فرید العصر مولانا فرید الدین
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت مولانا فریدالدین ۔لقب:فرید العصر۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: حضرت مولانا فریدالدین بن حضرت علامہ مولانا احمد الدین بن مولانا امیر حمزہ علیہم الرحمہ۔مولانا فرید الدین کے والد حضرت مولانا احمد الدین اپنے وقت کے جید عالمِ دین اور خدا رسیدہ بزرگ اور سیدنا پیر مہر علی شاہ کے شاگرد رشید تھے۔مناظرۂ لاہور میں بھی ساتھ تھے۔ان کے عم بزرگوار مولانا محمد شفیع قریشی حضرت مجدد گولڑویکے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں،حضرت گولڑوی موضع بھوئی میں ایک عرصہ قیام کرکےمولانا قریشی سےعلمی استفادہ کرچکےتھے۔مولانا فریدالدین کےدادا مولانا امیر حمزہ اپنے وقت کےاستاذ الاساتذہ تھے،حضرت مجدد گولڑویآپ کوہمیشہ مخدومی ومکرمی کے الفاظ سے ذکر کرتےتھے۔آپ کا سلسلۂ نسب امام محمد بن حنفیہ کے واسطہ سے امیر المؤ منین حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ملتا ہے۔آپ کا علمی خاندان پورے علاقہ میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔(مہر انور:240)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1324ھ مطابق 1906ء کوقصبہ ’’بھوئی‘‘ ضلع کیمبل پور(موجودہ نام اٹک ) میں ہوئی۔
تحصیل علم:چا ر پانچ سال کی عمر میں قرآن پاک پڑھنے کے لئے گاؤں کی مسجد میں جانا شرو ع کیا ، بعد ازاں درس نظامی کی کتابیں اپنے بڑے بھائی استاذالاساتذہ مولانا محب النبی سے پڑھنا شروع کیں،بعض آخری کتابیں مثلاحمداللہ،شرح سلم وغیرہ والد ماجد سے پڑھیں۔تکمیل علوم کے لئے علوم علامۂ زماں مولانا مشتاق احمد کانپوری بن استادِ زمن مولانا احمد حسن کانپوری قدس سرہما کی خدمت میں کانپور حاضر ہوئے۔جب علامہ مشتاق احمد جامعہ نعیمیہ مرادآباد تشریف لائے تو دوسرے طلباء کے ہمراہ آپ بھی تھے۔پھر جب علامہ مراد آباد سے میرٹھ تشریف لے گئے تو مولانا فرید الدین ،حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی گجراتی رحمہا اللہ تعالیٰ او ر دوسرے طلباء کسب فیض کے لئے ان کے ہمراہ میرٹھ چلے گئے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ابتداء ہی سے ذہن رسا، تقویٰ و پرہیزگاری اور سلامتی طبع ایسے اوصاف سے نواز ا تھا ۔
دورِ طالب علمی میں بھی آپ کی یہ صفا ت نمایاں رہیں۔ آ کے فرزند ارجمند مولانا حسن الدین ہاشمی کا بیان ہے :’’ایک مرتبہ ملتان کے سفر کے دوران جب میں نے حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی کو اپنے والدماجد کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا و وہ خوشی سے جھوم اٹھے اور فرمایا اچھا آپ مولانا فرید کےصاحبزادے ہیں؟ ہم انہیں طالب علمی کے دور میں مولانا فرید کے نام سے پکارا کرتے تھے وہ بہت قابل اور پرہیز گار طالب ِعلم تھے اور اپنے ساتھی طلباء کو حمد اللہ وغیرہ پڑھایا کرتے تھے‘‘۔میرٹھ سے واپس آکر کچھ کتابیں والدِگرامی سے اور زیادہ تر اپنے بڑے بھائی استاذ العلماء مولانا محب النبی سے پڑھیں اور سند حدیث بھی انہی سے حاصل کی۔تقریباً 1350ھ/1931ء کو فارغ التحصیل ہوئے۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں شیخ الاسلام غوث الاسلام حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔آپ کو اپنے پیر طریقت او ر شیخ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی،اسی طرح ان کے صاحبزادے حضرت پیر سید غلام محی الدین سجادہ نشین گولڑہ شریف سے بھی بےحدنیاز مندی رکھتے تھے،ان کا حکم کبھی نہ ٹالتے اور ان کے حکم کے مقابل ہرشخص کی بات کو ٹھکرا دیتے تھے۔جس مدرسہ میں بھی تدریس کے لئے تشریف لےجاتے پہلے ان سے اجازت لیتے اور جب وہ فرماتے واپس آجاتے،انہی کے ایماء پرآپ کے اکثرو بیشتر اوقات قصبہ بھوئی میں گزارے۔بعض اوقات آپ کو اس جگہ تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا،لیکن آپ کے پائے اثبات میں کبھی لغزش نہ آئی۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:376)
