2016-05-18
علمائے اسلام
متفرق
1100
| سال | مہینہ | تاریخ |
یوم پیدائش | 1219 | | |
یوم وصال | 1294 | رمضان المبارک | 24 |
مفتی محمد سعد اللہ مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:مولانا مفتی محمد سعدا للہ مرادآبادی/رام پوری۔تلخص: آشفتہ۔لقب: جامع العلوم،امام العلماء،مرجع الفضلاء،قاضی الوقت۔والد کا اسم گرامی: مولانا نظام الدین علیہ الرحمہ۔شیخ قوم سے تعلق تھا۔آپ کے والدگرامی اپنے وقت کےجید عالم وعارف تھے۔(تذکرہ کاملان رام پور:151)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 17/رجب المرجب 1219ھ،مطابق اکتوبر/1804ء کو’’محلہ کسرول،مولسری والی مسجد کےعقب میں اپنےموروثی مکان،مرادآباد(انڈیا) میں ہوئی‘‘۔(ایضا :151)۔تاریخِ پیدائش لفظ ِ ’’ظہورِ حق‘‘اور ’’بیدار بخت‘‘ سےنکلتی ہے۔(تذکرہ علمائے ہند:197)
تحصیلِ علم: آپ کے والد گرامی مولانا نظام الدین کا بچپن میں انتقال ہوگیا،بڑے بھائی نے تربیت و تعلیم دی،بھاوج کی معمولی شکایت پر بھائی نے ایسی سختی کی کہ گھر سے چلے گئے،اور حصول ِعلم کے لئےمختلف شہروں کی خاک چھانی،نجیب آباد میں مولانا عبدالرحمن قہستانی سے شرح جامی پڑھی،اخوند شیر محمد ولائتی،مولانامحمد حیات پنجابی،سےمختلف علوم حاصل کیے۔ ان کے اساتذہ میں بڑے بڑے نام ہیں:مولانا شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی،مولانا شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی،مولانا مفتی صدر الدین آزردہ،مولانا ظہور اللہ فرنگی محلی،مرزا محمد ہاشم محدث لکھنوی،مولانا حسن لکھنوی(تلمیذ شاہ ولی اللہ دہلوی)،وغیرہ بزرگوں سے تعلیم پائی۔1243ھ میں فارغ التحصیل ہوئے۔فراغت کے بعد گھر والوں کو خبر کی، 1250ھ میں گھر آئے۔آپ نےتحصیل علم میں ایسا کمال حاصل کیا کہ اس وقت کےجید علماء وفضلاء میں شامل ہونے لگے۔
بیعت وخلافت: عارف باللہ حضرت شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی علیہ الرحمہ سےبیعت ہوئے۔
سیرت وخصائص: امام العلماء،مرجع الفضلاء،جامع علوم ِ عقلیہ ونقلیہ،مرج البحرین،مرجع الفریقین،عارف اسرار ربانی حضرت علامہ مولانا مفتی محمد سعد اللہ مرادآبادی ثم رام پوری علیہ الرحمہ۔مفتی صاحب علیہ الرحمہ تیرہویں صدی ہجری کےجیداور عظیم عالم ِدین وفقیہ تھے۔عالمِ اجل،شیخِ فاضل،ادیب اریب،منطقی،اصولی منقول و معقول کےامام تھے۔فقہ،عربی وفارسی ادب میں فرید العصر تھے۔
تحصیل علم کےبعد مدرسہ شاہی لکھنؤ میں مدرس ہوئے،تاج اللغات ترجمہ قاموس کی بعض جلدوں کی تالیف کی،اور اس کےبعد کچہری لکھنؤ میں مفتی کےعہدے پر فائز ہوئے۔اسی عہدے پر29سال خدمات انجام دیں،اسی عرصے میں حج کی سعادت حاصل ہوئی۔وہاں شیخ جمال مکی علیہ الرحمہ سےسند حدیث حاصل کی،نواب یوسف علی خان کی التجاء پر رام پور تشریف لےگئےوہاں عہدۂ قضاء وافتاء پر فائز ہوئے۔نواب کلب علی کےزمانے تک اسی عہدے پرمقرر رہے۔
حضرت مفتی سعداللہ علیہ الرحمہ دن کو تدریس اورساری ساری رات مطالعے میں گزار دیتے تھے۔آپ کی زوجہ محترمہ مرحومہ کے بقول چھت میں ایک رسی لٹکا رکھی تھی،شب کو وہ رسی اپنے بالوں میں باندھ لیتے تھے تاکہ رات کونیند نہ آئے۔(تذکرہ کاملان رام پور:153)۔
آپ علیہ الرحمہ کو تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف میں بھی مہارتِ تامہ حاصل تھی،مختلف علوم وفنون پرکتب،رسائل،حاشیےایک سو سےزائد تحریر فرمائے ہیں۔اسی طرح عربی وفارسی ،نظم ونثر میں ایسی مہارت اس وقت ان کی جامعیت کا کوئی شخص نہیں تھا۔فارسی میں ’’آشفتہ‘‘ تخلص رکھتے تھے۔آپ کےشاگردوں میں نامی گرامی علماء کےنام آتے ہیں۔مولانا مفتی لطف اللہ رام پوری(صاحبزادہ)،مولانا رحمت اللہ مہاجر مکی،مولانا ہادی علی خان لکھنوی،مولانا شاہ عبد الحق کانپوری،وغیرہ شامل ہیں۔مولانا کےکتب خانہ میں 800کتب کاذخیرہ موجود تھا۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 24/رمضان المبارک 1294ھ،مطابق 30/ستمبر1877ء،بروز اتوار،داعی اجل کو لبیک کہا۔رام پور میں مزار حضرت سید عبداللہ بغدادی علیہ الرحمہ میں مدفون ہیں۔
ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔تذکرہ کاملان رام پور۔تذکرہ علمائے ہند۔حدائق الحنفیہ۔
//php } ?>