حضرت بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ
امام ِ اعظم علیہ الرحمہ حضرت بہلول کی حکمت بھری باتوں سے کبھی کبھار محظوظ ہواکرتے تھے۔عام لوگ انہیں ایک دیوانہ اور مستانہ تصور کرتے تھے۔کیونکہ وہ دنیاوی آلائشوں سے دور رہتے تھے۔ ہارون الرشید بھی ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت بہلول ہارون الرشید کے پاس پہنچے ۔ ہارون الرشید نے ایک چھڑی اٹھاکردی۔ مزاحا کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں۔ جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اسے دے دینا۔ بہلول مجذوب نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی۔ اور واپس چلے آئے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ شاید ہارون الرشید بھی بھول گئے ہوں گے۔
ایک عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اطباء نے جواب دیدیا ۔ بہلول مجذوب عیادت کے لئے پہنچے اورسلام کے بعد پوچھا۔ امیر المومنین کیا حال ہے؟ امیر المومنین نے کہا !کیاحال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے ۔ کہاں کا سفر؟ جواب دیا۔ آخرت کا۔ بہلول نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہوگی؟ جواب دیا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس ہوا ہے۔ بہلول نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے۔ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اورساتھ ساتھ کون جائے گا؟ جواب دیا۔ آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا۔ خالی ہاتھ جارہا ہوں۔ بہلول مجذوب بولا۔ اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین ومددگار نہیں۔ ہارون الرشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا۔لیجئے یہ چھڑی۔ یہ امانت واپس ہے۔ مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم وخدام کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے۔ آپ نے تیاری نہیں کی۔ ہارون الرشید نے یہ سنا تو روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔ اور کہا:اے بہلول ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے۔ مگرآج پتہ چلا کہ تمہارے جیسا تو کوئی دانا نہیں ہے۔