حضرت علامہ مولانا ظہور الحسن درس

خطیبِ اسلام افتخارِ  اہلسنت حضرت علامہ مولانا ظہور الحسن درس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

خطیب اسلام مولانا ظہور الحسن بن شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالکریم درس ۹، فروری ۱۹۰۵ء میں صدر کراچی میں تولد ہوئے ۔ (اکابر تحریک پاکستان )

مولانا اصغر درس رقمطر از ہیں : ۱۳۲۰ھ میں میرے والد ماجد حضر ت علامہ ظہور الحسن درس کی ولادت کے وقت حضرت پیر سید ظہور الحسن بٹا لوی میرے جدا مجد علامہ عبداکریم درس رحمتہاللہ علیہ سے ملاقات کے لئے مدرسہ درسیہ ( صدر کراچی ) میں تشریف لائے ہوئے تھے اور کسی علمی بحث میں مصروف تھے کہ والد ماجد کی ولادت کی اطلاع دی گئی جس پر پیر سید ظہور الحسن بٹالوی نے بچہ کو لانے کا حکم فرمایا اور خود اذان و اقامت کے بعد اپنا ہی نام نومولود کے لئے تجویز فرمایا ۔

تعلیم و تربیت :

علمی ماحول میں آنکھ کھولی اور جد امجد کے قائم کردہ مدرسہ درسیہ صدر کراچی میں تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ والد گرامی علامہ عبدالکریم درس اور مولانا صوفی عبداللہ درس سے درسی نصاب میں تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔

بیعت :

 روحانی اعتبار سے آپ خانوادہ گیلانیہ بغداد شریف کے ایک عظیم بزرگ حضرت سید عبدالسلام الگیلانی القادری ؒ ( رحلت ۱۳۵۶ھ) سے سلسلہ قادریہ میں بیعت و خلافت سے سر فراز تھے ۔ ( بزرگان قادریہ ص ۲۴۰)

تقویٰ :

 حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آباد ی نے بنارس سنی کانفرنس ۱۹۴۶ء کے موقع پر علامہ ظہور الحسن درس کو جماعت اہل سنت کے احیا ء کیلئے پچاس روپے کا فنڈ عنایت کیا تھا اور جس کی بقیہ رقم ۲۷روپے بعد میں علامہ درس نے علامہ مراد آبادی کو واپس لوٹا دی اور فرمایا’’ کل۲۳ روپے خرچ کئے تھے کہ جماعت اہل سنت خود کفیل ہوگئی ‘‘۔

ظہور الحسن درس اپنے والد گرامی اور جدامجد کی پیروی میں عید گاہ بند ر روڈ ( تقسیم ہند سے پہلے کراچی شہر میں نماز عید کا مرکزی اجتماع صرف عید گاہ میدان بندر روڈ پر ہوتا تھا اور نماز عید آپ ہی پڑ ھاتے تھے اور یہاں علماء و مشائخ و حفاظ و سادات کا اچھا خاصا اجتماع ہوتا تھا ) میں جمعہ اور عیدین کی امامت و خطابت کے جملہ فرائض انجام دیا کرتے تھے اور چونکہ وہ خود اس ٹرسٹ کے نگران اعلی ، سیکریٹری جنرل اور گورننگ باڈی میں تھے ، اپنی ان خدمات کی کوئی تنخواہ یا معاوضہ قطعی طور پر نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی زرعی اراضی جو حکومت برطانیہ کے ضبط کرنے سے بچ گئی تھی اس کی آمدنی کا ایک بہت بڑا حصہ وقف املاک پر جس میں جامع مسجد قصا بان صدر اور عید گاہ بند ر روڈ شامل تھیں خرچ کر دیا کرتے تھے۔

(ہفت روز ہ مخبرالعا لمین کراچی اپریل ۲۰۰۲ء مضمون عید گاہ قصابان ازمعین الحسن معین )

شعر و شاعری:

 مالانا اکبر در س لکھتے ہیں : ان کی عملی زندگی کے لیل و نہار کا آغاز غالبا انجمن ترقی اردو کراچی سے ہوا جب کہ دسمبر ۱۹۲۱ء سے کل سندھ مشاعرے شروع ہوئے جن میں مصرع طرح اس انداز میں دیا جاتا تھا کہ اردو اور سندھی شعراء با آسانی سے اس پر دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کر سکیں ۔ اسی دور کے ادبی ماحول میں ایک اور اضافہ بھی ہوا ۔ جو ’’بزم سخن ‘‘ کے نام سے مشہور ہے جس میں علامہ ظہور الحسن درس ، مولانا ناصر جلالی ، افسرامرو ہوی ، شید اسنبھلی ، عیش اکبر آبادی ، عبدالمجید صدیقی اور مالابخش ہمدم کے نام قابل ذکر ہیں ۔

