سراج السالکین عارف کامل حضرت سید نور الحسن شاہ بکاری (کلیانوالہ شریف)

سراج السالکین عارف کامل حضرت سید نور الحسن شاہ بکاری (کلیانوالہ شریف) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

          عارف کامل حضرت سید نور الحسن شاہ ابن حضرت سید غلام شاہ ابن حضرت سید حیات شاہ (قدست اسرارہم) ۲۷؍جمادی الاولیٰ،۳۰ جنوری(۱۳۰۶ھ؍۱۸۸۹ئ) چہار شنبہ کی شب کیلیا نوالہ شریف ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔آپ کے آباء اجداد با کمال بزرگ تھے۔آپ کی طبع سلیم میں ابتداء ہی سے تقویٰ و طہارت اور نیکی کے جذبات بدرجۂ اتم موجود تھے ظاہری تعلیم کے لئے آپ پہلے احمد نگر اور پھر قصبہ رسول نگر کے اسکول میں داخل ہوئے اور پرائمری پاس کر کے سکول چھوڑد یا،کچھ عرسہ بعد کیلیا نوالہ شرف کے خوشنویس مولانا نور الٰہی سے فن خوشنویسی سیکھا،پھر کچھ عرصہ ٹھیکدار کرتے رہے، بعد ازاں چک ۱۴ضلع شیخو پورہ میں منتقل ہو گئے۔

          کیلیا نوالہ شرف کے خاندان ساوات کے بہت سے افراد شیعہ ہو گء ے تھے،انہی کے زیر اثر آپ بھی تشیع سے متاث تھے لیکن موجودہ دور کے شیعہ کے بر عکس نماز اور روزہ کے پابند تھے،قدرت نے آپ کو بڑی دلکش اور پر سوزآواز عطا فرمائی ت ھی چنانچہ جب ااپ جلس پڑھتے تو سامعین بڑے اشتیاق سے سنتے،نعت بھی بڑے سوزوگذار سے پڑھتے۔ایک دفعہ شر قپور شریف جاکر مجلس پڑھی تو دھوم م چ گئی،کسی نے جاکر عارف ربانی حضرت میاں شیر محمد شر قپوری قدس سرہ سے ذکر کیا توآپ نے فرمایا ’’شاید یہ ہی ہمارا کام دیں‘‘ ولی کامل کی زبان سے نکلا ہوا یہ جملہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوا اور حضرت سید نور الحسن شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت میاں شیر محمد شر قپوری سے وہ رابطہ قائم ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی رہا اور آپ کے ذریعہ رشد و ہدایت کا ایسا چشمہ جاری ہوا جس سے لاکھوں تشنہ کام سیراب ہوئے۔

          حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کے بعد آپ نے شر قپور شریف میں قیام کے دوران قرآن مجید پڑھا اور مرشد کامل کینگاہ سے وہ فیوض حاصل کئے کہآپکی تحریر و تقریر بڑے علماء کو حیرت زدہ کر دیتی تھی۔آپ اکثر و بیشتر سفر و حضرت میں حضرت میاں صاحب کے ساتھ رہا کرتے تھے اور ایک وقت وہ آیا کہ حضرت میاں صاحب نیآپ کو اجازت و خلافت مرحمت فرمائی اور آپ ان کے اکابر خلفاء میں شمار ہوئے،جب آپ حضرت شیر ربانی قدس سرہ کے حکم سے حضرت کیلیا نوالہ شریف میں منتقل ہوئے تو شیعوں نے مزاحمت شروع کردی اور طرح طرح سے در پئے آزار ہوئے،مقدمہ بازی اور قاتلانہ حملے تک نوبت پہنچی لیکن آپ کمال حلم سے سب کچھ برداشت کرتے رہے حتیٰ کہ مخلافین کو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا،اور آپ کے فیض کا آفتاب دن بدن عرو ج پر رہا۔

          حضرت شاہ صاحب اپنے دور کے وہ عظیم روحانی پیشوا تھے جن کے ذریعے ان گنت افراور راہ راست پر آئے اور بے شمار منزل مقصود کو پہنچے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم لدنی کی دولت سے نوازا تھا ۔مشکل سے مشکل مسئلہ پر گفتگوفرماتے اور اسے منٹوں میں حل فرمادیتے ایک دفعہ مکان شریف میں عرس کے موقع پر مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری سے مسئلۂ علم غیب پر گفتگو ہوئی جس میں شاہ جی کو آپ کا موقف تسلیم کرنا پڑا۔ آپ کی تصنیف جلیل الانسان فے القرآن تجر علمی کا بہترین شاہکار ہے جس میں آپ نے مختلف موضوعات پر شرح صدر سے گفتگو فرمائی ہے اور بعض اختلافی مسائل کو بڑے حکیمانہ انداز سے سلجھایا ہے۔اس کتاب کے مطالعہ کے بعد اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

          آپ دو قومی نظیر یہ کے زبردست حامی اور مؤید تھے یہی وجہ تھی کہ آپ کانگرسی اور احراری لیڈروں کے مسموم اثرات کے ازالے کے لئے کوشاں رہے چنانچہ ایک مرتبہ مشہور احراری لیڈر ملک لعل خاں سے دوران گفتگو فرمایا:

’’فرمان مولیٰ کریم ہے انما ولیکماللہ ورسولہٗ والذین امنو یعنی حقیقۃً تمہارے دوست اور سر پرست اللہ تعالیٰ،اس کے رسول اور ایماندار بندگان خدا ہیں، ایک مسلمان کے لئے تو یہی پیشوا اور رہنما ہیں،ان کے فرمان تو عرض کرہی دئے اب ان کے سوا آپ کو گاندھی اور نہر و کا فرمان واجب العمل ہوگا جو سائے جہنم کے ہمیں کسی راستے پر نہیں لیجا سکتا [1] ‘‘

          آپ کی شبانہ روز زندگی عبادت اور ذکر و فکرمیں بسر ہوتی تھی، مریدوں اور عقیدتمندوں کو بھی شریعت مبارکہ کی اتباع کی تلقین فرماتے،اس کے بعداور ادو وظائف کی باری آتی آپ مکان شریف اور شر قپور شریف سے فارغ ہو کر لاہور تشریف لے جاتے اور حضرت داتا گنج بخش ہجویری قدس سرہ کے مزار پر انوار پر ضرور حاضر ی دیتے،بعض اوقات حضرت شاہ محمد غوث رحمہاللہ تعالیٰ کے مزار شریف پر بھی حاضر ہوتے۔

          آپ کے حلقۂ ارادت میں بڑے بڑے علماء شامل ہوئے،چند ایک کے نام،جو معلوم ہو سکے،یہ ہیں:۔

۱۔ حضرت مولانا سید جلا الدین شاہ مدطلہ العالی بانی و مہتمم جامعہ م حمدیہ رضویہ نوریہ بھکبھی شریف۔

۲۔ حضرت مولانا محمد نوزاز مدظلہ العالی صدر مدرس مدرسہ مذکورہ۔

۳۔ حضرت مولانا سید منصور شاہ مدظلہ العالی مدرس جامعہ رضویہ لائل پور۔

۴۔ مولانا سید منیر حسین شاہ جو کالوی،مؤلف انشراح الصدور تبذکرۃ النور (سوانح حیات حضرت شاہ صاحب مدوح قدس سرہ(

          ۳؍ربیع الاول۔۲۱،نومبر(۱۳۷۲ھ؍۱۹۵۲ئ) جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب گیارہ بجکر پچیس منٹ پر ۲۳برس کی عمر میں یہ آفتاب ولایت عازم فردوس ہوا، حضرت کیلیا نوالہ شریف میں آپ کا مرقد منور مرجع خلائق ہے۔آپ کے وصال کے بعد بڑے صاحبزادے حضرت سید محمد باقر علی شاہ مدطلہ العالی سجادہ نشین ہوئے۔

مولانا محمد عبد اللہ کنجاہی نے درج ذیل تاریخ وفات کہی   ؎

سید السادات فرزند رسول

جامع الحسنات،دلبند بتول

ماجی بدعات،ابن مرتضیٰ

قرۃ العین شہید کربلا

راحت جان جناب شاہ حسن

سیدی سندی شہ نور الحسن

نور کامل ز آفتاب شر قپور

بے شبہ بد ماہتاب شر قپور

بود غوث وقت ہم قطب رشاد

ہر کہ آمد بردرش شد بامراد

کر در حلت ازفنا سوئے بقا

مخلصاں رارنج و غم،آہ وبکا

مہ ربیع اول،سوم تاریخ بود

چوں بیامد روح پاکش در صعود

گفت تاریخ وصالش مولوی

خادم شاہ سلیماں تونسوی

رفت خضر راہ دعا گودرجناں

’’پیر نور الحسن شاہ عارف زماں‘‘

’’ذاکر حق پیر نور الحسن شاہ‘‘

’’رحمت حق صلہ یافت‘‘ از بارگاہ[2]

نوٹ:۔    یہ تمام حالات اسی کتاب سے لئے گئے ہیں،یہ کتاب ۴۴۰ صفحات پر مشتبل ہے۔

 

 

 

 

 

 

[1] منیر حسین جو کالوی،سید: انشراح الصدور تبذکرۃ النور ص۱۶۴

[2] منیر حسین جو کالوی،سید: انشراح الصدور تبذکرۃ النور،حضرت کیلیا نوالہ ضلع گوجرانوالہ ۱۳۷۳

(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)

تجویزوآراء