ڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1326 | رجب المرجب | 05 |
یوم وصال | 1421 | ذوالقعدہ | 02 |
ڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی (تذکرہ / سوانح)
ڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:مولانا ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی۔لقب:مفسرِ قرآن،جامع علوم جدیدہ وقدیمہ۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے:مولاناڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی بن سید محمود بلگرامی۔علیہماالرحمہ۔آپ کاآبائی علاقہ بلگرام (ہند)ہے۔یہی وجہ ہے کہ وطن کی نسبت نام کا جزو بن گئی۔آپ خاندانی طور پر زیدی واسطی سادات خاندان سےتعلق رکھتےتھے۔ساداتِ بلگرام کاسلسلۂ نسب حضرت امام زین العابدینتک منتہی ہوتاہے۔اس خاندان میں بڑےبڑےاولیاءِعظام،اورنامورعلماءکرام پیداہوئےہیں۔میرسیدعبدالواحدبلگرامی(صاحبِ سبع سنابل شریف)سلسلہ عالیہ چشتیہ کےبڑےعظیم بزرگ گزرےہیں۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 5/رجب المرجب 1326ھ مطابق 2/اگست1908ءکوبلگرام(ضلع ہردوئی،یوپی،ہند)میں ساداتِ کرام کےعظیم علمی وروحانی گھرانے میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:ابتدائی عمر میں والدین کا سایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا۔یتیمی کے عالم میں تعلیمی سفر کا آغازکیا۔الہ آباد یونیورسٹی(انڈیا)سے بی۔اے۔ایم ۔ اےاردو کیا۔اس کے بعداسی درس گاہ سے اردو میں علامہ اقبال پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔علماء و مشائخ اہل سنت سے استفادہ اور مطالعہ کوتاحیات جاری رکھا اور جامعہ بہاولپور میں بھی علماء کی صحبت سے بہت کچھ حاصل کیا۔بالخصوص جامعہ اسلامیہ بہاول پورکےزمانےمیں حضرت غزالیِ زماں سید احمد سعید شاہ کاظمی اور شیخ العلماء حضرت علامہ مولانا سید محمد ہاشم فاضل شمسیسےخوب علمی استفادہ کیا۔
بیعت وخلافت: آپ 1987ءکوسلسلہ عالیہ چشتیہ کےنامور صوفی بزرگ حضرت بابا عبید اللہ خان درانیسےبیعت ہوئے۔بابادرانی حضرت بابا تاج الدین ناگپوری اور ان کے خلیفہ و جیا نگرم یاوجےنگرم کے حضرت بابا قادر اولیاء سےصحبت یافتہ و فیض یافتہ اورکئی کتابوں کےمصنف تھے۔آپ نےاپنی تمام تصنیف و تالیف میں تصوف کا پیغام دیا ہے۔مثلاًکن فیکون،حیاتِ قادر،صبح اسلام،سالارِ زماں،رخسارِ دوست،بساط ِفقر،عاشق اور عارف وغیرہ۔ان تمام کتابوں کی اشاعت کا اعزاز ’’نشرح فاؤنڈیشن حسن اسکوائر کراچی‘‘نےحاصل کیا۔آپنے 1990ء میں انتقال کیا اور آخری آرام گاہ آستانہ قادرنگرضلع سوات بونیر(صوبہ سرحد)میں پیر بابا گاؤں سےپانچ کلومیٹردورپہاڑ وں میں واقع ہے۔(انوارعلمائےاہل سنت سندھ:203)
سیرت وخصائص:جامع علوم قدیمہ وجدیدہ،مفسر قرآن،جامع کمالات علمیہ وعملیہ،حضرت علامہ مولانا پروفیسر ڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی۔آپ ایک علمی وروحانی خاندان کےچشم وچراغ تھے۔خاندان ساداتِ بلگرام کےعلمی وروحانی کمالات اور ان کی امانتوں کےوارثِ کامل تھے۔یتیمی میں پروان چڑھے محنت ِ شاقہ سےعلمی دنیامیں ایک مقام پیداکیا۔تمام زندگی فروغِ علم میں کوشاں رہے۔آپاخلاق کریمانہ اور دل ربا شخصیت کےحامل انسان تھے۔غرور،نخوت،اور عجب پسندی سےدور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔علم وحکمت میں گہرائی اور معرفت وحقیقت کی وسعت حاصل تھی۔ان کےدل میں عشق مصطفیٰﷺکاچراغ روشن تھا۔جس کی وجہ سے انکی فکر ونظرسےعلم وحکمت کی شعائیں پھوٹتی تھیں۔آپکاسب سےبڑا احسان ترجمۂ وتفسیر’’ فیوض القرآن‘‘ہے۔جس سےمطالب قرآن تک قاری براہ راست عام فہم اور دلنشیں انداز میں رسائی حاصل کرسکتاہے۔یہ تفسیر جدید اذہان کےلئے مینارۂ نور ہے۔
