حضرت حافظ عبدالوہاب سچل سرمست
حضرت عبدالوہاب حافظ فاروقی المعروف سچل سرمست
و ۱۱۵۲ھ/ ۱۷۳۹ء ف ۱۲۴۲ھ
حضرت علامہ ، حافظ ثانی منصور عبدالوہاب فاروقی المعروف سچل سرمست بن میاں صلاح الدین فاروقی بن میاں محمد حافظ المعروف صاحبہ نو رحمھم اللہ تعالیٰ اجمعین ، و ۱۱۵۲ھ/ ۱۷۳۹ءمیں ضلع خیر پور میرس کی ایک بستی درازن شریف میں تولد ہوئے،اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے چچا خواجہ عبدالحق کی سر پرستی میں رہے، آپ کا شجرہ نسب اڑتیسویں پشت میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملتا ہے۔آپ کے جدامجد جناب شہاب الدین ، محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں آئے تھے، جب ۹۳ھ میں سیون کا قلعہ فتح ہوا تو محمد بن قاسم نے انہیں سیون کا حاکم مقرر کیاتھا۔حافظ عبداللہ قریشی کے پاس صغر سنی میں ہی قرآن حکیم حفظ کر لیا۔ اس کے بعد اپنے چچا عبدالحق کے پاس علوم متداولہ کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کی تکمیل کی۔ اور علامہ عبدالحق نے آپ کو خرقہ خلافت سے نوازا۔ اس وجہ سے آپ کو ‘‘خلیفہ سچل’’ بھی کہتے ہیں۔ حضرت حافظ سچل سرمست رحمہ اللہ کو فرید الدین عطار ، شمس تبریزی، بایزید بسطامی، منصور حلاج ، وغیرہ سے غائبانہ زبردست عقیدت و محبت تھی۔ یہ ہی سبب ہے کہ آپ نے ان بزرگوں کو اپنے کلام میں خصوصی جگہ دی ہے۔ اپنے جوانی کے ایام میں پابندی کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور اواردو وظائف میں مشغول رہتے تھے۔ جب آپ کی عمر بچاس برس کی ہوئی تو موج ومستی میں بے خود ہوجاتے تھے۔ لیکن آخر عمر تک کبھی بھی شریعت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا آپ کے متعلق یہ روایت حدتواتر کو پہنچی ہوئی ہے کہ ایک مرتبہ سرتاج الشعراء حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی (رحمہ اللہ)دراز شریف تشریف لے گئے، حضرت سچل سرمست علیہ الرحمۃ کے چچا میاں علامہ عبدالحق آپ کو حضرت شاہ بھٹائی کی خدمت میں دعا کرانے کی غرض سے لے کر آئے حضرت شاہ صاحب نے چہرہ دیکھ کر پہچان لیا اور فرمایا کہ ‘‘جو دیگ ہم نے چڑھا دی ہے’’ اس کا ڈھکن سچل اتاریں گے۔ یعنی جو عشق الہٰی کی دیگ ہم نے چڑھائی ہے اس کا ڈھکن سچل اتاریں گے۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی پیش گئی حقیقت بن کر سامنے آئی ۔ کہ سچل نے صرف ڈھکنا ہی نہیں اتارا بلکہ دیگ میں سے بانٹتے بھی رہے جن لوگوں نے اس میں سے حصہ لیا ان کے نام یہ ہیں، عثمان فقیر لاڑکانوی، یووف فقیر‘‘نانک’’ یعقوب فقیر، سید میاں خیر شاہ تودیدے والے، سید میاں پیر شاہ، حیدر شاہ جانو فقیر حلاج ، (پنجارو) سید دین محمد شاہ ، شیر علی فقیر ، محمد صدیق فقیر، محمد صلاح اور گھرام فقری جتوئی۔
(سندھ جااسلامی درسگاہ ص ۳۶۶)
آپ کا قدردرمیانہ رنگ گندمی ، پیشانی کشادہ اور خوب صورت خدوخال تھے۔ سر کے بال بہت لمبے ہوتے تھےسر پر ہمیشہ سبز رنگ کی ٹوپی رکھتے تھے۔ سفید دھوتی پہنتے ، عالم مستی میں اکثر ننگے پاؤں پھرا کرتے تھے ہاتھ میں ہمیشہ لمبی لکڑی رہتی تھی۔ چوں کہ موسیقی سے دلچسپی تھی اس لیے اپنے ہاتھ میں یکتارہ بھی رکھتے تھے۔ بہت کم سوتے ، کم کھاتے زیادہ تر روزہ رکھتے ، اکثر لکڑی کی چوکی پر مراقبہ کی حالت میں بیٹھے رہتے۔
بہت رحم دل اور سخی تھے۔ شریعت کے سختی سے پابند تھے۔ پانچ وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتے تھے۔ بعض اوقات مستی میں اونچی آواز میں کلام پڑھتے ۔ جب ہوش میں آتے تو انہیں معلوم نہ ہوتا کہ اس میں کیا کیا، خود کہا کرتے تھے کہ مستی کے عالم میں میں جو کچھ کہتا ہوں اس کا مجھے خود علم نہیں ہوتا۔ اپنا بہت سا کلام دریا برد کرا دیا تاکہ کہیں لوگ اس کے مطلب کو صحیح پاکر راہ حق سے بھٹک نہ جائیں بہت زیادہ تعداد میں آپ کے مرید تھے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی آپ کے عقیدت مند تھے۔ آپ کو مختلف زبانوں پر دسترس حاصل تھی آپ کو شاعر ہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت حافظ عبدالوہاب سچل سرمست نے سندھی سرائیکی اور اردو میں کلام فرمایا ہے، دیوان آشکار، سوزنامہ، گداز نامہ، عشق نامہ، آپ کے کلام کے مجموعے ہیں۔ آپ کبھی مستی و جذب کی حالت میں بے ساختہ حضرت منصور حلاج، عطار اور تبریزی کی طرح شطحیات کلام بھی کہہ جاتے تھے۔ آپ کا پورا کلام سوز،گداز، درد اور غم سے بھرا ہوا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ سچل سرمست کا اب تک کوئی ثانی پیدا نہیں ہوسکا۔ آپ نے ۱۴ رمضان المبارک ۱۲۴۲ھ میں وفات فرمائی۔ آپ کا مزار پر انوار دراز شریف میں مرجع خلائق ہے۔ اور ۱۴ رمضان کو آپ کا شاندار عرس شریف منایا جاتا ہے جس میں پورے سندھ سے لوگ جوق در جوق شریک ہوکر فیض یاب ہوتے ہیں۔
(سندھ جا اسلامی درس گاہ ص ۳۶۷)
(تذکرہ اولیاءِ سندھ )