حضرت علامہ مفتی سعد اللہ رامپوری
حضرت علامہ مفتی سعد اللہ رامپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا مفتی سعد اللہ عالم متجر اور ومتقی وبرگزیدہ تھے، محلہ کسرول عقب مولسری والی مسجد مراد آباد میں اپنے موروثی مکان میں ۱۲۱۹ھ میں اُن کی پیدائش ہوئی،والد کا بچنے میں انتقال ہوگیا،بڑے بھائی نے تربیت و تعلیم دی،بھاوچ کی معمولی شکایت پر بھائی نے ایسی سختی کی کہ گھر سے چلے گئے،اور حصول علم کے مختلف شہروں کی خاک چھانی،اُن کے اساتذہ میں بڑے بڑے نام ہیں،مولانا شاہ عبد العزیز،مولانا مفتی صدر الدین آزردہ،مولانا ظہور اللہ فرنگی محلی،وغیرہ بزرگوں سے تعلیم پائی۔فارغت کے بعد گھر والوں کو خبر کی، ۱۲۵۰ھ میں گھر آئے۔لکھنؤ کے مدرسۂ شاہی میں مدرس ہوئے،انتیس سال لکھنؤ میں قیام رہا،۱۲۷۲ھ میں حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے،واجد علی شاہ کی معزولی کے بعد نواب یوسف علی خاں والئ رام پور نے ان سے تلمذ حاصل کیا، اور افتاء وقضا اور مرافعہ کا عہدہ سپرد کیا،بیعت حضرت شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی قدس سرہٗ سے تھے،۲۴؍رمضان المبارک بروز اتوار ۱۲۹۴ھ میں بعہد حضرت خلد آشیاں نواب کلب علی قدس سرہٗ انتقال ہوا، ‘‘گنجینۂ علم و فضل صدآہ’’ مادۂ تاریخی ہے،آستانۂ حضرت سید شاہ عبداللہ قادری بغدادی المتوفی ۱۲۰۷ھ میں مفتی صاحب کا مرقد ہے،مفتی لطف اللہ رام پوری نامور صاحبزادے تھے،تلامذہ میں مولانا سید شاہ عبد الحق،فرزند حضرت مولانا شاہ غلام رسول دادا میاں کانپوری،مولانا شاہ عبد الغفار کانپوری،مولانا ہادی علی خاں لکھنوی تھے، مفتی سعد اللہ صاحب آشفتہ تخلص کرتے تھے، عربی و فارسی دونوں میں کہتے تھے صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔
(تذکرہ کاملان رام پور)