حضرت سچل سرمست رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حافظ عبدالوہاب فاروقی۔لقب:سچل سرمست۔ سلسلہ ٔنسب اس طرح ہے: حضرت حافظ عبد الوہاب المعروف سچل سرمست بن میاں صلاح الدین بن میاں محمد حافظ المعروف میاں صاحب ڈنو۔علیہم الرحمہ۔
سچل سرمست لقب کی وجہ تسمیہ:’’ ہمیشہ گفتگو میں سچائی،کردار میں عظمت،اور ذاتِ حق میں استغراق کی بنیاد پر آپ ’’سچل سرمست‘‘ کےلقب سےعالم میں مشہور ہوگئے‘‘۔سچل سرمست کےدادا محترم علم وفضل،تقویٰ وشرافت میں مشہور تھے۔اپنے علاقے میں علم دین عام کیا۔آپ کےجد اعلیٰ شیخ شہاب الدین بن عبدالعزیز بن عبداللہ ،فاتحِ سندھ حضرت محمد بن قاسم کےساتھ جہاد میں تشریف لائے تھے۔انہوں نے آپ کو سیوستان کاحاکم مقرر کیا،پھر وہ یہیں مقیم ہوگئے۔حضرت سچل سرمست کا سلسلہ نسب امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سےاڑتیسویں پشت میں ملتا ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1152ھ،مطابق 1739ء کوقصبہ درازن،ضلع خیر پور میرس سندھ میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ کےوالد گرامی میاں صلاح الدین علیہ الرحمہ کاان کے بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ان کی تعلیم وتربیت ان کی والدہ محترمہ اور عم بزرگوارکے زیر سایہ ہوئی۔دونوں حضرات نے ان کی تعلیم وتربیت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔بچپن میں ہی آثار ِ فطانت ظاہر تھے،چھوٹی سی عمر میں حافظ عبد اللہ قریشی علیہ الرحمہ کےپاس قرآنِ مجید حفظ کرلیا۔اس کے بعد اپنے چچا عبدالحق کے پاس علوم متداولہ کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کی تکمیل کی۔
بیعت وخلافت: آپ کےچچا محترم اپنے وقت کےمتبحر عالم دین اور صاحبِ تقویٰ وکرامت بزرگ تھے،انہوں نےتکمیل سلوک کےبعد اپنےہاتھ پر بیعت کیا،اور اجازت وخلافت عطاء فرمائی۔
سیرت وخصائص:امام العارفین،سیدالعاشقین،سندالمتقین،عارف باللہ،واصل بااللہ،منصورِثانی،شاعر ِہفت زباں،حضرت عبدالوہاب فاروقی،المعروف سچل سرمست رحمۃ اللہ علیہ۔حضرت سچل سرمست علیہ الرحمہ سندھ کےاکابرین اولیاء ،اور نامور مشائخ میں سےہیں۔آپ کےعلم وفضل،تقویٰ وفضیلت،اور دینِ اسلام پر ہمیشگی،کردار میں عظمت،اخلاق ِ نبویﷺ کی بنیاد پر بےشمار غیر مسلم آپ کےدست ِ اقدس پر مسلمان ہوئے،آپ کےوجود مسعود سےاسلام کوتقویت وفروغ حاصل ہوا۔
حضرت حافظ سچل سرمست رحمہ اللہ کو شیخ فرید الدین عطار،حضرت شمس تبریزی، حضرت بایزید بسطامی،شیخ منصور حلاج علیہم الرحمہ وغیرہ سے غائبانہ زبردست عقیدت و محبت تھی۔ یہی سبب ہے کہ آپ نے ان بزرگوں کو اپنے کلام میں خصوصی جگہ دی ہے۔ اپنے جوانی کے ایام میں پابندی کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور اواردو وظائف میں مشغول رہتے تھے۔ جب آپ کی عمر بچاس برس کی ہوئی تو موج ومستی میں بے خود ہوجاتے تھے۔ لیکن آخر عمر تک کبھی بھی شریعت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
