حضرت پروفیسر ڈاکٹر سید شاہد علی نورانی قادری اشری رضوی نور اللہ
حضرت پروفیسر ڈاکٹر سید شاہد علی نورانی قادری اشری رضوی نور اللہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت پروفیسر ڈاکٹر سید شاہد علی نورانی قادری اشری رضوی نور اللہ مرقدہٗ
متین کاشمیری
حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر سید شاہد علی نورانی قادری اشرفی رضوی نور اللہ مرقدہٗ جن کی ولادت با سعادت یکم اکتبور سن ۱۹۵۹ ء کو لاہور میں ہوئی آپ کے والدِ گرامی پروفیسر سید یعقوب علی رضوی المتوفٰی ۱۹۸۱ء مدفون قبرستان بدھودا آوا ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ کینٹ پبلک کالج مردان اور جدِ امجد حضرت علامہ سید ایوب علی رضوی بریلوی المتوفٰی ۱۹۷۰ء مدفون قبرستان میانی صاحب (مرید وخلیفہ اعلٰی حضرت الشاہ امام احمد رضا محدث و مجدد بریلوی)جنہوں نے آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا اور کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا۔
انہوں نے قرآن مجید ناظرہ مسجد بغد ادہ مردان صوبہ خبیر پختو نخوا میں پڑھا اور گورنمنٹ ہائی ۔ اسکول نمبر ۱ مردان سے میٹرک کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا اسی دوران آپ لاہور منتقل ہوگئے جہاں گورنمنٹ دیال سنگھ کالج سے ایف اے گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنر سے بی۔اے،کالج ایجوکیشن سے بی۔ایڈ۔ اور میٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے ایم ۔اے، ایم ۔او۔ایل ،ایم۔ایڈ(TER)شعبہ ایجوکیشن پنجاب یونیرسٹی نیو کیمپس لاہور سنہ ۲۰۰۴ ء میں پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کی زیر نگرانی عربی میں پی۔ ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ جس کا عنوان الشیخ اھإد رضا خان شاعراً عربیاً مع تدوین دیوان العربی تھا اور اسی سلسلے میں ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا کراچی سے گولڈ میڈل اور ایو ارڈ وصول کیے آپ عرصہ ۴ سال تک مدینہ یونیورسٹی فیصل آباد میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ میں ایم۔فل اور پی۔ایچ ڈی کی کلاسز کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتےرہے۔اسی دوران محی الدین غزنوی اسلامک یونیورسٹی نیر یان شریف آزاد کشمیر اور ٹیکسلاینیورسٹی سے ایسوسی ایٹ پروفیسر علوم اسلامیہ کلیے بھی آفر آچکی تھی دور حاضر میں گورنمٹ بائر سیکنڈری سکول و کالج فاروق آباد ضلع شیخو پورہ میں بطور بجیکٹ اسپیشلسٹ اپنے فرائض منصبی سر انجام دے رہے تھے۔
لاہور میں انہوں نے اعلیٰ حضرت کی تعلیمات کو عام کرنے کےلیے ایک تبلیغی اور اشاعتی ادارہ معارفِ رضا قائم کیا۔ جس کے سرپر ست حضرت مولانا سید ریاست علی قادری علیہ الرحمۃ صدرو بانیا ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا (کراچی )تھے۔ جس کے ڈائر یکٹر کی حیثیت سے آپ اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔حضرت علامہ مفتی اختر رضا الازہری بریلوی کے پنجاب کے تمام تبلیغی دوروں کا شیڈول اسی ادارے کے تحت ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں علی پبلک ہائی اسکول و کالج آل رول منزل گلی نمبر ۱۰ پاک نگر اکرام روڈ مصری شاہ میں پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے۔
آپ کی بیعت مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مصطفٰی رضا نوری علیہ الرحمۃ سے تھی ۔ اور آپ حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا الازہری بریلوی دامت فیوضہم کے خلیفہ مجاز تھے۔ علاوہ ازیں حضرت پیر سید مسعود احمد اشرفی نے بھی سلسلہ اشرفیہ کی خلافت سےسرفراز فرمایا۔آپ نے ہمیشہ ہر اس تنظیم میں بخوشی شمولیت اختیار کی جس کا تعلق اعلیٰ حضرت مجدد دمأتہ حاضرہ بریلوی سے تھا۔ ۱۹۸۶ء میں جب حضرت حکیم محمد موسٰی امر تسری نے چند ناگزیر وجوہ کی بنا پر مرکزی مجلس رضا سے علیحدگی کا اعلان کیا تو اس وقت آپ مجلس کی عاملہ کمیٹی کے رکن تھے۔جس کا آپ کو شدید صدمہ ہوا۔انہوں نے بعض دیگر مقتد ر شخصیات کے ساتھ مل کر معاملات کو سدھارنے کی کوشش کی؎
مگر اے بسا ارزو کہ خاک شدہ!
