فاضل جلیل حضرت مولانا علامہ محمد سعید شبلی ساہیوال
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1313 | ذوالحجہ | 10 |
یوم وصال | 1403 |
فاضل جلیل حضرت مولانا علامہ محمد سعید شبلی ساہیوال (تذکرہ / سوانح)
فاضل جلیل حضرت مولانا علامہ محمد سعید شبلی ساہیوال علیہ الرحمۃ
استاذ العلماء مولانا سعید صاحب شبلی بن مولانا قائم الدین ہندوستان کی مشہور ریاست فرید کوٹ میں دس ذوالحجۃ المبارکہ ۱۳۱۳ھ، ۱۸۹۶ء کو ایک علم دوست اور ممتاز ارائیں خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ تقریباً ساڑھے تین سال کے ہوئے ہوں گے کہ والدہ ماجدہ انتقال فرما گئیں۔ اس لیے دادی صاحبہ نے پرورش شروع کی اور اپنی ایک عابدہ، زاہدہ ہجمولی غوث بی بی کے پاس قرآن پاک کی تعلیم کے لیے بٹھایا۔ آپ نے پانچ سال کی عمر میں قرآن پاک ختم کیا اور پھر پنجابی زبان میں شرعی مسائل کی چند کتابیں پڑھ کر اردو میں اسلام کی پہلی، دوسری اور فارسی کی کچھ ابتدائی کتب حضرت علامہ مولانا قاضی محمد رکن الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ، قاضی شہر اور خطیب و امام جامع مسجد و عیدگاہ فرید کوٹ سے پڑھیں۔ ازاں بعدِ سکوں کی دوسری جماعت میں داخلہ لیا داخلے کے صرف بیس دن بعد خدا داد ذہانت کے باعث سے تیسری جماعت میں منتقل کردیے گئے۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں جماعت میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے رہے، حتیٰ کہ ہائی سکول کے ہید ماسٹر انسپکٹر سکولز اور ڈائریکٹر تعلیم نے نوٹ تحریر کیا کہ اس بچے کو جماعت نہم میں ترقی دی جائے، کیونکہ اس کی قابلیت نویں جماعت کے طلباء سے ملتی جلتی ہے۔
اسی دوران میں آپ اپنے سکول کے ایک نامور فاضل استاذ مولانا محمد عبد الحلیم رحمۃ اللہ تعالیٰ عربک گولڈ میڈلسٹ ایم او امل سے بعد نماز ظہر عربی کا مروجہ تقلاب *** اور تفسیر جلالین، مشکوٰۃ شریف اور ترجمہ قرآن پاک پڑھتے رہے۔
کچھ عرصہ بعد اورنٹیل کالج لاہور میں منشی فاضل کے کورس کے لیے داخلہ لیا اور اپنی خدا داد قابلیت کے باعث نہ صرف انگریزی کا امتحان پاس کیا، بلکہ کالج کے پرنسپل اے سی ولز جرمن نے آپ کا نتیجہ دیکھ کر ماہانہ وظیفہ مقرر کردیا۔
منشی فاصل کے بعد آپ نے مولوی فاضل کی تیاری شروع کی، لیکن بعض نوجوان احباب نے آپ سے اکتساب فیض کی خواہش کا اظہار کیا، جس کے پیشِ نظر شہر کی جامع مسجد میں ثبینہ مدرسہ شروع کردیا گیا۔ (آغاز ہی میں ستر طلباء نے اپنے نام درج کروائے) چنانچہ تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے آپ نے فاضل عربی کا پروگرام ترک کردیا۔
آپ نے جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
۱۔ مولانا میاں قائم الدین رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۵۶ء (والد ماجد)
۲۔ رابعہ عصر غوث بی بی، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا
۳۔ مولانا حافظ عبد الحلیم قریشی، بی اے او ایل عربک ایم او ایل گولڈ میڈلسٹ پنجاب یونیورسٹی
۴۔ مولانا قاضی محمد کن الدین، قاضی و خطیب شہر فرید کوٹ
