فاضل کامل حضرت علامہ عبد الرحمن (سکھر)
فاضل کامل حضرت علامہ عبد الرحمن (سکھر) علیہ الرحمۃ
فاضل کامل حضرت مولانا عبدالرحمن بن حضرت مولانا کمال الدین بلوچستان میں تولد ہوئے ۔ اپنے والد ماجد کے ساتھ بلوچستان سے سکھر ( سندھ ) تشریف لائے اور مستقل سکونت اختیار کی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سکھر شہر کے آباد ہونے کے ابتدائی دن تھے ۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم مولانا کمال الدین سے حاصل کی ۔ اس کے بعد سندھ کے نامور فقیہ ، ممتاز عالم دین ، شیخ الحدیث حضرت علامہ خلیفہ محمد یعقوب ہمایونی قد س سرہ کی مرکزی درسگاہ ہمایون شریف میں ظاہری و باطنی تعلیم حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے ۔
بیعت و خلافت :
علامہ عبدالرحمن نے سلسلہ نقشبند یہ میں غوث الزمان ، قطب الدوران ، حضرت خواجہ عبدالقیوم جان مجددی قندھاری قدس سرہ العزیز کے دست بیعت ہوئے ۔ اس کے بعد خلافت سے نوازے گئے ۔
درس و تدریس :
مولانا عبدالرحمن نے نیو سکھر میں دینی درسگاہ قائم کی تھی ، جہاں درس دیا کرتے تھے ۔ حجاز مقدس ، عراق ، شام اور بمبئی وغیرہ دور دراز علاقوں و ممالک سے طلباء سکھر آکر علوم و فیوض اخذ کرتے تھے ۔ ایک روایت کے مطابق آپ جس مسجد شریف میں درس دیا کرتے تھے وہ آج سکھر کی کپڑا مارکیٹ میں مدینہ مسجد کے نام سے موسوم ہے ۔ ( شریعت سوانح نمبر )
مولانا عبدالرحمن کے پوتے مولانا غلام محمد کا بیان ہے: روہڑی شریف کے نامور بزرگ و شاعر فقیر قادر بخش بیدل ، مولانا عبدالرحمن کے شاگرد تھے ۔ ایک روز بیدل فقیر شرح جامی کا درس لے رہے تھے کہ اچانک دوران درس ’’عشق ‘‘ کا لفظ آیا ۔ فقیر بیدل رک گئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور استاد محترم سے عرض کی :حضرت! ’’عشق ‘‘ کا لفظ زمین وآسمان سے بڑا نظر آرہا ہے، میرے لئے یہی کافی ہے اب مجھ سے آگے نہیں پڑھا جاتا ۔ (تذکرہ مشاہیر سندھ ) حضرت مولانا عبدالرحمن کے ہاتھ پر ایک شخص مسلمان ہوا جس کا نام غلام حسین رکھا گیا ۔ غلام حسین نے مولانا صاحب کے پاس دینی علوم میںتحصیل کی ۔ مولانا غلام حسین نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد حضرت شاہ فیض جمالی فیض آباد احمد انی تحصیل ڈیرہ غازی خان ( پنجاب ) میں مدرسہ قائم کیا ۔ اس مدرسہ سے سندھ کے نامور عالم و مدرس مولانا سید محسن علی شاہ ( میاں جو گوٹھ ) نے استفادہ کیا۔
(مولانا عبدالرحمن ، مضمون نگار مولانا دمحمد قاسم اویسی یاسینی ، الراشد صفر ۱۳۹۸ھ)
تلامذہ :
حضرت علاوہ عبدالرحمن کے تلامذہ کی فہرست نہایت طویل ہے ۔ جس میں سے بعض کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
٭ نامور صوفی شاعر فقیر قادر بخش بیدل روہڑی شریف ضلع سکھر
٭ مولانا غلام حسین ڈیرہ غازی خان
٭ مولانا عبدالکریم بن حضرت مولانا عبدالرحمن
٭ مولانا عطا ء اللہ ، مولانا عبدالرحمن کے بھانجے
اولاد :
مورخ سندھ رحیم داد مولائی شیدائی ، آپ کے خاندان کے متعلق رقمطراز ہیں :
٭ مولانا عبدالکریم بن الحاج مولانا عبدالرحمن ، ۱۹۰۷ء سے عید گاہ سکھر کے امام رہے ۔
٭ الحاج میاں عبدالحکیم بن الحاج مولانا عبدالرحمن ان کے دو بیٹے عبدالعزیز اور عبدالغفور تھے ۔
٭ مولانا حکیم غلام محمد بن مولانا عبدالکریم بن مولانا عبدالرحمن اپنے والد مرحوم کے بعد عید گاہ کے امام مقرر ہوئے ۔ اور بند رروڈ سکھر پر مطب چلاتے تھے اور راقم شیدائی کے دوست تھے ۔ کج