ان کے وصال کے بعد اب تک جناب سید منیر ضا خان قادری مدظلہ یہ خدمت سر انجام دے رہےہیں۔جناب ڈاکٹر سید شاہد علی نورانی تصنیف و تالیف بھی پیچھے نہ رہے۔انہوں نے متعدد کتب پہ مقدمے ، دیباچے اور تبصرے تحریر فرمائے۔ آپ کی تصانیف میں امام احمد رضا کی علمی خدمات پر تحقیقی جائزہ مقالہ ایم ایڈ، مطبوعہ ۱۹۹۲ ء ، حالات مفتی اعظم ہند مولانا محمد مصطفٰی رضا خان بریلوی ، مطبوعہ ، حالات مولانا محمد ابراہیم رضا خان بریلوی ، مطبوعہ ، مختصر سوانح مفتی اعظم علامہ محمد اختر رضا خان الازہری بریلوی، مطبوعہ سوانح حیات حضرت حاجی محمد عثمان الرضا قادری رضوی بریلوی، مطبوعہ ، قابل ذکر ہیں۔
آپ کی شادہ خانہ آبادی ماہ اپریل ۱۹۹۳ ء میں امام اہلِ سنت حضرت پیر دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی پڑپوتی مفتی اعظم پاکستان سید ابو البرکات رحمۃ اللہ علیہ کی پوت، شارح بخاری شریف علامہ سید محمود احمدرضوی رحمۃ اللہ علیہ کی بھتیجی اور حضرت پیر سید مسعود احمداشرفی المتوفیٰ ۲۰۱۵ء کی صاحبزادہ سے ہوئی۔ جن سے آپ کے دو صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تولد ہوئے جو کالجز اور اسکولز میں زیر تعلیم ہیں۔
آپ نے جن شخصیات سے علمی استفادہ کیا اُن میں حضرت حکیم محمد موسیٰ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ حضرت علامہ پیر زادہ اقبال احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ اور ڈاکٹر پروفیسر سید محمد قمر علی زیدی دامت فیوضہم قابل ذکر ہیں۔آپ کے احبابِ خاص میں پروفیسر سید محمد سرفراز قادری صاحب، جناب اسرار الحسنین قادری صاحب،جناب پروفیسر محمد نواز نوشاہی صاحب، جنا ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب ، جناب ڈاکٹر حافظ ذو الفقار علی صاحب، جناب پروفیسر ضیاء المصطفٰی قصوری صاحب،جناب طاہر رضا بخاری صاحب، جناب صاحبزادہ توصیف النبی صاحب، جناب ڈاکٹر سلیم اللہ جندران صاحب، پروفیسر دلاور خان صاحب جیسی علمی شخصیات شامل ہیں۔
آپ کا ذاتی کتب خانہ جو ہزاروں نادر و نایاب کتب پر مشتمل ہے جس میں مرکزی مجلس رضا لاہور اور ادارۂ تحقیات امام احمد رضا کراچی کی مطبوعات اور اعلٰی حضرت مجدد بریلوی کی تصانیف کثیر تعداد میں موجود ہیں جو بالخصوص اعلیٰ حضرت محدث بریلوی پر تحقیق کرنے والے صاحب علم حضرات کے لیے بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوں گی۔
آپ کے ایم۔ایڈ ایک مقالے بعنوان "امام احمد رضا فاضل بریلوی کی علمی خدمات کا جائزہ" کے حوالے سے پروفیسر گلام سرور انا شعبہ سیاسیات گورنمنٹ کالج لاہور تحریر فرماتے ہیں:
"ہمارے ایک فاضل عزیزی سید شاہد علی نورانی کا مقالہ قابلِ ستائش ہے۔موصوف نے اس سلسلے میں کافی محنت کی ہے۔ حوالہ جات اور متن ہر لحاظ سے مستند ہیں۔ کیوں نہ ہو۔ جبکہ عزیز محترم کو مواد حکیم محمد موسٰی امر تسری نے مہیا کیا اور وہ خود نبیرہ سید ایوب علی رضوی مرید خلیفہ اعلیٰ حضرت ہوں اسی حوالے سے جناب ڈاکٹر ظہور احمد اظہر صدر شعبہ عربی اور ینٹل کلج پنجاب یونیورسٹی لاہور رقمطراز ہیں کہ مجھے بڑی خوشی ہے کہ عزیزی محترم سید شاہد علی نورانی جن کے جدِ امجد سید ایوب علی رضوی نے امام احمد رضا سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل کیا۔۔۔۔
غالباً یہی علمی پس منظر تھا۔جس نے عزیزی سید شاہد علی نورانی کو امام احمد رضا پر تحقیق وریسرچ کی طرف مائل کیا اور شاہد صاحب نے امام احمد رضا کی علمی خدمات کا جائزہ پیش کیا۔ "
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج سکھر سندھ نے بھی تحریر فرمایا اور رم سید شاہد علی نورانی ایک علمی خانوادے کے چشم چراغ ہیں۔جنہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ چیئرمین شعبہ تعلیم و تحقیق پروفیسر خواجہ فوزیہ ناہید کی نگرانی مکمل کیا اور رکن مجلس پروفیسر ڈاکٹر اکبر علی صاحب ان کے معاون رہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر میز ادلین چغتائی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ امام احمد رضا پر کام کرنے والےفضلاء کی ہمت افزائی فرمارہے ہیں اور شعبہ تعلیم کے ڈار یکٹر احسان اللہ خان صاحب لائق صدتبریک ہیں۔ کہ ان کے شعبے سے سید شاہد علی نورانی نے امام احمد رضا پر اپنا تحقیقی مقالہ قلمبند کیا۔۔۔"
آپ نے بشمول راقم الحروف کےجن حضرات کو سلسلہ عالیہ قادری برکاتیہ رضویہ کی خلافت سے سرفراز فرمایا ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
جناب سید واصف علی رحمانی مقیم حیدر آباد سندھ ، جناب سید مجاہد علی نعمانی مقیم دبئی، جناب ڈاکٹر وکیل احمد داتائی اشرفی رضوی مقیم کراچی، بانی حلقہ داتائی ، مصنف "تجلیات داتا" مجاہدِ اہل سنت حضرت احمد حنیف قادری رضوی جنرل سیکریٹری ادارہ معارفِ رضا جن کا ۲۸ اگسر سنہ ۲۰۰۰ ء میں انتقال ہوگیا ان کی نماز جنازہ حضرت علامہ منیر احمد یوسفی مدظلہ العالی نے پڑھائی انہیں بدھو دا آوا کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ سیدی و مرشدی ڈاکٹر شاہد علی نورانی مرحوم و مغفور کا معمول تھا کہ وہ حضرت داتا گنج بخش فیضِ عالم قدس سرہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوتے رہتے۔انہوں نے اس درگاہ عالیہ سے جو فیض حاصل کیا۔ اس کے بارے میں یوں بیان فرماتے ہیں:
حضر ت داتاا گنج بخش فیض عالم قدس سرہ کا آستانہ مرکز انوار و تجلیات و منبع فیوض و برکات ہے اس خانقاہ عالیہ پر حاضر ہونے والا زائر اپنی استعداد سے زیادہ مستفید و مستفیض ہوتا ہے۔مجھے بار ہا اس درگاہ حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔میں جب بھی وہاں حاضر ہوا خالی نہ لوٹا۔
والدین کے انتقال کے بعد ایف اے سے آگے تعلیم جاری نہ رکھا سکا ۔گھریلو ذمہ داریوں کی بنا پر مختلف اداروں میں ملازمت کرتا رہا۔سلسلہ تعلیم منقطع ہونے کے ازحد دکھ تا۔ اسی دوران کرتا رہا۔ سلسلہ تعلیم منقطع ہونے کے ازحد دکھا تھا۔ اسی دوران حضرت حکیم محمد موسٰی امر تسری علیہ الرحمۃ کی خدمد میں حاضر ہوا۔ جن کا حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ سے قلبیو روحانی تعلق تھا۔