۵۔ مولانا محمد دین، پروفیسر اعلیٰ شعبۂ فارسی اورنٹیل کالج لاہور
۶۔ مولانا رشید احمد ابن مولانا فیض الحسن سہارنپوری (شبلی نعمانی کے استاد)
۷۔ پادری اے سی ولز رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی و پرنسپل اورنٹیل کالج لاہور (جو جدید انگلش کے اپنے مرتبہ اسباق عربی کے انداز میں پڑہاتے تھے۔)
۸۔ ماسٹر جیشی رام شائق چشتی صابری(شارح سلوک فریدی، جو قرآن مجید کی آیات و احادیث کے حوالہ جات اور اپنے اشعار سے تصنیف کی ہے ہندو نام ہے، نماز روزہ اور اولاد و وظائف، تہجد اور میلاد شریف کے پابند تھے۔)
۹۔ حضرت مولانا عبد العزیز مدرس شاہی مسجد لاہور
۱۰۔ مولانا کمال الدین، فاضل مراد آباد
مندرجہ بالا اساتذہ کے علاوہ جن بزرگان دین و مشائخ سے آپ نے روحانی فیوضات حاصل کیے، ان کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں۔
۱۔ شیخ الاسلام حضرت بابا فرید الیدن گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۱۹۴۸ء میں بحالت خواب)
۲۔ حضرت مولانا محمد صالح نقشبندی قادری چشتی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ۔ (حضرت موصوف سے آپ کو شرفِ بیعت حاصل ہے بقول قاضی عبد الحکیم ایم اے لاہور
۳۔ حضرت پیر غوث محمد چشتی صابری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۴۔ شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ[۱]
[۱۔ حضرت مولانا شبلی مدظلہ نے اپنی تصنیف لطیف فضائل صلوٰۃ و سلام میں ذکر فرمایا کہ ایک مرتبہ شرقپور شریف حاضری ہوئی، اس سے قبل مسئلہ تقلید کے بارے میں کچھ تفکر تھا؛ چنانچہ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے از خود حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ کی تصنیف کی تصنیف الا نصاف کا صفحہ ۶۸ نکال کر فرمایا اے پڑھو اس میں لکھا تھا کہ ہندوستان والوں کے لیے واجب ہے کہ وہ حنفی مذہب رہیں، فضائل صلوٰۃ و سلام میں۔]
۵۔ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۶۔ حضرت پیر علی حسین شاہ صاحب، محدث کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ
۷۔ حضرت مولانا احمد مختار صاحب میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ(تایا حضرت علامہ شاہ احمد نورانی مدظلہ)
۸۔ مفتی اعظم حضرت مولانا سید دیدار علی شاہ الواری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
۹۔ حضرت مولانا مفتی محمد مظہر اللہ صاحب، خطیب جامع مسجد فتح پوری دہلی۔
۱۰۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ(حضرت حجۃ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کو خلافت بھی حاصل ہے، اسی نسبت سے آپ حامدی بھی کہلاتے ہیں۔ حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ)
۱۱۔ مفتی اعظم حضرت مولانا مصطفیٰ رضا خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ بریلی شریف۔
۱۲۔ صدر الاقاصل حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ کا(حضرت صدر الافاضل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کا طریقہ مبارکہ تھا کہ آپ کا جو شاگرد فیروزپور پنجاب کی طرف آتا، اسے حضرت شبلی کے مشورہ سے کام کرنے کی ہدایت فرماتے۔