 (مضمو ن علامہ ظہور الحسن درس ، روز نامہ جنگ کراچی ، ۷، اپریل ۱۹۹۲ء جمعہ ایڈیشن )

آپ نے بزم سخن میں بھر پور کردار ادا کیا اور اپنا کلام پیش کیا آپ کا ’’ ظہور ‘‘ تخلص تھا ۔

خطابت :

آپ کی مادری زبان سندھی تھی لیکن اردو ، اردو دانوں کے لب و لہجہ سے بولتے تھے ، سندھی اردو کے شاعر اور جادوبیاں خطیب تھے ۔ عید گاہ گراوٗ نڈ میں آپ کا خطاب سننے کیلئے دور دراز سے لوگ کھینچے چلے آتے تھے ۔ آپ نہ صرف سحربیاں مقرر تھے بلکہ علوم دینیہ اور علوم جدید ہ کا بہترین امتزاج تھے۔

سنی کانفرنس کراچی :

۱۲۔ ۱۳ فروری ۱۹۴۶ء کو قیام پاکستان سے صرف ڈیڑھ سال قبل تحریک پاکستان کے سلسلے میں اسی عید گاہ قصابان میں آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد بحیثیت جنرل سیکریٹری مسلم جماعت انتظامیہ (رجسٹرڈ ) سر براہ جماعت اہل سنت ، رکن آل انڈیا سنی کانفرنس حضرت علامہ ظہور الحسن درس ہوا ۔ جس میں برصغیر نے شرکت کی اور تحریک پاکستان سے وابستگی کے عزم کو دہرایا اور بنارس سنی کانفرنس اور اجمیر سنی کانفرنس کی طرح تجدید عہد کیا ۔ علامہ ظہور الحسن درس کی دعوت پر میرٹھ سے حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی ، بدایون سے علامہ عبدالحامد بدایونی اور بریلی شریف سے حضرت علامہ حامد رضا خان بریلوی اور مراد آباد سے حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی و دیگر نے شرکت فرمائی۔ علامہ درس جو کراچی سنی کانفرنس کے روح رواں تھے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے سلسلہ میں ایک تاریخی خطبہ دیا ۔ جس میں مملکت خداداد پاکستان کے مقاصد پر روشنی ڈالی، آپ کا یہ خطبہ تاریخ پاکستان کا ایک سنہراباب ہے۔ (مخبر العالمین )

اس موقعہ پر علامہ ظہور الحسن درس نے ایک نظم بھی پڑھی جس کے آخری دوشعر ملا حظہ ہوں ۔

لب پر ساقی کے ہے جاری نام پاکستان پاک

اب کوئی دم میں ملے گا جام پاکستان پاک

میں نے پاکستان کی ہو رٹ لگائی ہے ظہور

لوگ کہتے ہیں مجھے بدنام پاکستان پاک

(اکابر تحریک پاکستان)

سیاسی مذہبی اور ملی خدمات :

حضرت علامہ ظہور الحسن درس نے مذہبی اور قانونی پہلووٗ ں کو مد نظر رکھتے ہوئے ۱۹۳۵ء میں مسلم جماعت انتظامیہ جامع مسجد قصابان صدر و عید گاہ بند روڈ کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جسے سوسا ئٹی ایکٹ ۱۸۶۰ء کے تحت سندھ کے دارالحکومت بمبئی سے ۳۶۔ ۱۹۳۵ء میں رجسٹرڈ کرایا ۔ اس رجسٹرڈ ٹرسٹ کے ٹرسٹی متولی سیکریٹری جنرل اور گورننگ باڈی کے سر براہ علامہ ظہور الحسن درس تھے ۔ اور تحریک پاکستان کے سر کردہ رہنماوٗ ں میں شامل تھے ۔ تحریک پاکستان کے سلسلے میں ۱۱، اکتوبر ۱۹۳۸ء کوصوبائی کانفرنس قائداعظم محمد علی جناح کی صدارت میں اسی عید گاہ میدان بند ر روڈ میں منعقد ہوئی ، جس کی اہمیت یہ ہے کہ ۱۹۴۰ء کی قرار داد پاکستان لاہور سے قبل یہی قرار داد پاکستان اسی عید گاہ میں بھاری اکثریت کے ساتھ منظور ہوئی اور معمولی سے ردو بدل کے ساتھ ۲۳، مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں منظور کی گئی ۔

چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ۱۹۳۸ء میںسندھ اسمبلی میں جو قرار داد پاکستان کی حمایت کی منظور ی دی گئی اور یہ وہ قرار دا دہے جو برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے منظور ہوئی اس کو عوامی حمایت و تائید اسی عید گاہ میدان میں حاصل ہوئی ، جس کے ٹرسٹی سیکرٹری جنرل اور خطیب علامہ ظہور الحسن درس تھے ۔ ۱۴، ۱۵ ،اکتوبر ۱۹۳۹ء کو علامہ درس کی کاوشوں سے اسی عید گاہ میں ایک تاریخی جلسہ منعقد ہوا جس میں برصغیر پاک و ہند کے صف اول کے رہنما شریک ہوئے ۔

۱۵، دسمبر ۱۹۴۱ء کو اسی عید گاہ قصابا ن میں حضرت علامہ ظہور الحسن درس کی صدارت میں کراچی مسلم لیگ کا نفرنس منعقد ہوئی ۔ ( مخبر العالمین )

۱۹۳۸ء میں عید گاہ بندر روڈ پر نماز عید کے اجتماع میں جہاں کراچی کا مرکزی اجتماع منعقد ہوتا تھا علامہ ظہور الحسن درس نے ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی اور سندھ کے کانگریسی وزیر اعلی اللہ بخش سومرو کے خلاف عوامی قرار داد منظور کروائی جس کے بعد سندھ میں صابائی حکومت کی تبدیلی کا عمل شروع ہوا اور کانگریسی حکومت کے خلاف عوامی سطح پر منظم تحریک کا آغاز ہوا۔

علامہ درس ۱۹۴۰ ء تا ۱۹۴۷ء آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور سندھ پر اونشنل مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر اور دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم اجلاسوں میں سندھ کے نمائندہ و فد میں شریک رہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علماء ومشائخ اہل سنت نے مسلم لیگ کی سب سے پہلے اور کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ کی بھر پور ، بے لوث اور بے باک حمایت کا سہرا علماء و مشائخ اہل سنت ہی کے سر ہے ۔

کراچی کی سر زمین سے علماء و مشائخ اہل سنت کی جانب سے منعقد سنی کانفرنس ( ۱۹۴۶ء ) میں مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا جب کہ اسی شہر میں جمعیت علماء ہند ( مسلک دیونبد ) کے صوبائی صدر مالانا محمد صادق ( عید گاہ کھڈہ مارکیٹ ) اور حکیم فتح محمد سیو ہانی ( مصنف اخلاق محمد ی مطبوعہ سندھی ادبی بورڈ ) کی جانب سے گاندھی ، نہر و اور کانگریس کی حمایت کی تحریک چلائی جارہی تھی ۔ جمعیت علمائے ہند کی یہ تحریک غالبا ۱۹۱۱ ء سے جاری تھی جس کے مقابلہ میں مسلم لیگ نظر آنے لگی ۔ یہ علماء و مشائخ اہل سنت کا ناقابل فراموش تاریخی کارنامہ ہے۔ ( روز نامہ جنگ کراچی )

عید گاہ میدان بندر روڈ جو مسلمانان بر صغیر کی مذہبی و سیاسی سر گرمیوں کا مرکز رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کا تمام تر انتظام علامہ ظہور الحسن درس جیسی شخصیت کے دسترس میں تھا اور مسلم جماعت انتظامیہ ( رجسٹرد ) کے تمام اراکین و عہدید اران حضرت علامہ ظہور الحسن درس پر مکمل اعتماد رکھتے تھے ۔ اور خود علامہ درس مسلمانان برصغیر کا درد اپنے سینے میں رکھتے تھے،لہذا اس مرکز کو جو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی تھی۔ اس کا اعتراف نہ صرف قائداعظم محمد علی جناح نے کیا بلکہ تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما جب بھی عیدین یا جمعہ کے روز کراچی میں ہوتے وہ علامہ ظہور الحسن درس کے ولولہ انگیز خطاب کو سننے کے لئے اسی عید گاہ میں نماز اد اکرنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ اور قیام پاکستان سے پہلے بھی اور ایک عرصے بعد تک بھی سب سے بڑا اجتماع جمعہ و عیدین کے موقع پر اسی عید گاہ میں ہوا کرتا تھا اور یہ علامہ درس کی سحر انگیز شخصیت کا کمال تھا۔