جو سادات پر بڑی شفقت فرمایا کرتے ۔ بالخصوص طالب علموں کو اپنا تعلیمی معیار بلند و بہتر کرنے کی ترغیب دلایا کرتے۔اور ان کی دینی، علمی اور روحانی تربیت بھی فرمایا کرتے تھے۔انہوں نے میری ڈھارس بند ھائی اور حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ کے آستانے پر بھیج دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ میں نے داتا جی سرکار میں حاضرہو کر عرض کی کہ مجھے اجازت دیں۔ کہ مزید اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں اور آپ میرے حق میں خصوصی دعا فرمائیں۔
چند دنوں بعد اس دعا کی مقبولیت کے آثار نظر آنے لگے اور میرے تمام مسائل حل ہوتے گئے۔آخر کار میں نے بی اے کےلیے کالج میں داخلہ لے لیا ۔ اور ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم پرائیوٹ ملازمت بھی کرتا رہا۔اسی طرح بی۔ ایڈ، ایم ۔اے ، ایم ۔ایڈ اور پی۔ایچ ۔ڈی تک تعلیم حاصل کی اس اثناء میں مجھے محکمہ ایجوکیشن میں گورنمنٹ کی ملازمت مل گئی۔ اس وقت متعدد طلبہ کو ایم فل اور پی ۔ایچ ڈی۔کرواچکاہوں۔عرصہ چار سال تک مدینہ یونیورسٹی فیصل آباد ایسوسی ایٹ پروفیسر رہا دوسرا معاملہ کچھ اس طرح کا تھا۔کہ میری دلی خواہش تھی کہ کسی طرح بھی حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے مزار مقدسہ پر حاضری کا شرف حاصل ہوجائے اس سلسے میں حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر یہ استدعا کی کہہ مجھے بریلوی شریف جانے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔
روحانی دنیا میں بھی سلف صالحین اولیاء واصفیاء کا معمول رہا ہے کہ اپنے علاقے کی روحانی شخصیت سے اجازت لے کر باہر جانا چاہیے اور جہاں پر بھی جائیں۔وہاں کی روحانی شخصیت کے مزار پر حاضر ہو کر آنے کی اجازت حاصل کریں۔ ایسا کرنے سے نقصان کا احتمال نہیں رہتا۔ کیونکہ ہر علاقہ میں کسی نہ کسی صاحب حال کا تعرف ہوتا ہے۔
بس پھر کیا تھا۔میرے تمام معاملات بآسانی حل ہوگئے۔ پاسپورٹ اور زادِ راہ ویزہ یں کسی قسم کی دقت پیش نہ آئی۔اور میں باخیر یت و عافیت خانقاہِ بریلی شریف کی زیارت سے مشرف ہوکر واپس لوٹا اور آتے ہوئے مجھے تاج الشریعت مفتی اختر رضا الازہری مدظلہ نے خلافت سے نوازا ۔ جو میرے لیے نعمتِ عظمٰی سے کم نہیں۔مندرجہ بالا یہ چند آخری کلمات انہوں نے بیان فرمائے:
جو بروز منگل بمورخہ ۲۵ مئی راقم الحروف کی ان سے موبائل فون پر آخری بات چیت ہوئی۔ گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا۔ کہ آپ بلالکل تندرست اور صحت مند ہیں۔راقم الحروف نے انہیں بتایا کہ وہ کتاب "تجلیات داتا"پر مقدمہ یادیباچہ لکھ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا:"زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اپنے آباؤ اجداد کے خاندانی حالات و واقعات پر ایک کتاب تحریر کرنی ہے۔" اس کے بعد کافی دیر تک حضرت داتا گنج بخش نور اللہ مرقدہٗ کے حوالے سے گفتگو کرتے رہے۔میری حوصلہ افزائی فرمائی اور کچھ مفید باتیں بتائیں۔اگلے دن بروز بدھ بمورخہ ۲۵ مئی ۲۰۱۶ء بمطابق ۱۸، شعبان المعظم ۱۴۳۷ ھ بوقت مغرب نماز کےلیے وضو کرنے کے بعد حالت غیر ہوگئی ۔ اور اسی دوران کلمہ طیبہ درود شریف کا ورد کرنے لگے انہیں جناح ہسپتال لے جایا گیا۔ کچھ دیع بعد خالقِ حقیقی سےجاملے آپ کے جسدِنورانی کو برادرِ اکبر سید محمد علی سبحانی صاحب کی رہائش گاہ واقع سادات اسٹریٹ نزدیادگار اسکول شیلر چوک باغبا نپورہ لایا گیا۔کیونکہ آپ عرصہ دراز تک یہیں پر مقیم رہے۔ آپ کے انتقال کی خبر سنتے ہی دور و نزدیک سے عوام و خواص پہنچنا شروع کردیا پل بھر میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔لوڈ شیڈنگ، شدید گرمی اور جگہ کی تنگی کی بنا پر اس علاقے کی مشہور و معروف روحانی شخصیت اور حضرت داتا گنج بخش کے فیض یافتہ پیر طریقت حضرت سید مسکین حسین شاہ بخاری مدظلہ العالی نے تین دن تک تعزیت کےلیے آنے والے حضرات کےلیے اپنے آستانے اور رہائش گاہ کے دروازے کھول دئیے۔اور خاطر خواہ انتظام کیا۔پیر طریقت حضرت صوفی محمد صدیق نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز محب و محبوب سادات حضرت صوفی رانا محمد اعجاز نقشبندی مجددی بھی تشریف لائے انہوں نے تجہیز و تکفین کےسلسلہ میں بہت اہم کرداراداکیا۔
حضرت ڈاکٹر سید اشہد علی نوارانی نور اللہ مرقدہٗ کے جسدِ نوری کو غسل دینے کی سعادت جناب ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی دامت فیوضہم کے دست راست اور پرنسپل اسلامک انسٹی ٹیوٹ حضرت علامہ قاری محمد یونس جلالی مدظلہ العالی ، صاحبزادہ سید عابد حسین شاہ بخاری علی عثمان ، صاحبزادہ حبیب علی نورانی اور برادر اکبر سید محمد علی سبحانی صاحب کو حاصل ہوئی۔
غسل کے بعد آپ کے جسد نوری کو پہلے دار العلوم جامعیہ جذبِ الاحناف میں اس کے بعد آستانے پر لے جایا گیا۔ جہاں بعد از نماز ظہر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جو آپ کے برادرِ نستبی حضرت علامہ صاحبزادہ سید نثار اشرف رضوی مدظلہ نے پڑھائی اور ایصالِ ثواب کےلیے صاحبزادہ مصطفٰی اشرف رضوی مدظلہ نے دعائے خیر کی۔ نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں علماء مشائخ مدارس اکول کالج ،یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ کے علاوہ آپ کے عزیز و اقارب نےشرکت کی۔انہیں اپنے جدِ امجد حضرت سید ایوب علی رضوی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ(مرید و خلیفہ اعلیٰ حضرت مجدد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ )کےپہلو میں میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔ایصالِ ثواب کےلیے مورخہ۲۷ مئی بروز جمعۃ المبارک بعد از نماز جمعہ تا مغرب جامع مسجد نماز سادات سٹریٹ نزد یادگارِ سکول میں قل خوانی کی گئی جس میں کثیر تعداد علمائے مشائخ اور عوام و خصواص نے شرکت کی۔
؎خدارحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را
مادے و قطعہ تاریخ ارتحال:
"آہ پاکباز،مقرب بندہ ،عالی نسب، سید شاہد علی نورانی "
۱۴۳۷ھ
"انعمت علیھم،خصال"
۱۴۳۷ھ
"گنج حلم ،اشرفی ،رضوی بریلوی "، ۲۰۱۶ء |
"باایمان محقق ،ماہر رضویات" ۲۰۱۵ء |
صدمہ ، ہادی، مہربان ، محب اعلیٰ حضرت
۲۰۱۶ء
سیدی شاہد علی تھے بے مثال |
صاحبِ اقبال تھے وہ لازوال |
(معارفِ رضا)