سُن کر مجوسی نے کہا :کیا آپ کو معلوم نہیں کہ میں مجوسی ہوں، اور میں اُن کے لائے ہوئے دین کو نہیں مانتا۔ اِس پر اُس مردِ صالح نے فرمایا :میں جانتا ہوں ، لیکن میں نے دو بار حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھا ہے اور مجھے اسی بات کی تاکید فرمائی ہے۔ یہ سُن کر مجوسی نے اللہ تعالیٰ کی قسم دلائی کہ کیا واقعی تجھے تمہارے نبی نے بھیجا ہے۔ اس نے کہا اللہ شاہد ہے۔ اور مجھے یہی فرمایا ہے۔

پھر مجوسی نے پوچھا:اور کیا کہا ہے؟ اس نیک مرد نے کہا : حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مزید یہ فرمایا ہے کہ تو اللہ کے دیے ہوئے میں سے مجھے کچھ دے اور یہ کہ تیرے حق میں دعا قبول ہے۔ اِس مجوسی نے پوچھا:تجھے معلوم ہے وہ کونسی دعا ہے؟ اس نے جواباً فرمایا: مجھے علم نہیں، پھر مجوسی نے کہا :میرے ساتھ اندر آ، میں تجھے بتاؤں وہ کونسی دعا ہے ۔ جب میں اندر گیا اور بیٹھے تو مجوسی نے کہا آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں اور اس نے ہاتھ پکڑ کر کہا:

أَشْھَدُ أَنْ لَّآ اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ

اسلام قبول کرلینے کے بعد اس نے اپنے ہم نشینوں کو کارندوں کو بلایا اور فرمایا: سن لو ! میں گمراہی میں تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی ہے میں نے ہدایت قبول کرلی اور میں نے تصدیق کی اور میں ایمان لایا ہوں اللہ تعالیٰ سبحانہ پر اور اس کے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر۔

لہذا تم میں سے جو ایمان لے آئے تو اُس کے پاس جو میرا مال ہے وہ اس پر حلال ہے۔ اور جو ایمان نہ لائے وہ میرا مال ابھی واپس کردے اور آئندہ نہ وہ مجھے دیکھے نہ میں اسے دیکھوں۔ تو چونکہ اُس کے مال سے کافی مخلوق تجارت کرتی تھی، اِس کے اعلان سے اکثر اُن میں سے ایمان لے آئے اور جو ایمان نہ لائے، وہ اس کا مال واپس کرکے چلے گئے پھر اُس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور فرمایا: بیٹا! میں نے اسلام قبول کرلیا ہے ، لہذا اگر تو بھی اسلام قبول کرلے تو تُو میرا بیٹا اور میں تیرا باپ ہوں ورنہ آج سے نہ تو میرا بیٹا اور نہ میں تیرا باپ!

یہ سن کر بیٹے نے کہا ابّا جان! جو آپ نے راستہ اختیار کیا ہے میں کی مخالفت ہرگز نہیں کروں گا۔لیجئے سن لیجئے:

أَشْھَدُ أَنْ لَّآ اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ

پھر اُس نے اپنی بیٹی کو بلایا جو کہ اپنے ہی بھائی کے ساتھ شادی شدہ تھی۔ اور یہ مجوسیوں کے مذہب کے مطابق تھا۔ اس نے اپنی بیٹی سے بھی وہی کچھ کہا جو اپنے بیٹے سے کہا تھا۔ یہ سن کر بیٹی نے کہا مجھے قسم ہے خدا کی! میرا شادی کے دن سے آج تک اپنے بھائی کے ساتھ ملاپ نہیں ہوا بلکہ مجھے سخت نفرت رہی ہے۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّآ اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ

یہ سن کر باپ بہت خوش ہوا۔ پھر اس نے مردِ صالح سے کہا، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو وہ دعا بتاؤں جس کی قبولیت کی خوشخبری آپ لائے ہیں اور وہ کیا چیز ہے جس نے رسولِ اکرم نبیٔ محترم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو مجھ سے راضی کیا ہے؟مردِ صالح نے فرمایا: ہاں! ضرور بتائیں!

