حضرت فاضل جلیل علامہ مفتی غلام سرور قادری
حضرت فاضل جلیل علامہ مفتی غلام سرور قادری (تذکرہ / سوانح)
حضرت فاضل جلیل علامہ مفتی غلام سرور قادری لاہور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ماہر علوم عقلیہ و نقلیہ حضرت علامہ مولانا ابو سعید محمد غلام سرور قادری بن جناب خدا بخش بن محمد موسیٰ لَلُّو بن محمد جوہر ۱۲۵۹ھ/۱۰؍ اکتوبر ۱۹۳۹ء کو موضع کچی لعل علاقہ سیت پور تحصیل علی پور ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے۔
آپ کے آباؤ اجداد وادئ لو لو مقبوضہ کشمیر کے باشندے تھے۔ جب حضرت شیر شاہ سیّد جلال الدین سرخ بخاری علیہ الرحمۃ خلیفۂ مجاز حضرت بہاؤالدین زکریا رحمہ اللہ تبلیغ کی غرض سے کشمیر تشریف لے گئے، تو حضرت مفتی صاحب کے اکابرین نے ان کے دستِ حق پرست پر سلسلۂ سہروردیہ میں بیعت کا شرف حاصل کیا اور پھر اپنے مرشد کی محبت میں اپنے آبائی وطن سے ہجرت کر کے اوچ شریف میں سکونت اختیار کرلی آبائی وطن کی مناسبت سے آپ کے جدِّ امجد لَو لَوی کہلاتے تھے بعد میں یہ لفظ غلط العوام سے للُّو مشہور ہوگیا۔ اپنے مرشد کی نسبت سے جلالی بھی کہلاتے تھے، لیکن بعد میں اس نسبت کا استعمال تقریباً متبروک ہوگیا اگرچہ اس برادری کی عقیدت و ارادت حضرت جلال الدین علیہ الرحمہ سے بد ستور قائم ہے۔ آپ کی برادری اوچ شریف سے لے کر بیعت پور تک پھیلی ہوئی ہے۔ پیشہ زمینداری ہے اور نمبرداری و ذیلداری اس برادری میں عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے برادری کا عرف ملک ہے۔
حضرت علامہ مفتی غلام سرور قادری نے بہاول پور سے میڑک کا امتحان پاس کیا اور پھر علوم عربیہ اسلامیہ کی کتب متداولہ، جامعہ غوثیہ جمال الدین ضلع رحیم یار خاں جامعہ معینیہ ڈیرہ غازی خاں، جامعہ نعیمیہ لاہور، مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں جلیل القدر علمائے کرام سے پڑھ کر سندِ فراغ و دستارِ فضیلت حاصل کی۔
جن اکابر اساتذہ سے آپ نے شرفِ تلمذّ حاصل کیا، ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
۱۔ شیخ الفقہ والادب حضرت مولانا غلام رسول داجلی رحمۃ اللہ علیہ شاگرد رشید مولانا امام بخش جام پوری (ثانی سیبویہ)
۲۔ فقیہہ الملّت حضرت مولانا مفتی امید علی خان رامپوری رحمۃ اللہ علیہ سابق مفتی اعظم مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان۔
۳۔ استاذ العلما حضرت مولانا سیّد مسعود علی رحمہ اللہ سابق مفتی اعظم مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان۔
۴۔ استاذ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا غلام جہانیاں رحمہ اللہ، ڈیرہ غازی خان۔
۵۔ غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی، مدظلہ (آپ سے حدیث مناظرہ، اور علم کلام خصوصیت سے پڑھا)
