غازی اسلام مولانا محمد کرم الدین دبیر
غازی اسلام مولانا محمد کرم الدین دبیر (تذکرہ / سوانح)
غازی اسلام مولانا محمد کرم الدین دبیررحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت علامہ مولانا کرم الدین دبیر ۔کنیت:ابوالفضل۔تلخص:دبیر۔لقب:مناظر اسلام،شیر اسلام۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت علامہ مولانا کرم الدین دبیر بن صدرالدین بن نظام الدین۔آپ اعوان قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔(قاضی کرم الدین کا مسلک:9)۔امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ نے آپ کو’’غازی اسلام‘‘کا لقب دیا۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت تقریباً 1269ھ مطابق 1853ء کو موضع ’’بھیں‘‘ضلع جہلم میں ہوئی۔(مسلک دبیر پر شبہات کا ازالہ:1)
تحصیلِ علم: ابتدائی کتابیں وطن ہی میں پڑھیں مزید تعلیم لاہور اور امرتسر کے مدارس میں حاصل کی۔کچھ عرصہ مولانا احمد علی محدث سہانپوری سے درس حدیث لیا پھر امر تسر آکر درس حدیث کی تکمیل کی۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:409)
بیعت وخلافت: سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں زبدۃ الکاملین حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی کے دستِ اقدس پر بیعت ہوئے۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:409)۔مسلک ِمولانا دبیرسےمنحرف قاضی مظہر حسین دیوبندی نےآفتاب ہدایت میں حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی کا نام ذکرنہیں کیا۔بس اسی پر اکتفا کیا کہ ’’پنجاب کے ایک شیخ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے تھے‘‘۔(مقدمہ آفتاب ہدایت:38)
سیرت وخصائص: امام المناظرین،رئیس المتکلمین،غازی اسلام،شیراسلام،قاطعِ وہابیت ورافضیت ودیوبندیت ونجدیت وچکڑالویت،حامی اہل سنت،دافع اہل بدعت،جامع العلوم،حاوی الفروع والاصول حضرت علامہ مولانا کرم الدین دبیر رحمۃ اللہ علیہ۔آپ اپنے وقت کے جید عالم دین اور امام المناظرین تھے۔ساری زندگی درس وتدریس وعظ ونصیحت،اور فرقہائے باطلہ کے رد میں گزری۔آپ کی تصانیف اس پر شاہد اور مقبول عام ہیں۔باطل آپ کےنام سے کانپتاتھا۔
حضرت شرف ملت فرماتے ہیں: مولانا محمد کرم الدین د بیر کوقدرت نے بے پناہ مناظرانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ چنانچہ انہوں نے تمام عمر مذاہب باطلہ مرزائیہ،شیعہ،وہابیہ کی تردید اور ان سےمناظرے کرنے میں صرف فرمائی۔آپ کے مخلص دوست مولانا فقیر محمد جہلمی (مؤلف حدائق الخفیہ) جہلم سے ہفت روزہ ’’سراج الاخبار ‘‘نکالتے تھے۔انہوں نے مولانا دبیر کو اس رسالے کامدیرمقرر کر دیا۔آپ نے مرزائیوں کے خلاف زوردارمضامین لکھے۔دنیائےمرزائیت میں تہلکہ مچ گیا،اور کوئی چارہ نظر نہ آیا تو آپ کے خلاف یکے بعد دیگرے کئی مقدمات دائر کردئے ۔پہلا مقدمہ 14/نومبر 1902ء کو اور دوسرا 29/جون 1903ء کو حکیم فضل دین بھیر وی قادیانی کی طرف سے گورد اسپورمیں دائر کیاگیا۔دونوں میں مولانا با عزت طور پر بری کردئے گئے۔تیسرا مقدمہ شیخ یعقوب علی تراب ایڈیٹر اخبار الحکم کی طرف سے مولانا کرم الدین دبیر اور مولانا فقیر محمد جہلمی پر قائم کیا گیاجس میں مدعا علیہما پر 54روپے جرمانہ ہوا جو ادا کردیا گیا۔
