حضرت علامہ مولانا ظہور الحسن درس رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت مولانا ظہورالحسن درس۔لقب:افتخار اہل سنت،خطیب اہل سنت،قائد اہل سنت۔تخلص: درس۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: حضرت علامہ مولانا مولانا ظہورالحسن درس بن شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالکریم درس بن شیخ التفسیر علامہ عبداللہ درس بن مولانا خیر محمددرس بن مولانا عبدالرحیم درس۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 5/ذوالحج 1322ھ،مطابق 9/فروری 1905ء بروز جمعرات ،صدرکراچی میں ہوئی۔
تحصیل علم:علمی ماحول میں آنکھ کھولی اور جد امجد کے قائم کردہ مدرسہ درسیہ صدر کراچی میں تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ والد گرامی علامہ عبدالکریم درس اور مولانا صوفی عبداللہ درس سے درسی نصاب میں تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔ تمام علوم متدوالہ میں مہارت ِ تامہ رکھتےتھے۔
بیعت وخلافت: آپ خانوادہ گیلانیہ بغداد شریف کے ایک عظیم بزرگ حضرت سید عبدالسلام گیلانی قادری سے سلسلہ قادریہ میں بیعت و خلافت سے سر فراز تھے ۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:385)
سیرت وخصائص: افتخار اہل سنت،خطیب اہل سنت،محسن ملک وملت،جامع شریعت وطریقت،قائد تحریک پاکستان حضرت علامہ مولانا ظہورالحسن درس رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کا خاندان علم وفضل تقوی ٰ ودینداری میں بےمثال ہے۔آپ کےوالد گرامی شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبدالکریم درس اپنے وقت کےعظیم صوفی اور جید عالم دین تھے۔ان کےاعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضاخان قادری کےساتھ خصوصی تعلقات تھے۔بلکہ جب مولاناامام احمد رضا خان1905ء میں دوسری بار حج سے واپس ہوئے تو کراچی میں مولانا عبدالکریم درس کے ہاں قیام فرمایا ،اور یہیں سے واپس بمبئی تشریف گئے ۔آپ کے خاندانی کتب خانہ میں اب بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے خطوط موجود ہیں۔ اعلیٰ حضرت کےوصال کےبعد آپ کےصاحبزادے حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامدرضاخاں علیہ الرحمہ کے آپ کےساتھ گہرے تعلقات رہے۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کےتیسرے عرس کےموقع پر آپ خصوصی طور پرمدعو تھے۔(انوار علمائے اہل سنت سندھ:438)
مولاناظہور الحسن درس اپنے والد گرامی اور جدامجد کی پیروی میں عید گاہ بند ر روڈ ( تقسیم ہند سے پہلے کراچی شہر میں نماز عید کا مرکزی اجتماع صرف عید گاہ میدان بندر روڈ پر ہوتا تھا اور نماز عید آپ ہی پڑ ھاتے تھے اور یہاں علماء و مشائخ و حفاظ و سادات کا اچھا خاصا اجتماع ہوتا تھا ) میں جمعہ اور عیدین کی امامت و خطابت کے جملہ فرائض انجام دیا کرتے تھے۔آپ کی مادری زبان سندھی تھی لیکن اردو ، اردو دانوں کے لب و لہجہ سے بولتے تھے،سندھی اردو کے شاعر اور جادوبیاں خطیب تھے ۔ عید گاہ گراؤ نڈ میں آپ کا خطاب سننے کیلئے دور دراز سے لوگ کھینچے چلے آتے تھے ۔ آپ نہ صرف سحربیاں مقرر تھے بلکہ علوم دینیہ اور علوم جدید ہ کا بہترین امتزاج تھے۔
