تفسیرکنزالایمان میں احادیث نبویہ کے حوالے
تفسیرکنزالایمان میں احادیث نبویہ کے حوالے
مولانامحمدعابدرضامصباحی دہلی
قرآن حکیم و فرقان حمید کا مقصد اولین انسان کی اصلاح ہے۔ تربیت پیہم سے اس کے نفس امارہ کو نفس مطمئنہ بناتاہے۔ ہواہوس کے غبارسے آئینہ دل کو صاف کرکے اسے انوارربانی کی جلوہ گاہ بناناہے۔ انانیت و غرورنمرود و سرکشی کی بیخ کنی کر کے انسان کو اپنے مالک حقیقی کی اطاعت و انقیاد کاخوگرکرناہے۔ یہی کام سب سے اہم ہے اور کٹھن بھی، قرآن کریم نے اسی اہم ترین اور مشکل ترین کام کو سرانجام دیااوراس حسن وخوبی کے ساتھ کہ دنیاکا نقشہ بدل گیا۔چنانچہ اللہ رب العزت قرآن حکیم میں ارشاد فرماتاہے۔
لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلو علیہم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ وان کانو من قبل لفی ضلال مبین(آل عمران۱۶۴)
بیشک اللہ کا بڑااحسان ہوامسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں ہے ایک رسول بھیجا جوان پر اس کی آیتیں پڑھتاہے اورانہیں پاک کرتاہے،اورانہیں کتاب وحکمت سکھاتاہے۔اور وہ ضرور اس سے پہلے گمراہی میں تھے۔(کنزالایمان)
اسی طرح ایک دوسری جگہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
واذکر کما یتلیٰ فی بیو تکن من آیات اللہ والحکمۃ ان اللہ کان لطیفاً کبیرا۔(الاحزاب،۳۴)
‘‘اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں اللہ کی آیتیں اور حکمت، بیشک اللہ ہر باریکی جانتاخبردارہے’’۔پہلی آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خاص طور پر تین چیزوں کا تذکرہ فرمایاہے۔ بعثت رسولﷺآیت کریمہ کی تلاوت کتاب و سنت کے ذریعہ ان کی تعلیم اور تزکیہ یعنی نبی اکرمﷺکتاب وسنت کے ذریعہ انسانی معاشرت کو ضلالت وگمراہی سے نکال کر امن و چین کا خوگر، تہذیب و تمدن کا پاسبان، انسانی معاشرہ کا نگہبان و محافظ بنادیا، اور تعلیم و تزکیہ نفس کے ذریعہ اس کو آلائشوں سے پاک کر کے بہت بلند کردیا، کتاب و سنت ہی وہ ذریعہ ہدایت ہے کہ اگر انسان ان کو تھامے رہے گا تو کبھی گمراہ نہ ہوگا۔ جیسا کہ رسول گرامی وقارﷺ کا ارشاد ہے۔
‘‘ ترکت فیکم امرین لن تضلو اتمسکتم بھما کتاب اللہ و سنت نبیہ’’۔
(ص۷۵۳ باب نہی عن القول بالقدر۔موطاامام مالک مطبوعہ فریدبک اسٹال لاہور)
‘‘میں تمہارے پاس دوچیزیں چھوڑرہاہوں جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہوگےتوکبھی گمراہ نہ ہوگے۔ایک کتاب اللہ دوم سنت رسول اللہﷺ’’۔اورقرآن مقدس کی اس آیت کریمہ میں جس حکمت کا ذکر ہےاس سے مراد حضورﷺ کی سنت ہے۔ اس لئےکہ ان آیت میں لفظ کتاب کے بعدجو حکمت مذکور ہے، اس سے مراد حکمت کتاب ہے۔ یعنی قرآن مقدس میں جو اوامرونواہی، جو احکامات و ارشادات، جو دروس وغیرہ مذکورہیں ماہیت و حقیقت کا صحیح صحیح علم اور ان پر صحیح طور پر عمل اللہ تعالیٰ کی طرف سےہر رسول پر نازل فرماتاہے۔ اسی طرح رحمت عالمﷺ کو بھی اللہ نے انہی کتاب کا علم مرحمت فرمایا۔جس کو‘‘سنت’’سے تعبیر کیاجاتاہے۔
آیت کریمہ کے اسرارپراگرغوروخوض کیاجائےتویہ بات واضح ہوگی کہ ہم کتاب اللہ پر بغیر سنت کے عمل نہیں کرسکتے۔کیونکہ سنت نبوی مبہمات کی تبین، مجملات کی تفصیل، مشکلات کی توضیح عام کی تخصیص اور ایجازواختصارکی تشریح وتبسیط کانام ہے۔ جیساکہ امام اوزاعی اور مکحول اور یحییٰ ابن ابوکثیر وغیرہ فرماتے ہیں۔
‘‘القرآن احوج الی السنہ من سنۃ الی الکتاب والسنہ قاضیۃ علی الکتاب، ولیس الکتاب قاضیا علی السنۃ،’’(ص۱۰سنن الدارمی جزاول، ولکفایتہ فی علم، الروایتہ ج۳/ص۳۱مطبوعہ المکتبہ العصریہ بیروت ۲۰۰۶)
کہ قرآن سنت کا زیادہ حاجت مند ہے، بہ نسبت سنت قرآن کا حاجت میں ہونے کے اور سنت نبوی کتاب اللہ کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ اورقرآن سنت نبوی کا فیصلہ کرنے والان ہیں۔ امام احمدبن حسین رضی اللہ عنہ سے اس حدیث‘‘ان السنۃ قاضیۃ علی الکتاب’’ کے بارے میں سوال کیاگیا۔توآپ نے جواب میں ارشادفرمایا۔