سیرت وخصائص: جامع المنقول والمعقول،حاوی الفروع والاصول،استاذالعلماء،رئیس الفضلاء مجاہد ِ تحریک پاکستان وختم نبوت،فرید العصر حضرت علامہ مولانا فرید الدین ۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کےجید عالم دین اور کہنہ مشق مدرس تھے۔ساری زندگی قال اللہ اور قال رسول اللہﷺکا وظیفہ جاری رہا۔آپ نے اہل سنت وجماعت کو مدرسین مصنفین،واعظین کی ایک جماعت تیار کرکے دی۔جنہوں نے اہل سنت کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔آپ درویش منش اور صوفی مزاج شخصیت کے حامل ہونے کےباوجودتحریک پاکستان اور تحریک ختم نبوت میں بھرپور کردار اداکیا۔
آپ کا زمانۂ تدریس بیالیس سال پر پھیلا ہوا ہے جس میں سے زیادہ تر وقت اپنے آبائی گاؤں بھوئی میں گزارا،اس کے علاوہ مختلف اوقات میں جامعہ غوثیہ،گولڑہ شریف،جامعہ محمدیہ بھیرہ،جامعہ رضویہ وار برٹن،دار العلوم مکھڈشریف،دار العلوم ترگ شریف،دار العلوم لا لہ موسیٰ وغیرہ میں پڑھاتے رہے۔آپ منتہی کتب کے بیس بیس سبق یومیہ پڑھاتے رہے ہیں،اس کے باوجود با قاعد گی کے ساتھ ہر کتاب کا مطالعہ فرماتے او ر طلباء کو بھی یہی تلقین فرماتے۔فرمایا کرتے تھےکہ مطالعہ کے بغیر مدرس خود بے یقینی سے دو چار رہتا ہے،طلبہ کو یقین کی نعمت سےکس طرح بہرہ ور کرسکتا ہے۔آپ کا معمول یہ تھا کہ سحری کے وقت مختصر اورادو وظائف پڑھنے کے بعد مطالعۂ کتب میں مصرو ف ہوجاتے،نماز ِفجرسےظہر تک اسباق پڑھاتےاورنمازکےبعدپھرمطالعہ میں محو ہوجاتے،عمرکےآخری حصے میں نا سازی طبع کی بناء پراسباق کم کردئیے اوراسی تناسب سےاورادو وظائف میں اضافہ ہوگیا۔
تحریکِ پاکستان میں خدمات: آپ بنیادی طور پر عالمِ دین،صوفی اور مدرس تھے اس لئے سیاست کےساتھ کچھ زیادہ لگاؤنہ تھا۔ لیکن دو مواقع ایسے آئے کہ آپ سر گرم ِسیاست ہوئے۔ 1946ء کے انتخابات کے موقع پر آپ نےمسلم لیگ کی پر زور حمایت کی او دوسرے لوگوں کو بھی یہی تبلیغ کی جب بعض کا نگریسی ذہن کے مولوی، جناب قائد اعظم پر تنقید کرتےتو آپ فرماتے:’’اس وقت کفر اور اسلام کا مقابلہ ہے،قائد اعظم ایک مسلمان ہے اور اسلام کا نمائندہ ہے جبکہ گاندھی کافر ہے اور کفر کا نمائندہ ہے اس لئے اس موقع پر قائد اعظم کا ساتھ دینا اسلام کا ساتھ دینا ہے اور گاندھی کا ساتھ دینا دانستہ یا نا دانستہ طور پر کفر کو ساتھ دینا ہے‘‘۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:377)
دوسرا موقع 1953ء میں آیا جب ناموس رسالتﷺکےتحفظ کی خاطر مرزائیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت شروع ہوئی،آپ نے بڑی تندہی سے اس میں حصہ لیا،تقریریں کیں،جلوسوں میں شریک ہوئے،ایک جلوس آپ کی قیادت میں بھوئی سے حسن ابدال پہنچا ۔اس وقت تو حکومت نے آپ کو گرفتار نہ کیا لیکن جب راولپنڈی جاکر ایک جلوس میں شریک ہوئے تو گرفتار کر کے سنٹرل جیل بھیج دئیے گئے جہاں اسی تحریک کے سلسلے میں آپ کے فرزند ارجمند مولانا حسن الدین ہاشمی پہنچ چکے تھے۔آپ نہایت خوش اخلاق،کم گو ،جید عالم دین او ر متواضع شخصیت کےحامل تھے، تصنع اور تکبر سے انہیں کوئی واسطہ نہ تھا ، سادگی کا پیکر مجسم تھے۔ آپ سرور دو جہاں،محبوب رب انس وجاں ﷺ کی محبت سے شرشار تھے،جب کبھی نعت شریف سنتے تو آپ پر رقت طاری ہو جاتی،اولیائےکرام کابہت احترام کیا کرتے تھے،جہاں جاتے اہل اللہ کی جستجو میں رہتے۔شیخ الفقہ والقانون حضرت مولانا حسن الدین ہاشمی شیخ الافقہ جامعہ اسلامیہ بہاول پورپنجاب آپ کےفرزند ارجمند ہیں۔
تاریخِ وصال : آپ کا وصال 7/شوال المکرم 1392ھ مطابق 14/نومبر1972ء بروز منگل بوقت 1:30واصل بااللہ ہوئے۔حسب وصیت والد ماجد کی مولانا احمد الدین کے پہلو میں دفن ہوئے۔قصبہ بھوئی ضلع اٹک آخری آرامگاہ ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔مہر انور۔