حضرت علامہ مولانا محمدعالم آسی امرتسری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:علامہ مولانا محمد عالم آسی۔لقب:آسی۔امرتسر علاقے کی نسبت سے"امرتسری" کہلائے۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت علامہ محمد عالم امرتسری بن حضرت مولانا عبدا لحمید بن عارف باللہ مولانا غلام احمد علیہم الرحمہ والرضوان۔آپ کاخاندان علم وفضل اور زہدوتقویٰ کی بدولت مرجع الخلائق تھا۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 8/شعبان المعظم 1298ھ،مطابق ماہ جولائی/1881ء کوموضع راگھو سیدن ضلع گوجرانولہ میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور کے دار العلوم نعمانیہ کے اساتذہ حضرت مولانا غلام احمد صدر المدرسین،حضرت مولانا ابو الفیض محمد حسن فیضی،حضرت مولانا غلام محمد بگوی،مولانا مفتی عبید اللہ ٹونکی،مفتی اعظم پنجاب حضرت علامہ مولانا غلام قادر بھیروی سے علوم متعارفہ کی تحصیل کی۔ پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں امتیازی نمبر حاصل کرکے وظیفہ کے مستحق قرار پائے۔علم طب میں حکیم حاذق اور زبدۃ الحکماء کی سندیں حاصل کیں۔
بیعت وخلافت: سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں حضرت شاہ عبد اللہ ابوالخیر مجددی سےبیعت ہوئے،اور کچھ عرصہ بعد شاہ صاحب نے آپ کو خلافت واجازت سے مشرف فرمایا۔
سیرت وخصائص: ادیب،اریب،فاضلِ جلیل،عالم نبیل،محقق،جامع علوم جدیدہ وقدیمہ،فاضل،حضرت علامہ مولانا محمد عالم آسی امرتسری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے جید اور کامل عالمِ دین تھے۔پورے ہندوستان میں آپ کا شہرہ تھا۔تحصیلِ علم سےفراغت کے بعد دار العلوم نعمانیہ کے صدر مدرس مقرر ہوئے، اس کے علاوہ لاہور کے چند مدارس میں پڑھایا،لاہور سے امر تسر پہنچے اور مدرسہ نصرۃ الحق میں ادب کے استاذ مقرر ہوئے۔مدرسہ نصرۃ الحق جب ایم ۔اے۔او۔کالج ہوا،توآپ عربی کے پروفیسرمقررہوگئے، اورپھر یہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔
اس وقت طلباء آپ سےشرف تلمذ کوسعادت خیال کرتے،اور اس پر فخر کرتےتھے۔آپ کےشاگردوں میں بڑی نامی گرامی شخصیات ہیں۔ تلامذہ میں حضرت صاحبزادہ محمد عمر صاحب پیربل شریف، ڈاکٹر محمد حسن،پی۔ایچ۔ڈی سابق شیخ الادب جامعہ اسلامیہ بہاول پور، علامہ غلام محمد ترنم،فخر الاطباء علامہ فقیر محمد چشتی نظامی امر تسری (والد حکیم محمد موسی امرتسری)،محقق عصر محسن اہل سنت مولانا حکیم محمد موسیٰ امرتسری علیہم الرحمہ۔مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری احراری،مفتی محمد حسن خلیفہ تھانوی ۔ آزادوں میں ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ پروفیسر پنجاب یونیورسٹی،علامہ حکیم فیروز الدین طغرائی وغیرہ نامور ہوئے۔
آپ کی تصانیف میں "الکادیہ علی الغاویہ"(رد مرزائیت میں بزبان اردو مطبوع) (عربی غیر مطبوع) الجثجا ث علی السلام فی الذب عن حریم الاسلام مرزائی مبلغ غلام رسول آف راجکی کے رد میں ،"المیلانی فی القرآن" اور رسائل صرف ونحو مشہور و معروف ہیں ۔
آپ کو اپنے مذہب ومسلک سے گہری وابستگی تھی،اخبار الفقیہ امرتسر کے خصوصی معاون تھے۔خطاطی میں بے مثل کمال حاصل تھا۔ خط نسخ میں آپ جیسا لکھنے والے لوگ کم ہوں گے۔عربی شعر ونثر کی تحریر پر آپ کو بے پناہ قدرت حاصل تھی۔علم وفن اور بالخصوص عربی ادب میں دور دور تک آپ کی نظیرنہ تھی۔ آپ نہایت نیک نفس،متقی،متورع وصوفی بزرگ تھے۔سادگی،منکسرالمزاجی،اور تواضع پسند تھے۔حسنِ اَخلاق کےمالک تھے۔پروفیسر تھے،لیکن اپنےطلباء کےذہن میں اسلامی تہذیب وثقافت اوردین سےمحبت،اور اطاعتِ خداورسولﷺ کا جذبہ بیدار کرتےتھے۔
تاریخِ وصال: 28/شعبان المعظم 1363ھ،مطابق 18/اگست 1944ءبعد نماز جمعہ واصل باللہ ہوئے۔امرتسر کےمقامی قبرستان میں ابدی راحت فرماہیں۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