‘‘میں اس بات کو کہنے کی کیسے جسارت کرسکتاہوں۔ لیکن ہاں!سنت کتاب اللہ کی تفسیر توضیح و تبین کرنے والی ہے’’۔(ص۴۷،اخرجہ الخطیب فی الکفایہ)
اور حضرت امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابوسختیانی نے روایت کی‘‘واذااحد ث رجل بالسنتہ، فقال د عنا من ھٰذ ا وحد ثنا من القرآن، فاعلم انہ ضال مضل’’ (ص۶۵/اخرجہ الحاکم فی معرفتہ علوم الحدیث) والخطیب فی الکفایہ ص۴۹۱)
کہ جب تم کسی شخص سے سنت کے متعلق بات کرو اور وہ یہ کہے کہ اس کو چھوڑواور قرآن سے بات کروتوسمجھ لو یہ شخص راہ راست سے ہٹ کر گمراہ ہوگیا۔ حضرت عمران بن حسنین رضی اللہ عنہ اپنے رفقاء کے مابین بیٹھے ہوئے تھے۔لوگوں میں سے کسی نے کہا کہ قرآن کے علاوہ کسی چیزسے بات نہ کرو۔ آپ نے اسے بلاکر فرمایا کہ اگر میں تجھےاور تیری پوری جماعت کو قرآن کے حوالے کردوں، تو کیاتواس میں ظہر کی نماز کی چار رکعت، عصر کی نماز کی چاررکعت،مغرب کی تین، طواف کعبہ سات چکراورصفامروہ کی سعی سات چکردکھاسکو گے؟ پھرفرمایااے گروہ مسلمین!ہم سے لے لو!خداکی قسم اگراسے نہ سمجھوگے تو گمراہ ہوجاؤگے۔
ان احادیث واقوال سے یہ بات پورے طورپرعیاں ہوجاتی ہے کہ قرآن مقدس کو بغیر احادیث کریمہ کے نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔اگرکوئی انسان اس کامدعی ہے تو اول نظر میں سمجھ لوکہ وہ گمراہ ہے۔کیونکہ کتاب وسنت کے درمیان لازم و ملزوم کا رابطہ ہے۔ کوئی کتنا ہی بڑا صاحب علم وفضل سہی وہ قرآن کو بغیر سنت اور سنت کو بغیر قرآن کے نہیں سمجھ سکتا۔ اور جو شخص بغیر سنت کے قرآن مقدس پر عمل کرنا چاہے تووہ گمراہ ہوجائےگا۔ اس لئے ایک مسلمان پر بحیثیت مسلمان یہ لازم ہے کہ وہ بیک وقت دونوں کو تھام کران پر عمل پیراہو، کیونکہ اگر کتاب اللہ شریعت اسلامیہ کے لئے ماخذاول ہے تو سنت مصطفیٰ ﷺ اس کے لئے سرچشمہ ثانی ہے۔
اگرقرآن سنت کے مابین تعلق پر نگاہ ڈالیں تو اس کی تین شکلیں نظرآتی ہیں۔ ایک یہ کہ کسی چیزکے حکم کے بارے میں کتاب وسنت دونوں متحدہ و متفق ہوں۔ جیسے حضورﷺ کا یہ ارشاد: بنی الاسلام علی خمس، شھادۃ ان لاالہ الااللہ و ان محمد اعبد ہ ورسولہ و اقام الصلوۃ وایتاء الزکوٰۃ و حج البیت و صوم رمضان(صحیح مسلم کتاب الایمان باب ارکان الاسلام)۔
یہ حدیث پاک کے الفاظ ہیں۔ اب ہم اس کے متعلق قرآن حکیم میں اللہ رب العزت کا یہ ارشادواضح الفاظ میں بتاتےہیں۔‘‘ فاعلم انہ لاالہ الااللہ، محمد رسول اللہ اقیمو الصلوۃ واٰتوالزکوۃ’’
یہ آیت مبارکہ اس حدیث رسول کے عین مطابق وموافق ہے۔
دوم یہ کہ قرآن میں کسی حکم کے متعلق اجمال ہو پھر سنت نے اس کی تفصیل بیان کی ہو جیسے اللہ رب العزت کایہ ارشاد‘‘واقیمو الصلوۃ،حافظو علی الصلوٰۃن قد افلح المؤمنون الذ ین ھم فی صلاتھم خاشعون’’ان آیات مبارکہ میں ایک مخصوص انداز میں نماز کے لئے حکم دیاگیا ہے اورپھر جو ان احکام پرعمل پیرا ہوں ان کے لئے کامیابی کا پروانہ بھی۔ مگر اس کی صورت کیا ہوگی؟ کس طرح نماز پڑھی جائے گی۔ اس کے بیان وضاحت کے لئے ہم کو احادیث کا دامن تھامے بغیر چارہ کارنہیں۔اور جب ہم احادیث کی طرف رجوع کرتے ہیں تویہ عقیدہ کھلا کہ رات و دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں اور فلاں فلاں وقت میں اتنی اتنی رکعتیں فرض ہیں، اور ان کے لیے یہ یہ شرائط ہیں، اور ان کے اداکرنے کا طریقہ یہ ہے۔ اورپھربطورنمونہ ایک قاعدہ بتادیاگیا‘‘صلو کمارائتمونی اصلی’’اسی طرح سے دیگراحکام و مسائل ہیں جن کی توضیح وتبین سنت کے ذریعہ ہوتی ہے۔
سوم ایک حکم قرآن عام ہو۔ پھر سنت نے اس کو خاص کردیاہو۔جیسے اللہ رب العزت کا ارشاد‘‘حرمت علیکم المیتتہ والد م’’کہ ‘‘تم پر مرداراور خون حرام کیا گیا’’آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ خون اور مردار مطلقاحرام ہیں۔مگرجب حدیث رسول پر نگاہ دوڑائی تو یہ فرمان رسالت ملا‘‘احلت لنا میتان و دمان،فاماالمیتان فالحوت الجرار، واماالدمان فالکبد و الطحال’’(سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمہ، باب الکبدوالطحال) کہ ہمارےلئے دومرداراوردوخون حلال کئے گئے دومردارایسی وہ مچھلی اور ٹڈی ہیں اور خون وہ تل اورکلیجی ہیں۔غرضیکہ اس طرح کے بہت سے احکام قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ بغیر حدیث کے قرآن اور بغیر قرآن کے احادیث کو نہیں سمجھا جاسکتا۔