فلائٹ لیفٹنٹ عطا ربانی جنہوں نے بحیثیت قائداعظم کے a.d.c کے ۱۹۴۸ء تک خدمات انجام دیں ۔ اپنی کتاب i was the quaids                                                                                                                                                                                                                                         adc کے صفحہ ۱۱۳۔ ۱۱۲ پر ۱۹۴۷ء اگست ۱۸ عید الفطر کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں :

quaid-e-azam was ready early that morning and already descen ding the. stairs where i meet him. i am early we shoud not be late, he remarked. he was in a cheerfull mood and all the enthusiasm of the young going to the eid gah for prayers. he walked to the car briskly and we left for the eid gah at bunder road to m.a. jinnah road to after prayer.

اس عید کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے جناب عطاربانی صاحب صفحہ۱۱۴ کے دوسرے پیراگراف میں لکھتے ہیں :

the prayers ware lead by maulana zahoor-ul-hassan dars. after offering prayers the quaid sat quietly and listend to the khutba (sermon) when it was over, he shake hand with the the imam sahib and exchanged greetings.

قیام پاکستان :

۱۸، اگست ۱۹۴۷ء کو ایک مرتبہ پھر اسی عید گاہ میدان بندر روڈ پر قیام پاکستان کے فورا بعد قائداعظم محمد علی جناح ، نواب زادہ لیاقت علی خان ، سر دار عبدالرب نشتر ، خواجہ ناظم الدین ، راجہ غضفر علی خان ، حسین شہید سہروردی ، کے ایچ خورشید اور الحاج محمد ہاشم گزدر عید الفطر کے موقع پر مجتمع تھے علامہ ظہور الحسن درس نے موقع کی مناسبت سے عید کی نماز ے قبل خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے مسلم لیگ کی حمایت اس لئے کی ہے کہ اس آزاد مملکت میں ہم شریعت مطہرہ کو جاری کریں اور قانون مصطفوی کو رائج کریں ۔ خداکا شکرہے کہ مسلمانوں کی مسلسل جدوجہد اور پربانیوں کے نتیجہ میں پاکستان معرض وجود میں آگیا، اب ملت کے جذبات دیرینہ کا تقاضات ہے کہ مملکت خدا داد پاکستان کا دستور خاص اسلامی اور قرآنی دستور کی حیثیت رکھتا ہو اور اس مملکت کے دنیائے اسلام کے لئے ایک نمونہ بنا یا جائے ۔( روز نامہ جنگ )

بر صغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے نتیجے میں جب پاکستان ۱۴، اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میںآیا اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمانان بر صغیر ہجرت کر کے پاکستان پہنچے اور خصو صا ایک بڑی تعداد نے اندرون سندھ اور خصوصا کراچی کا انتخاب کیا تو اس موقع پر فوری طور پر عید گاہ میدان کے وسیع و عریض رقبہ ’’ ریلیف کیمپ ‘‘ قائم کیا گیا اور تینوں وقت مخیر حضرات سے رابطہ کر کے ان مصیبت زدہ لوگوں کا جو انتہائی صعابتوں کو برداشت کر کے پہنچے تھے ، خوردنوش کا اہتمام کیا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جب تک وہ اپنے پاوٗ ں پر کھڑے نہیں ہوگئے ۔ بلکہ اس موقع پر حضرت علامہ ظہور الحسن درس نے ’’ مہاجر ریلیف کمیٹی ‘‘ قائم کی ،جس کا صدر دفتر ۷۷ گارڈن ایسٹ میں بنایا ۔ اس کمیٹی میں مہاجرین کی نمائندگی کے لئے حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی ، حضرت علامہ سید عبدالسلام باندوی، حضرت علامہ سید ناصر جلالی دہلوی کو شامل کیا اور بجائے اس کے کہ اپنی آباد زرعی اراضی جو حکومت بر طانیہ نے تحریک پاکستان سے وابستگی کے سبب بحق سر کار ضبط کر لی تھی اس کو وا گزار کرانے کی جانب توجہ کرتے یا اپنی ذاتی جائداد بنانے کے لئے کو شاں ہوتے یا لوٹ کھسوٹ میںلگ جاتے جو ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ یہاں صدیوں سے آباد ہند و ہاتھ جوڑ کر اپنی جائدا دکے کاغذات اور چابیاں حوالے کرنے کے لئے تیار تھے، لیکن آپ نے ایک تنکے کو بھی ہاتھ نہیں لگایا ۔ اور اس کے بر عکس حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی ( والد علامہ شاہ احمد نورانی ) کو اپنے پڑوس میں مکان کرایہ پر لے کر دیا۔ ( نزد کچھی میمن مسجد صدر ) اور بعدازاں ایک روپے میں پاک بنگلہ الاٹ کرواکے دے دیا ۔ حضرت علامہ عبدالحامد بدایونی کو پیر الہی بخش کالونی ( پی آئی بی ) میں بنگلہ الاٹ کراکے دی ۔ دارالعلوم امجد یہ کے سلسلہ میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کر کے خطیر رقوم مخیر حضرات سے دلا کر دی ۔ شیخ الحدیث علامہ سید احمد سعید شاہ صاحب کاظمی کو ان کے مدرسہ انوارالعلوم ملتان کے سلسلہ میں مالی اور اخلاقی تعاون فراہم کیا اور ان کے مدرسہ کا پہلا امتحان ملتان شریف جا کر لیا۔ ( مخبر العالمین )

