اہل سنت وجماعت کون؟

اہل سنت وجماعت کون؟

 کانفرنس کی روداد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، اما بعد

فقیر انوار احمد بغدادی چیچنیا کے صدر عزت مآب رمضان قدیروف (اللہ تعالی ان کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ) کی دعوت پر مورخہ۲۱؍ذو القعدہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۵؍اگست۲۰۱۶ء جمعرات کی شام چیچنیا کی راجدھانی گروزنی پہونچا .

واضح رہے کہ اس کانفرنس کا انعقاد عزت مآب صدر الحاج احمد قادیروف علیہ الرحمہ کی برسی کے موقع پر “اہل سنت وجماعت کون ہے؟ ان کے معتقدات کیا ہیں؟اس سے انحراف پرمرتب ہونے والے اثرات کیا ہیں‘‘۔ کے عنوان سے ہوا ،اس کی دیکھ ریکھ چیچنیا کے صدر رمضان قادیروف اوراس کی سرپرستی شیخ ازہر نے کی ، جبکہ پوری دنیا سے تقریبا ۲۰۰ سو علما نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کاانعقادایک ایسے وقت میں ہوا جب کہ غیر اسلامی سرگرمیوں سے دین حق کی شبیہ داغ دار کرنے والی خارجی جماعتیں” اہل سنت وجماعت “ کا مبارک ومسعود لقب چھین کر اپنے اوپر منطبق کرنے کی ناکام کوششیں کر رہی ہیں۔

اسٹیج پر شیخ الازہر امام اکبر شیخ احمد طیب صاحب ، مصر کے سابق مفتی جمہوریہ حضرت علامہ علی جمعہ صاحب ، صوفی با صفا حضرت علامہ عمر بن الحفیظ الیمنی صاحب ، وغیرہ موجود تھے ۔ تلاوت کلام پاک کے بعد افتتاحی خطاب صدر جمہوریہ جناب رمضان قدیروف کا ہونا تھا مگر کسی مصروفیت کی بنا پر وہ نہ آ سکے اس لئے ان کی جگہ ان کے نائب نے خطاب کیا ، ان کے بعد روسی صدر کے مندوب کا خطاب ہوا پھر مائک امام اکبر علامہ شیخ طیب صاحب قبلہ کے حوالے کیا گیا آپ نے نہایت خوبصورت اور جامع تقریر فرمائی کہ دل باغ باغ ہوگیا ۔شیخ الازہر کے بعد قوقاز کے ایک بڑے عالم دین کا خطاب ہوا پھر مفتی چیچنیا شیخ صلاح الدین مجیدوف نے عربی زبان میں ایک خوبصورت تقریر کی ،جس میں کانفرنس کی اہمیت اور چیچینیا میں اہل سنت وجماعت کے تعلق سے مختصر بیان پیش کیا ۔ ان کے بعد روس کے مفتی عام راوی عین الدین کا بیان ہوا اور پھر اختتام پر مصر کے سابق مفتی اعظم شیخ علی جمعہ صاحب نے اپنا اختتامیہ پیش فرمایا جو الختام مسک کا بہترین نمونہ تھا۔ پھر دعا کے لئے عارف باللہ سیدی عمر بن الحفیظ کو یاد کیا گیاا ٓپ نے نہایت رقت آمیز دعا فرمائی کہ ایک روحانی سماں قائم ہوگئی ، اخیر میں فاتحہ پر یہ مجلس برخواست ہو گئی ۔

پندرہ منٹ کے وقفہ کے بعد با ضابطہ علمی بحوث ومقالات کی مجلسیں شروع ہوئیں جن میں نہایت قیمتی ابحاث پیش کئے گئے ۔اس دن کی پہلی مجلس تقریبا ساڑھے نو بجے شروع ہوکر ایک گھنٹہ سے زائد چلی ۔ اس پہلی مجلس کی صدارت مفتی مصر ڈاکٹر شوقی علام نے فرمائی اور جارڈن سے تشریف لانے والے ڈاکٹر سعید فودہ نے اپنا قیمتی مقالہ بعنوان : ‘‘تعریف عام باھل السنہ والجماعہ’’ پیش فرمایا ۔ جبکہ تبصرہ اور تعقیب کا فریضہ سعودی عربیہ سے تشریف لانے والے ایک با صلاحیت سنی عالم دین حضرت علامہ شیخ شریف حاتم بن عارف العونی نے انجام دیا ۔

