حضرت مولانا ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی
حضرت مولانا ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولاناڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی بن سید محمود حسن بلگرامی ۲ ، اگست ۱۹۰۸ء بمطابق ۱۳۲۶ھ کو بھار ت کے علاقہ بلگرام میں تولد ہوئے۔ وطن کی نسبت نام کا جزو بن گئی۔ آپ خاندانی طور پر زیدی واسطی سادات خاندان سے متعلق تھے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی عمر میں والدین کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا۔ یتیمی کے عالم یں تعلیم کے سفر کا آغاز کیا۔ الہ آباد یونیورسٹی (بھارت) سے بی ۔اے۔ ایم ۔ اے اردو کیا اس کے بعد سای درسگاہ سے اردو میں علامہ اقبال پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ علماء و مشائخ اہل سنت سے استفادہ اور مطالعہ کو تاحیات جاری رکھا اور جامعہ بہاولپور میں بھی علماء کی صحبت سے بہت کچھ حاصل کیا۔
درس و تدریس:
۱۹۳۷ء کو بھارت کی نامور درسگاہ ڈون پبلک اسکول دُرہرہ دون سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ اس اسکول مین آپ واحد مسلمان استاد تھے۔ ۱۹۴۸ء کو پاکستان تشریف لے آئے اور کچھ ہی روز قیام کے بعد اسی سال لندن یونیورسٹی لندن(برطانیہ) میں پاکستان کی زبان تہذیب اور کلچر کے لیکچرار مقرر ہوئے اور پانچ سال کے بعد ۱۹۵۳ء میں وطن واپس آئے۔
۱۹۶۰ء تک حکومت پاکستان کے تحت مرکزی پلاننگ بورڈ میں پہلے ڈپٹی چیف اور پھر سربارہ تعلیمات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
۱۹۶۰ء کو ہی محکمہ اوقاف پنجاب کی جانب سے آئمہ و خطباء مساجد کی تربیت کیلئے ’’علماء اکیڈمی‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جس میں آپ کو ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے بہاولپور کی ’’جامعہ عباسیہ‘‘ کا نام ختم کرکے ’’اسلامیہ یونیورسٹی‘‘ نام تجویز کیا اور آپ نے وہاں پانچ سال تک وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
اس دورمیں جامعہ اسلامیہ میں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب کو ’’شیخ الحدیث‘‘ اور فاضل جلیل علامہ سید محمد ہاشم فاضل شمسی کو ’’شیخ تصوف و اخلاق‘‘ مقرر کیا گیا، ڈاکٹر صٓحب نے دونوں بزرگوں سے خوب استفادہ کیا۔
بہاولپور سے واپسی پر مکتلف تعلیمی اور تالیفی سرگرمیاں رہیں اسی زمانہ میں حیدرآباد کے قیام کے دور ران ایک پبلک اسکول کے پرنسپل کی حیثیت سے بھی کچھ عرصہ کام کیا۔ اس دوران آپ کی اہلیہ نے انتقال کیا۔
اس کے بعد تقریباً ڈیڑھ برس ملک عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں اسلامی تعلیمات کے متعلق پروفیسر رہ کر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مرکز تعلیمات اسلامی کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا ۔ ۱۹۸۱ء میں پاکستان واپسی ہوئی اور بقیہ زندگی کراچی میںلے پالک لڑکے سہیل حامد کے ساتھ صائمہ گارڈن خالد بن ولید روڈ میں بسر کی۔
بیعت:
۱۹۸۷ء کو سلسلہ چشتیہ کے نامور صوفی بزرگ بابا عبید اللہ کان درانی سے بیعت ہوئے۔ بابا درانی، حضرت بابا تاج الدین ناگپوری اور ان کے خلیفہ و حیا نگرم کے بابا قادر اولیاء سے صحبت یافتہ و فیض یافتہ تھے اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ نے اپنی تمام تصنیف و تالیف میں تصوف کا پیغام دیا ہے مثلا کن فیکون، حیات قادر، صبح اسلام، سالار زماں، رخسار دوست ، بساط فقر، عاشق اور عارف وغیرہ