تحریکِ پاکستان میں عظیم خدمات: 12۔13 فروری 1946ء کو قیام پاکستان سے صرف ڈیڑھ سال قبل تحریک پاکستان کے سلسلے میں اسی عید گاہ قصاباں میں آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد بحیثیت جنرل سیکریٹری مسلم جماعت انتظامیہ (رجسٹرڈ ) سر براہ جماعت اہل سنت،رکن آل انڈیا سنی کانفرنس حضرت علامہ ظہور الحسن درس ہوا ۔ جس میں برصغیر پاک وہند کےجید علماءکرام ومشائخ عظام نے شرکت کی اور تحریک پاکستان سے وابستگی کے عزم کو دہرایا اور بنارس سنی کانفرنس اور اجمیر سنی کانفرنس کی طرح تجدید عہد کیا ۔ علامہ ظہور الحسن درس کی دعوت پر میرٹھ سے حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی ، بدایون سے علامہ عبدالحامد بدایونی اور بریلی شریف سے حضرت علامہ حامد رضا خان بریلوی اور مراد آباد سے حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی و دیگر نے شرکت فرمائی۔ علامہ درس جو کراچی سنی کانفرنس کے روح رواں تھے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے سلسلہ میں ایک تاریخی خطبہ دیا ۔ جس میں مملکت خداداد پاکستان کے مقاصد پر روشنی ڈالی، آپ کا یہ خطبہ تاریخ پاکستان کا ایک سنہراباب ہے۔حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آباد ی نے بنارس سنی کانفرنس 1946ء کے موقع پر علامہ ظہور الحسن درس کو جماعت اہل سنت کے احیا ء کیلئے پچاس روپے کا فنڈ عنایت کیا تھا اور جس کی بقیہ رقم 27روپے بعد میں علامہ درس نے علامہ مراد آبادی کو واپس لوٹا دی اور فرمایا’’ کل23 روپے خرچ کئے تھے کہ جماعت اہل سنت خود کفیل ہوگئی ‘‘۔ (انوار علمائے اہل سنت سندھ:385)
سب سے پہلی قرار داد پاکستان: حضرت علامہ ظہور الحسن درس نے مذہبی اور قانونی پہلووٗ ں کو مد نظر رکھتے ہوئے 1935ء میں مسلم جماعت انتظامیہ جامع مسجد قصاباں صدر و عید گاہ بند روڈ کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جسے سوسا ئٹی ایکٹ 1860ء کے تحت سندھ کے دارالحکومت بمبئی سے 36 1935ء میں رجسٹرڈ کرایا ۔ اس رجسٹرڈ ٹرسٹ کے ٹرسٹی متولی سیکریٹری جنرل اور سر براہ علامہ ظہور الحسن درس تھے ۔ اور تحریک پاکستان کے سر کردہ رہنماوٗ ں میں شامل تھے ۔ تحریک پاکستان کے سلسلے میں 11/ اکتوبر 1938ء کوصوبائی کانفرنس قائداعظم محمد علی جناح کی صدارت میں اسی عید گاہ میدان بند ر روڈ میں منعقد ہوئی ، جس کی اہمیت یہ ہے کہ 1940ء کی قرار داد پاکستان لاہور سے قبل یہی قرار داد پاکستان اسی عید گاہ میں بھاری اکثریت کے ساتھ منظور ہوئی اور معمولی سے ردو بدل کے ساتھ 23/ مارچ 1940ء کو لاہور میں منظور کی گئی ۔چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ 1938ء میں سندھ اسمبلی میں جو قرار داد پاکستان کی حمایت کی منظور ی دی گئی اور یہ وہ قرار دا دہے جو برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے منظور ہوئی اس کو عوامی حمایت و تائید اسی عید گاہ میدان میں حاصل ہوئی ، جس کے ٹرسٹی سیکرٹری جنرل اور خطیب علامہ ظہور الحسن درس تھے ۔ 14 15 اکتوبر 1939ء کو علامہ درس کی کاوشوں سے اسی عید گاہ میں ایک تاریخی جلسہ منعقد ہوا جس میں برصغیر پاک و ہند کے صف اول کے رہنما شریک ہوئے ۔
15 دسمبر 1941ء کو اسی عید گاہ قصابا ں میں حضرت علامہ ظہور الحسن درس کی صدارت میں کراچی مسلم لیگ کا نفرنس منعقد ہوئی ۔ 1938ء میں عید گاہ بندر روڈ پر نماز عید کے اجتماع میں جہاں کراچی کا مرکزی اجتماع منعقد ہوتا تھا علامہ ظہور الحسن درس نے ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی اور سندھ کے کانگریسی وزیر اعلی اللہ بخش سومرو کے خلاف عوامی قرار داد منظور کروائی جس کے بعد سندھ میں صوبائی حکومت کی تبدیلی کا عمل شروع ہوا اور کانگریسی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر منظم تحریک کا آغاز ہوا۔ علامہ درس 1940 ء تا 1947ء آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور سندھ پر اونشنل مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر اور دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم اجلاسوں میں سندھ کے نمائندہ و فد میں شریک رہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علماء ومشائخ اہل سنت نے مسلم لیگ کی سب سے پہلے اور کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ کی بھر پور،بے لوث اور بے باک حمایت کا سہرا علماء و مشائخ اہل سنت ہی کے سر ہے ۔
دستور ِ پاکستان:13 فروری 1949ء بمقام جہانگیر پارک صدر کراچی میں جمعیت علماء پاکستان کے قیام کے بعد اس کے سالانہ اجلاس میں علامہ ظہور الحسن درس نے جمعیت علماء پاکستان کی سالانہ کارکردگی بحیثیت ناظم عمومی پیش کر تے ہوئے فرمایا کہ فروری 1949ء کے گذشتہ اجلاس میں سب سے اہم مسئلہ اسلامی دستور کی تیاری اور نفاذ کا تھا ۔ جمعیت علماء پاکستان نے اس مطالبہ کو موثر بنانے کے لئے امکانی ذرائع اختیار کئے مقام مسرت ہے کہ ہماری مملکت نے پاک دستور کے اجلاس میں اعلان کر دیا کہ اس مملکت کے دستور کی بنیاد و اساس کتاب و سنت پر ہو گی ۔ اس اعلان پر پاکستان کے مسلمانوں نے مسرت کے جذبات کا اظہار کیا مگر انتہائی افسوس کے ساتھ اس کا اظہار کرنا پڑ تا ہے کہ ایک سال کی طویل مدت میںاسلامی دستور مرتب کرنے والی کمیٹی نے کیا کام کیا؟ ا س کا عام و خاص طور پر کسی کو علم نہیں ۔ چنانچہ جمعیت علمائے پاکستان کا ایک وفد جس میں مولانا ظہور الحسن درس ، مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا قاری مصلح الدین شامل تھے ۔علامہ ظہور الحسن درس اور ان کے رفقاء کا یہ وہ عظیم کارنامہ ہے جو قرار داد مقاصد کی منظوری کا سنگ میل تھا ۔ قرار داد مقا صد ملک میں اسلامی دستور کی طرف وہ پہلا مثبت و ٹھوس قدم ہے جس کے ذریعہ ملک کے دستوری و آئینی رخ کو صحیح سمت اختیار کرنے میں مدد ملی اور اس طرح 1965ء 1962ء اور 1973ء کے دساتیر میں قرا رداد مقاصد کی روح کسی نہ کسی طرح کارفرما رہی ۔ اسی طرح انہوں نے صدر جمعیت علماء پاکستان مولانا عبدالحامد بدایونی اور دیگر علماء اہل سنت کے مشورہ سے اسلامی دستور ساز کی تشکیل و ذمہ داریاں اور شعبہ جاتِ حکومت مثلا : مذہبی امور ، سامان رسد، رفاہ عامہ، تعمیرات، خوراک،ترسیل، انسداد رشوت ستانی، تحفظ اقلیت، سیاست، امور داخلہ، انتظامیہ و پولیس ، امور صحت ، ٹیکس ، آباد کاری ، مال ، اطلاعات و غیرہ شعبہ جات کی تشکیل میں اہم کردار اداکیا تاکہ امور مملکت میں آسانی ہو اور ہر وقت شرعی مشورے حکومت کو ملتے رہیں۔
آج تو یہ حالت ہے؏ کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔افسوس کہ قیام پاکستان کوستر سال ہوچکے لیکن قرآن وسنت کانفاذ نہ ہوسکا،وہی انگریز کا کالا قانون وہی وڈیرہ شاہی وجاگیرداری وخاندانی نظام اس قوم پر مسلط کردیا گیا۔اللہ تعالیٰ ہمارے اکابرین کی محنت وقربانی کے صدقے اس ملک کو نظام مصطفیٰﷺ کا گہوارہ بنائے۔(تونسوی)
تاریخِ وصال: ملک وملت کے پاسبان علامہ ظہور الحسن درس نے ایک بھر پور زندگی گذار کر 7/ شوال المکرم 1392ھ بمطابق 14 نومبر 1972ء کو 67 سال کی عمر میں انتقال کیا ۔ آپ کا مزار شریف دھوبی گھاٹ قبرستان ( لیاری) کراچی میں واقع ہے۔
ماخذ ومراجع: انوارعلمائے اہل سنت سندھ۔