حضرت ابوالحسن احمد امام قدوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
احمد بن محمد بن احمد بن المعروف بہ قدوری: ۳۶۲ھ میں پید ہوئے،ابو الحسن کنیت تھی اور چومتے طبقہ کے فقہائے کبارا ور فضلائے نا مدار میں سے فقیہ فاضل محدث صدوق اور عالی قدرو منزلت تھے۔عراق میں ریاست مذہب حنفیہ کی آپ کی طرف منتہی ہوئی۔سمعانی نے کہا ہے کہ آپ فقیہ صدوق تھے اور عمدہ عبارات لکھتے اور ہمیشہ قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔فقہ و حدیث آپ نے ابی عبد اللہ محمد بن یحییٰ جر جانی شاگرد احمد جصاص سے پڑھی اور روایت خطیب بغدادی اور قاضی القضاۃابو عبد اللہ دامغانی نے روایت کی اور ابو نصر احمد بن محمد فقیہ نے آپ سے فقہ پڑھی اور نیز آپ کی کتاب مختصر کی شرح لکھی۔آپ شیخ ابا حامد سفرائنی فقیہ شافعی سے اکثر مناظرہ کیاکرتے تھے تصانیف بھی آپ نے نہایت مفید ک یں جو مقبول و مروج بین الانام ہوئیں چنانچہ مختصر مبارک جس کو قدوری کہتے ہیں،نہایت ہی متداول ہے،علاوہ اس کے شرح مختصر کرخی،کتاب تجرید دربارہ اختلاف امام ابو حنیفہ و امام شافعی سات جلدوں مین تصنیف کی نیز ایک کتاب تقریب ان مسائل اختلافیہ میں بغیر دلائل کے لکھی جو امام ابو حنیفہ ادران کے اصحاب کے باہم وقع میں آئے ہیں، پھر دوسری تقریب تصنیف کی جس میں ان مسائل اختلافیہ کو با دلائل لکھا۔
آپ کا ایک بیٹا محمد نام تھا جس کو آپ نے فقہ نہ پڑھائی اور اکثر اسے کہا کرتے تھےکہ کوئی دن اپنی زندگی کےآرام سے بسر کرلے،پس وہ جوانی میں مرگیا۔وفات آپ کی بغداد میں یوم یکشنبہ پنجم ماہ رجب ۴۲۸ھ میں ہوئی اور اسی روز اپنے گھر میں جو درب ابی خلف میں تھا،دفن کیے گئے پھر آپ کو وہاں سے نکال کر تربت شارع منصور مین ابی بکر خوار زمی حنفی کےپاس دفن کیا گیا۔قدوری آپ کو اس لیے کہا کرتے تھے کہ آپ قصبہ قدور کے رہنےوالتے تھے۔بعض نےکہا کہ بسبب تجارت یا بنانے ہانڈیون کے اس نام مشہور ہوئے۔’’ل؛امع النور‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)
//php } ?>