حضرت علامہ مولانا مفتی عبد العزیز (مفتیٔ الگوں)
حضرت علامہ مولانا مفتی عبد العزیز (مفتیٔ الگوں) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اپنے دور کے زبرد ست فاضل ، مسلک اہل سنت و جماعت کے عظم مبلغ حضرت مولانا الحاج مفتی محمد عبد العزیز قدس سرہ فقہ حنفی کے عظم مفتی اور ملت اسلامہ کا بے پناہ درد رکھنے والنے بزرگ تھے، آپ کے ابتدائی حالات پردئہ خفاء میں ہیں ۔ امین الحسنات حضرت مولانا سید خلیل احمد قادری مد ظلہ خطیب مسجد وزیر خاں نے ایک دفعہ بر سبیل تزکرہ راقم سے بیان کیا کہ حضرت مفتی صاحب ابتداء وہابی علماء سے تعلیم حاسل کرتے رہے تھے اس لئے ان پر غیر مقلد نہ رنگ چرھا ہوا تھا ، خوش قسمتی سے حدیث شریف پڑھنے کے لئے امام المحدثین حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ بعض حضرات کا خیار تھا کہ انہیں دار العلوم حزب الاحناف ، لاہور میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے لیکن حضر ت امام المحدثین نے نہ صرف داخلے کی اجازت دی بلکہ خاص توجہ سے بھی سر فراز فرمایا ۔ چندہی دنوں میں حضرت امام المحدثین کے دلائل قاہرہ اور توجہ کی برکت سے اثرات وہابیت کا فور ہو گئے اور حنفیت کا ایسا رنگ چڑھا کہ حضرت مفتی عبد العزیز قدس سرہ تمام عمر فقہ حنفی کی خدمت اور اہل باطل کی سر کوبی میں مصروف رہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ نے فراغت ے بعد ضلع لاہور کے ایک قصبہ الگوں ( جو تقسیم کے بعد ہندوستان کا حصہ بن گیا ) میں ۱۹۳۳ء میں مدرسہ عربیہ احیاء العلوم قائم کیا ۔ آپ کے دورئہ حدیث کے ساتھی فقیہ جلیل حضرت مولانا مفتی ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی مد ظلہ العالی نے بسیر پور میں دارالعلوم حنفیہ فرید یہ کا آگاز کیا ۔ الگوں ایک ایسا قصبہ تھا جہاں کے باشنے احکام الیٰہیہ سے بے بہرہ تھے۔ مدرسہ عربیہ احیاء العلوم کے قیام سے جہاں ایک طرف ، اطراف و اکناف کے طلباء اپنی علمی پیاس بجھانے لے وہاں دوسری طرف عوام الناس میں پھیلی ہوئی جہالت کی تاریکی چھٹنے لگی اور یہ علاقہ ذکر الٰہی اور ذکر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نور سے جگمگانے لگا۔
قیام پاکستان کے بعد حضرت مفتی محمد عبد العزیز نے غلہ منڈی بور یوالہ کی جامع مسجد میں مدرسہ عربیہ احیاء العلوم دوبارہ جاری کردیا ۔ ۱۹۵۰ء میں مدرسہ کے سالانہ جلسہ کے موقع پر ااپ نے حاضرین کی توجہ مدرسہ کی عمارت قائم کرنے کی طرف مبذول کرائی تو سردار محمد یعقوب نے مدرسہ کو دو کنال زمین دے دی ، ۳ مئی ۱۹۵۱ء کو عمارت کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا اور اسی سال مدرسہ نئی عمارت میں منتقل ہو گیا جواب تک دین متین ی خدمات بحسن و خوبی انجام دے رہا ہے ۔
آ پ سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت میاں غلام اللہ ،لاثانی شر قپوری قدس سرہ سے بیعت اور مجاز تھے۔ ۱۹۴۵ء اور ۱۹۵۴ء میں دوباہ زیارت حرمین طیبین کی زیارت سے مشرف ہوئے حضرت مفتی صاحب نے عمر بھر علوم دینیہ کی تعلیم اور مسلک اہل سنت و جماعت کی تبلیغ میں صرف کی ،آپ کے شاگرد آج بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں خدمات دین میں مصروف ہیں ، چند تلامذہ کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ ابو الفیض مولانا علی محمد نوری ، وہاڑی
۳۔ ابو الیسر مولانا محمد اسمٰعیل علیہ الرحمہ ، بو یوالہ
۳۔ مولانا زبیر احمد ، چک ۴۱۵، بور یوالہ
۴۔ ابو الرضا مولانا محمد حسن ، منڈی ہیراسنگھ
۵۔ مولانا محمد علی ، چک ۴۸۳
۶۔ مولانا محمد شیف نوری ، کہروڑ پکا
۷۔ مولانا سید محفوظ الھق شاہ ، بور یوالہ
۸۔ مولانا سید عبد الخالق ، چک ۶۲۷ ، ضلع ساہیوال
۱۹۶۰ء میں حضرت مفتی صاحب پر ویا بیطس کا شدید حملہ ہوا ، علاج کارگرنہ ہو سکا ور ۱۰ ذیقعدہ ، ۲۶ اپریل ( ۱۳۸۰ھ /۱۹۶۱ئ) بروز بدھ چار بجے شام آپ کا وصال ہوگیا بور یوالہ کا نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہیں ، صاحبزادگان کے نام یہ ہیں :۔
۱۔ مولانا محمد عتیق الرحمن زید مجدہ ، مہتمم
۲۔ مولانا محمد خلیق الرحمن ، نائب مہتمم اور صدر مدرس
۳۔ حافظ شفیق الرحمن ، مدرس شعبۂ حفظ
۴۔ مولانا حافظ محمد عشیق الرحمن ، مہتمم مدرسہ عزیز یہ ، غازی آباد [1]
[1] ابو الاحسان ، مدیر ادارہ علمیہ ، لاہور : مجل روئیداو مدرسہ عربیہ احیاء العلوم ، بور یوالہ
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)