17/ جنوری 1903ء کو مرزائیوں کی طرف سے ایک کتاب ’’مواہب الرحمن‘‘ جہلم میں تقسیم کی گئی۔ جس میں مولانا کے خلاف جی بھرکر زہراگلاگیاتھا۔مولانا کرم الدین دبیر نے مرزا قادیانی دجال اور حکیم فضل دین بھیر وی کے خلاف استغاثہ دائر کرادیا۔یہ مقدمہ دو سال تک چلتا رہا۔8/اکتوبر 1904ء کو گور داسپور کے جج نے مرزا قادیانی پر پانچ سو روپے اور حکیم فضل دین پر دو سو روپے جرمانہ کا حکم دیا اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں بالترتیب چھ ماہ اور پانچ ماہ قید کا حکم سنایا۔ اس مقدمےمیں مولاناکرم الدین کے بےباکانہ بیانات نےمر زائیوں کے کس بل نکال دئیے اور فیصلے نے تو ان کے گھروں میں صفِ ماتم بچھادی۔
اس کے علاوہ مولوی اللہ دتہ اور دیگر مرزائی مناظرین کے ساتھ کامیاب مناظرے کئے اور انہیں شکستِ فاش سے دو چار کر دیا۔شیعہ مناظرین کو بھی للکارا اور کئی بار انہیں شکستِ فاش دی ۔ کندیاں میں مشہور شیعی مناظرمرزا احمد علی سے مناظرہ کیا اور فتح مبین حاصل کی 3/مئی 1920ء کو میر پور میں اور 4/اپریل 1923ء کوچک رجاوی،گجرات میں اہلحدیث کےمشہورمناظرمولوی ثناء اللہ امر تسری سے تقلید شخصی وغیرہ موضوعات پر مناظرہ کیا اور فریق مخالف کو لا جواب کردیا۔مولانا دبیر کی خصوصیت یہ تھی کہ ایک دفعہ ان کے سامنے آنے والا دوبارہ سا منا کرنے سے گھبراتا تھا۔ان کاعلم وفضل،حاضر جوابی اور پر رعب شخصیت کےمقابل پر گہرا اثر ڈال دیتے تھے۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:410)
تلبیس ذریت ابلیس: حضرت مولانا دبیرناموس رسالتﷺکےسچےمحافظ،مسلک اہل سنت و جماعت کے مبلغ اور بزرگانِ دین کےنقش قدم پر چلنے والے بزرگ تھے۔مولانا کرم الدین نے اپنے دور میں مرزائیت،رافضیت اور وہابیت سمیت دیگر تمام فرق باطلہ اور فتنوں کی خوب سرکوبی کی۔مرزائیت کےرد میں وہ تاریخی کارنامہ انجام دیا کہ ان کوہرمقام پر ذلیل ورسوا کیا۔ رافضی تو آپ کانام سن کر فرار میں عافیت جانتےتھے۔’’آفتاب ہدایت ‘‘اور ’’السیف المسلول‘‘ وغیرہ کی صورت میں آج بھی یہ کتب ان کےلئےکسی تازیانہ سےکم نہیں ہیں۔مولانا کرم الدین دبیرکی خدماتِ دینیہ سنہری حروف سےلکھنے کے قابل ہیں۔ اس لئے ان کےفرزند مولوی قاضی مظہر حسین اپنے والد کے بر عکس دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نےمولانا کے وصال کےبعد بغیر کسی ثبوت کےان کو دیوبندی مشہور کردیا۔جو کہ سراسر جھوٹ اور کذب بیانی پر مشتمل ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے دیوبندی اس سےپہلے بھی اہل سنت کےکئی اکابر بزرگ اپنے کھاتے میں ڈال چکے ہیں،حالانکہ ان کی تصنیفات وتالیفات ان کےخلاف حجت ہیں۔