اس تفصیل کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوگئی کہ حدیث رسول کے بغیر قرآن کریم کی تفسیر نہیں کی جاسکتی، اب کتب تفاسیر کا مطالعہ کریں جگہ جگہ احادیث رسول کے ذخائرنظرآئیں گے سردست ہم ماضی قریب کے ایک مستنداور معتبرترجمہ قرآن کنزالایمان پر تفسیر خزائن العرفان پر گفتگوکرتےہیں جسے علام سیدنعیم الدین صاحب مرادآبادی علیہ الرحمہ (متودل۱۸۸۳ء/۱۳۰۰ھ متوفی۱۹۴۸ء/۱۳۶۷ھ) نے تحریر کیا ہے۔ یہ ایک مختصر تفسیر ہے جو کنزالایمان کے حاشیہ پر مرقوم ہے۔ گو کہ یہ حاشیہ پر ہے مگر علوم و معارف کا خزینہ اور اسرارورموزکا گنجینہ ہے ہم یہاں پر ان احادیث کریمہ کے چند حوالے پیش کرتے ہیں جو تفسیرکنزالایمان میں مرقوم ہیں۔
[۱]اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے یایھاالذ ین امنو استجیبو للہ و للرسول اذا دعاکم لما یحییکم واعلمو ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ وانہ الیہ تحشرون(انفال،۲۴) اے ایمان والو!اللہ و رسولﷺکے بلانے پرحاضرہو جب رسول تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دلی ارادوں میں حائل ہوجاتاہے اور یہ کہ تمہیں اس کی طرف اٹھنا ہے۔
آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رسولﷺ کے بلانے پر حاضری ضروری ہے اب سوال یہ ہوا کہ کیا ہر وقت ضروری ہے کہ جس وقت بلائیں حاضرہوجاؤچاہے جس حال میں ہو خواہ نماز میں ہو یا کسی طرح کی دوسری عبادت میں۔اب اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے حدیث کی حاجت پڑی چنانچہ اس آیت کی توضیح و تفسیر میں صدرالافاضل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔معبد بن معل سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہاتھارسولﷺ قریب سے گذرےمجھے پکارا، میں نے جواب نہ دیا۔پھر میں حاضر خدمت ہوااور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺمیں نماز پڑھ رہاتھا۔آپ نے ارشادفرمایا۔کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایاہے کہ اللہ ورسول کے بلانے پر حاضر ہوجاؤ۔حدیث مبارکہ کے الفاظ اس طرح ہیں: عن معبد بن المعل رضی اللہ عنہ قال:کنت اصل فمر بی رسولﷺ فدعانی، فلم اتہ حتی صلیت، ثم اتیۃ فقال ما منعک ان تاتی؟ الم یقل اللہ؛ ‘‘یاایھاالذ ین آمنو استجیبو للہ وللرسول اذ دعاکم۔(اخرجہ البخاری، کتاب تفسیر القرآن باب یاایھاالذین آمنو استجیبو للہ وللرسل)۔
ایساہی ایک واقعہ ایک دوسری حدیث میں مذکور ہے۔ حضرت ابی بن کعب نماز پڑھ رہے تھے۔حضورﷺنے انہیں پکاراانہوں نے جلدی جلدی نماز تمام کر کے سلام عرض کیا۔ حضور نے فرمایاکہ تمہیں جواب دینے سے کیا چیز مانع ہوئی؟عرض کیا!حضور میں نماز پڑھ رہا تھا۔حضورﷺ نے فرمایاکیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پایاکہ اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہوجاؤ۔عرض کیا بیشک آئندہ ایسانہیں ہوگا۔
[۲]سورۃ فاتح کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے حضرت صدرالافاضل نے جو احادیث نقل فرمائی ہیں انہیں بھی ایک نظر دیکھ لیں، آپ رقم طراز ہیں:
‘‘احادیث میں اس سورہ کی بہت سی فضیلتیں وارد ہیں۔ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی اکرمﷺکے پاس بیٹھےہوئے تھےناگاہ رسولﷺ نے ایک آواز سنی نبی پاکﷺ نے سر مبارک اوپر اٹھایا۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جسے صرف آج کھولاگیا ہےاور آج سے قبل کبھی نہیں کھولاگیاپھراس سے ایک فرشتہ نازل ہوا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا،یہ فرشتہ جو آج نازل ہوا یہ آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوااس فرشتے نے سلام کیا اور کہا:آپ کو ان دونوروں کی بشارت ہو جو آپ کودئےگئے ہیں اورآپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے۔ایک سورۃ فاتحہ اور دوسراسورۃ بقرہ کا آخری حصہ، اب ان دونوں میں سے جو حرف بھی پڑھیں گے اس کا بدلا دیاجائیگا۔امام مسلم نے اس حدیث کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے۔