٭ مولانا عطاء اللہ ( مولانا عبدالرحمن کے بھانجے و شاگرد تھے ) کامل ولی اللہ تھے ۔
٭ مولانا احمد بن مولانا عطاء اللہ اس وقت سکھر کے مختار کار ہیں ۔
۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۹ء کے حالات سے متاثر ہو کر مولانا عبدالرحمن کا خاندان سکھر وسط سے پرانہ سکھر منتقل ہوگیا۔ ( تاریخ سکھر )
عادات وخصائل :
آپ شریعت و طریقت کے پابند ، بڑے مہمان نواز ، کتنے ہی کیوں نہ مہمان مسافر آجائیں سب آپ کے دستر خوان سے مستفیض ہو کے جاتے تھے ۔ شروع میں آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی رکھا لیکن بعد میں آپ ہمہ تن سب کچھ چھوڑ کر مخلوق خدا کی رشد و ہدایت اور ان کی رہبری و رہنمائی میں مصروف ہوگئے چنانچہ آپ کی تبلیغ و ارشاد سے بہت سے کفار دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور آپ کے دست حق پرست پر مسلمان ہو کر دارین کی فوز و فلاح سے ہمکنار ہو گئے ۔ حتیٰ کہ اس سلسلہ میں آپ پر مقدمے بھی قائم کئے گئے لیکن آپ کے پایہ استقلال میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی اور آپ سب کچھ سہتے ہوئے اعلا ء کلمۃ الحق اور تبلیغ دین مبین میںمصروف رہے اور مسلسل کافروں کو مسلمان کرتے رہے ۔ ( صوفیائے نقشبندج ۲)
آپ کے چہرہ مبارکہ میں قدرت نے وہ کشش و نورانیت رکھی تھی کہ کافر دیکھ کر بے خود ہو کر کلمہ شریف پڑھ کر مسلمان ہو جاتے تھے اس لئے انگریز گورنمنٹ نے آپ پر پابندی لگائی کہ آپ ہندو آبادی میں نہیں جائیں گے ۔ حضرت مولانا عبدالرحمن کا تذکرہ قاطع وہابیت فاتح نجدیت حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی ؒ نے اپنی کتاب ’’تذکرۃ الصلحا ء فی بیان الا تقیاء ‘‘ ( مطبوعہ مطبع نظامی کا نپور ۱۳۴۸ھ؍ ۱۹۲۹ء ) میں کیا ہے ۔ اس کتاب میں آپ نے ہمعصرا ن علماء و مشائخ کا تذکرہ کیا ہے جن کی صحبت سے لذت یاب ہوئے ۔ اس سے حضرت مولانا عبدالرحمن کا مسلک مبارک واضح ہو رہا ہے اور مخالفین کو جھوٹی کہانیاں گھڑنے اور تاریخ مسخ کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا ۔ جیسے جیسے حقائق ظاہر ہوں گے تاریخ پر پڑے ہوئے پردے تار تار ہو جائیں گے ۔
وصال :
عارف کامل حضرت مولانا عبدالرحمن نے ستر سال کی عمر میں طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو کر ۲۳، شوال المکرم ۱۳۱۴ھ؍۱۸۹۷ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے ۔ آپ کی مزار شریف سکھر شہر کے وسط میں ( نزد گھنٹہ گھر ) شیخ شینھن سر کار کے مشہور معروف قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔
مولانا محمد صالح مرحوم ساکن ڈکھن تتھصیل مدئجی ضلع سکھر نے درج ذیل قطعہ تاریخ وصال کہا:
صاحب فیض و کرامت، عارف قطب زماں
مولوی عبدالرحمن شیخ اسلام جہان
وارث سجادہ حضرت رسول ذوالکرم
شیخ اکمل، فخر علمائ، عارف عالی مقام
در جہاد نفس و شیطان عمر خود را کرد صرف
دوسرائے باغ جنت شد خراماں جو شہان
سال تاریخ وصالش جست صالح از خرد
صورت تاریخ وصلش، اینچنیں کردہ بیاں
بیست و سوم ازماہ شوال، شب آدنیہ بود
کان گہر در گنج دان خاک لحد شد نہاں
باز از سال وصالش اینچین دادہ خبر
مجہتد دوراں دور نامہ رونق اسلامیاں
۱۳۱۴ھ
(تذکرہ مشاہیر سندھ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)