فرید العصر حضرت مولانا فرید الدین

فرید العصر حضرت مولانا فرید الدین  علیہ الرحمۃ

          فرید العصر حضرت مولانا ابن استاذ العلماء حضرت مولانا احمد الدین قدس سرہما غالبا ۱۳۲۴ھ؍۱۹۰۶ء میں قصبہ بھوئی ضلع کیمبلپور میں پیدا ہوئے ۔ والد ماجد نے اپنے فرزند کا نام فرید الدین رکھا ،دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ بڑے ہو کر واقعی دینداری، علمو فضل او اخلاق عالیہ میں فیرد العصر ثابت ہوئے ،آپ کا سلسلۂ نسب امام محمد بن حنفیہ کے واسطہ سے امری المؤ منین حضرت علی کرم اللہ تعایٰ وجہہ الکریم سے ملتا ہے، آپ کا علمی خاندان پورے علاقہ میں مرکز حیثیت رکھتا تھا۔

          چا ر پانچ سال کی عمر میںقرآن پاک پڑھنے کے لئے گائوں کی مسجد میں جانا شرو ع کیا ، بعد ازاں درس نظامی کی کتابیں انے بڑے بھائی استاذ الاساتذہ مولانا محب النبی مدظہ العالی سے پڑھنا شروع کیں ، بعض آخری کتابیں مثلا حمد اللہ شرح سلم وغیرہ والد ماجد سے پڑھیں تکمیل علوم کے لئے علوم علامۂ زماں مولانا مشتاق احمد کانپوری ابن استاد زمن مولانا احمد حسن کانپوری قدس سرہما کی خدمت میں کانپور حاضر ہوئے ۔جب علامہ مشتاق احمد ، جامعہ نعیمیہ مرادآباد تشریف لائے تو دوسرے طلباء کے ہمراہ آپ بھی تھے۔ پھر جب علامہ مراد آباد سے میرٹھ تشریف لے گئے تو مولانا فرید الدین ،حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی گجراتی رحمہا اللہ تعالیٰ او ر دوسرے طلباء کسب فیض کے لئے ان کے ہمراہ میرٹھ چلے گئے۔

          اللہ تعالیٰ نے آپ کو ابتداء ہی سیذہن رسا ، تقویٰ و پرہیش گاری اور سلامتی طبع ایسے اوصاف سے نواز ا تھا ۔ دو طالب علمی میں بھی آپ کی یہ صفا ت  نمایاں رہیں۔ آ کے فرزند اجمند مولانا حسن الدین ہاشمی کا بیان ہے کہ:

’’ایک مرتبہ ملتان کے سفر ے دوران جب میں نے مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمہ اللہ تعالیٰ کو اپنے والدماجد کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا و وہ خوشی سے اچھل پڑے اور فرمایا اچھا آپ مولانا فرید کے لڑکے ہیں؟ ہم انہیں طالب علمی کے دور میں مولانا فرید ک نام سے پکارا کرتے تھے وہ بہت قابل اور پرہیز گار طبالب علم تھے اور اپنے ساتھی طلباء کو حمد اللہ وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔‘‘

          میرٹھ سے واپس آکر کچھ کتایں والد گرامی سے اور زیادہ تر اپنے بڑے بھائی استاذ العلماء مولانا محب النبی دامر بر کاتہم العالیہ سے پڑھیں اور سند حدیث بھی انہی سے حاصل کی۔

          تقریباً ۱۳۵۰ھ؍۱۹۳۱ء میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد مدرسہ صلاحیہ بجار والا (ضلع لائل پور ) میں اعزازی طور پر تدریس کا اغاز کیا اور تمام عمر اس مقدس فریضہ کو انجام دیتے رہے ۔ آپ کا زمانۂ تدریس بیالیس سال پر پھیلا ہوا ہے جس میں سے زیادہ تر وقت اپنے آبائی گائوں بھوئی میں گزارا ، اس کے علاوہ مختلف اوقات میں جامعہ غوثیہ ،گولڑہ شریف، جامعہ محمدیہ بھرہ،جامعہ رضویہ وار برٹن ، دار العلوم مکھڈا شریف، دار العلوم ترگ شریف ، دار العلوم لا لہ موسیٰ وغیرہ میں پڑھاتے رہے۔

          آپ کو اپنے پیر طریقت او ر شیخ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی ، اسی طرح ان کے صاحبزادے حضرت پیر سید غلام محی الدین رحمہ اللہ تعالیی سجادہ نشین گولڑہ شریف سے بھی بیت حدنیاز مندی رکھتے تھے، ان کا حکم کبھی نہ ٹالتے اور ان کے حکم کے مقابل ہر شخص کی بات کو ٹھکرا دیتے تھے جس درسہ میں بھی تدریس کے لئے تشریف لیجاتے پہلے ان سے اجازت لیتے اور جب وہ فرماتے واپس آجاتے ، انہی کے ایماء پر آپ کے اکثرو بیشتر اوقات قصبہ بھوئی میں گزارے بعض اوقات آپ کو اس جگہ تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑالیکن آپ کے پائے ثبات میں کبھی نعزش نہ آئی۔

          آپ منتہی کتب کے بیس بیس سبق یومیہ پڑھاتے رہے ہیں، اس کے باوجود با قاعد گی کے ساتھ ہر کتاب کا مطالعہ فرماتے او ر طلباء کو بھی یہی تلقین فرماتے ۔ فرمایا کرتے تھے کہ مطالعہ کے بغیر مدرس خود بے یقینی سے دو چار رہتا ہے ، طلبہ کو یقین کی نعمت سے کس طرح بہرئہ ور کرسکتا ہے۔ آپ کا معمول یہ تھا کہ سحری کے وقت مختصر اور ادو وظائف پڑھنے کے بعد مطالعۂ کتب میں مصرو ف ہوجاتے ،نماز فجر سے ظہر تک اسباق پڑھاتے اور نماز کے بعد پھر مطالعہ میں مھو ہو جاتے ،عمر کے آخری حصہ میں نا سازی طبع کی بنا پر اسباق کم کردئے اور اسی تناسب سے اور ادووظائف میں اضافہ ہوگیا۔