ان تمام کتابون کی اشاعت کا اعزاز ’’نشرح فائونڈیشن حسن اسکوائر کراچی‘‘ نے حاصل کیا۔
آپ نے ۱۹۹۰ء میں انتقال کیا اور آخری آرامگاہ آستانہ قادر نگر ضلع سوات بونیر (صوبہ سرحد) میں پیر بابا گائوں سے پانچ کلو میٹر دور پہاڑ وں میں واقع ہے۔
سفر حرمین شریفین:
۱۹۵۱ء میں ڈاکر صاحب نے حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ کا سفر اختیار کرکے نبی اکرم ﷺ کے نورانی دربار کی زیارت سے بہرہ مند ہوئے۔
شادی:
آپ نے شادی کی لیکن اولاد پیدا نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے ایک بچہ سہیل حامد کو پالا تھا جو کہ اس وقت بیلجئیم میں برسرروزگار ہے۔ آپ کی اہلیہ کا انتقال ۱۹۷۵ء کو حیدرآباد سندھ میں ہوا او روہیں مدفون ہیں۔
تصنیف و تالیف:
آپ صاحب تصنیف بزرگ تھے۔ انگریزی اور اردو میںبہت سی کتب آپ کی یادگار ہیں لیکن وہ اپنی دو تصانیف کو امت مصطفویہ کیلئے امانت تصور کرتے تھے جن میں ایک (۱) فیوض القرآن (۲) نور مبین
آپ کی تخلیقات میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ تفسیر فیوض القرآن (اردو) ۲ جلدیں بہاولپور کے قیام کے دوران تحریر فرمائی اس پر علامہ کاظمی علیہ الرحمۃ کی تقریظ بھی ثبت ہے۔
۲۔ نور مبین حضور پاک ﷺ کے انوار و تجلیات وکمالات فضائل و معجزات پر مشتمل ہے۔
۳۔ اسلامی نظریہ تعلیم
۴۔ درود تاج (ترجمہ تشریح)
۵۔ سائبان رحمت
۶۔ تنویر سحر
۷۔ ندائے حرم
۸۔ زادراہ
۹۔ حرف آخر
آخری دنوں میں دوران علالت زندگی کی کچھ یاد داشت رقم کرائیں
عادات و خصائل:
بریگیڈیئر ڈاکٹر الحاج محمد السم ملک صاحب نے راقم راشدی غفرلہ کو ایک ملاقات میں بتایا کہ ڈاکٹر بلگرامی ’’سچے عاشق رسول تھے‘‘ عجز و انکساری، وضع داری، تحمل و بردباری، اخلاق و آداب، محبت و خلوص، شیریں بیانی اور نکتہ سنجی آپ کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ اکثر صوفیانہ لٹریچر کا مطالعہ کرتے تھے اور صوفیانہ طبیعت رکھتے تھے اور پانے پیر و مرشد دسے بے حد عقیدت رکھتے تھے ان کی صحبت اور ان کے خلیفہ بابا صوفی محمد برکت علی (فیصل آباد) کی صحبت کیلئے پیرانہ سالی کے باوجود دور دراز کا سفر اختیار کرتے تھے۔
جب تک زندہ تھے اسلامی اور صوفیانہ لٹریچر کے اشاعتی ادارہ نشرح فائونڈیشن کراچی کی سرپرستی فرماتے رہے اور آپ کی سرپرستی میں دس پندرہ کتابیں و رسائل چھپ کر شائقین سے دادو تحسین حاصل کرچکی ہیں۔
آپ صحیح العقیدہ سنی تھے، ایک بار ان سے استفسار کای گیا کہ آپ کا تعلق اہل سنت و جماعت سے ہے اور آپ بزرگان دین کا تذکرہ جس محبت سے کرتے ہیں وہ یقینا قابل رشک ہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے باجود مخالفین اہل سنت کا آپ نے اچھے اندازمیں ذکر کیا ہے اور اپنی تصانیف پر ان سے تقاریظ بھی لکھوائی ہیں؟ آپ نے فرمایا : میں نے مخالفین اہل سنت علماء کے علم کی تعریف کی ہوگی لیکن ان کے عقیدے و نظریے کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ ان کی تقاریظ و تبصروں کی اشاعت میں بھی یہ حکمت پوشیدہ رہی ہے کہ ان کے حلقہ ارادت تک پیغام عشق رسول ﷺ اور عظمت اولیاء اللہ کو فروغ دوں تاکہ وہ بے چارے جو اب تک ایمان کی حلاوت سے محروم ہیں اور یہ محرومی اگر نا وقفیت کی وجہ سے ہے تو انقلاب برپا ہوگا۔
اقتباس:
پروفیسرڈاکٹر سید حماد حسن بلگرامی ’’خطہ پاک اوچ ‘‘ (تصنیف محترم سید مسعود حسن شہاب مرحوم) پر پیش لفط میں بزرگان دین کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
’’جس دن میں حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری اور مخدوم بندگی سید محمد غوث شاہ گیلانی کے دربار میں حاضر ہوا تو یکایک دل نے کہا کہ بقول حافظ شیرازی علیہ الرحمہ
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
’’علم و حکمت کے ان درخشندہ ستاروں میں اب بھی وہ فروزانی اور روشنی باقی ہے جو ہماری مجالس علمیہ کو منور کرسکے اور ہمارے قلب و جگر میں حصول علم کی بے پناہ تڑپ پیدا کردے۔ ہر چند ان کے اجسام ہم سے پردہ پوش ہوگئے ہیں لیکن ان کی ارواح طیبہ آج بھی ہماری تسکین ایمانی کے لئے ہماری طرف متوجہ ہیں۔ ان کے بظاہر تغافل میں بھی بے شمار خبرداریاں موجود ہیں‘‘
(خطہ پاک اوچ مطبوعہ بہاولپر طبع اول ۱۹۶۷ئ)
ڈاکٹر حماد بلگرامی دوسرے مقام پر اپنے ایک مضمون ’’اسلام کا نظریہ تعلیم‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اسلامی تعلیم کا مقصد بھی بچہ کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور ان کو نشونما دینا ہے۔ نظم و ضبط، تعلیم کی لازمی کڑیاں ہیں۔ دراصل تربیت تعلیم سے پہلے بھی ہے اور تربیت تعلیم کا نتیجہ بھی۔البتہ مغر کے اس نظریہ تعلیم میں اسلام اس ناگزیر حقیقت کااضافہ کرتا ہے کہ ہر بچہ کی فطرت میں وجود باری تعالیٰ کے اقرار کا ایک احساس موجود ہے۔ بچہ وجود میں آتے ہی اس ’’نور وحدت‘‘ کی تلاش اس دنیا میں شروع کردیتا ہے ۔ پہلے فطری معصومیت سے پھر تجسس اور حیرت سے اور اس کے بعد علم و معرفت سے، وجود باری کا یہ احساس تمام بنی نوع انسان میں موجود ہے اور یہی احساس ان میں ایک اخوت پیدا کرت اہے اور یہی نکتہ اتحاد ہے جسے ’’وحدت‘‘ یا نور وحدت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے یہی اسلامی تعلیم کا مرکزی تصور ہے اس مرکزی تصور کو لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کہا گیا ہے۔ اسلامی نظام تعلیم میں اسی مرکزی تصور کو شخصیت کی نشونما اور تنظیم کیلئے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ہر نظام تعلیم کا ایک مرکزی تصور ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے سوا جو تصور ہے وہ محدود ہے، نہ اس میں دوامیت ہوسکتی ہے، نہ وسعت جو جملہ بنی نوع انسان کو ایک ملک وحدت میں پرو سکے۔ یہ وہ وسعت ہے جو انسان انسان میں فرق نہیں کرتی۔ مساوات و اخوت کا یہ سبق نہ اشتراکیت دے سکتی ہے نہ جمہوریت۔ اسلام میں شخصیت کی ترقی کا منشاء خود اس کی زندگی کو پورے طور سے با معنی بنانا اور دوسروں یلئے اس کی شخصیت کو مبدئے فیض بتانا ہے۔ (اسلام کا نظریہ تعلیم: ماہنامہ ضیائے حرم، بھرہ ضلع سرگودھا ، اکتوبر ۱۹۷۰ء ص۲۳)
وصال:
ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی نے طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد ۲۸ جنوری، ۲۰۰۱ بمطابق ۲، ذیقعدہ ۱۴۲۱ھ بروز اتوار کراچی میں ۹۲ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ نور مسجد حالی روڈ پر نماز جنازہ ادا کی گئی اور پاپوش نگر قبرستان ناظم آباد کراچی میں آخری آرام گاہ ہے۔
(اکثر مواد اسلم غزالی صاحب نے مرحمت فرمایا اس کے علاوہ جناب سہیل حامد کی بیگم صاحبہ سے بھی معلومات حاصل کی جس کیلئے فقیر ان دونوں کا مشکور ہے اس مواد کو بنیاد بنا کر چند دیگر ضروری حوالہ جات کا اضافہ کرکے مضمون ترتیب دیا گیا۔ راشدی)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)