عن ابن عباس قال بینماجبریل قاعدعندالنبیﷺسمع نقیضامن فوقہ فرفع راسہ ففال ھٰذا باب من السماء فتح الیوم، ثم یفتح قط الاالیوم فنزل منہ ملک فقال ھٰذا ملک نزل الارض لم ینزل قط الاالیوم فسلم وقال ابشربنورین اوتیتھمالم یوتھمالنبی قبلک فاتحتہ الکتاب و خواتیم سورہ بقرۃ من تقربحرف منھماالااعطتہ(اخرجہ المسلم،کتاب صلاۃ المسافروقصرھا،باب فضل الفاتحتہ و خواتیم سورہ البقرۃ)
[۳]بنی اسرائیل کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مقدس میں ارشاد فرماتاہے ‘‘فبد ل الذ ین ظلمو قولاً غیر الذ ی قیل لھم’’(البقرہ،۵۹)توظالموں نے اور بات بدل دی جو فرمائی گئی تھی اس کے سوا(کنزالایمان)احادیث کریمہ میں اس چیز کا بیان ملتا ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ سجدہ کرتے ہوئے اور حطتہ کہتے ہوئے داخل ہوں مگر انہوں نے اس کو بدل ڈالا اور سرینوں کے بل گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے۔امام بخافی اسی حدیث پاک کو ہمام بن سنبہ رضی اللہ عنھماسے روایت کرتے ہیں ِِ‘‘عن ھمام بن منبہ انہ سمع اباھریرۃ رضی اللہ عنہ یقول قال رسول اللہﷺ قیل لبنی اسرائیل ادخلوالباب سجد ا و قولو حطۃ نغفرلکم خطایاکم فبد لو افد خلو ایزحفون علی استاھھم و قالوا حبۃ فی شعرۃ’’(اخرجہ البخاری، کتاب تفسیر القرآن، قولہ حطتہ)رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا کہ بنی اسرائیل کو حکم ہواتھا کہ دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے ‘‘حطتہ’’کلمہ توبہ و استغفار کہتے جائیں۔انہوں نے دونوں حکموں کی مخالفت کی، داخل تو ہوئےسرینوں کے بل گھسیٹتے اور بجائے کلمہ توبہ واستغفار کے تمسخر سے ‘‘حبتہ فی شعرہ’’کہا جس کا معنی ہیں۔(بال میں دانہ)
تفسیر میں احادیث نبویہ کے حوالے سے کچھ اور حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
[۴]احل لکم لیلتہ الصیام الرفث الیٰ نسائکم(البقرہ۔۱۸۷)
روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جاناتمہارے لیے حلال ہوا(کنزالایمان)
صدرالافاضل علیہ الرحمہ اس آیت کریمہ کی شان نزول بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
‘‘شرائع سابقہ میں افطار کے بعد کھاناپینامجامعت کرنانمازعشاء تک حلال تھا، بعد نماز عشاء یہ سب چیزیں شب میں بھی حرام ہوجاتی تھیں۔ یہ حکم زمانہ اقدس تک باقی رہا۔ بعض صحابہ سے رمضان کی راتوں میں بعدعشامباشرت وقوع میں آئی۔ ان میں حضرت عمر بھی تھے اس پر وہ حضرات بہت نادم ہوئےاور بارگاہ رسالت میں عرض حال کیا۔ اللہ تعالیٰ نے معاف فرمایااور یہ آیت کریمہ ناز ہوئی۔ اسی واقعہ کی غمازی بخاری شریف کی یہ حدیث کرتی ہے: عن ابی اسحاق قال:سمعت البرارضی اللہ عنہ،لماانزل صوم رمضان کانوا یقربون النساء رمضان کلہ و کان رجال یخوفون انفسھم فانزل اللہ (وعلم للہ انکم کنتم تخافون انفسکم فتاب علیکم و عفا عنکم)
ابواسحٰق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے براء رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جب رمضان کے مہینےکےروزےآتےتولوگ پورےمہینےاپنی بیویوں سے علیٰحدہ رہتے اور لوگ ان باتوں سے خوف کھاتے تواللہ رب العزت نے قرآن مقدس میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔ وعلم اللہ انکم(الخ)۔
[۵]اسی طرح قرآن مقدس میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے و منھم من یقول ربنا اٰتنا فی الد نیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار(البقرہ۲۰۱)اور کوئی یوں کہتاہے اے ہمارے رب ہمیں دنیامیں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذابد دوزخ سے بچا۔
حدیث پا ک میں ہے کہ حضورﷺ اکثر یہی دعافرمایاکرتے تھے۔( اللھم ربناآتنا فی الد نیا الخ)،امام بخاری نے اس حدیث کو یوں روایت کیا ہے۔