مثلاً:حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی،حضرت مولانا شاہ امداد اللہ مہاجر مکی،اور محدث اعظم حجاز حضرت علامہ سید محمد بن علوی مالکی جن کاوصال چندسال قبل 1425ھ میں ہوا،ان کےبارے میں اختلاف چل رہاہے کہ ان کو’’گروہ ِ دیابنہ‘‘ میں شامل کیا جائے یانہ کیا جائے۔مزید تفصیل کےلئے اسی ویب سائٹ پران اکابرین کےتذکروں کی طرف رجوع فرمائیں۔تونسوی ؔ غفرلہ۔کذب بیانی ایسی کہ ابلیس بھی شرماجائے۔کذاب ِزماں ڈاکٹر خالد محمودمانچسٹروی دیوبندی نےمولانا کرم الدین دبیر کےمتعلق یہاں تک لکھ دیا کہ’’آپ سیدھے دیوبند پہنچے اور اکابر دیوبند کی خدمت میں حاضری دی اور اپنے بیٹوں کو تعلیم کےلئے ان کے سپرد کیا‘‘۔(مطالعہ بریلویت،ج4،ص357)۔اگر کوئی ثبوت ہے توپیش کریں۔یہ بات توان کےمنحرف بیٹے نے بھی نہیں لکھی۔قارئین ِ کرام!آپ اسی بات سےاندازہ لگا سکتےہیں کہ مولانا کرم الدین کےبارے میں جوبھی باتیں منسوب کی گئیں ہیں یہ سب غلط اور جھوٹ کاپلندہ ہیں۔
مولانا کرم الدین دبیر صحیح العقیدہ عالم دین تھے: قاضی مظہر حسین نے آفتابِ ہدایت کے آغاز میں مصنف کا تعارف کراتے ہوئے یہ تاثردینے کی کوشش کی ہے کہ مولانا کرم الدین آخری عمر میں علماء دیوبند سے متاثر ہو کر اپنے مسلک سے بر گشتہ ہو گئے تھے۔ہمارے سامنے ایسی کوئی بنیاد نہیں ہے جس کی بناپر ہم یہ سمجھ سکیں کہ مولانا نے مسلک اہل سنت چھوڑ کر مسلک علماء دیو بند اختیار کرلیا تھا البتہ ایسے شواہد ملتے ہیں جن سے قطعی طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ سنّی عالم دین تھے۔مثلاً اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کی مبارک تصنیف’’حسام الحرمین ‘‘پر مولانا کرم الدین دبیر ٰ کی تقریظ درج ذیل الفاظ میں ملتی ہے۔
’’باسمہ سبحانہ حسام الحرمین میں جوکچھ لکھا ہے،عین حق ہے،دیوبندی جن کےسر گروہ خلیل احمد ور شید احمد ہیں۔نجدی گروہ متبعین محمد بن عبد الوہاب نجدی سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ کیونکہ نجدی تو پہلے ہی سے مسلمانان مقلدین سے الگ تھلگ ہو گئے۔مسلمانوں کو ان کے عقائدِ خبیثہ سے آگاہی ہو گئی اور ان سے مجتنب ہو گئے ۔لیکن دیوبندی حنفی وہابی نما،حنفی مسلمانوں سےشکر و شیر ہو کرگویاحلوے میں زہرملا کران کو ہلاک کر رہے ہیں۔اعاذنا اللہ منہم۔اور اب تو ابن ِسعود نجدی کے مداح بن کر عملاً مسلمانوں سےانہوں نے علیحدہ گی اختیارکرلی ہے،بہرحال نجدیوں اور دیوبندیوں کے دلوں میں خدا و رسولِ خدا ﷺکی کچھ عظمت نہیں ہے۔امکانِ کذب باری تعالیٰ کے قائل ہوکرانہوں نے تو ہین باری تعالیٰ کے جرم کا ارتکاب کیا،حضور ﷺ کی تنقیص شان میں مشرکین سے بھی بڑھ گئے۔
حضور ﷺ کا علم معاذ اللہ! حیوانات اور مجانین کی طرح اور شیطان کے علم سے کم بتایا۔میلاد النبیﷺ کو کنہیا کے سوا نگ سے تشبیہ دی اور میلاد کر نیوالوں کو مشرک کہا۔آنحضرتﷺکا ارشاد ہے:’’لایؤمن احدکم حتیٰ کون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین‘‘اور چونکہ ان لوگوں کے دلوں میں حب رسولﷺ کا ذرہ بھی موجود نہیں اس لئے یہ خارج از اسلام اور کافر ہیں، جیسا کہ علمائے حرمین شریفین کا مدلل و مفصل فتویٰ ان کی نسبت صادر ہو چکا ہے‘‘۔(والسلام،خاکسار ابو الفضل محمد کرم الدین عفا اللہ عنہ ا ز ، بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم)۔مولانا کرم الدین دبیر اپنے دور کے متجر فاضل تھے۔یہ کیونکر ممکن ہے کہ صورتِ حال سے بے خبر ہوتے ہوئے اس قدر شدید فتویٰ صادر کرتے۔