درس و تدریس: 1937ء کو بھارت کی نامور درس گاہ ڈون پبلک اسکول ڈیرہ ڈون سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔اس اسکول میں آپ واحد مسلمان استاد تھے۔1948ء کو پاکستان تشریف لائے اور کچھ ہی روز قیام کےبعداسی سال لندن یونیورسٹی لندن(برطانیہ) میں پاکستان کی زبان،تہذیب اورکلچر کے لیکچرارمقرر ہوئے اور پانچ سال بعد 1953ء میں وطن واپس آئے۔1960ء تک حکومت پاکستان کے تحت مرکزی پلاننگ بورڈ میں پہلے ڈپٹی چیف اور پھرسربراہ محکمہ تعلیمات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں1960ء کو محکمہ اوقاف پنجاب کی جانب سے آئمہ و خطباء مساجد کی تربیت کیلئے’’علماء اکیڈمی‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس میں آپ کو ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے بہاول پور کی’’جامعہ عباسیہ‘‘ کا نام ختم کرکے’’اسلامیہ یونیورسٹی‘‘نام تجویز کیا اور آپ نے وہاں پانچ سال تک وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔تقریباً ڈیڑھ برس مَلک عبدالعزیزیونیورسٹی جدہ میں اسلامی تعلیمات کےپروفیسررہے۔اس کے بعد کچھ عرصہ مرکز تعلیمات اسلامی کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا ۔ 1981ء میں پاکستان واپسی ہوئی اور بقیہ زندگی کراچی میں لے پالک لڑکےجناب سہیل حامد کے ساتھ صائمہ گارڈن خالد بن ولید روڈ میں بسرفرمائی۔1951ء میں ڈاکٹر صاحب نے حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ کا سفر اختیار کرکے نبی اکرمﷺ کے نورانی دربار کی زیارت سے بہرہ مند ہوئے۔آپ نے شادی کی لیکن اولادنہیں ہوئی۔جس کی وجہ سے ایک بچہ سہیل حامد کو پالا تھا جو کہ اس وقت بیلجیئم میں برسرروزگار ہیں۔ آپ کی اہلیہ کا انتقال 1975ء کو حیدرآباد سندھ میں ہوا او روہیں مدفون ہیں۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:203)
عادات و خصائل:مولانا راشدی زیدمجدہ فرماتےہیں: بریگیڈیئرڈاکٹر الحاج محمد اسلم ملک صاحب نے راقم راشدی غفرلہ کو ایک ملاقات میں بتایا کہ ڈاکٹر بلگرامی’’سچے عاشق رسولﷺتھے‘‘عجزوانکساری،وضع داری،تحمل و بردباری،اخلاق وآداب،محبت و خلوص،شیریں بیانی اور نکتہ سنجی آپ کی شخصیت کاخاصہ تھا۔اکثر صوفیانہ لٹریچر کا مطالعہ کرتے تھے اور صوفیانہ طبیعت رکھتے تھے اوراپنے پیر و مرشد سے بے حد عقیدت رکھتے تھے ان کی صحبت اور ان کے خلیفہ بابا صوفی محمد برکت علی (فیصل آباد) کی صحبت کیلئے پیرانہ سالی کے باوجود دور دراز کا سفر اختیار کرتے تھے۔
آپ صحیح العقیدہ سنی تھے،ایک بار آپ سےاستفسار کیا گیا کہ آپ کا تعلق اہل سنت و جماعت سے ہے اور آپ بزرگان دین کا تذکرہ جس محبت سے کرتے ہیں وہ یقیناً قابل رشک ہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے باجود مخالفین اہل سنت کا آپ نے اچھے اندازمیں ذکر کیا ہے اور اپنی تصانیف پر ان سے تقاریظ بھی لکھوائی ہیں؟آپ نےفرمایا:میں نےمخالفین اہل سنت علماءکےعلم کی تعریف کی ہوگی لیکن ان کے عقیدے ونظریےکوکبھی بھی پسند نہیں کیا۔ان کی تقاریظ و تبصروں کی اشاعت میں بھی یہ حکمت پوشیدہ رہی ہےکہ ان کے حلقۂ ارادت تک پیغامِ عشقِ رسولﷺاورعظمت اولیاء اللہ کو فروغ دوں تاکہ وہ بے چارے جو اب تک ایمان کی حلاوت سےمحروم ہیں اور یہ محرومی اگر نا وقفیت کی وجہ سے ہے تو انقلاب برپا ہوگا۔(انوارعلمائے اہل سنت سندھ:205)
ڈاکٹر حماد بلگرامی دوسرے مقام پر اپنے ایک مضمون ’’اسلام کا نظریہ تعلیم‘‘ میں لکھتے ہیں:’’اسلامی تعلیم کا مقصد بھی بچہ کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور ان کو نشونما دیناہے۔نظم و ضبط،تعلیم کی لازمی کڑیاں ہیں۔دراصل تربیت تعلیم سے پہلے بھی ہے اور تربیت تعلیم کا نتیجہ بھی۔البتہ مغرب کے اس نظریہ تعلیم میں اسلام اس ناگزیر حقیقت کااضافہ کرتا ہےکہ ہربچہ کی فطرت میں وجود باری تعالیٰ کےاقرارکاایک احساس موجود ہے۔ بچہ وجود میں آتےہی اس ’’نور وحدت‘‘کی تلاش اس دنیا میں شروع کردیتا ہے۔پہلےفطری معصومیت سےپھر تجسس اور حیرت سےاوراس کےبعدعلم و معرفت سے،وجودِباری کایہ احساس تمام بنی نوع انسان میں موجود ہے اور یہی احساس ان میں ایک اخوت پیدا کرت اہے اور یہی نکتہ اتحاد ہے جسے’’وحدت‘‘یا نور وحدت‘‘سےتعبیر کیا گیا ہے۔یہی اسلامی تعلیم کا مرکزی تصور ہے اس مرکزی تصور کو لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کہاگیاہے۔اسلامی نظام تعلیم میں اسی مرکزی تصورکوشخصیت کی نشوونمااورتنظیم کیلئے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ہر نظام تعلیم کا ایک مرکزی تصور ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے سوا جو تصور ہے وہ محدود ہے، نہ اس میں دوامیت ہوسکتی ہے،نہ وسعت جو جملہ بنی نوع انسان کو ایک ملک وحدت میں پرو سکے۔ یہ وہ وسعت ہے جو انسان انسان میں فرق نہیں کرتی۔ مساوات و اخوت کا یہ سبق نہ اشتراکیت دے سکتی ہے نہ جمہوریت۔ اسلام میں شخصیت کی ترقی کا منشاء خود اس کی زندگی کو پورے طور سے با معنی بنانا اور دوسروں کیلئے اس کی شخصیت کو مبدء فیض بنانا ہے۔ (اسلام کا نظریہ تعلیم: ماہنامہ ضیائے حرم، بھرہ ضلع سرگودھا ، اکتوبر ۱۹۷۰ء ص۲۳)
تصنیف و تالیف: آپ صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ انگریزی اور اردو میں بہت سی کتب آپ کی یادگار ہیں لیکن وہ اپنی دو تصانیف کو امت مصطفویہ کیلئے امانت تصور کرتے تھے جن میں ایک (۱) فیوض القرآن (۲) نور مبین۔آپ کی تخلیقات میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:1۔ تفسیر فیوض القرآن (اردو) دوجلدیں بہاول پور کے قیام کے دوران تحریر فرمائی اس پر علامہ کاظمی کی تقریظ بھی ثبت ہے۔2۔نورمبین حضور پاکﷺ کےانواروتجلیات وکمالات فضائل و معجزات پر مشتمل ہے۔3۔اسلامی نظریہ تعلیم۔4۔درود تاج (ترجمہ تشریح)5۔سائبان رحمت6۔تنویر سحر7۔ندائے حرم8۔زادراہ۔9۔حرف آخر۔آخری دنوں میں دوران علالت زندگی کی کچھ یاد داشت رقم کرائیں
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 2/ذیقعدہ 1421ھ مطابق 28/جنوری 2001ء بروز اتوار93سال کی عمر میں کراچی میں ہوا۔نورمسجدحالی روڈپرنماز جنازہ ادا کی گئی اور پاپوش نگر قبرستان ناظم آباد کراچی میں آخری آرام گاہ ہے۔
ماخذ ومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔مقدمہ فیوض القرآن۔