غازی اسلام مولانا محمد کرم الدین دبیرہؔ قدس سرہ ،بھیں ضلع جہلم
مناظر اسلام حضرت مولانا محمد کرم الدین دبیر قدس سرہ ۱۸۵۷ء سے چار پانچ سل پہلے بھیں ضلع جہلم میں پید ہوئے،ابتدای کتابیں وطن ہی میں پڑھیں مزید تعلیم لوہور اور امرتسر کے مدارس میں حاصل کی،کچھ عرسہ مولانا احمد علی سہانپوری سے درس حدیث لیا پھر امر تسر آکر درس حدیث کی تکمیل کی[1]
سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں زبدۃ الکاملین حضرت خواجہ محمد الدین سیالوی قدس سرہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے[2] تکمیل کے بعد چند سال بھیں ضلع جہلم میں درس و تدریس کا شغل جاری رکھا۔
مولانا محمد کرم الدین و بیر کو قدرت نے بے پناہ مناظرہانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا چنانچہ انہوں نے تمام عرم مذاہب باطلہ( مرزائیہ ، شیعہ،وہابیہ کی تردید اور ان سے مناظرے کرنے میں صرف فرمائی۔آپ کے مخلص دوست مولانا فقیر محمد جہلمی (مؤلف حدائق الخفیہ) جہم سے ہفت روزہ سراج الاخبار نکالتے تھے، انہوں نے مولانا کرم الدین کو اس رسالے کا مدیر مقرر کر دیا۔آپ نے مرزائیوں کے خلاف زور دار مضامین لکھے،دنیائے مرزائیت میںتہلکہ مچ گیا،اور کوئی چارہ نظر نہ آیا تو آپ کے خلاف یکے بعد دیگر ے کئی مقدمات دائر کردئے ۔پہلا مقدمہ ۱۴؍نومبر ۱۹۰۲ء کو اور دوسرا ۲۹ جون ۱۹۰۳ء کو حکیم فضل دین بھیر وی قادیانی کی طرف سے گور اسپور یں دائر کیا، دوناں میں مولانا با عزت طور پر بری کردئے گئے،تیسرا مقدمہ شیخ یعقوب علی تراب ایڈیٹر اخبار الحکم کی طرف سے مولانا کرم الدین دبیر اور مولانا فقیر محمد جہلمی پر قائم کیا گیاجس میں مدعا علیہما پ ر ۵۴روپے جرمانہ ہوا جو ادا کردیا گیا۔
۱۷؍ جنوری ۱۹۰۳ء کو مرزائیوں کی طرف سے ایک کتاب مواہب الرحمن جہلم میں تقسیم کی گئی جس میںمولانا کے خلاف جی بھر کر زاہر ا گلاگیا تھا،مولانا کریم الدین دبیر نے مرزا غلام احمد قادیانی اور حکیم فضل دین بھیر وی کے خلاف استغاثہ دائر کرادیا،یہ مقدمہ دو سال تک چلتا رہا ۔۸؍اکتوبر ۱۹۰۴ء کو گور داسپور کے جج نے مرزا غلام احمد قادیانی پر پانچ سو روپے اور حکیم فضل سین پر دو سو روپے جرمانہ کا حکم دیا اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں بالترتیب چھہ ماہ اور پانچ ماہ قید کا حکم سنایا۔ اس مقدمہ میں مولاناکرم الدین کے بے باکانہ بیانات نے مر زائیوں کے کس بل نکال دئے اور فیصلے نے تو ان کے گھروں یں صف ماتم بچھادی۔اس کے علاوہ مولوی اللہ دتہ اور دیگر مرزائی مناظرین کے ساتھ کامیاب مناظرے کئے اور انہیں شکست فاش سے دو چار کر دیا۔
شیعہ مناظرین کو بھی للکار اور کئی بار انہیں شکست دی ۔ کندیاں میں مشہور شیعی مناظر مرزا احمد علی سے مناظرہ کیا اور فتح مبین حاصل کی ۔۳مئی ۱۹۲۰ء کو میر پور میں اور ۴؍اپریل ۱۹۲۳ء کو چک رجا وی،گجرات میں اہلحدیث کے مشہو ر مناظر مولوی ثناء اللہ امر تسری سے تقلید شخصی وغیرہ موضوعات پر مناظرہ کیا اور فریق مخالف کو لا جواب کردیا[3]مولانا دبیر کی خصوصیت یہ تھی کہ ایک دفعہ ان کے سامنے آنے والا دوبارہ سا منا کرنے سے گھبراتا تھا، ان کا علم وفضل،حاضر جوابی اور پر رعب شخصیت مقابل پر گہرا اثر ڈال دیتے تھے۔