دینی حمیت :

 علامہ ظہور الحسن درس کو جب سندھ یونیو رسٹی کے اس فیصلہ کا علم ہوا کہ جس میں مصدقہ طور پر بتایا گیا کہ سندھ یونیو رسٹی سے دینیات کو خارج کر دیا گیا ہے تو انہوں نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ۱۷ ، جولائی ۱۹۴۹ء کو جمعیت علمائے پاکستان کی مجلس عاملہ میں اس فیصلہ پر سختی سے نوٹس لیا اور طے کیا کہ مولانا عبداحامد بدایونی کے ہمراہ وہ فوری طور پر اس مسئلہ پر گورنر سندھ سے مل کر تبادلہ خیال کریں گے چنانچہ مولانا بدایونی اور مولانا درس نے گورنر سندھ سے ملاقات کی جس پر گورنر سندھ نے خصوصی توجہ مبذول کرنے کا وعدہ کیا جس کے نتیجے میں سندھ یونیورسٹی کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا ۔ ( روز نامہ جنگ )

جمعیت علماء پاکستان :

j.u.p   کے قیام کے لئے ۱۹۴۸ء میں علماء اہل سنت نے ملک کی سیاسی صورت حال کے پیش نظر ملتان میں علامہ سید احمد سعید کاظمی کی زیر صدارت ایک نمائندہ اجلاس منعقد کیا جس میں کراچی سے علامہ ظہور الحسن درس ، مولانا ناصر جلالی دہلوی ،علامہ عبدالحامد بدایونی اور پیرا حمد صدیق قاتل شریک ہوئے ۔

۱۳، فروری ۱۹۴۹ء بمقام جہانگیر پارک صدر کراچی میں جمعیت علماء پاکستان کے قیام کے بعد اس کے سالانہ اجلاس میں علامہ ظہور الحسن درس نے جمعیت علماء پاکستان کی سالانہ کارکردگی بحیثیت ناظم عمومی پیش کر تے ہوئے فرمایا کہ فروری ۱۹۴۹ء کے گذشتہ اجلاس میں سب سے اہم مسئلہ اسلامی دستور کی تیاری اور نفاذ کا تھا ۔ جمعیت علماء پاکستان نے اس مطالبہ کو موثر بنانے کے لئے امکانی ذرائع اختیار کئے مقام مسرت ہے کہ ہماری مملکت نے پاک دستور کے اجلاس میں اعلان کر دیا کہ اس مملکت کے دستور کی بنیاد و اساس کتاب و سنت پر ہو گی ۔ اس اعلان پر پاکستان کے مسلمانوں نے مسرت کے جذبات کا اظہار کیا مگر انتہائی افسوس کے ساتھ اس کا اظہار کرنا پڑ تا ہے کہ ایک سال کی طویل مدت میںاسلامی دستور مرتب کرنے والی کمیٹی نے کیا کام کیا؟ ا س کا عام و خاص طور پر کسی کو علم نہیں ۔ اس عظیم الشان اور بنیادی کام کی انجام دہی کے لئے جو کمیٹی مرتب ہوئی اس کے ارکان میں بعض ایسے عناصر کا انتخا ب کیا گیا جن کا مسلم کیگ اور پاکستان سے قریب و بعید کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ ایک فرد تو ایسے تھے کہ جن کی زندگی مسلم لیگ اور پاکستان کے بجائے کانگریس سے وابستہ تھی ۔ جمعیت علماء پاکستان کو جب یہ امر محقق طور پر معلوم ہوگیا تو مناسب سمجھا گیا کہ احتجاج سے قبل ذمہ دار افراد سے تبادلہ خیا ل کر لیا جائے ۔