اس طرح پہلے دن کی کاروائی اپنے اختتام کو پہونچی۔دوسرے دن یعنی جمعہ کی شام کل تین مجلسیں منعقد ہوئیں ان مجلسوں کا بنیادی محور گفتگو عقیدہ تھا ،البتہ ہر مجلس کا عنوان الگ الگ تھا ، پہلی مجلس جو شام چار بجے شروع ہوئی ، اس مجلس کا عنوان تھا   کہ ہر زمانے میں اہل سنت ہی غالب رہے ، اور وہی سواد اعظم کہلانے کے مستحق رہے، اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر محمد عدنان افیونی نے کی جب امارات عربیہ سے تشریف لانے والے ایک با صلاحیت جید عالم دین ڈاکٹر سیف علی عصری نے اپنا مقالہ بعنوان: الاشاعرہ والاماتریدیہ ھم السواد الاعظم(اشعری اور ماتریدی ہی سواد اعظم ہیں) پیش فرمایا۔

اس مقالہ میں ڈاکٹر صاحب نے امام اشعری اور ماتریدی علیہما الرحمہ کا جامع تعارف پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان دونوں شخصیتوں نے اسلام کے اندر کسی نئے نظرئے کی بنیاد نہیں ڈالی ہے بلکہ انھوں نے محض کتاب وسنت اور صحابہ وتابعین کے ماثورات کی صحیح علمی تشریح کی ہے ۔اور انھیں کے تشریح کردہ اسلامی نظریات پر ہی ہمیشہ سے مسلمانوں کی بڑی جماعتیں قائم رہی ہیں ۔

اس دن کی دوسری مجلس تقریبا چھ بجے شروع ہوئی جس کا عنوان تھا کہ مذاہب اربعہ ہی اہل سنت ہیں ۔ اس مجلس کی صدارت سرزمین ہند سے تشریف لے جانے والی ایک نہایت مشہور معروف شخصیت، علامہ شیخ ابو بکر احمد ملیباری نے کی ۔ مقالہ شیخ انس شرقاوی نے پیش کیا ان کے مقالے کا عنوان تھا : المذاہب الاربعہ ہم اہل السنۃ والجماعہ وہم السواد الاعظم فی الامۃ الاسلامیۃ (مذاہب اربعہ ہی اہل سنت وجماعت ہیں اور یہی امت اسلامیہ کے سواد اعظم ہیں ۔

جمعہ کی تیسری مجلس ساڑھے سات بجے شروع ہوئی ، اس مجلس کا عنوان تھا : مذہبیت کی اہمیت اور زمینی زندگی پر لا مذہبیت کی بد نظمی کا اثر۔ صدر اجلاس شیخ سعید بوطی کے صاحبزادے ڈاکٹر توفیق بوطی صاحب تھے جب کہ مراکش سے تشریف لانے والے ایک عظیم مفکر ، زبان وبیان کے ماہر ڈاکٹڑ احمد العبادی صاحب نے مذکورہ بالا عنوان پر اپنا نہایت قیمتی اور علمی مقالہ پیش فرمایا ۔

کانفرنس کے تیسرے اور آخری دن کا پروگرام دوحصوں پر منقسم تھا، صبح اور شام ،دونوں وقتوں میں دو دو مجلسیں منعقد ہوئیں ، صبح کی دونوں مجلسوں کا بنیادی محور تصوف تھا جب کہ شام کی دونوں مجلسوں کا بنیادی محور زمینی حقیقت پر اتر کر مسائل کا تدارک تھا۔صبح کی پہلی مجلس نو بجے شروع ہو کر ساڑھے دس بجے اختتام پذیر ہوئی ، اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر عبد الھادی قصبی نے کی ، جب کہ ڈاکٹر ادریس فہری نے بعنوان : ‘‘بیان انہ علی مدی التاریخ اھل السنۃ والجماعہ ھم الصوفیہ’’ (پوری تاریخ میں صوفیائے کرام ہی اہل سنت وجماعت رہے ہیں ) اپنا مقالہ پیش کیا ۔