حضرت مولانا دبیر، ناموس رسالت کے سچے محافظ،مسلک اہل سنت و جماعت کے مبلغ اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے والے بزرگ تھے،ان کے فرزند مولوی قاضی مظہر حسین(چکوال) اپنے والد کے بر عکس دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں،انہوں نے آفتاب ہدایت کے آغاز میں مصنف کا تعارف کراتے ہوئے یہ تاثردینے کی کوشش کی ہے کہ مولانا کرم الدین آخر عمر میں علماء دیوبند سے متاثر ہو کر اپنے مسلک سے بر گشتہ ہو گئے تھے[4]ہمارے سامنے ایسی کوئی بنیاد نہیں ہے جس کی بناپر ہم یہ سمجھ سکیں کہ مولانا نے مسلک اہل سنت چھوڑ کر مسلک علماء دیو بند اختیار کرلیا تھا لابتہ ایسے شواہد ملتے ہیں جن سے قطعی طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ سنّی تھے۔مثلاً اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کی مبارک تصنیف حسام الحرمین پر مولانا کرم الدین دبیر رحمہ اللہ تعالیٰ کی تقریظ درج ذیل الفاظ میں ملتی ہے:
’’باسمہ سبحانہٗ۔ حسام الحرمین میں جو کچھ لکھا ہے،عین حق ہے ، دیوبندی جن کے سر گروہ خلیل احمد ور شید احمد ہیں،نجدی گروہ متبعین محمد بن عبد الوہاب نجدی سے بھی زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ نجدی تو پہلے ہی سے مسلمانان مقلدین سے الگ تھگ ہو گئے، سلمانوں کو ان کے عقائد خبیثہ سے آگاہی ہو گئی اور ان سے مجتنب ہو گئے لیکن دیوبندی حنفی وہابی نما، حنفی مسلمانوں سے شکر و شیر ہو کر گویا حلوے میں زہر ملا کر ان کو ہلاک کر رہے ہیں ،اعاذنا اللہ منہم۔
اور اب تو ابن سعوس نجدی کے مداح بن کر عملاً سے انہوں نے علیحدہ گی اختیار کرلی ہے،بہر ھال نجدیوں اور دیوبندیوں کے دلوں میں خدا اور رسول خدا کی کچھ عظمت نہیں ہے۔امکان کذب باری کے قائل ہو کر انہوں نے تو ہین باری تعالیٰ کے جرم کا ارتکاب کیا،حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تنقیص شان میں مشرکین سے بھی بڑھ گئے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا علم معاذ اللہ! حیوانات اور مجانین کی طرح اور شیطان کے علم سے کم بتایا،میلاد النبی کو کنہیا کے سوا نگ سے تشبیہ دی اور میلاد کر نیوالوں کو مشرک کہا،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے’’لایؤمن احدکم حتیٰ کون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین‘‘ اور چونکہ ان لوگوں کے دلوں میں حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذرہ بھی موجود نہیںاس لئے یہ خارج از اسلام اور کافر ہیں جیسا کہ علمائے حرمین شریفین کا مدلل و مفصل فتویٰ ان کی نسبت صادر ہو چکا ہے۔‘‘
والسلام،خاکسار ابو الفضل محمد کرم الدین عفا اللہ عنہ ا ز ، بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم الجواب صحیح ،احمد دین واعظ الاسلام ازباو ستہائی ضلع جہلم۔
صح الجواب،محمد فیض الحسن عفا عنہ(مولوی فاضل) مدرس عربی گورنمنٹ ہائی سکول چکوال ضلع جہلم[5]
مولانا کرم الدین دبیر اپنے دور کے متجر فاضل تھے، یہ کیونکر ممکن ہے کہ صورت ھال سے بے خبر ہوتے ہوئے اس قدر شدید فتویٰ صادر کرتے۔
غالباً۱۹۳۶ء میں سلانوالی ضلع سر گودھا میں مولانا حشمت علی خاں لکھنوی ار مولوی منظور احمد نعمانی دیوبندی کے درمیان مسئلہ علم غیب پر مناظرہ ہوا تو مولانا کرم الدین دبیر اہلسنت کی طرف سے صدر،[6]اس مناظر ے کا اہتمام حضرت شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی دام ظلہ العالی نے کیا تھا،ظاہر ہے اسیے فیصلہ کن مناظرے میں اہلسنت کی طرف سے ایسے شخص کو صدر نہیں بنایا جا سکتا تھا جو بریلوی اور دیوبندی اختلاف سے صحیح طور پر آگاہ ہی نہ ہو۔
۱۹۲۰ء میں مولانا کرم الدین دبیر اور ضلع لائل پور کے مولوی محمد فاضل (غیرمقلد) کے درمیان مسئلۂ نور پر تحریری گفتگو ہوئی،بالآخر طے پایا کہ اہل سنت کے مرکزی دار العلوم جامہ نعمانیہ لاہور کی طرف رجوع کیا جائے،مولانا کرم الدین دبیر لکھتے ہیں:۔