چنانچہ جمعیت علمائے پاکستان کا ایک وفد جس میں مولانا ظہور الحسن درس ، مولانا عبدالحامد بدایونی اور مولانا قاری مصلح الدین شامل تھے ۔ عزت مآب مولوی تمیز الدین خان اسپیکر مجلس دستور ساز سے ملا ایک گھنٹہ سے زیادہ دستوری کمیٹی اور اس کے ارکان کے مسئلہ پر تبادلہ خیالات رہا وفد نے اسپیکر سے کہا کہ حکومت نے ارکان کے تعین میں کئی اعتبار سے غلطیاں کی ہیں اس موقع پر وفد نے ایک مبسوط یادداشت بھی اسپیکر کودی جس پر غور و فکر کا وعدہ کیا گیا ۔

علامہ ظہور الحسن درس اور ان کے رفقاء کا یہ وہ عظیم کارنامہ ہے جو قرار داد مقاصد کی منظوری کا سنگ میل تھا ۔ قرار داد مقا صد ملک میں اسلامی دستور کی طرف وہ پہلا مثبت و ٹھوس قدم ہے جس کے ذریعہ ملک کے دستوری و آئینی رخ کو صحیح سمت اختیار کرنے میں مدد ملی اور اس طرح ۱۹۵۶ء ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں قرا رداد مقاصد کی روح کسی نہ کسی طرح کا رفرما رہی ۔

جمعیت علماء پاکستان کے اسی اجلاس میں جن علماء اور مشائخ نے شرکت کی ان میں قابل ذکر علامہ ظہور الحسن درس، علامہ مفتی پیر محمد قاسم مشوری ۔ علامہ عبدالحامد بدایونی ، علامہ مفتی محمد صاحبداد خان جمالی، مولانا مفتی محمد حسین ٹھٹوی ، علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری ، علامہ سید ناصر جلالی دہلوی ، مولانا پیر عبدالستار جان سر ہندی ، مولانا پیر غلام مجدد سر ہندی ، مولانا مفتی محمد ابراہیم ( گڑھی یاسین ) ، علامہ سید عبدالسلام باندوی، مفتی مظفر احمد دہلوی مولانا حامد جلالی دہلوی ، پیر طاہر اشرف اشرفی جیلانی ، پیر فضل شاہ ، پیر احمد صدیق قاتل ، مولانا محسن فقیہ شافعی، مولانا محمد مسعود صابری دہلوی ، مولانا عبدالواحد قادری بدایونی ، پیر عبدالرحمن قادری بھر چونڈی شریف ، علامہ ابوالحسنا ت سید محمد احمد قادری ، مولانا خلیل احمد قادری خطیب جامع مسجد وزیر خان لاہور ، علامہ سید احمد سعید کاظمی ہیں۔ ان کے علاوہ پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اور سرحد کے علماء و مشائخ اہل سنت کے نمائندہ فود کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔

اگست ۱۹۴۹ء کو جمعیت علماء پاکستان اور مرکزی مہاجرین کمیٹی کا ایک وفد جو علامہ ظہور الحسن درس ، علامہ عبدالحامد بدایونی اور علامہ سید ناصر جلالی دہلوی پر مشتمل تھا ۔ خواجہ شہاب الدین وزیر مہاجرین سے ملا اور انہیں مہاجرین کے مسائل و ضروریات سے آگاہ کیا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ بلاتاخیر ایک آرڈی ننس جاری کرکے ہندووٗ ں کی جائد ادواملاک اپنے قبضہ میں لے کر مہاجرین کے حوالہ کرے ۔

ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کے ساتھ انصاف اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے جو کارنامے علامہ ظہور الحسن درس اور ان کے رفقاء نے انجام دیئے آج پیر الہی بخش کالونی ، مارٹن کوارٹرز ، کلیٹن کوارٹرز ، پاکستان کوارٹرز ، محمود آباد ، لیاقت آباد ، کھارادر ، کیماڑی اور دیگر بستیاں ان کا منہ بولتا ثبوت اور لافانی شاہکار ہیں ۔