عن انس قال:کان اکثر دعاءالنبیﷺ‘‘الھم ربنا آتنافی الد نیاحسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذ اب النار،
(رواہ البخاری، کتاب الد عوات، باب قول النبی ﷺ ربناآتنافی الد نیا حسنۃ)
[۶]اسی طرح اللہ رب العزت کایہ قول: لیطوقون مابخلو یوم القیامۃعنقریب وہ جس نےبخل کیاقیامت کے دن ان کے گلے میں طوق ہوگا۔(کنزالایمان) اس آیت کریمہ میں مال نہ خرچ کرنے والوں کے لئے وعید ہے۔ صدرالافاضل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہاں بخل سے زکوٰۃ نہ دینا مراد ہے۔بخاری شریف کی حدیث میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادانہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا رہےگا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیراخزانہ ہوں، امام بخاری نے اس حدیث کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ من اتاہ اللہ مالا، فلم یود زکاتہ مثل لہ یوم القیامۃ شجاعا اقرع لہ زبیتان یطوقہ یوم القیمۃ ثم تاخذ بھزمیتۃ عینی شد یہ، ثم یقول انا مالک انا کنزک ثم تلا یحسبن الذ ین یبخلون(آل عمران۔۱۸۰)
رواہ البخاری کتاب الزکوٰۃ باب اثم مانع الزکوٰۃ دوسری روایت تفسیر ی الفاظ کے ساتھ اس طرح مروی ہے۔عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ یکون کنز احدکم یوم القیٰمۃ شجاعااقرع یفر منہ صاحبۃ فیطلبہ ویقول انا کنزک قال واللہ من یزال یطلبہ حتی یبسط ید ہ فیلقھا فاہ (اخرجہ البخاری، کتاب الحیل، باب فی الزکات وان لایفرق بین مجتع)
[۷]واذ قالو اللھم ان کان ھذ اھو الحق من عند ک فامطر علینا حجارتہ من السماء اوئتنا بعذ اب الیم وماکان اللہ لیعذ بھم و انت فیھم(الانفال،۳۳) اور جب بولے کہ اے اللہ!اگر یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی دردناک عذاب ہم پرلا اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرماہو۔(کنزالایمان)
صدرالافاضل علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:
‘‘یہ بات کہنے والا نضربن حارث تھا یا ابوجہل جیساکہ بخاری و مسلم کی حدیث ہے’’۔
عن عبد المجید صاحب الزیاد، سمع انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال ابو جہل! اللھم ان کان ھذ ا ھوالحق من عند ک فامطر علیناحجارۃ من السماء اوئتنا
بعذاب الیم فنزلت و ماکان اللہ لیعذ بھم وانت فیھم عبدالمجید صاحب‘‘زبادہ’’ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابوجہل نے کہااے اللہ!اگر یہ قرآن تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسایا ہم پر کوئی درد ناک عذاب نازل فرماتو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
[۸]ولاتقتلو النفس التی حرم اللہ الا بالحق۔(انعام۔۱۵۱)اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی ہے اسے ناحق نہ مارو۔(کنزالایمان)
اس آیت کریمہ میں لفظ‘‘حق’’ ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ محترم جان کسی حق کی وجہ سے مباح ہوجاتی ہے۔ صدرالافاضل علیہ الرحمہ اس آیت کریمہ کےتعلق سے احادیث کریمہ نقل فرماتے ہیں:
‘‘وہ امور جن سے قتل مباح ہوتاہے یہ ہیں۔مرتدہونا، یا قصاص یابیاہے ہوئے کا زنا بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ سید عالمﷺ نے تقریرفرمائی کہ کوئی مسلمان جس نے لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی گواہی دی ہو اس کا خون حلال نہیں، مگر ان تین سببوں میں سے کسی ایک سبب سے یاتو بیاہے ہونے کے باوجود اس سے زنا سرزد ہو۔یااس نے کسی کو ناحق قتل کیا ہو اور اس کا قصاص اس پر آتاہو یا دین چھوڑ کر مرتد ہوگیاہو۔
[۹]فتلقی آد م من ربہ کلمات فتاب علیہ انہ ھو التواب الرحیم(سورہ بقرہ۔۳۷) پھر سیکھ لئے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(کنزالایمان)
اس آیت کریم میں لفظ ‘‘کلمات’’مجمل واقع ہوا ہے کیونکہ اس سے آدم علیہ السلام کے ان الفاظ کا پتہ نہیں چلتاجن کے ذریعہ آدم علیہ السلام نے توبہ کی اور ان کو وسیلہ بنایاتھا اور وہ
کلمات قبولیت دعاکا سبب بنے۔