۶۔ شیخ الفقہاء حضرت مولانا عبید اللہ رحمہ اللہ، شاگرد رشید حضرت علامہ مولانا معین الدین اجمیری رحمہ اللہ، شیخ الفقہ اسلامی یونیورسٹی بہاول پور (آپ سے افتاء و میراث کی مہارت حاصل کی)
۷۔ محدّثِ اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا محمد سردار احمد رحمہ اللہ (آپ سے بخاری شریف کے ادا خراسباق تبرکاً پڑھے)
۸۔ مفکرِ اسلام حضرت علامہ مفتی محمد حسین نعیمی، رُکن اسلامی مشاورتی کونسل پاکستان۔
۹۔ استاذ القرأ مولانا قاری ریحان الحق سہارن پوری (آپ سے قرأت و تجوید سبعہ عشرہ سیکھی)
۱۰۔ استاذ العلماء مولانا سیّد عبد المعبود شاہ شاگرد رشید علامہ امام یوسف بنہانی رحمہ اللہ (آپ سے حدیث، فقہ، تفسیر اور سلسلۂ بنہانیہ کے تمام اعمال کی اجازت پائی)
۱۱۔ عمدۃ العارفین حضرت مولانا غلام رسول ریاض آبادی خلیفہ مجاز حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ (آپ سے بھی حدیث، تفسیر، فقہ اور اورادو اعمال کی اجازت پائی۔
علاوہ ازیں آپ نے اسلامی یونیورسٹی بہاول پور سے فقہ و قانون اسلامی میں تخصص (ایم اے اسلامک لاء ) بھی کیا۔
آپ نے تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ عربیہ انوار العلوم ملتان سے کیا جہاں آپ فنون و حدیث کا درس دینے کے علاوہ نائب مفتی کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے اور بعد میں آپ کو شعبۂ افتاء کا صدر بنادیا گیا۔
پھر اہالیانِ ہارون آباد کے اصرار پر جامعہ رضویہ ہارون آباد کے مہتمم مقرر ہوئے، جہاں آپ جامعہ کے جملہ انتظامات کی نگرانی کے علاوہ شیخ الحدیث اور مفتی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
رمضان المبارک ۱۳۹۷ھ میں آپ لاہور تشریف لاکر پیکو جامع مسجد کے خطیب مقرر ہوئے تو جامعہ نظامیہ رضویہ کے مہتمم استاذ العلما حضرت مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی کی دعوت پر جامعہ میں استاذ الحدیث و استاذ الادب العربی کی حیثیت سے فرائض سر انجام دینے شروع کیے۔ آج کل آپ جامع مسجد غوثیہ رضویہ مین مارکیٹ گلبرگ لاہور میں فرائض خطابت انجام دےرہے ہیں۔ ملتان میں قیام کے دوران ایک دن آپ دیوبندی مکتبۂ فکر کے مدرسۂ خیر المدارس میں تعلیمی جائزہ لینے تشریف لے گئے اس وقت مولوی محمد شریف کشمیری جو اپنے مکتبۂ فکر کے مشہور شیخ الحدیث و المعقولات ہیں منطق کی مشہور کتاب حمد اللہ پڑھا رہے تھے، آپ اس کا اندازِ تدریس معلوم کرنے بیٹھ گئے، لیکن مولوی صاحب سے آپ کو بھانپتے ہوئے مسلکی گفتگو چھیڑدی اور کہا کہ دیوبندیوں اور بریلویوں میں کلی تناقض ہے، کیونکہ ہم دیوبندی سلب کلّی اور بریلوی ایجاب کلّی کا عقیدہ رکھتے ہیں لہذا دونوں میں کوئی نکتہ اتحاد نہیں ہے۔ اس پر آپ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا مولانا! اگر آپ اہلِ دیوبند کے سلب کلی کو ذات اور اہل سنت کے ایجاب کلّی کوعطاء پر محمول کریں، تو نکتہ اتحاد نکل آتا ہے وہ کہنے لگے اختلاف تو عطاء میں ہے حضور علیہ السلام کا ذاتی وصف تو کوئی ہے ہی نہیں آپ نے اعتراض کیا کہ آپ کا قول آپ ہی کے اکابر کی تصریحات کے خلاف ہے، کیونکہ آپ کے بزرگ مولوی محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصفِ نبوت کو ذاتی اور دوسرے انبیاء کرام کی وصفِ نبوت کو عرضی تصور کرتے ہیں، اس پر وہ لاجواب ہوگئے اور کہنے لگے آپ فوراً یہاں سے چلے جائیں، ہمارے مدرسہ میں نہ آیا کریں، اس قسم کی بحث سے ہمارے طلباء میں اضطراب و انتشار پیدا ہوگا۔
دیوبندیوں کے شیخ الحدیث و المعقولات جب حق بات کے سامنے لاجواب ہوگئے، تو ان کے طلباء میں سے دو طالب علم جماعت سے اٹھ کر آپ کے پیچھے آئے اور کہا ہم پر حق واضح ہوگیا، لہذا آپ ہمیں لے جائیں اور اپنے دارلعلوم میں داخلہ دلوائیں۔
چنانچہ آپ نے ان کو مدرسہ عربیہ انوار العلوم میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے حضرت شیخ القرآن مولانا غلام علی اوکاڑوی کے پاس دار العلوم اشرف المدارس اوکاڑہ میں داخل کرادیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے ان طلباء کی مدد فرمائی اور وہ اہل سنت جماعت کے عالم بن گئے۔
۱۹۷۳ء میں آپ نے حاصل پور کے قریب مولوی محمد امین سے وتروں کی تین رکعتوں پر مناظرہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔
قصبہ مڑل ملتان میں مولوی عبدالعزیز اور مولوی عبدرالستار تونسوی سے مناظرہ طے پایا، مگر وہ ابتدائی باتوں میں ہی لا جواب ہوکر مناظرے سے بھاگ گئے۔
جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے علماء کو کمیر نزد عارف والہ دربار محمد پناہ میں مناظرہ میں شکست دی۔
عارف والہ کے قریب چک ۳۵ میں حضرت غزالیٔ زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی کے حکم پر جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے علماء سے دعا بعد الجنازہ پر تین دن مناظرہ کر کے ان کو لا جواب کردیا، یہاں تک کہ وہ مسجد چھوڑ کر بھاگ گئے۔
حضرت علامہ مفتی غلام سرور قادری قابل مدرس اور ماہر مفتی ہونے کے علاوہ میدان تحریر و تقریر میں بھی خط وافر کے مالک ہیں۔ آپ کے رشحات قلم مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ الاجتہاد فی الا سلام (اُردو) قلمی مسوّدہ
۲۔ الجہاد فی الاسلام (عربی) قلمی مسوّدہ
۳۔ الصلوۃ و السلام علی سیّد الانام (عربی) قلمی مسوّدہ
۴۔ تفویض الاحکام الی خیر الانام قلمی مسوّدہ
۵۔ تحفتہ الذکی فی شرح اسماء اللہ و النبی قلمی مسوّدہ
۶۔ ہدیۃ الخلیل فی شرح حدیث جبرائیل قلمی مسوّدہ
۷۔ الشاہ احمد رضا خان بریلوی مطبوعہ
۸۔ تحفہ مومن (عالم برزخ کے حالات) مطبوعہ
۹۔ ترجمہ انیس الارواح مطبوعہ
۱۰۔ تنزیہ الغفار عن تکذیب الاشرار (حضرت غزالی زماں علامہ کاظمی مدظلہ کی تصنیف تسبیح الرحمان عن الکذب و النقصان کی شرح) مطبوعہ
۱۱۔ افضلیّت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مطبوعہ
۱۲۔ معاشیات نظامِ مصطفےٰ (اسلام کے معاشی نظام کی بے مثال تحقیق (مطبوعہ)