اسلامی دستور :

علامہ ظہور الحسن درس کا ایک اور بڑا کارنامہ پاکستان کی تاریخ میں یہ ہے کہ انہوں نے صدر جمعیت علماء پاکستان مولانا عبدالحامد بدایونی اور دیگر علماء اہل سنت کے مشورہ سے اسلامی دستور ساز کی تشکیل و ذمہ داریاں اور شعبہ جات حکومت مثلا : شعبہ امور مذہبی ، شعبہ سامان رسد ، شعبہ رفاہ عامہ، شعبہ تعمیرات ، شعبہ خوراک ، شعبہ رسل و رسائل ، شعبہ انسداد رشوت ستانی ، شعبہ تحفظ اقلیت شعبہ سیاست ، شعبہ امور داخلہ ، شعبہ انتظامیہ و پولیس ، شعبہ امور صحت ، شعبہ ٹیکس ، شعبہ آباد کاری ، شعبہ مال ، شعبہ اطلاعات وگیرہ کی تشکیل تاکہ امور مملکت میںآسانی ہو اور ہر وقت شرعی مشورے حکومت کو ملتے رہیں۔

اہل سنت کی پہچان :

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے آئے ہوئے علماء عوام یہاں کی سر زمین و عوام الناس سے اجنبی تھے اور یہاں والے علماء عوام مہاجرین علماء سے شنا سانہ تھے ۔ ایسے موڑ میںایک ہی شخصیت تھی جو کہ سندھ میں مقبول و محبوب اور ہندوستان کے علماء و متعارف تھے ۔ وہ شخصیت قائد اہل سنت ، مصطفوی شیر ، حضرت علا مہ ظہور الحسن درس کی تھی جنہوں نے ہر موڑ پر ملک و ملت کی بے لوث خدمت سر انجام دی ۔ انہی دنوں قبضہ گروپ نے اہل سنت و جماعت کی مساجد پر قبضہ جمانے کا یہ ڈرامہ رچایا کہ وہابی مولوی کو سنی مولوی کہلا کر سنی مسجد میں امام و خطیب رکھوانے لگے ۔ ایسے عالم میں علامہ درس نے ایک اہم کردار داد کیا ۔

معین الحسن معین ناظم مسلم جماعت (رجسٹرڈ ) مرکزی عید گاہ قصابان مسجد کراچی رقمطراز ہیں : علماء و مشائخ اہل سنت و جماعت کو عوام الناس سے متعارف کرانے کے لئے جگہ جگہ جلسے منعقد کئے ، جس میں سے ایک جلسہ ایمپریس مارکیٹ صدر کے قریب جہاں اس وقت صدر دواخانہ ہے منعقد کیا اور ایک عظیم الشان جلسہ عید گاہ بندر روڈ پر منعقد کیا اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے علماء و مشائخ کا تعارف کرایا ۔ بقول علامہ عبدالمصطفیٰ الا زہری ’’ علمائے اہل سنت اور مشائخ طریقت پر حضرت علامہ ظہور الحسن کا عظیم احسان ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد سب میںبھر پور اندا زمیں ان کو متعار ف کرایا اور ہر عالم کے متعلق یہ بتایا کہ یہ ہمارے مسلک و عقیدے کے کس حیثیت کے عالم ہیں ۔ یہ کہنا بیجانہ ہوگا کہ ہم سب کو اہل سنت وجماعت کی سند سر زمین سندھ میں حضرت علامہ ظہور الحسن درس نے جاری فرمائی ۔ ( یہ بات علامہ ازہری نے آپ کے عرس مبارک پر فرمائی ) ( مخبر العالمین )

تصنیف و تالیف :

 آپ کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں ۔

٭     چشم تلطف پنجتن مطبوعہ دبدبہ حیدری کراچی ۱۹۴۶ء

٭     معاون ظہور الحسن                
٭     خون کے آنسو مطبوعہ دبدبہ حیدری کراچی ۱۹۴۰ء

٭     تحقیق الفق اما فی کلمۃ الحق ( عرس لواری کی تاریخ ) مطبوعہ کراچی ۱۹۳۷ء

اس کے علاوہ آپ نے مفتی محمد صاحبداد خان اور مولانا ناصر جلالی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ اخبار ’’ رسالت ‘‘ بھی نکالا جو ۱۹۵۵ء تک جاری رہا۔