۱۳۔ حضرت شیخ مولانا ضیاء الدین مدنی دامت برکاتہم العالیہ، مدینہ شریف(آپ سے علامہ شبلی کو خلافت حاصل ہے۔ حکیم محمد موسیٰ صاحب امر تسری مدظلہ)
۱۴۔ مجدّد وقت حضرت مولانا محمد یوسف بن اسماعیل بنھانی شامی رحمۃ اللہ علیہ۔
۱۵۔ حضرت محدّث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد رحمۃ اللہ سے آپ کی ملاقات ۱۹۵۰ء میں فیصل آباد میں ہوئی، تو حضرت محدّث اعظم نے فرمایا، میں ہندوستان کے جس شہر میں گیا آپ کی تعریف سنی؛ چنانچہ ۱۹۵۵ء جامعہ رضویہ کے طلباء کی دستار بندی بھی حضرت محدّث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کے دست مبارک سے کروائی۔
تبلیغ دین کے سلسلہ میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ ۱۹۲۴ء میں ماہنامہ شریعت جاری کیا جس میں آپ کی مؤلفہ تفسیر قرآن پاک قسط وار شائع ہوتی رہی۔ یہ ماہنامہ تقریباً ڈھائی سال جاری رہا۔
اسلامیہ *** فیروز پور کینٹ کی طرف سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’مشرق‘‘ کے بھی مدیر رہے۔
آپ کی خطیبانہ زندگی کی تفصیل یہ ہے۔
۱۔ جامع مسجد فرید کوٹ(۱۷۔۱۹۱۶ء، ۲۴۔۲۳۔۱۹۲۱ء)
۲۔ جامع مسجد سرہانی کلاں ضلع امر تسر(۲۰۔۱۹۔۱۹۱۸ء)، (۱۹۲۰ء کے چند ماہ)
۳۔ جامع مسجد مکتر ضلع فیروز پور(۲۷۔۲۶۔۱۹۲۵ء)
۴۔ جامع مسجد فیروز پور چھاؤنی و عیدگاہ (۱۹۲۷ء تا ۱۹۴۷ء) ان تمام مساجد میں آپ بلا معاوضہ فرائض خطابت سرانجام دیتے رہے۔
۵۔ پاکستان بننے کے بعد ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۴ء تک محکمہ پولیس میں بطور مولوی سب انسپکٹر امامت و خطابت کے فرائض انجام دیے ہیں۔
۶۔ جامع مسجد ساہیوال(یہاں آپ نے منشی فاصل کی شبنیہ کلاس بھی جاری کی)
۷۔ مارچ ۱۹۵۵ء میں مسجد جان محمد لاہور صدر میں فرائض خطابت انجام دینے شروع کیے اور علوم شرقیہ کی تدریس کے لیے مدرسہ قائم کیا۔
۸۔ لاہور سے آپ دوبارہ ساہیوال تشریف لے گئے اور خطابت کے فرائض انجام دینے شروع کیے اس سے قبل آپ ساہیوال میں انجمن اصلاح المسلمین کی بنیاد ڈال چکے تھے اور مدینہ مسجد کے نام سے عظیم جامع مسجد بھی بنائی گئی تھی۔
۹۔ رینالہ خورد کے احباب، باصرار آپ کو برائے خطابت لے گئے، جہاں آپ نے خطابت کے علاوہ دینی علوم کا ایک مدرسہ بھی جاری کیا جس میں آپ خود اور نائب امام بلا معاوضہ تعلیم دیتے رہے۔
۱۰۔ انجمن اصلاح المسلمین ساہیوال کے اصرار پر آپ رینالہ خورد کی جامع مسجد سے مستعفی ہوکر ساہیوال میں انجمن مذکوہ کی نظامت مدرسہ جامعہ حنفیہ کی نگرانی اور جامع مسجد مدینہ کی خطابت اور تعمیر و تنظیم کے فرائض ادا کرنے لگے۔ دو سال بعد جامع مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر مستعفی ہوگئے۔
۱۱۔ ۱۰ء جنوری ۱۹۶۷ء کو آپ جامع مسجد گگو منڈی ساہیوال میں محکمہ اوقاف کی جانب سے خطیب مقرر ہوئے۔
۱۲۔ یکم جولائی ۱۹۶۷ء کو تبدیل ہوکر آستانہ عالیہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ کی جامع مسجد میں بحیثیت خطیب تعینات ہوئے۔