          آپ بنیادی طور پر عالم دین ، صوفی اور مدرس تھے اس لئے سیاست کے اتھ کچھ زیادہ لگائونہ تھا لیکن دو مواقع ایسے آئے کہ آپ سر گرم سیاس ہوئے۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات کے موقع پر آپ نے مسلم لیگ کی پر زور حمایت کی او دوسرے لوگوں کو بھی یہی تبلیغ کی جب بعض کا نگرسی ذہن کے مولوی قائد اعظم پر تنقید کرتے تو آپ فرماتے:

’’اس وقت کفر اور اسلام کا مقابلہ ہے،قائد اعظم ایک مسلمان ہے اور اسلام کا نمائندہ ہے جبکہ گاندھی کافر ہے اور کفر کا نمائندہ ہے اس لئے اس موقع پر قائد اعظم کا ساتھ دنیا اسلام کا ساتھ دینا ہے اور گاندھی کا ساتھ دینا انستہ یا نا دانستہ طور پر کفر کو ساتھ دینا ہے۔‘‘

          دوسرا موقع ۱۹۵۳ء میں آیا جب ناموس رسالت کے تحفظ کی خاطر مرزائیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت شروع ہوئی ،آپ نے بڑی تندہی سے اس میں حصہ لیا ، تقریریں کیں،جلوسوں میں شریک ہوئے ، ایک جلوس آپ کی قیادت میں بھوئی سے حسن ابدال پہنچا ۔اس وقت تو حکومت نے آپ کو گرفتار نہ کیا لیکن جب راولپنڈی جاکر ایک جلوس میں شریک ہوئے تو گرفتار کر کے سنٹرل جیل بھیجدئے گئے جہاں اسی تحریک کے سلسلے میں آپ کے فرزند ارجمند مولانا حسن الدین ہاشمی پہنچ چکے تھے۔

          آپ نہایت خوش اخلاق ، کم کو ،جید عالم دین او ر متواضع شخصیت تھے، تضع اور تکبر سے انہیں کوئی واسطہ نہ تھا ، سادگی کا پیکر مجسم تھے۔ ایک دفعہ دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پوری تشریف لے گئے اور راقم الحروف سے حمد اللہ پر مولانا احمد حسن کانپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے حاشیہ کا ایک نسخہ طلب کیا ،میں نے منگوا کر ددیا ،اس وقت میرا ان سے تعارف نہ تھا اور چونکہ سر حد کے اکثر و بیشتر معمر افراد بارلیش ہوتے ہیں اور سر پر پگڑی باندھتے ہیں اس لئے مجھے یہ خیال تک نہ ہواکہ یہ اپنے علاقہ کے بہت برے فاضل ہوں گے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد کسی نے بتایا کہ مولانا فریدالدین تھے۔

          اب مجھے بہت افسوس ہوا کہ میں نے ان کے شایان شان خاطر و مدارات نہ کر سکا تھا چنانچہ اسی وقت ایک طالب علم کو بھیج کر ان سے واپس تشریف لانے کی درخواست کی چنانچہ آپ بلا تکلف تشریف لے آئے اور فرمایا میرے پاس اس حاشیہ کا قلمی نسخہ موجود تھا لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ یہ حاشیہ چھپ گیا ہے تو میںنے سوچا کہ چاہئے ان کے ذوق علی اور بے نفسی بہت متاثر کیا۔

          آپ سرور دو جہاں، محبوب رب انس وجاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت سے شرشار تھے ، جب کبھی نعت شریف سنتے تو آپ پر رقت طاری ہو جاتی ، اولیائے کرام کا بہت احترام کیا کرتے تھے،جہاںجاتے اہل اللہ کی جستجو میں رہتے۔

          یکم صفر، ۷ ۱ جون (۱۳۵۰ھ؍۱۹۳۱ئ) میں آپ کیشادی ہوئی، ۱۳۵۵ھ؍ ۱۹۳۶ء میں مولانا حسن الدین ہاشمی کی پیدائش ہوئی، ڈیڑھ سال بعد ایک اور فرزند پیدا ہوا جو چند ماہ بعد فوت ہو گیا،چند سال بعد آپ کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہو گیا ، اس کے بعد آپ نے تجرو کی زندگی بسرکی آپ کے تلامذہ ہزاروں کی تعداد ہیںلیکن جسمانی اولاد میں اس وقت صرف مولانا۔ حسن الدین ہاشمی یادگارہیں۔

          ۷شوال ، ۱۴ نومبر(۱۳۹۲ھ؍۱۹۷۲ئ) کو صبح آٹھ بجے بھوئی کی مسجد غوثیہ کے ایک کمرے میںمصروف مطلعہ تھے کہ دل کا شدید دورہ پرا اور آپ پر سکتہ کی حالت طاری ہو گئی ،ساڑھے پانچ گھنٹے اسی حالت میںگزر گئے آخر دین کے ڈیڑھ بجے جان جاں آفریں کے سپرد کردی، ۱۵ نومبر کو حسب وصیت والد ماجدہ مولانا احمد الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے پہلو میںدفن کئے گئے[1]

 

[1] حسن الدین ہاشمی ،مولانا: ماہنامہ ضیائے حرم ، نومبر ۱۹۷۳ء ، ص ۲۹۔۷۲

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء