حضرت علامہ مولانا محمدعالم آسی امرتسری
حضرت علامہ مولانا محمدعالم آسی امرتسری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ادیب اریب، فاضل جلیل، عامل کامل حضرت علامہ محمد عالم ابن حضرت مولانا عبدا لحمید ابن عارف باللہ مولانا غلام احمد موضع راگھوسیدان ضلع گوجرانوالہ میں ۸؍شعبان ۱۲۹۸ھ کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیلم کے بعد لاہور کے دار العلوم نعمانیہ کے اساتذہ حضرت مولانا غلام احمد صدر المدرسین، حضرت مولانا ابو الفیض محمد حسن فیضی، حضرت مولانا غلام محمد ہگوی، مولانا مفتی عبید اللہ ٹونکی، مفتی اعطم پنجاب حضرت علامہ غلام قادر بھیروی سے علوم متعارفہ کی تحصیل کی،
پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں امتیازی نمبر حاصل کیے اور وظیفہ کے مستحق قرار پائے، حکیم حاذق اور زبدۃ الحکماء کی سندیں حاصل کیں،۔۔۔۔ فراغت کے بعد دار العلوم نعمانیہ کے صدر مدرس مقرر ہوئے، اس کے علاوہ لاہور کے چند مدارس میں پڑھایا، لاہور سے امر تسر پہونچے اور مدرسہ نصرۃ الحق میں ادب کے استاذ مقرر ہوئے، مدرسہ نصرۃ الحق جب ایم اے اوکالج ہوا، تو عربی کے پروفیسر ہوگئے، اور یہیں سے ریٹائرڈ ہوئے،
سُنّی تلامذہ میں حضرت صاحبزادہ محمد عمر صاحب پیربل شریف، ڈاکٹر محمد حسن پی۔ایچ۔ڈی سابق شیخ الادب جامعہ اسلامیہ بہاول پور، علامہ غلام محمد ترنم، فخر الاطباء علامہ فقیر محمد چشتی نظامی امر تسری اور دیوبندی شاگردوں میں عطاء اللہ شاہ بخاری، مفتی محمد حسن خلیفہ تھانوی صاحب، اور آزادوں میں ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ پروفیسر پنجاب یونیورسٹی، علامہ حکیم فیروز الدین طغرائی، علامہ عرشی امر تسری، حکیم محبوب عالم، آغاخلش کاشمیری، پروفیسر محمد ابراہیم ڈار، پروفیسر اسماعیل یوسف کالج بمبئی نامور ہوئے۔
آپ تصانیف میں الکاویہ علی القاویہ (رد مرزائیت میں بزبان اردو مطبوع) (عربی غیر مطبوع) الجثجا ث علی السلام فی الذب عن حریم الاسلام مرزائی مبلغ غلام رسول آف راجکی کے رد میں المیلانی فی القرآن، اور رسائل صرف ونوح مشہور و معروف ہیں
آپ کو اپنے مذہب ومسلک سے گہری وابستگی تھی، اخبار الفقیہہ امرت کے خصوصی معاون تھے، خطاطی میں بے مثل کمال حاصل تھا خط نسخ میں آپ جیسا لکھنے والے لوگ کم ہوں گے، عربی شعر ونثر کی تحریر پر آپ کو قدرت بے پناہ حاصل تھی، دور دور تک آپ کی نظیرنہ تھی،۔۔۔۔۔ دہلی کےایک سفر میں حضرت شاہ عبداللہ ابو الخیر مجددی سے مرید ہوئے شاہ صاحب نے درود امر تسر کے موقع پر آپ کو خلافت عطا فرمائی
آپ نہایت نیک نفس، متقی، متورع وصوفی بزرگ گذرےہیں، ۲۸،شعبان ۱۳۶۳ھ موافق ۱۸؍اگست ۱۹۴۴ء بعد نماز جمعہ واسل الی اللہ ہوئے، آپ کا مزار گورستان بلا کا سنگھ امر تسر میں تھا، جو اَب دوسری قبروں کے ساتھ ہموار کیا جا چکا ہے۔
(تذکرہ آسی)