حضرت مولانا شیخ عبدالرحمن نقشبندی مجددی
حضرت مولانا شیخ عبدالرحمن نقشبندی مجددی (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا شیخ عبدالرحمن نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: مولانا شیخ عبدالرحمن نقشبندی مجددی سکھروی۔لقب:فاضلِ کامل،عارفِ واصل۔جامع شریعت وطریقت۔والد کااسم گرامی: مولانا کمال الدین۔آبائی وطن بلوچستان تھا۔آپ کےوالد گرامی بلوچستان سےسکھر آئےاور پھر یہیں پہ مستقل سکونت اختیار کرلی۔اس وقت سکھر شہرنیاآباد ہورہاتھا۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:459/سندھ کےصوفیائے نقشبندحصہ دوم:543)
مقامِ ولادت:آپ کی ولادت باسعادت بلوچستان میں ہوئی ۔
تحصیلِ علم:ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم مولانا کمال الدین سے حاصل کی ۔ اس کے بعد سندھ کے نامور فقیہ،ممتاز عالم دین ،شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا محمد یعقوب ہمایونی قد س سرہ کی مرکزی درسگاہ ہمایوں شریف میں ظاہری و باطنی تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے ۔ (انوار علمائے اہل سنت سندھ:459)
بیعت و خلافت : حضرت علامہ عبدالرحمن سلسلہ عالیہ نقشبند یہ مجددیہ میں غوث الزماں،قطب الدوراں،حضرت خواجہ عبدالقیوم جان مجددی قندھاری قدس سرہ العزیز کے دستِ بیعت ہوئے ۔ اس کے بعد خلافت سے نوازے گئے ۔
سیرت وخصائص: فاضلِ اجل،عالم اکمل،عارفِ اکبر،ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ،جامع شریعت وطریقت،واصل بااللہ،عاشق رسول اللہﷺ،حامیِ سنت،ماحیِ کفر وشرک وبدعت،قاطعِ نجدیت ودیوبندیت ووہابیت،حامل لوائے شریعت،حضرت علامہ مولانا شیخ عبدالرحمن نقشبندی مجددی سکھروی ۔آپان شخصیات میں سےہیں جنہوں نےدینِ اسلام کی اشاعت وترویج میں ہرطریقے سےخدمت فرمائی ہے۔سرزمینِ سکھرآپ کی برکت سےمرجع العلم والعلماء بن گئی تھی۔جہاں دوردراز علاقوں سےمتلاشیانِ علم حاضر ہوکراپنی علمی پیاس بجھاتےتھے۔اسی طرح اہل باطن اپناباطن سنوار کرمیخانہ ٔوحدت کےجام لٹاتےتھے۔
درس و تدریس:مولانا عبدالرحمن نےسکھر میں دینی درسگاہ قائم کی،جہاں آپ درس دیاکرتےتھے۔افغانستان،ہندوستان،حجاز مقدس،عراق،شام اور بمبئی وغیرہ دور دراز علاقوں و ممالک سے طلباء سکھر آکر علوم و فیوض اخذ کرتے تھے۔(تذکرۃ الصلحاء:25) ایک روایت کے مطابق آپ جس مسجد شریف میں درس دیا کرتے تھے وہ آج سکھر کی کپڑا مارکیٹ میں مدینہ مسجد کے نام سے موسوم ہے ۔ (انوار علمائے اہل سنت سندھ:459)مولانا عبدالرحمن کے پوتے مولانا غلام محمد کا بیان ہے: روہڑی شریف کے نامور بزرگ و شاعر فقیر قادر بخش بیدلؔ ، مولانا عبدالرحمن کے شاگرد تھے ۔ ایک روز بیدل فقیر شرح جامی کا درس لے رہے تھے کہ اچانک دوران درس ’’عشق ‘‘ کا لفظ آیا ۔ فقیر بیدل رک گئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور استاد محترم سے عرض کی :حضرت! ’’عشق ‘‘ کا لفظ زمین وآسمان سے بڑا نظر آرہا ہے، میرے لئے یہی کافی ہے اب مجھ سے آگے نہیں پڑھا جاتا۔(تذکرہ مشاہیر سندھ:210)
نوٹ:عزت مآب، محقق، علامہ مولانا صاحبزادہ سید محمد زین العابدین راشدی مدظلہ العالی نے’’انوار علمائےاہل سنت سندھ‘‘میں تحریر فرمایا ہے: کہ حضرت مولانا عبدالرحمن کے ہاتھ پر ایک شخص مسلمان ہوا جس کا نام’’غلام حسین‘‘ رکھا گیا ۔ غلام حسین نے مولانا صاحب کے پاس دینی علوم میں تحصیل کی ۔ مولانا غلام حسین نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد حضرت شاہ فیض جمالی فیض آباد احمد انی تحصیل ڈیرہ غازی خان ( پنجاب ) میں مدرسہ قائم کیا ۔ اس مدرسہ سے سندھ کے نامور عالم و مدرس مولانا سید محسن علی شاہ ( میاں جو گوٹھ ) نے استفادہ کیا۔