’’رہایہ امر کہ آپ دیوبندی مولوی صاحب منصف گرد اننا چاہتے ہیں حالانکہ علماء حرمین شریفین کا فتویٰ علماء دیوبندکے خلاف صادر ہو چکا ہے آپ اسی حیص و بیص میں وقت گزرانا چاہتے ہیں،اگر آپ حنفی ہیں تو مولوی احمد رضا خاں صاحب کو منصف مان لیں،نہیں تو انجمن نعمانیہ،ہند،لاہور کو پرچے بھیجدئے جائیں،یہ بھی نہیں تو آپ خاموش رہیں[7]
مولانا بور بخش تو کلی اور مولوی غلام مرشد نے محاکمہ میں مولانا کرم الدین کی تائید کی۔
تبلیغ و مناظر ے کی بے حساب مصروفیان کے با وجود آپ نے کئی کتابیں تحریر فرمائیں، آپ کی تصانفی کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ آفتاب ہدایت رد فض و بدعت۔
۲۔ تازنۂ عبرت، ان مقدمات کی تفصیل جو مولانان ھے جہم اور گور داسپور میں مرزائے قادیانی کے ساتھ لڑے۔
۳۔ مناظر ات ثلاثہ
۴۔ صداقت مذہب نعمانی۔
کئی کتابوں پر آپ کی منظوم تقریظیں ملتی ہیں مثلاً سیرت الحبیب از چوہدری فضل حق ، چکوال ضلع جہلم پر طویل تقریظ پیش نظر ہے۔ ہدایت المسلمین از حضرت میاں محمد بخش قادری (مصنف سیف الملوک وغیرہ) پر ارد و نظم میں مبسوط تقرظ لکھی ہے ،اس میں فرماتے ہیں ؎
ہوا ک فرقہ پیدا کچھ دنوں سے
جو بد باطن خبیث و بد زباں ہے
وہ کہلاتے ہیں لا مذہب وہابی
بڑا گمراہ گرو نجددیاں
ہے نکلی سے اول یہ آفت
پھر آپہنچی یہ در ہندوستاں ہے
بنی شاخیں بہت ہیںاس کی یارو
گو رو سب کا مگر نجدی میاں ہے
کوئی مرزائی کوئی نیچری ہے ک
کوئی چکڑالوی اہل القراں ہے
مچایا دین میں فتنہ انہوں نے
پڑا اک شور سا اندر جہاں ہے[8]
آپ تصانیف میں آفتاب ہدایت کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ کئی ایڈیشن فروخت ہو گئے۔ مولانا کو امری ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمہ اللہ تعالیٰ سے والہانہ عقیدت تھی،آفتاب ہدایت کا انتساب حضرت امیر ملت کے نام تھا جو پہلے ایڈیشن میں اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مولانا کی وفات کے بعد کے ایڈیشنوں میں یہ انتساب موجود نہں ہے ،حجرت امیر ملت،مولانا کی دینی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، مولان کو غازیٔ اسلام کا لقب حضرت امیر ملت ہی کا عطا کردہ ہے۔
آفتاب ہدایت کے پہلے ایڈیشن میں حضرت مصنف نے اندرونی دشمنوں کا ذکر تے ہوئے روفض ، وہابی ،مرزائی وگیرہ کا ذکر کیا تھا، بعد والے ایڈیشنوں میں ’’وہابی ‘‘ کا ذکر بھی حذف کردیا گیا ہے۔
غازیٔ اسلام مولانا کرم الدین دبیر رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۸؍شعبان،۱۷جولائی (۱۳۶۵ھ؍۱۹۴۶ئ) کو حافظ آباد میں مکان کی چھت سے گر کر جاں بحق ہوئے او بھیں ضلع جہلم میں دفن ہوئے۔
[1] مظہر حسین قاضی : حالات مصنف،آفتاب ہدایت،مطبوعہ مکتبہ رشدیہ ، چکوال،ص ۱۷۔
[2] محمد منشا تالیش قصوری: تحریک رد مرزائیت کے تین مجاہد،ماہنامہ ضیائے حرم (تحریک ختم نبوت نمبر ،دسمبر ۱۹۷۴ئ) ص ۷۵
[3] مظہر حسین قاضی : آفتاب ہدایت ص۱۷۔۱۹۔
[4] ایضاً: ص ۲۰۔۲۱
[5] حشمت علی خاں ،مولانا: الصوار م الہندیہ مطبوعہ مکتبہ فرید یہ سا ہیوال ،ص ۱۱۔۱۱۱۔
[6] مظہر حسین،قاضی : آفتاب ہدایت،ص ۲۱
[7] نور بخش توکلی ، مولانا : نور مطبوعہ انجمن نعمانیہ ، لاہور ،ص ۳۱۔
[8] محمد بخش مولانا میاں: ہدایۃ المسلمین (مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور ) ص ۱۲۲۔۱۲۳۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)