حضرت سیدنور الحسن شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت سید نورالحسن۔لقب: سراج السالکین،عمدۃ العارفین۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:عارف کامل حضرت سید نور الحسن شاہ بن حضرت سید غلام علی شاہ بن حضرت سید حیات شاہ۔علیہم الرحمہ۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام حسین تک پہنچتا ہے۔آپ کے آباؤ اجداد با کمال بزرگ تھے۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:551)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 27/جمادی الاول 1306ھ مطابق 30/جنوری 1889ء بروز بدھ،بوقتِ شب ’’ کیلیانوالہ شریف‘‘ ضلع گوجرانولہ پنجاب پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ کی طبع سلیم میں ابتداء ہی سے تقویٰ و طہارت اور نیکی کے جذبات بدرجۂ اتم موجود تھے۔ظاہری تعلیم کے لئے آپ پہلے احمدنگر اور پھرقصبہ رسول نگر کے اسکول میں داخل ہوئے اور پرائمری پاس کر کے اسکول چھوڑد یا، کچھ عرصہ بعد کیلیا نوالہ شریف کے خوشنویس مولانا نور الٰہی سے فن خوشنویس سیکھا، پھر کچھ عرصہ ٹھیکداری بھی کرتے رہے۔بعد ازاں چک 14ضلع شیخو پورہ میں منتقل ہو گئے۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت میاں شیر محمد شرق پوری کےمرید وخلیفہ تھے۔
سیرت وخصائص: سراج السالکین،عمدۃ العارفین حضرت سید نورالحسن شاہ بخاری ۔آپکاشمار اپنےوقت کےمشائخِ کبار میں ہوتا ہے۔ آپ نےاشاعتِ اسلام میں بڑی کوشش فرمائی۔مسلکِ حق کےدفاع میں ساری زندگی مصروف رہے۔آپ کی کوشش سے بہت سےحضرات راہ راست پر آئے۔کیلیا نوالہ شریف کے خاندان سادات کے بہت سے افراد شیعہ ہو گئےتھے۔ابتداءً انہی کے زیر اثر آپ بھی تشیع سے متاثر تھے لیکن موجودہ دور کے شیعوں کے بر عکس نماز اور روزہ کے پابند تھے۔قدرت نے آپ کو بڑی دل کش اور پر سوزآواز عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ جب آپ بیان فرماتے تو سامعین بڑے اشتیاق سے سنتے،نعت بھی بڑے سوزوگذار سے پڑھتے۔ایک دفعہ شر قپور شریف جاکر بیان کیا تو دھوم مچ گئی،کسی نے جاکر عارف ربانی حضرت میاں شیر محمد شر قپوری قدس سرہ سے ذکر کیا توآپ نے فرمایا ’’شاید یہ ہی ہمارا کام دیں‘‘ ولی کامل کی زبان سے نکلا ہوا یہ جملہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوا اور حضرت سید نور الحسن شاہ بخاری کا حضرت میاں شیر محمد شر قپوری سے وہ رابطہ قائم ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی رہا اور آپ کے ذریعہ رشد و ہدایت کا ایسا چشمہ جاری ہوا جس سے لاکھوں تشنہ کام سیراب ہوئے۔
حضرت شرقپوریکے حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کے بعد آپ نے شر قپور شریف میں قیام کے دوران قرآن مجید پڑھا اور مرشد کامل کی نگاہ سے وہ فیوض حاصل کئے کہ آپ کی تحریر و تقریر بڑے بڑے علماء کو حیرت زدہ کر دیتی تھی۔آپ اکثر و بیشتر سفر و حضر میں حضرت میاں صاحب کے ساتھ رہا کرتے تھے اور ایک وقت وہ آیا کہ حضرت میاں صاحب نے آپ کو اجازت و خلافت مرحمت فرمائی اور آپ ان کے اکابر خلفاء میں شمار ہوئے۔جب آپ حضرت شیر ربانی قدس سرہ کے حکم سے آپ کیلیا نوالہ شریف میں منتقل ہوئے تو شیعوں نے مزاحمت شروع کردی اور طرح طرح سے در پئے آزار ہوئے،مقدمہ بازی اور قاتلانہ حملے تک نوبت پہنچی لیکن آپ کمال حلم سے سب کچھ برداشت کرتے رہے حتیٰ کہ مخالفین کو نا کامی کا مُنہ دیکھنا پڑا،اور آپ کے فیض کا آفتاب دن بدن عرو ج پر رہا۔