( بزرگان قادریہ ص۲۴۰)

اولاد :

مولانا درس نے ایک شادی کی جس سے چھ بیٹیاں اور پانچ بیٹے تولد ہوئے ۔

۱۔       عبداللہ          

۲۔      عبدالکریم درس ( سیکشن آفیسر محکمہ فنانس سندھ سیکریٹریٹ )

۳۔     محمد حسین               

۴۔      مولانا حکیم محمد اکبر درس

۵۔     مولانا محمد اصغر درس ۔ محمد الیاس ( محکمہ تعلیم سندھ سیکریٹریٹ) آپ کے داماد ہیں ۔

غوث اعظم سے عقیدت :

علامہ ظہور الحسن درس راسخ العقیدہ تھے انہیں سر کار غوث اعظم سے بے پناہ محبت تھی ۔ آپ کے کلام میں سے ایک منقبت دستیاب ہوئی جو کہ پیش خدمت ہے:

کروں کیا میں مدحت رقم غوث اعظم

قلم کا بھی سر ہے قلم غوث اعظم

ہو محشر میں مجھ پر کرم غوث اعظم

نہ دنیا میں کوئی ہے غم غوث اعظم

عقیدت میں یا پیر لغزش نہ ہو گی

رہوں گا میں ثابت قدم غوث اعظم

زمین میری دشمن فلک میرا دشمن

نہیں اس میں کچھ بیش و کم غوث اعظم

مقدر کو دیکھو نہیں دل بھی میرا

ستم پر ہے ٹوٹا ستم غوث اعظم

بھنور میں ہے کشتی ذرا پار کر دو

خدارا ہو اتنا کرم غوث اعظم

طفیل محمد ﷺ جگہ  مرحمت ہو

سر حشر زیر علم غوث اعظم

میری لاج اب آپ کے ہاتھ میں ہے

نہ کھل جائے میرا بھرم غوث اعظم

پلا دیجئے شربت وصل مجھ کو

کہ ہونٹوں پہ آیا ہے دم غوث اعظم

ہیں راسخ میرے عہد و پیمان الفت

قسم ہے خدا کی قسم غوث اعظم

ظہور اب تو بغداد سے آرہی ہے

صدائے اذن حرم غوث اعظم

( بشکریہ : ثناء ڈائجسٹ کراچی جنوری ۱۹۸۵ئ)

وصال :

 ملک وملت کے پاسبان علامہ ظہور الحسن درس نے ایک بھر پور زندگی گذار کر ۷، شوال المکرم ۱۳۹۲ھ بمطابق ۱۴، نومبر ۱۹۷۲ء کو ۶۷ سال کی عمر میں انتقال کیا ۔ آپ کا مزار شریف دھوبی گھاٹ قبرستان ( لیاری) کراچی میںواقع ہے۔

علامہ ظہور الحسن درس نے اپنی تاریخ وصال خود استخراج کی۔

نگاہ و اشت ان اللہ مع الصابرین

۱۳۹۲ھ

 (اکابر تحریک پاکستان )

حضرت صابر براری ( کراچی ) نے آپ کے وصال پر قطعات تاریخ وصال کہے ہیں :

ہوئے آہ وہ عالم دیں بھی رخصت

فزوں جن سے ہوتی تھی تو قیر مجلس

ندا آئے صابر یہ تاریخ کہہ دو

ظہور الحسن درس ہیں میر مجلس

۱۹۷۲

اپنے احباب میں نمایاں تھے

حضرت درس واعظ یکتا

فکر تاریخ ہے اگر ’’صابر‘‘

کہہ ’’ ظہور الحسن تھے راہنما‘‘

۱۹۷۲ء

نوٹ : یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک و ملت کیلئے ’’ درس خاندان ‘‘ کی عظیم خدمات ہیں ،ضرورت ہے کہ ان پر تحقیقی انداز میںکام کیا جائے بلکہ ڈاکٹر یٹ کیا جانا چاہئے اور یہ کام ان کے نامور فرزندگان بخوبی کر سکتے ہیں ۔ کیوں کہ ان کے پاس مواد ، اصل دستاویز و دیگر ضروری کاگزات محفوظ ہیں اور یہ ان پر ایسے قابض ہیں کہ کسی کو جھلک تک دکھانے کیلئے تیار نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے ۔ آمین


(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

تجویزوآراء