آپ کے متعلق یہ روایت حدتواتر کو پہنچی ہوئی ہے کہ ایک مرتبہ سرتاج الشعراء حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمہ اللہ آپ کےچچا کےہاں تشریف لے گئے، حضرت سچل سرمست علیہ الرحمۃ کے چچا علامہمیاں عبدالحق آپ کو حضرت شاہ بھٹائی کی خدمت میں دعا کرانے کی غرض سے لے کر آئے حضرت شاہ صاحب نے چہرہ دیکھ کر پہچان لیا اور فرمایا: کہ ’’جو دیگ ہم نے چڑھا دی ہے اس کا ڈھکن سچل اتاریں گے‘‘۔ یعنی جو عشق الہٰی کی دیگ ہم نے چڑھائی ہے اس کا ڈھکن سچل اتاریں گے۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی پیش گوئی حقیقت بن کر سامنے آئی ۔ کہ حضرت سچل نے صرف ڈھکنا ہی نہیں اتارا بلکہ دیگ میں سے بانٹتے بھی رہے۔(تذکرہ اولیاء سندھ:234/سچل سرمست:9)
آپ کا قدردرمیانہ رنگ گندمی ، پیشانی کشادہ اور خوب صورت خدوخال تھے۔ سر کے بال بہت لمبے ہوتے تھےسر پر ہمیشہ سبز رنگ کی ٹوپی رکھتے تھے۔ سفید دھوتی پہنتے ، عالم مستی میں اکثر ننگے پاؤں پھرا کرتے تھے ہاتھ میں ہمیشہ لمبی لکڑی رہتی تھی۔ بہت کم سوتے ، کم کھاتے زیادہ تر روزہ رکھتے ، اکثر لکڑی کی چوکی پر مراقبہ کی حالت میں بیٹھے رہتے۔بہت رحم دل اور سخی تھے۔ شریعت کے سختی سے پابند تھے۔ پانچ وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتے تھے۔ بعض اوقات مستی میں اونچی آواز میں کلام پڑھتے ۔اپنا بہت سا کلام دریا برد کرا دیا تاکہ کہیں لوگ اس کے مطلب کوغلط رنگ دےکر راہ حق سے بھٹک نہ جائیں، بہت زیادہ تعداد میں آپ کے مرید تھے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی آپ کے عقیدت مند تھے۔ آپ کو مختلف زبانوں پر دسترس حاصل تھی آپ کو شاعر ہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔(ایضا:)
حضرت حافظ عبدالوہاب سچل سرمست نے سندھی سرائیکی اور اردو میں کلام فرمایا ہے، دیوان آشکار،سوزنامہ،گداز نامہ،عشق نامہ، آپ کے کلام کے مجموعے ہیں۔ آپ کبھی مستی و جذب کی حالت میں بے ساختہ حضرت منصور حلاج، عطار اور تبریزی کی طرح شطحیات کلام بھی کہہ جاتے تھے۔ آپ کا پورا کلام سوز،گداز، درد اور غم سے بھرا ہوا ہے۔شاعر ہفت زباں حضرت سچل سرمست کا کلام بھی حق و صداقت،خلوص و محبت،ایثارو قربانی،ہمدردی و رواداری،عدل و احسان اور اخوت و مساوات کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے نہ صرف سندھی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا بلکہ وہ اردو فارسی،سرائیکی اور ہندی کے بھی ممتاز شاعر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ حضرت سچل سرمست کو فکری بلندی،اور عشقِ خداوندی کی بدولت منصور ِ ثانی کہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال باکمال 14/رمضان المبارک 1242ھ،مطابق اپریل/1827ء کو’’خیر پور میرس‘‘ میں ہوا۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اولیائے سندھ۔حضرت سچل سر مست۔
//php } ?>