۱۳۔ رسالہ شرائطِ بیعت مطبوعہ
۱۴۔ فتاویٰ اہل سنت (زیر ترتیب)
۱۵۔ تحریر سنبٹ
۱۶۔ الصرح النامی، ترجمہ و توضیحات شرح جامی، ۲ جلد مطبوعہ
آپ نے تحریکِ ختم نبوت ۱۹۷۴ء میں بھر پور حصہ لیا جس کی پاداش میں ہارون آباد سے گرفتار کیے گئے اور سنٹرل جیل بہاول نگر میں ایک عرصے تک مقیّد رہے۔
تحریکِ نظامِ مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۱۹۷۷ء میں بھی دیگر علماء اہل سنت کے دوش بدوش میدانِ عمل میں رہے اور اوکاڑہ سے گرفتار کر کے سنڑل جیل ساہیوال بھیج دیے گئے اور پھر قومی اتحاد اور مسٹر بھٹو کے مذاکرات کے دوران رہا کیے گئے۔
تنظیم المدارس (اہلسنت) پاکستان کے سالانہ اجلاس میں سندِ تنظیم کی عبارت تجویز کرنے کا مرحلہ آیا علامہ مولانا وقار الدین صاحب اور علامہ پیر کرم شاہ صاحب نے سند کی عبارت پیش کرنا تھی، لیکن کثرتِ مصروفیت کی وجہ سے وقت پر عبارت پیش نہ کی جاسکی اجلاس میں اس پر تشویش ظاہر کی گئی تو آپ نے ایک گھنٹہ میں عبارت پیش کرنے کی پیشکش کی جو قبول کرلی گئی اور اس طرح آپ نے حضرت مولانا محمد عبد اللہ قصوری حضرت مولانا حسن الدین ہاشمی اور حضرت مولانا سیّد شجاعت علی کی رفاقت میں مختصر سے وقت میں عبارت پیش کردی۔ عبارتِ سند کے ایک حصّہ پر علماء کا اختلاف ہوگیا صوبہ سندھ اور پنجاب کے علماء اسے برقرار رکھنا چاہتے تھے اور صوبہ سرحد و بلوچستان کے علماء اسے حذف کرنے پر مصر تھے جب صورتِ حال نازک ہوگئی تو آپ نے ایک متبادل عبارت پیش کردی جس پر تمام علماء متفق ہوگئے اور آپ کی ذہانت اور صلاحیت کی داد دی۔
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت خواجہ عبدالرحمان بھر چونڈی شریف اور غوثِ زماں حضرت شیخ غلام رسول قادری ردتوی سے اکتسابِ فیض کیا اور مفتی اعظم ہند حضرت مولانا شاہ مصطفےٰ رضا خاں بریلی شریف سے سلسلہ عالیہ قادریہ نوریہ رضویہ میں بیعت کی اور حضرت نے آپ کو تمام علوم و اوراد اور وظائف و اعمال و سلسلۂ مبارکہ قادریہ نوریہ رضویہ کی اجازت و خلافت مرحمت فرمائی۔
۱۹۶۹ء میں شادی کی سب سے پہلا بچہ اللہ کو پیارا ہوگیا، اب آپ کے تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی ہے۔
مدرسہ انوار العلوم ملتان میں دورۂ حدیث سے فارغ ہونے والے آپ کے چند مشہور تلامذہ یہ ہیں:
مولانا مفتی محمد عبداللہ مظفر گڑ مفتی وزیر علی ہارون آباد، مولانا سید مسعود احمد شاہ خان گڑھ، مولانا محمد رمضان مولانا عبدالوحید ربانی مظفر گڑھ، مولانا سیّد غلام یٰسین شاہ قطب پور، مولانا سیّد قمر الدین شاہ قطب پور، مولانا محمد یار قادری رضوی، مولانا صاحبزادہ حفیظ اللہ شاہ ملتان، استاذ القرأ علامہ مولانا محمد غافر بخش مدنی ملتانی کوٹھے والا۔
[۱۔ جملہ کوائف علامہ مولانا مفتی غلام سرور قادری دامت برکاتہم العالیہ نے مرتب کی درخواست پر مہیا فرمائے۔]
(تعارف علماءِ اہلسنت)