۱۳۔ ۱۹ء نومبر ۱۹۷۲ء کو آپ کا تبادلہ مرکزی جامع مسجد غلہ منڈی عارف والہ میں ہوا، اور ۸؍ اگست ۱۹۷۸ء کو آپ ریٹائرڈ ہوگئے۔
آج کل آپ تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ہیں۔ خطابت کے علاوہ آپ مختلف سکولوں میں ناظم دینیات و مدرس کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتے رہے، جن سکولوں میں آپ نے کام کیا، ان کی فہرست یہ ہے۔
۱۔ گورنمنت ہائی سکول فرید کوٹ(ہندوستان)
۲۔ گورنمنٹ ہائی سکول موگا۔ ضلع فیروز پور۔
۳۔ گورنمنٹ ہائی سکول مکتسر۔ ضلع فیروز پور۔
۴۔ اسلامیہ ہائی سکول، شیر انوالہ گیٹ، لاہور۔
۵۔ اسلامیہ ہائی سکول۔ فیروز پور، ہندوستان۔
۶۔ مسلم ہائی سکول، راولپنڈی
آپ مختلف دینی مدارس کی سرپرستی کے علاوہ تین سال رینالہ خورد میں علوم اسلامیہ کی تدریس بھی فرماتے رہے۔
آپ کے پاس ایک نادر کتب خانہ تھا، جو فسادات ۱۹۴۷ء میں تباہ ہوگیا، جس میں آپ کی بعض تصانیف میں ضائع ہوگئیں۔ سندھی تحریک اور تحریکِ پاکستان میں بالخصوص اور دیگر اسلامی تحریکوں میں بالعموم آپ نے نہایت گرمجوشی سے حصّہ لیا۔ مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے آپ نے بارہ صفحات پر مشتمل خطبہ عید الاضحیٰ صدر مسلم لیگ کی درخواست پر تالیف کیا، جو بیس ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور پنجاب کی عید گاہوں میں خطباء حضرات نے بیان کیا۔ اس خطبہ میں آپ نے آیات و احادیث کے دلائل سے ثابت کیا تھا کہ کفارے سے تعلقات و موالات حرام ہے اور علامات قیامت میں سے ہے۔
چنانچہ کانگریسیوں کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد اس شخص پر علماء کی ہتکِ عزت کا دعویٰ کیا جائے گا۔ کانگریس اس منصوبے میں ناکام رہے، البتہ سکھوں نے آپ پر قاتلانہ حملہ کیا، جس سے آپ کا صاحبزادہ بعمر ۲۵؍ سال بُری طرح زخمی ہوگیا۔
ہندوستان میں قیام کے دوران ہی آپ انجمن اصلاح المسلمین قائم کی تھی، سالانہ جلسہ ہوا، تو فرید کوٹ جو سکھ ریاست تھی، کے حکام نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی لیکن آپ نے کوئی پروا نہ کی۔ بازار کے چوک میں ایک قدیم مسجد کو فرید کوٹ کے راجہ نے محض ایک مسافر شخص کے اذان کہنے پر مقضل کردیا تھا اور میونسپل کمیٹی نے وہاں دفتر بنایا ہوا تھا اور ان کا منصوبہ تھا کہ یہاں عالی شان عمارت تعمیر کی جائے۔
آپ نے دیگر مسلمانوں(سوائے چند وظیفہ خوارانِ ریاست کے) بالخصوص اپنے تلامذہ حضرت مولانا غلام قادر اشرفی، مولانا علم الدّین رحمہما اللہ کے تعاون سے مسجد کی بازیابی کا سوال اُٹھایا؛ چنانچہ ۱۹۴۶ء میں یہ مسجد مسلمانوں کو نہایت با وقار طریقے سے مل گئی۔
ماہنامہ ’’شریعت‘‘ اور ماہنامہ ’’مشرق‘‘ کی اوارت کے علاوہ درج ذیل تحریرات آپ کے رشحاتِ قلم ہیں۔
۱۔ تفسیر قرآن کریم، پہلی جلد
۲۔ اشاعتِ نماز(کلاں)
۳۔ خطبۂ عید الاضحیٰ (جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے)
۴۔ خطبہ افتتاحیہ آل انڈیا نماز کانفرنس ۱۹۴۱ء
۵۔ مسائل عید الاضحیٰ
۶۔ شب برأت
۷۔ تفسیر حروفِ مقطعات
۸۔ جواہر البحار (فی الاحادیث) یہ کتاب ۱۹۳۹ء میں لکھی گئی، طباعت نہ ہوسکی اور ۱۹۴۷ء کے فسادات میں مشرقی پنجاب میں رہ گئی۔