حقیقت یہ ہےاس کےنام کےکسی بھی شخص نےڈیرہ غازی خان میں مدرسہ قائم نہیں کیا۔دراصل یہاں پہ تسامح ہواہے۔ جس شخص نےآپ کےہاتھ پہ اسلام قبول کیااورعلم وعرفاں کی دولت سےمالا ہوکرجویہاں سےاس علاقے کی طرف گئےتھےان کانام ہے’’مولانا خواجہ محمد نورالدین،والدِ گرامی عارف باللہ حضرت خواجہ فیض محمد شاہجمالی‘‘(خلیفہ حضرت خواجہ شاہ اللہ بخش تونسوی)انہوں نےیہاں پرایک درس قائم کیاتھاجہاں سےایک جہاں فیض یاب ہوا۔(تذکرہ خانوادہ شاہ جمالی:2)
عادات وخصائل : آپ شریعت و طریقت کے پابند،بڑے مہمان نواز،کتنے ہی کیوں نہ مہمان مسافر آجائیں سب آپ کے دستر خوان سے مستفیض ہو کے جاتے تھے ۔ شروع میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی رکھا لیکن بعد میں آپ ہمہ تن سب کچھ چھوڑ کر مخلوق خدا کی رشد و ہدایت اور ان کی رہبری و رہنمائی میں مصروف ہوگئے چنانچہ آپ کی تبلیغ و ارشاد سے بہت سے کفار دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور آپ کے دست حق پرست پر مسلمان ہو کر دارین کی فوز و فلاح سے ہم کنار ہو گئے ۔ حتیٰ کہ اس سلسلہ میں آپ پر مقدمے بھی قائم کئے گئے لیکن آپ کے پایہ استقلال میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی اور آپ سب کچھ سہتے ہوئے اعلا ء کلمۃ الحق اور تبلیغ دین مبین میں مصروف رہے اور مسلسل کافروں کو مسلمان کرتے رہے ۔ ( صوفیائے نقشبندحصہ دوم:543)آپ کے چہرہ مبارکہ میں قدرت نے وہ کشش و نورانیت رکھی تھی کہ کافر دیکھ کر بے خود ہو کر کلمہ شریف پڑھ کر مسلمان ہو جاتے تھے اس لئے انگریز گورنمنٹ نے آپ پر پابندی لگائی کہ آپ ہندو آبادی میں نہیں جائیں گے ۔
تلبیس ذریتِ ابلیس:روافض کی طرح خوارج(وہابیہ ودیابنہ)بھی اہل سنت کےنامور علماء ومشائخ کواپنےکھاتےمیں ڈالنےکی سعی لاحاصل میں مصروف ہیں۔تاکہ ان سےاپناتعلق ظاہرکرکےسادہ لوح عوام کےایمان پر آسانی سےڈاکہ ڈالا جاسکے۔کیونکہ پاک وہند کی عوام کی اکثریت اولیاء وصلحاء کوماننےوالی ہے،اس لئےانہوں نےبھی اب پیری مریدی کی دوکانیں سجالیں ہیں۔حالانکہ ان کاپیرتو’’شیخ ِنجد‘‘ہے۔مولانا شیخ عبدالرحمن نقشبندی مجددی سکھرویکاتعلق اہل حق اہل سنت وجماعت سےتھا۔جوپیرہوگا وہ سنی ہوگا،کبھی بےادب پیرنہیں ہوسکتا۔جتنےبھی اولیاء گزرےہیں سب کےسب سنی صحیح العقیدہ تھے۔آپ کےصحیح العقیدہ سنی ہونےکےچند دلائل:
1۔قاطعِ وہابیت ونجدیت،نبیرۂ حضرت مجددالفِ ثانی حضرت خواجہ محمد حسن جان سرہندیکااپنی کتاب’’تذکرۃ الصلحاء فی بیان الاتقیاء‘‘میں ان کاذکرکرنا،اور ان کی تعریف وتوصیف کرناان کی سنیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔
2۔آپ حضرت علامہ مولانا محمد یعقوب ہمایونی کےشاگرد اورحضرت خواجہ عبدالقیوم جان مجددیکےمریدوخلیفہ تھے۔
3۔آپ کی ایک قلمی کتاب میں وظیفہ’’یاشیخ عبدالقادرجیلانی شیئا للہ‘‘لکھاہواتھا،اور دیابنہ کےنزدیک یہ شرک وحرام ہے۔(تذکرہ خانوادہ شاہجمالی:5)
4۔جامع المنقول والمعقول حضرت علامہ پیرمحمد اکرم شاہ جمالیفرماتےہیں:’’جب میں حضرت کےمزارپرحاضر ہواتھا،تومزار اقدس پرجوتختی نصب تھی جس پر کچھ ابیات درج تھے،اورکناروں پر۔۔۔یا اللہ،اور یامحمدتحریرتھا‘‘۔(ایضا:5)
5۔آپ کی اولاد الحمد للہ سنی ہے۔اسی طرح آپ میلاد شریف کرتےتھے۔سرکارِ دوعالم ﷺکےلئےعلمِ غیب اورآپﷺکونور من نوراللہ کاعقیدہ رکھتےتھے۔(ایضا:7)
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 23/شوال المکرم 1314ھ مطابق مارچ/1897ءکوہوا۔آپ کامزار پرانوارسکھر شہرکےوسط میں گھنٹہ گھرکےقریب قبرستان میں واقع ہے۔
ماخذ ومراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔سندھ کےصوفیائےنقشبند۔تذکرہ مشاہیرسندھ۔تذکرۃ الصلحاء فی بیان الاتقیاء۔تذکرہ خانوادہ شاہجمالی۔