صدرالافاضل علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں
‘‘طبرانی حاکم و ابونعیم اور بیہقی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام پر عتاب ہوا تو آپ فکر میں توبہ میں حیران تھے اس پریشانی کے عالم میں یاد آیا کہ وقت پیدائش میں نے سر اٹھاکر دیکھا تھا کہ عرش پر لکھا ہے‘‘لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ’’میں سمجھاتھاکہ بارگاہ الہی میں وہ رتبہ کسی کو میسرنہیں جو حضرت محمدﷺ کو حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام اقدس کے ساتھ عرش پر مکتوب فرمایاہے۔ لہذا آپ نے اپنی دعامیں‘‘ربنا ظلمنا’’کے ساتھ یہ عرض کیا۔ اسئلک بحق محمد ان تغفرلی۔ ابن منذر کی روایت میں یہ کلمات ہیں اللھم انی اسئلک بجاہ محمد عبد ک و کرامتہ علیک ان تغفرلی خطیئتی۔یعنی اے رب میں تجھ سے تیرے بندہ خاص محمدﷺ کے جاہ ومرتبہ کے طفیل میں اور کرامت کے صدقے میں جو انہیں تیرے دربار میں حاصل ہے مغفرت چاہتاہوں۔یہ دعاکرنی تھی کہ اللہ نےان کی مغفرت فرمائی۔
[۱۰]واللہ ید عو االیٰ دارالسلام و یھد ی من یشاء الیٰ صراط مستقیم(یونس)
اوراللہ سلامتی کےگھر کی طرف پکارتا ہے اور جسے چاہتاہے سیدھی راہ چلاتا ہے(کنزالایمان) اس آیت کریمہ کے ضمن میں صدر الافاضل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
‘‘یہاں سیدھی راہ سے مراد دین اسلام ہے بخاری شریف کی حدیث یہی ہے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں فرشتے حاضرہوئے آپ خواب میں تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ آپ خواب میں ہیں اور بعض نے کہا آنکھیں خواب میں ہیں دل بیدار ہے۔ بعض کہنے لگے ان کی کوئی مثال بیان کرو تو انہوں نے کہا۔ جس طرح کسی شخص نے ایک مکان بنایا اور اس میں طرح طرح کی نعمتیں مہیا کیں اور ایک بلانے والے کو بھیجا کہ لوگوں کو بلائے۔ جس نے اس بلانے والے کی اطاعت کی اس مکان میں داخل ہوااوران نعمتوں کو کھایاپیا اور جس نے بلانے والے کی اطاعت نہ کی وہ نہ مکان میں داخل ہوسکا نہ کچھ کھاسکا۔ پھر وہ کہنے لگے کہ اس مثال کی تطبیق کرو کہ سمجھ میں آئے تطبیق یہ ہے کہ مکان جنت ہے داعی محمدﷺ ہیں جس نے ان کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اسی طرح دوسری آیت کریمہ ہے للذ ین احسنو الحسنی و زیادۃبھلائی والوں کے لئے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ (کنزالایمان) اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لفظ الحسنی یعنی بھلائی کے متعلق صدرالافاضل علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:
‘‘بھلائی والوں سے اللہ کے فرماں بردار بندے مومنین مراد ہیں۔اور یہ جو فرمایاگیا کہ ان کے لئے بھلائی ہے اس بھلائی سے جنت مراد ہے، اور زیارت اس پر دیدار الٰہی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گاکیاتم چاہتے ہو کہ تم پر اور زیادہ عنایت کروں؟ وہ عرض کریں گے یا رب کیا تو نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی؟ حضورﷺ نے فرمایا پھرپردہ اٹھادیاجائے گا۔ تو دیدار الٰہی انہیں ہر نعمت سے زیادہ پیاراہوگا۔ صحاح کی بہت سی حدیثیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ زیارت سے آیت میں دیدار الٰہی مراد ہے۔
[۱۱]اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی محمد کم بالف من الملئکۃ مردفین ۔(الانفال)
جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری سن لی کہ میں تمہیں مدددینے والا ہوں ہزار فرشتوں کی قطار سے(کنزالایمان)اس آیت مبارکہ میں جنگ بدرکا ذکر ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد نہایت قلیل تھی اور مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی تعداد زیادہ تھی۔ اسی وقت حضورﷺ نے اللہ رب العزت سے دعا فرمائی تھی اے اللہ اگر آج یہ تیرے بندے ہلاک ہوگئے تو روئے زمین پر تیری عبادت نہ ہوسکے گی۔جیساکہ صدرالافاضل علیہ الرحمہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے روزبدر رسوک اللہﷺ نے مشرکین کو ملاحظہ فرمایاکہ ہزار ہیں اور آپ کے اصحاب تین سو دس سے کچھ زیادہ ، تو حضور ﷺ قبلے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنےمبارک ہاتھ پھیلا کر اپنے رب سے یہ دعا کرنے لگے یارب جو تونے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے پورا کر یارب! جو تونے مجھ سے وعدہ کیا عنایت فرما۔ یارب اگرتواہل اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کردے گا توزمین میں تیری پرستش نہ ہوگی۔