۹۔ ابرارالرکائز
۱۰۔ کشف الستّار
۱۱۔ احسن الکلام فی فضائل الصلوٰۃ و السلام
۱۲۔ القول الثابت
۱۳۔ البنیات ور مسئلہ زکاۃ
۱۴۔ فیوض رحمانی در وجوب قربانی
۱۵۔ اربعین من احادیث سید المرسلین
۱۶۔ سیرت غوث اعظم(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
۱۷۔ سیرتِ بابا فرید (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
۱۸۔ اشاعتِ نماز (خورو)
۱۹۔ دیدار مولیٰ تعالیٰ (بشمول معراج شریف مدلّل)
۲۰۔ بے مثل بشر
۲۱۔ محدثین ہندو پاک
۲۲۔ اصح المطالب فی شعب ابی طالب، وغیرہا
۲۳۔ البنیات فی قیام رمضان
حضرت مولانا محمد سعید شبلی مدظلہ کی خدمات سے متاثر ہوکر مسلموں و غیر مسلموں نے آپ کو تصدیقی سندات پیش کیں۔ اکثر سندات تقسیم ملک کے وقت ضائع ہوگئیں؛ البتہ ایک سند جو مسلم ہائی سکول راولپنڈی کی طرف سے آپ کو دی گئی۔ آپ کے پاس موجود ہے، جس میں سکول کے مینجنگ ہیڈ ماسٹر نے آپ کی خدمت کو نہات شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔
آپ سے علمی پیاس بجھانے والے فضلاء میں سے چند ایک کے اسماء یہ ہیں۔
۱۔ حضرت مولانا غلام قادر اشرفی رحمۃ اللہ تعالیٰ الیہ(م۔۱۳۹۹ھ)
۲۔ حضرت مولانا علم الدّین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
۳۔ چودھری عبد الرحمٰن صاحب، ایم اے ایل ایل ایم سابق ڈپٹی سیکرٹری گورنمنٹ پنجاب۔
۴۔ مولانا عبد الحفیظ خطیب جامع مسجد، رینالہ خورد
۵۔ مولانا عبد العزیز خطیب جامع مسجد، عارف والہ
۶۔ مولانا نظام الدین صاحب، بوریوالہ
۷۔ مولانا قاری عبد الرشید خطیب ساندہ خورو لاہور
۸۔ مولانا قاری احمد حسین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، گجرات
۹۔ مولانا عبد الحمید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(مولوی فاضل آپ کے فرزند ارجمند)
۱۰۔ مولانا فیض علی خطیب گڑھی شاہو لاہور
علاوہ ازیں۔
جناب بصیر شمسی پنشنر بریگیڈیر، نصیر شمسی ہیڈ ماسٹر ملتان، چودھری نذیر احمد ماسٹر رینالہ خورو ڈاکٹر محمود الحسن بریگیڈیر راولپنڈی، قاضی عبد الحکیم ایم اے ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ لاہور۔[۱]
[۱۔ حضرت مولانا قاضی عبد الحکیم ایم اے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ہیں۔ نیک فطرت اور متشرع بزرگ ہیں۔ جامع مسجد عمر روڈ اسلام پورہ لاہور میں درس قرآن دیتے ہیں۔ آپ نے سنّی تبلیغی نصاب کے نام سے ایک کتاب بھی تصنیف فرمائی جو طبعت کے مراحل میں ہے۔]
اور جناب نذیر احمد پنشز ہوائی سروس وغیرہ کو بھی آپ سے اکتساب فیض کا شرف حاصل ہے۔[۱]
[۱۔ مکتوب حضرت علامہ شبلی مدظلہ بنام جناب حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ]
آپ کے دو صاحبزادے، مولانا عبد المجید اور میاں عبد العزیز انتقال فرما چکے ہیں جبکہ تین صاحبزادے، میاں عبد الحفیظ فاروقی ساہیوال، میاں عبد المجید لاہور اور میاں عبد الرشید ساہیوال بقید حیات ہیں۔[۱]
[۱۔ صاحبزادگان کی فہرست علامہ شبلی مدظلہ کے پوتے جناب شاہد صاحب نے عنایت فرمائی۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)