اس نے کہا جب میں نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے بیٹے سے کی تھی تو میں نے عام دعوت کی تھی ۔ سب لوگوں کو کھانا کھلاتا رہا ، حتی کہ کیا شہری کیا دیہاتی سب کھاگئے۔ جب سب کھاکر فارغ ہوکر چلے گئےتو چونکہ میں تھک کر چُورہوچکا تھا، میں نے مکان کی چھت پر بستر لگوایا تاکہ آرام کروں، اور میرے پڑوس میں ایک سید زادی جو کہ سیّدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہے۔ اور اس کی چھوٹی چھوٹی بچیاں رہتی تھیں۔ جب میں اوپر لیٹا تو میں نے ایک  صاحبزادی سے سُنا وہ اپنی والدہ محترمہ سے کہہ رہی تھیں، امی جان! آپ نے دیکھا کہ ہمارے پڑوسی مجوسی نے کیا کیا ہے؟ ہمارا اُس نے دل دکھایا ہے۔ سب کو کھلایا مگر ہمیں اُس نے پوچھا تک نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسے ہماری طرف سے اچھی جزا نہ دے۔

جب میں نے اُس شہزادی سے یہ بات سنی تو میرا دل پھٹ گیا، اور سخت کوفت ہوئی ، ہائے! میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں جلدی سے نیچے اُترا اور پوچھا کہ کتنی شاہزادیاں ہیں ، تو مجھے بتایا گیا کہ تین شہزادیاں ہیں اور ایک ان کی والدہ محترمہ ہے۔

میں نے کھانا چنا اور چار بہترین جوڑے کپڑوں کے لیے اور کچھ نقدی رکھ کر نوکرانی کے ہاتھ اُن کے گھر بھیجا اور خود میں دوبارہ مکان کی چھت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ جب وہ چیزیں جو میں نے حاضر کی تھیں ان کے ہاں پہنچیں تو وہ بہت خوش ہوئیں اور شہزادیوں نے کہا:امی جان! ہم کیسے یہ کھانا کھالیں، حالانکہ بھیجنے والا مجوسی ہے۔ یہ سن کر اُن شہزادیوں کی والدہ محترمہ نے فرمایا: بیٹی! یہ اللہ تعالیٰ کا رزق ہے اُس نے بھیجا ہے۔ تو شہزادیوں نے کہا، ہمارا مطلب یہ نہیں ہے بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کھانے کو ہرگز نہیں کھاسکتیں جب تک وہ مجوسی ہے۔ پہلے اُس کے لیے اپنے نانا جان کی شفاعت سے اِس کے مسلمان  ہونے اور اس کے جنتی ہونے کی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔

اُن شہزادیوں نے دعا کرنا شروع کی اور اُن کی والدہ محترمہ آمین کہتی رہیں۔ لہذا یہ وہ دعا ہے جس کی قبولیت کی بشارت حبیبِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے تیرے ہاتھ بھیجی ہے۔ اور اب میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے حکم کی تعمیل یوں کرتا ہوں کہ جب میں نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے بیٹے سے کی تھی تو میں ساری جائیداد میں سے نصف ان لڑکے لڑکی کو دی تھی، اور نصف میں نے رکھا تھا اور اب چونکہ ہم سب مسلمان ہوگئے ہیں اور اس مبارک اسلام نے ان دونوں (بہن بھائی) کے درمیان جدائی کردی ہے، اب وہ مال جو ان کو دیا تھا وہ آپ کا ہے آپ لے جائیں۔(سعادۃ الدارین۔ص145)

سبق: اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملا کہ ساداتِ کرام کی خدمت کرنے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم راضی ہوتے ہیں اور اس کے عوض جنت اور شفاعت نصیب ہوتی ہے۔ اور یہ کہ نبیٔ اکرم ،شفیعِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم  اپنی امت کے ہر فرد سے باذن اللہ واقف ہیں۔

صلی اللہ تعالیٰ علی حبیبہٖ سیدنا محمد والہ وسلم

تنبیہ: سوال: حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی شریعتِ مطہرہ کا قانون ہے کہ غیر مسلم کو سلام مت کہو تو خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اُس مجوسی کو کیوں سلام فرمایا تھا؟

جواب: ہم اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ رسول ِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم باذن اللہ دلوں کے احوال جانتے ہیں لہذا ہمارے عقیدے پر کوئی اعتراض   نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے نبی تاجدارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی عطا سے اُس مجوسی کے دل میں ایمان دیکھ لیا تھا۔ اور اس کے ایمان کی بنا پر اسے سلام بھیج دیا۔

مگر جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دلوں کے حالات کا علم نہیں ہے۔ ان پر یہ وزنی اعتراض ہےکہ اُن کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حکمِ شرع کی خلاف ورزی کرنے پر( معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

أَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْ تَفَوِّہٖ مِثْلَ ھٰذَا الْقَوْلِ الْخَبِیْثِ وَوَفِّقْنَا لِتَمَسُّكِ مَسْلَكِ أَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَاحْشُرْنَا مَعَھُمْ


متعلقہ

تجویزوآراء