1937ء میں سلانوالی ضلع سر گودھا میں خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا حشمت علی خاں لکھنوی اورمولوی منظور احمد نعمانی دیوبندی کے درمیان مسئلہ علم غیب پر مناظرہ ہوا تو مولانا کرم الدین دبیر اہلسنت کی طرف سے صدرتھے۔اس مناظر ے کا اہتمام حضرت شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی نے کیا تھا۔صاف ظاہر ہے ایسے فیصلہ کن مناظرے میں اہلسنت کی طرف سے ایسے شخص کو صدر نہیں بنایا جا سکتا تھا جو بریلوی اور دیوبندی اختلاف سے صحیح طور پر آگاہ ہی نہ ہو۔1920ء میں مولانا کرم الدین دبیر اور ضلع لائل پور کے مولوی محمد فاضل (غیرمقلد) کے درمیان مسئلۂ نور پر تحریری گفتگو ہوئی۔بالآخر طے پایا کہ اہل سنت کے مرکزی دار العلوم جامعہ نعمانیہ لاہور کی طرف رجوع کیا جائے،مولانا کرم الدین دبیر لکھتے ہیں:’’رہایہ امرکہ آپ دیوبندی مولوی صاحب منصف گرد اننا چاہتے ہیں حالانکہ علماء حرمین شریفین کا فتویٰ علماء دیوبندکے خلاف صادر ہو چکا ہے آپ اسی حیص و بیص میں وقت گزرانا چاہتے ہیں۔اگر آپ حنفی ہیں تو مولانا احمد رضا خاں صاحب کو منصف مان لیں۔نہیں تو انجمن نعمانیہ،ہند،لاہور کو پرچے بھیج دئے جائیں،یہ بھی نہیں تو آپ خاموش رہیں۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:412)
مفتی زر ولی خان مہتمم جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کراچی کےزیراہتمام ایک کتاب بنام’’فیضانِ دیوبند‘‘شائع ہوئی ہے۔اس کتاب صفحہ نمبر38پر مولانا کرم الدین دبیر کوعلماء اہل سنت بریلوی میں شمار کیا گیا ہے۔قاضی مظہر حسین اور مولوی عبدالجبار کی تلبیسات پرعدم اعتماد کااظہار کیا گیاہے۔ان تمام واقعات سےمعلوم ہواکہ ان کےتمام باتیں مفروضوں اور کذب بیانی پر مشتمل ہیں۔حقیقت سے ان کاکوئی تعلق نہیں ہے۔مزید تفصیل کےلئے مولانا میثم عباس قادری دام ظلہ کی کتاب’’مسلکِ دبیر پرمحرفین کےشبہات کاازالہ‘‘ کامطالعہ کریں۔آپ کی کتب میں تحریفات کی گئی ہیں،اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔آپ کی تصانیف میں سب سےزیادہ ’’آفتاب ہدایت‘‘ کومقبولیت حاصل ہوئی۔آپ کوامیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوریسےوالہانہ عقیدت تھی۔یہی وجہ ہے کہ آفتاب ہدایت کا انتساب حضرت امیر ملتکےنام تھا۔آپ کےوصال کےبعد یہ انتساب موجود نہیں ہے۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
تاریخِ وصال:آپ کاوصال 18/شعبان المعظم 1365ھ مطابق 1946ءکو حافظ آباد میں جاں بحق ہوئے،اورموضع بھیں ضلع جہلم میں دفن ہوئے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔احوال دبیر۔مسلک دبیر پر محرفین کےشبہات کاازالہ۔