حضرت مولانا مفتی محمد عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ (مفتی ِ الگوں)
نام ونسب: اسمِ گرامی:حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبدالعزیز۔لقب: مفتیِ الگوں۔یہ لقب علاقہ (الگوں) کی نسبت سےہے۔آپ کےتاریخِ ولادت اور خاندان کےبارےمیں معلومات دستیاب نہیں ہوئی۔
تحصیلِ علم: حضرت شرفِ ملت علامہ عبدالحکیم شرف قادریفرماتےہیں:’’ امین الحسنات حضرت مولانا سید خلیل احمد قادری خطیب مسجد وزیر خاں نے ایک دفعہ بر سبیل تذکرہ راقم سے بیان کیا کہ حضرت مفتی صاحب ابتداء ًوہابی علماء سے تعلیم حاصل کرتے رہے تھے ۔اس لئے ان پرغیرمقلدانہ رنگ چڑھاہواتھا۔خوش قسمتی سے حدیث شریف پڑھنے کےلئے امام المحدثین حضرت مولانا سیددیدارعلی شاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔بعض حضرات کا خیال تھاکہ انہیں دار العلوم حزب الاحناف لاہور میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔لیکن حضر ت امام المحدثین نےنہ صرف داخلے کی اجازت دی بلکہ خاص توجہ سےبھی سرفرازفرمایا۔چندہی دنوں میں حضرت امام المحدثین کے دلائلِ قاہرہ اورتوجہ کی برکت سے اثراتِ وہابیت کا فور ہو گئےاورحنفیت کا ایسا رنگ چڑھا کہ حضرت مفتی عبد العزیزتمام عمر فقہ حنفی کی خدمت اور اہل باطل کی سر کوبی میں مصروف رہے۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:234)
بیعت وخلافت: آ پ سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت میاں غلام اللہ لاثانی شر قپوریسےبیعت اورمجازتھے۔
سیرت وخصائص:فاضلِ جلیل،عالمِ نبیل،جامع الکمال،حضرت علامہ مولانا عبدالعزیز نقشبندی۔آپاپنے دور کے زبرد ست فاضل،مسلک اہل سنت و جماعت کے عظیم مبلغ،فقہِ حنفی کےعظیم مفتی اور ملت اسلامہ کا بے پناہ درد رکھنے والنے بزرگ تھے۔ابتداءً وہابی اساتذہ سےتعلیم کی بدولت وہابیت کارنگ چڑھاہواتھا۔پھر امام المحدثین سید دیدار علی شاہ کی برکت اورخصوصی توجہ سےوہ رنگ زائل ہوا،اور شرقپوریکی کامل توجہ سےنقشبندی ومصطفوی رنگ چڑھا۔یہ رنگ ایسا چڑھاکہ پھرجوملااس کوبھی اس رنگ میں رنگ دیا۔ساری زندگی ملت اسلامیہ کی خدمت میں مصروف رہے۔حضرت امام اعظم ابوحنیفہکےمسلک ِ حق کی ترویج واشاعت فرماتےرہے،اور وہابیت کی بیخ کنی نصب العین رہا۔آپ کےابتدائی حالات پردۂ خفامیں ہیں۔
حضرت مولانا مفتی محمدعبدالعزیزنےفراغت کےبعدضلع لاہور کے ایک قصبہ الگوں ( جو تقسیم کے بعد ہندوستان کا حصہ بن گیا ) میں 1933ء میں ’’مدرسہ عربیہ احیاء العلوم‘‘قائم کیا۔آپ کے دورۂ حدیث کے ساتھی فقیہ ِاعظم حضرت مولانا مفتی ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی بصیر پوری نےبصیر پور میں دارالعلوم حنفیہ فرید یہ کا آغازکیا۔الگوں ایک ایسا قصبہ تھا جہاں کے باشندےاحکامِ الٰہیہ سےبےبہرہ تھے۔ مدرسہ عربیہ احیاء العلوم کے قیام سے جہاں ایک طرف،اطراف و اکناف کےطلباء اپنی علمی پیاس بجھانے لگےوہاں دوسری طرف عوام الناس میں پھیلی ہوئی جہالت کی تاریکی چھٹنے لگی اور یہ علاقہ ذکر الٰہی اور ذکر مصطفیٰﷺکے نور سے جگمگانےلگا۔
قیام پاکستان کے بعد حضرت مفتی محمد عبد العزیز نے غلہ منڈی بور یوالہ کی جامع مسجد میں مدرسہ عربیہ احیاء العلوم دوبارہ جاری کردیا ۔ 1950ء میں مدرسہ کے سالانہ جلسہ کے موقع پر آپ نے حاضرین کی توجہ مدرسہ کی عمارت قائم کرنے کی طرف مبذول کرائی تو سردار محمد یعقوب نے مدرسہ کو دو کنال زمین دے دی ، ۔3مئی 1951ء کو عمارت کا سنگ بنیادرکھ دیاگیا اور اسی سال مدرسہ نئی عمارت میں منتقل ہو گیا جواب تک دین متین کی خدمات بحسن و خوبی انجام دے رہا ہے ۔
1945ء اور 1954ء میں دوبارحرمین طیبین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضرت مفتی صاحب نے عمر بھر علوم دینیہ کی تعلیم اور مسلک اہل سنت و جماعت کی تبلیغ میں صرف کی،آپ کے شاگردارور شاگردوں کے آج بھی مختلف شہروں میں خدمات دین میں مصروف ہیں۔ان میں سےایک نام عمدۃ المتکلمین،خطیبِ پاکستان حضرت علامہ مولانا سید محمد محفوظ الحق شاہ صاحب اطال اللہ عمرہ (خلیفہ حضرت قطبِ مدینہ)کابھی ہے۔
تاریخِ وصال: 1960ء میں حضرت پرذیابیطس کاشدیدحملہ ہوا،علاج کارگرنہ ہو سکا،اور10ذیقعدہ1380ھ مطابق 26/اپریل1961ء،بروزبدھ چار بجےشام داعیِ اجل کولبیک کہا۔بوریوالا ہی آخری آرام گاہ بنی۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابر اہل سنت۔