حضرت شاہ صاحب اپنے دور کے وہ عظیم روحانی پیشوا تھے جن کے ذریعے ان گنت افراد راہِ راست پر آئے اور بے شمار منزل مقصود کو پہنچے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم لدنی کی دولت سے نوازا تھا ۔مشکل سے مشکل مسئلہ پر گفتگوفرماتے اور اسے منٹوں میں حل فرمادیتے۔ ایک دفعہ مکان شریف (انڈیا) میں عرس کے موقع پر مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری (احراری)سے مسئلۂ علم غیب پر گفتگو ہوئی جس میں شاہ جی کو آپ کا موقف تسلیم کرنا پڑا۔ آپ کی تصنیف جلیل ’’الانسان فی القرآن‘‘ تبحر علمی کا بہترین شاہکار ہے۔ جس میں آپ نے مختلف موضوعات پر شرح صدر سے گفتگو فرمائی ہے اور بعض اختلافی مسائل کو بڑے حکیمانہ انداز سے سلجھایا ہے۔اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ؏: دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا۔۔۔۔۔
تحریکِ پاکستان میں کردار: آپ دو قومی نظریے کے زبردست حامی اور مؤید تھے یہی وجہ تھی کہ آپ کانگریسی اور احراری لیڈروں کے مسموم اثرات کے ازالے کے لئے کوشاں رہے چنانچہ ایک مرتبہ مشہور احراری لیڈر ملک لعل خاں سے دوران گفتگو فرمایا:’’فرمان مولیٰ کریم ہے۔ انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین امنو۔۔ یعنی حقیقۃً تمہارے دوست اور سر پرست اللہ تعالیٰ،اس کے رسول اور ایماندار بندگان خدا ہیں، ایک مسلمان کے لئے تو یہی پیشوا اور راہنما ہیں،ان کے فرمان تو عرض کرہی دئے اب ان کے سوا آپ کےلئے گاندھی اور نہرو کا فرمان واجب العمل ہوگا جو سوائے جہنم کے ہمیں کسی راستے پر نہیں لےجا سکتا‘‘۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:553)
آپ کی شبانہ روز زندگی عبادت اور ذکر و فکرمیں بسر ہوتی تھی،سب سے پہلے مریدوں اور عقیدت مندوں کو شریعت مبارکہ کی اتباع کی تلقین فرماتے،اس کے بعد اورادووظائف کی باری آتی ۔آپ مکان شریف اور شر قپور شریف سے فارغ ہو کر لاہور تشریف لے جاتے اور حضرت داتا گنج بخش ہجویری قدس سرہ کے مزار پر انوار پر ضرور حاضر ی دیتے،بعض اوقات حضرت شاہ محمد غوث کے مزار شریف پر بھی حاضر ہوتے۔آپ کے حلقۂ ارادت میں بڑے بڑے علماء شامل ہوئے،چند ایک کے نام،جو معلوم ہو سکےیہ ہیں:
1۔ حضرت مولانا سید جلال الدین شاہ بانی و مہتمم جامعہ محمدیہ رضویہ نوریہ بھکھی شریف۔(والد سید عرفان شاہ مشہدی مدظلہ العالی)
2۔ حضرت مولانا محمد نوزا صدر مدرس مدرسہ مذکورہ۔(استاد محترم ڈاکٹر اشرف آصف جلالی مدظلہ العالی)
3۔ مولانا سید منیر حسین شاہ جو کالوی،مؤلف، انشراح الصدور بتذکرۃ النور (سوانح حیات حضرت شاہ صاحب ممدوح قدس سرہ)
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 3/ربیع الاول1372ھ مطابق 21/نومبر1952ء کوجمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب گیارہ بج کر پچیس منٹ پر 63 برس کی عمر میں ہوا۔کیلیانوالہ شریف ضلع گوجرانولہ میں مزار شریف مرجعِ خلائق ہے۔آپ کےوصال کےبعد بڑے صاحبزادے حضرت سید محمد باقر شاہ سجادہ نشین ہوئے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔انشراح الصدور بتذکرۃ النور۔اس کتاب میں آپ کےمفصل حالات بیان کیے گئے ہیں۔
مولانا محمد عبد اللہ کنجاہی نے درج ذیل تاریخ وفات کہی :
سید السادات فرزند رسول۔۔۔۔۔جامع الحسنات،دلبند بتول
ماجی بدعات،ابن مرتضیٰ۔۔۔۔۔۔قرۃ العین ِ شہیدِ کربلا
راحتِ جانِ جناب شاہ حسن۔۔۔سیدی سندی شہ نور الحسن
نور کامل ز آفتاب شر قپور۔۔۔۔بے شبہ بُد ماہتاب شر قپور
بود غوث وقت ہم قطب ِرشاد۔۔ہر کہ آمد بر درش شد بامراد
کرد ر حلت ازفنا سوئے بقا۔۔۔مخلصاں را رنج و غم،آہ وبکا
مہ ربیع اول،سوم تاریخ بود۔۔۔چوں بیامد روح پاکش در صعود
گفت تاریخ وصالش مولوی۔۔۔ خادم شاہ سلیماں تونسوی
رفت خضر راہ دعا گودرجناں۔۔۔’’پیر نور الحسن شاہ عارف زماں‘‘
’’ذاکر حق پیر نور الحسن شاہ‘‘۔۔۔’’رحمت حق صلہ یافت‘‘از بارگاہ
1372