اسی طرح حضور دعا کرتےرہے یہاں تک کہ دوش مبارک سے چادر اتر گئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور چادر مبارک دوش اقدس پر ڈالی اور عرض کیا یانبی اللہ آپ کی مناجات اپنےرب کے ساتھ کافی ہوئی۔ وہ بہت جلد اپناوعدہ پورافرمائے گا۔ امام مسلم نے حدیث پاک کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے۔
حد ثنی عمر بن الخطاب قال:لما کان یوم بد ر نظر رسول اللہ ﷺ الی المشرکین وھم الف ثلاث مائۃ و تسعۃ عشر رجلاالخ
[۱۲]فاذ ا جاء وعد ربی جعلہ دکاء وکان وعد ربی حقا(الکہف ۹۸)
پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے اسے پاش پاش کردیگا۔ اورمیرے رب کا وعدہ سچاہے۔(کنزالایمان)
اس آیت کریمہ میں یاجوج وماجوج اور سد سکندری کا تذکرہ ہے جو روزانہ اس دیوار کو توڑنے کی جدوجہد کرتے مگرجب توڑنے کے قریب ہوتے تو ان میں کا کوئی کہتاکہ باقی کو کل توڑیں گے۔ دوسرے دن پھر وہ ویسی ہوجاتی۔ صدرالافاضل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
‘‘حدیث شریف میں ہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اس دیوار کو توڑتے ہیں اور جب دن بھر محنت کر تے کرتے اس کو توڑنے کے قریب ہوتے ہیں تو ان میں کوئی کہتا ہے کہ اب چلو باقی کل توڑیں گے۔دوسرے روز جب آتے ہیں تو وہ بحکم الٰہی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے۔ جب ان کے خروج کا وقت آئے گا تو ان میں کہنےوالاکہے گا۔اب چلو باقی دیوار کل توڑیں گے ‘‘انشاءاللہ’’ انشاءاللہ کہنےکا یہ ثمرہ ہوگا کہ اس دن کی محنت رائگاں نہ جائے گی اور اگلے دن انہیں دیوار اتنی ٹوٹی ملے گی جتنی پہلے روز توڑ گئے تھے۔ اب وہ نکل آئیں گے اور زمین میں فساد اٹھائیں گے قتل و غارت کریں گے۔ اور چشموں کا پانی پی جائیں گے جانوروں اور درختوں اور جو آدمی ہاتھ آئیں گے ان کو کھاجائیں گے مکہ مکرمہ مدینہ طیبہ اور بیت المقدس میں داخل نہ ہوسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ بد دعائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام انہیں ہلاک کرے گا۔ اس طرح کہ ان کے گردوں میں کیڑے پیداہوں گے جو ان کی ہلاکت کا سبب ہوں گے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
عن ابی ہریرۃ من النبی و فی السد قال ‘‘یحفرونہ کل یوم حتی اذا کاد ویخرقونہ قال الذ ی علیھم ارجعو فستخرقوانہ غداانشاءاللہ، قال فیرجعونہ فیجدونہ کھیئۃ حین ترکوا فیخرقونہ ویخرجون علی الناس فیستقون المیاہو یفر الناس منھم فیرمون بسھامھم الی السماء فترجع نحضبۃ بالدعاء فیقولون قھرنا من الارض و علونامن السماء فیبعث اللہ علیہم نغفافی اقصائھم فیھلکون قال فوالذ ین نفس محمد [ﷺ]بید ہ ان د واب الارضتسمن و تبطر و تشکر شکرا من لھو مھم۔ قال ابوعیسیٰ ھذاحدیث حسن غریب، انما نعرفہ من ھذالوجہ مثل ھذا(اخرجہ الترمذ ی، کتاب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ الکہف) الخ۔
[۱۴]ما کان من علم بالملاء الاعلیٰاذ یختصمون ان یوحی الی الاانما انا نذ یر مبین (ص۶۹۔۷۰)
مجھے عالم بالا کی کیاخبرتھی۔ جب وہ جھگڑے تھے۔ مجھے تو یہی وحی ہوتی ہے کہ میں نہیں مگر ڈر سنانے والا(کنزالایمان)اسی آیت کریمہ میں ‘‘یختصمون’’ہے جو کسی کے جھگڑنے پر دلالت کررہا ہے اس سے کیا مراد ہے اور یہ نزاع و جھگڑا کس کے درمیان تھا۔ اور اس کی نوعیت کیا تھی؟ مغلق ہے۔ اب حدیث کی طرف رجوع کیا تومعلوم ہوا کہ یہ جھگڑا اور نزع فرشتوں کے درمیان تھا۔ جو حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق بحث و مباحثہ میں مشغول تھے، چنانچہ صدرالافاضل علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:
