حضرت پیر مکی
حضرت پیر مکی (تذکرہ / سوانح)
حضرت پیر مکی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: سید عزیز الدین مکی۔لقب: پیر مکی۔اسی لقب سے آپ مشہور عام وخاص ہیں۔سلسلہ ٔ نسب اس طرح ہے: سید عزیز الدین مکی بن سید عبد اللہ۔علیہما الرحمہ۔آپ کا خاندانی تعلق ساداتِ کرام کے عظیم خانوادے سےہے۔خاندانی نجابت،علمی شرافت،کے ساتھ ساتھ تقویٰ وفضل میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ کا آبائی تعلق بغداد معلیٰ سےہے۔بغداد کےنواح میں ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ِ گرامی انتہائی نیک سیرت وپاکدامن اور صاحبِ علم وعمل شخصیت تھے۔(تذکرہ اولیائے لاہور:82)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت کے بارے میں کتب خاموش ہیں ۔قیاس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش چھٹی صدی ہجری کے وسط یا اس سےتھوڑا پہلے ہوئی ہوگی۔
تحصیلِ علم: آپ کی پیدائش بغداد میں ہوئی۔اس وقت بغداد علم وفن کاایک عظیم مرکز تھا۔ابتدائی تعلیم بغداد میں شروع کی اور وہیں پر بڑے بڑے علماء علماء ومشائخ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔اسی طرح حرمین شریفین کے شیوخ سے بھی علمی استفادہ کیا۔آپ کو تمام علوم عقلیہ ونقلیہ پر مہارت تامہ حاصل تھی۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ جنیدیہ میں ایک بزرگ سے بیعت ہوئے۔ (نام معلوم نہیں ہوسکا) مجاہدات وریاضات کےبعد خلافت سے مشرف ہوئے۔آپ کا شجرۂ طریقت چندواسطوں سے سید الطائفہ حضرت جنید بغدادیتک پہنچتا ہے۔(تذکرہ صوفیائے پنجاب:380)
سیرت وخصائص: قدوۃ الاولیاء،زبدۃ الصلحاء،عارفِ بااللہ،واصل بااللہ،حضرت سید عزیز الدین پیر مکی۔آپ لاہور کےقدیم اولیاء کرام میں سے ہیں۔آپ 562ھ کو حرمین کی طرف سفر کیا۔آپ کی جوانی مکۃ المکرمہ میں گزری۔آپ بارہ سال مسلسل مکہ معظمہ میں مصروفِ عبادت رہے۔اس لئے ’’پیر مکی‘‘ کےلقب سے مشہور ہوئے۔اس عرصے میں عبادت وریاضت کے علاوہ کوئی مشغلہ نہ تھا۔ایک دن ندائے غیبی سنی تو میرا دوست ہے،میں تیرا دوست ہوں،تم نےمیرے گھر کی عزت وقدر کی،اور میرے گھر پر ہی جھکے رہے۔اب دنیا تیرے درپر جھکے گی۔تم ساری زندگی میرےنام کا ورد کرتے رہے۔میں نے تمھارا نام دنیا میں بلند کردیا۔یہ وہی فضلِ خدا وندی ہے کہ آج دنیا حضرت پیر مکی کی چوکھٹ پر جھکتی ہے،اور صدیاں گزرنے کےباوجود آپ کا نام روشن ہے۔
مکۃ المکرمہ میں آپ کو اشارۂ غیبی ہوا کہ ہندوستان کےبت کدے کوتبلیغِ اسلام سے منورکرو۔چنانچہ آپ اشارۂ غیبی کےبعد مکہ معظمہ سے جدا ہوئے۔وہاں سے مدینۃ المنورہ حاضر ہوئے،اور کچھ عرصہ قیام کیا۔رسول اللہ ﷺ کے فیض اور عطاء سے خوب مالا مال ہوئے۔ رسول اللہﷺ سے اجازت لےکر وہاں سے منزل بہ منزل سیاحت کرتے ہوئے اپنے وطن بغداد آئے،اور اپنے گاؤں میں گئے۔وہاں چند روز قیام کیا۔پھر ہند کی طرف روانہ ہوئے۔ خشکی کے راستے سے مختلف علاقوں کی سیر اور بزرگوں کی زیارت کرتےہوئے سرحد کے راستےسے575ھ کو لاہور میں وارد ہوئے۔ اس وقت لاہور کا حاکم خسرو ملک تاج الدولہ تھا۔اس وقت سلطان شہاب الدین غوری نے لاہور کا محاصرہ کر رکھا تھا۔غزنوی گورنر خسرو ظہیر الدولہ اس محاصرے سے بڑا تنگ ہوگیا تھا۔ حضرت پیر مکیان دنوں لاہور میں نئے نئے تشریف لائے تھے۔آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کا طالب ہوا۔آپ نے دعا کی اور فرمایا جاؤ تمہیں اللہ تعالیٰ نے مزید چھ سال اپنے امان و حفاظت میں لے لیا ہے اور کوئی حملہ آور تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔چھ سال بعد یہ سلطنت غوری خاندان کے سپرد کردی جائے گی چنانچہ شہاب الدین غوری اپنا مقصد حاصل کیے بغیر واپس چلا گیا۔ پھر 580ھ میں سیالکوٹ کو فتح کرنے کے بعد لاہور پر دوبارہ حملہ آور ہوا سیالکوٹ کا قلعہ تعمیر کیا اسے اپنی چھاؤنی بنایا لاہور کا محاصرہ کیا اسے فتح کرلیا۔(تذکرہ صوفیائے پنجاب:380)
قیامِ لاہور: لاہور میں حضرت داتا علی ہجویری کا مزار ِاقدس اولیاء صلحاء کے لیے ہر زمانے میں توجہ کا مرکز رہاہے۔چنانچہ جو بزرگانِ دین حضرت داتا صاحب کے بعد لاہور میں تشریف لائے،انہوں نے آپ کے مزار پر ضرور حاضری دی۔اس لیے جب حضرت پیر مکی لاہور میں تشریف لائےتو سب سے پہلے داتا گنج بخش کے مزار پر کچھ عرصہ قیام پذیر رہے،اور فیوض وبرکات حاصل کیے۔اس کے بعد آپ نےاس جگہ قیام کیا،جہاں آج کل آپ کا مزار ہے۔اس وقت یہ جگہ شہر سے دور اور ویرانے میں تھی۔آپ کا حجرہ کچی مٹی کابنایا گیا۔آپ اسی میں دن رات مصروفِ عبادت رہتے۔قریب کی آبادیوں میں جاکر لوگوں کو نماز روزہ اور دین اسلام پر عمل پیرا ہونے کی تےتلقین کرتے۔آپ کی تبلیغ کی بدولت بہت سوں کی ایمان دولت نصیب ہوتی،اور فساق وفجار تقوے کی پیکر بن جاتے۔اسی طرح غم زدہ،بیمار،اور پریشان ِ حال آپ کے درِ دولت پر حاضر ہوتے،اللہ جل شانہ آپ کی برکت ودعا سے ان کی مشکلات کو آسان فرمادیتا۔
بےشمار مخلوقِ خدا کو آپ سےفیض پہنچا۔آخری عمر میں یہ ویران جگہ آپ کی برکت سےانسانوں کی آمدورفت سےبارونق ہوگئی تھی۔ہر وقت مخلوقِ خدا کاتانتا بندھا رہتا۔کیا عوام،اور کیا خواص،سب آپ کی برکتوں سےمالا مال ہوئے۔اس وقت لاہور علم وفن اور علماء ومحدثین کا مرکزتھا۔اسی طرح صوفیاء کا بھی مرکزتھا۔اس شہر کی نوےفیصد سےزیادہ آبادی تعلیم یافتہ تھی۔لیکن حضرت پیر مکی کااپنا ایک مقام تھا۔آپ ہمہ وقت مصروف رہتےتھے۔تمام مصروفیات سے وقت نکال کر گاہے،گاہے حضرت مخدوم ِ امت،داتا علی ہجویری کےآستانے پر حاضری دیتےرہتے تھے۔اسی طرح تبلیغ کی غرض سے نواحی علاقوں میں بھی تشریف لےجاتےتھے۔یہی وجہ ہے کہ اس خطےمیں اسلام کی برکتیں عام ہوئیں،اور کفر وباطل کےاندھیرے، ان نفوس ِقدسیہ کی بدولت چھٹ گئے۔آج برصغیر پاک وہند میں دین ِاسلام کی بہاریں انہیں نفوسِ قدسیہ کی مساعیِ جمیلہ کی وجہ سے ہیں۔اگر ان کی کوششیں نہ ہوتیں تومسلمان اقلیت میں ہوتے،اور پاکستان کبھی معرضِ وجود میں نہ آتا،اور یہ حقیقت ہے پاکستان اولیاءاللہ کافیضان ہے۔حضرت پیر مکی لاہور میں چھتیس سال ارشاد وتلقین میں مصروف رہے۔بامقصد زندگی گزارکر آپ شمس الدین التمشکےزمانے میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
تاریخِ وصال:آپ کاوصال 612ھ مطابق 1215ء کو ہوا۔آخری آرام گاہ لاہور میں راوی روڈ پر بھاٹی گیٹ سے آگے،مرجعِ خلائق ہے۔آپ کاعرس مبارک ہرسال9/10ربیع الاول کو ہوتا ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ صوفیائے پنجاب۔تذکرہ اولیائے پاکستان جلد اول۔تذکرہ اولیائے لاہور۔