صبح کی دوسری مجلس کا عنوان تھا: ‘‘ ماھیۃ التصوف وسمات اھل الطریق ’’ ( تصوف کی ماہیت اور اہل سلاسل کی خصوصیات) ، مقالہ نگار تھے عالم اسلام کی نابغہ روزگار شخصیت عارف باللہ شیخ باصفا حضرت علامہ حبیب عمر بن حفیظ (حفظہ اللہ) جنھوں نے اس موضوع کا حق ادا کردیا بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ دل سے نکلی ہوئی باتیں دلوں میں پیوست ہو کر رہ گئیں اور پورے مجمع پر اس وقت تک روحانی کیفیت طاری رہی جب تک آپ بولتے رہے ۔ اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر محمد محمود ہاشم نے فرمائی۔

صبح کی طرح شام میں بھی دو مجلسیں منعقد ہوئیں ، پہلی مجلس کا عنوان تھا : عقیدۃ المحدثین مذاھبھم وصلتھم بالتصوف، (محدثین کرام کا عقیدہ ان کے فقہی مذاہب اور تصوف سے ان کا تعلق) مقالہ نگار تھے مصر سے تشریف لانے والے بے باک متکلم شیخ اسامہ سید ازہری صاحب جنھوں نے مستند حوالوں سے یہ ثابت کیا کہ محدثین کا عقیدہ وہ نہیں تھا جیسا کہ موجودہ زمانے کے سلفی حضرات دعوی کر رہے ہیں بلکہ وہ عقیدہ کے اعتبار سے اہل سنت جماعت تھے مذاہب اربعہ کے پیرو کار تھے اور تصوف سے ان گہرا ربط تھا۔ اس مجلس کی صدارت شیخ خالد سانا نے فرمائی ۔

جب کہ شام کی آخری مجلس کا عنوان تھا : الخروج عن مذھب اھل السنۃ واثرہ فی الواقع (اہل سنت سے بغاوت اور معاشرے پر اس کے اثرات) اس مجلس کے مقالہ نگار تھے عالم اسلام کی عظیم شخصیت نابغہ روزگا شیخ حبیب علی جفری مد ظلہ جنھوں نے اپنا مقالہ بعنوان : آثار الخروج عن المنھج الاصیل لاھل السنہ والجماعۃ علی الواقع (معاشرے پر اہل سنت وجماعت کے اصلی منہج سے بغاوت کے آثار ) پیش فرمایا ۔ اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر ابراھیم مریخی نے کی۔

شیخ جفری صاحب نے اپنے مضمون میں اختصار کے ساتھ اہل سنت وجماعت کا منہج بیان فرماتے ہوئے لکھا کہ چوں کہ یہ منہج عقل ونقل کا جامع تھا اسی لئے آفاق عالم کی وسعتوں میں سما گیا اور اسی جامعیت نے ہر زمانے کے نت نئے مسائل کا حل بھی پیش کیا اور تہذیب وتعمیر کی دنیا میں مثالی کارنامہ بھی ۔

شیخ صاحب نے اس منہج سے بغاوت کے آثار کی جھلکیاں درج ذیل نقاط میں پیش کئے:

٭محدودیت اور تنگ نظری۔٭کراہیت اور نا پسندیدگی پھیلانا۔٭اختلافی مسائل کو عقائد کا درجہ دینا ٭ مذہبی فرقہ واریت کو ہو دینا ٭ جہاد کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کر نا٭ اخلاقی اصول کا خون کرنا ٭ من گھڑت عقائد ونظریات پیش کرنا۔ وغیرہ۔

حضرت نے نہایت ہی دکھ بھرے انداز میں فرمایا کہ تشدد کی جو لہر مسلمانوں میں دیکھی جا رہی ہے آنے والی نسلوں پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے اس لئے تشدد کا تدارک نہایت ضروری ہے ۔

ان مقالات کے اختتام کے موقع پر آخری گفتگو عالم اسلام کے ہیرو شیخ علی جمعہ کی ہوئی ۔ پھرسب سے آخر میں شیخ اسامہ ازہری نے کانفرنس کی قرار دادپیش کی۔دنیا بھر سے آئے ہوئے دیگر علما میں سے کچھ نے تو بحث ومباحثہ میں حصہ لیا اور اکثر وبیشتر کی خاموشی ہی کانفرنس میں پیش ہونے والے مقالات اور قرار دادوں کی تائید تھی۔


متعلقہ

تجویزوآراء