‘‘یعنی فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کے باب میں، یہ حضرت سید عالمﷺ کے صحت نبوت کی ایک دلیل ہے۔مدعایہ ہے کہ عالم بالا میں فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کے باب میں سوال وجواب کرنا مجھے کیامعلوم ہوتا۔اگر میں نبی نہ ہوتا اس کی خبردینا میر ی نبوت اور میرے پاس وحی آنے کی دلیل ہے۔
دارمی وترمذی کی حدیثوں میں ہے،سیدعالمﷺنےفرمایاکہ میں بہترین حال میں اپنے رب عزوجل کے دیدار سے مشرف ہوا۔(حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں۔ کہ میرے خیال میں یہ واقع خواب کا ہے)حضور فرماتے ہیں: کہ حضرت رب العزت عزوعلا تبارک و تعالیٰ نے فرمایااے محمدﷺ!عالم بالا کے ملائکہ کس بحث میں ہیں؟ میں نے عرض کیا یارب! توہی دانا ہے، حضور نے فرمایا۔پھررب العزت نے اپنا دست رحمت و کرم میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور میں نے اس کے فیض کا اثر قلب مبارک میں پایاتوآسمان و زمین کی تمام چیزیں میرے علم میں آگئیں۔پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:اے محمدﷺ کیا تم جانتے ہو کہ عالم بالا کے ملائکہ کس امر میں بحث کررہے ہیں؟ میں نے عرض کیا ہاں، اے رب میں جانتا ہوں وہ کفارات میں بحث کررہے ہیں۔اور کفارات یہ ہیں نمازوں کے بعد مسجدوں میں ٹھہرنا اور پیادہ پا جماعتوں کے لئے جانااور جس وقت سردی وغیرہ کے باعث پانی کا استعمال ناگوار ہو اس وقت اچھی طرح وضو کرناجس نے یہ کیا اس کی زندگی بھی بہتر موت بھی بہتراور گناہوں سے ایساپاک و صاف نکلے گا جیسااپنی ولادت کے دن تھا۔ اور فرمایا اے محمدﷺ نماز کے بعد یہ دعاکیاکرو‘‘الھم انی اسئلک فعل الخیرات و ترک المنکرات و حب المساکین و اذا اردت یعبادک فتنۃ فاقبضنی الیک غیر مفتون’’(اخرجہ الترمذی کتب التفسیر۔باب ومن سورۃ صٓ)
[۱۵]ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ(الحشر۔۹)
اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر چہ انہیں شدید محتاجی ہو۔کنزالایمان۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ صحابہ کرام کے ایثاروفاکو بیان فرمایاہے۔ جب انہوں نے اسلام کا دامن تھاما تو ان کی زندگی میں کس طرح تبدیلی آئی اور کس قدر نرم ہوگئے جب کہ ان کا حال یہ تھا کہ بات بات پر کشت و خون کی نوبت آجاتی تھی اور اب حال یہ ہے کہ خود بھوکے اور بچوں کو بھی بھوکا رکھ کر ایک اجنبی پر سب کچھ نچھاورکرتے ہوئے دکھلائی دیتے ہیں۔ چنانچہ صدرالافاضل علیہ الرحمہ حدیث پاک کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔
‘‘یعنی مہاجرین، حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ کی خدمت میں ایک بھوکا شخص آیا حضور ﷺ نے ازواج مطہرات کے حجروں میں معلوم کرایا۔کیاکھانے کی کوئی چیز ہے؟ معلوم ہوا کسی بی بی صاحبہ کے یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ تب حضور نے اصحاب سے فرمایاجو اس شخص کو مہمان بنائے اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے۔ حضرت ابوطلحہ انصاری کھڑے ہوئے اور حضورﷺ سے اجازت لے کر مہمان کو اپنے گھرلےگئے۔ گھر جاکر بیوی سے کہا کیا کچھ ہے؟ انہوں نے کہاکچھ نہیں صرف بچوں کے لئے تھوڑاسا کھانارکھاہے۔ حضرت ابوطلحٰہ نے فرمایا۔ بچوں کو بہلاکر سلادو، اور جب مہمان کھانے بیٹھےتوچراغ کو بجھادو تاکہ وہ اچھی طرح کھالے یہ اسی لئے کیاتاکہ مہمان یہ نہ جان سکے کہ اہل خانہ اس کے ساتھ نہیں کھارہے ہیں کیوں کہ اس کویہ معلوم ہوگاتووہ اصرار کرےگا اورکھانا کم ہے اور وہ بھوکا رہ جائے گا۔ اس طرح مہمان کو کھلایا اور خود تمام نے بھوکے رہ کر رات گذاری، جب صبح ہوئی تو سید عالمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے توحضورﷺ نے فرمایا!رات فلاں فلاں لوگوں میں عجیب معاملہ پیش آیااللہ تعالیٰ ان سب سے بہت راضی ہے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔(اخرجہ البخار۔کتاب مناقب الانصار۔باب۱۰)