خواجہ محمد نقشبند
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1034 | رمضان المبارک | 07 |
یوم وصال | 1114 | محرم الحرام | 29 |
خواجہ محمد نقشبند (تذکرہ / سوانح)
قیوم ِ ثالث حجۃ اللہ حضرت خواجہ محمد نقشبند قدس سرہ
سرہند شریف ۱۰۳۴ھ/۱۶۲۵ء۔۔۔۱۱۱۴ھ/۱۷۰۲ء سرہند شریف
قطعۂ تاریخِ وفات
جن کو بخشا ہے خدا نے حجۃ اللہ کا خطاب
|
|
تھے وہی قُطبِ زماں خواجہ محمد نقشبند |
|
(صابر براری، کراچی)
حضرت حجۃ اللہ خواجہ محمد نقشبند قدس سرہ
آپ عروۃ الوثقیٰ قیومِ ثانی حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے دوسرے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی ولادت با سعادت ۷؍ رمضان المبارک ۱۰۳۴ھ/۱۶۲۵ء بروز جمعۃ المبارک ہوئی۔ امام ربّانی حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ نے مرض الموت میں حضرت قیوم الثانی رحمۃ اللہ علیہ سے ارشاد فرمایا تھا کہ اس سال میرےوصال کے بعد تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو قُرب الٰہی کے کمالات میں میرے برابر ہوگا۔
آپ نے علم ظاہری و باطنی اپنے والد ماجد قدس سرہ سے حاصل کیا۔ بوجہ علو استعداد تھوڑے عرصہ میں آپ پر وُہ اسرار منکشف ہُوئے جن کی نسبت حضرت عروہ الوثقیٰ قدس سرہ فرماتے تھے کہ یہ حیطہ درکِ عقل و تصویرِ خیال سے باہر ہیں۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ نے اپنی قیومیّت کے اکتالیسویں سال ۱۰۷۴ھ میں آپ کے قُطب الاقطابی اور قیومیّت کی بشارت دی۔ چنانچہ آپ خود بیان فرماتے ہیں کہ میں نے جب بعض علوم و معارف اور اسرار حضرت قیّوم ثانی قدس سرہ کی خدمت میں عرض کیے تو فرمایا کہ یہ علوم و معارف جو تم بیان کرتے ہو مقطعاتِ قرآنی کے اسرار ہیں جو حضرت مجدّد الف قدس سرہ نے مجھ سے خلوت میں فرمائے تھے۔ بعد ازاں دوسرے روز مجھے خلوت میں بلا کر منصبِ قیومیّت کی بشارت دی اور فرمایا کہ جو تاج مدینہ منوّرہ سے رُخصت ہوتے وقت جنابِ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عنایت فرمایا تھا اب وہی تاج تمہیں عنایت ہوا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ وہ تاجِ طینت، اصالت، قیومیّت اور محبوبیّتِ ذاتی پر مشتمل تھا۔ فرمایا بعینہٖ وُہی تاج ہے جو مجھے عنایت ہوا تھا۔ اب وہی تمہیں دیا گیا ہے۔
آپ نے ۱۱؍ ربیع الاوّل ۱۰۷۹ھ/۱۶۶۸ء کو مسندِ ارشاد پر جلوس فرمایا۔ آپ کی کثرتِ ارشاد کا یہ عالم تھا کہ آپ کی قیومیّت کے پچیسویں سال ہر روز چار پانچ سو آدمی بلکہ اس سے بھی زیادہ حاضر خدمت ہوکر مرید ہوتے۔ بڑے بڑے مشائخ اور علماء اپنی مشیخیت اور درس و تدریس کو چھوڑ کر آپ کے مرید ہوئے۔ رُوئے زمین کے مختلف حصّوں سے لوگ ٹڈی دل کی طرح آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ توران، ترکستان، بدخشاں کے بادشاہ اپنی اپنی حدود تک استقبال کے لیے آئے اور اپنے اپنے ایلچی مع ہدایا آپ کی خدمت میں بھیجے۔ غرض اس قدر لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ کابل میں گنجائش نہ رہی۔ مجلسِ اقدس میں آپ کا اس قدر دبدبہ تھا کہ بادشاہ اور اُمراء کو بھی بات کرنے کی جرأت نہ تھی۔
شیخ عبدالواہاب مکّی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آدھی رات کو مسجدالحرام میں گیا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ جمع تھے جن میں شیخ فخرالدین عراقی خطیب رحمۃ اللہ علیہ اور ملک العلماء عرب مولانا شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے اور کسی کے انتظار میں آسمان کی طرف اور بامِ کعبہ پر ٹکٹکی لگائے بیٹھے تھے۔ میں بھی وہاں بیٹھ گیا۔ درین اثنا تمام آسمان آفتاب کی طرح روشن ہوگیا اور نُورانی لوگ آسمان سے کعبہ کی چھت پر اُتر رہے ہیں۔ اسی اثنا میں ایک مرد بزرگ تخت پر بیٹھے ہوئے نمودار ہوئے اور اُن سے ایک ایسا نُور چمک رہا تھا کہ مشرق سے مغرب تک تمام روئے زمین جگمگ جگمگ کر رہی تھی۔ اسی دوران کسی نے مُنادی کردی کہ اس تخت مبارک پر امام ربّانی مجدّد الف ثانی قدس سرہ کے پوتے اور جانشین حضرت خواجہ محمد نقشبند تشریف فرما ہیں۔ خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی ذاتی محبوبیّت عطا فرمائی ہے۔ آسمانی فرشتو! زمین کے باسیو! تم سب اِن کی اطاعت کرو تاکہ تمہاری بھلائی اور بہتری ہو۔ جو شخص ان کا مرید ہوگا وہ نجات پائے گا اور جو ان کے خلاف ہوگا سخت عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوگا۔ اس کے بعد اُس بزرگ نے ہر ایک پر مہربانی فرمائی اور رخصت کیا۔ اور خود معہ ایک جماعت کے مشرق کی طرف روانہ ہوگئے۔ چنانچہ اس بشارت کے بعد یہ تینوں علماء و مشائخ، ہرار ہا آدمیوں کو ساتھ لے کر جن تین سو عالم حافظ اور قاری بھی تھے، آپ کی زیارت کے لیے سرہند شریف حاضر ہوئے اور سعادتِ بیعت سے مشرف ہوئے۔
آپ کو حجۃ اللہ کا خطاب بذریعہ الہام عطا ہوا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں نمازِ تہجد کے بعد بیٹھا ہُوا تھا کہ مجھے الہام ہوا، ’’انت محبوب رب العالمین ورحمۃ اللہ فی العالمین‘‘ دریں اثناء کسی نے ندا کی کہ پروردگار نے خواجہ محمد نقشبند کو جہاں میں اپنی حجّت بنایا ہے۔ اور انہیں اُن کے باپ دادا کی طرح اولیائے اُمّت سے افضل بنایا ہے۔ اے فرشتو! جنّو! انسانو! تم سب اُن کی فرمانبرداری کرو تاکہ قیامت کے دن نجات پا جاؤ۔ بعد ازاں میں نے دیکھا کہ فرشتے اور تمام اولیائے اُمّت کے رُوحیں میرے اردگرد تشریف فرما ہیں اور کہتے ہیں ’’السّلام علیکم یا حُجّت اللہ‘‘ اور میرے سر اور منہ کو چُومتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہےجسے چاہے عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ صاحب فضل عظیم ہے۔
قیومیّت کے نویں سال آپ نے حج بیت اللہ کا ارادہ کیا تو اعلان فرمایا کہ جو شخص چاہے ہمارے ساتھ حج پر چلے اور زادِ راہ کی کچھ فکر نہ کرے چنانچہ آپ کے ساتھ پچیس ہزار آدمی جن میں چار سو بڑے بڑے علماء و مشائخ بھی تھے، سعادتِ حج حاصل کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ جب اورنگ زیب عالمگیر نے آپ کی حج کی روانگی کی خبر سُنی تو دہلی سے تیرہ میل باہر آکر آپ کا شاہانہ استقبال کیا اور تجدید بیعت کی۔ پھر آپ دہلی سے ہوتے ہوئے حجاز مقدس کو روانہ ہوئے۔ دہلی میں آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ اس قدر زر و جواہر، نقد اور جنس اکٹھا ہوا، کہ اٹھانا مشکل تھا کہتے ہیں کہ ساحلِ سمندر پر پہنچنے تک آپ کے ہمرایوں کی تعداد ستائیس ہزار ہوچکی تھی۔ دورانِ سفر آپ کو الہام ہوا کہ تمہارے مریدوں کے علاوہ سات ہزار آدمی جن پر دوزخ کی آگ واجب ہوگی، تمہاری سفارش سے بہشت میں داخل ہوں گے۔
آپ کے اس قافلہ میں چند رافضی بھی مبطور تقیہ شامل ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام آپ کو مطلع کردیا۔ اس پر آپ نے ارشاد کیا کہ کئی لوگ ہمارے قافلہ میں ایسے ہیں کہ اُن کا ظاہر صاف مگر باطن نا پاک ہے۔ دریں اثناء باد مخالف کے جہاز کو دھکیل کر یمن کی طرف ایک کنارے پر لاکھڑا کیا۔ اس جگہ خوارج کا بہت زور تھا۔ روافض نے خوارج کے ساتھ ملکر حسد و عداوت کی آگ کو بھڑکایا حتّٰی کہ قتال وجدال تک نوبت پہنچ گئی۔ جب صورتِ حال نہایت تکلیف دہ ہوگئی تو آپ نے دعا فرمائی جو فی الفور قبول ہوگئی۔ چنانچہ بارہ علماء کو خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلوہ افروز ہیں اور سب اقوامِ خوارج و روافض کو طلب کر کے فرما رہے ہیں کہ ’’نہایت افسوس کی بات ہے کہ تم لوگ اہل بیت کے ساتھ اُلفت و محبّت اور خلیفۂ پیغمبر سے عداوت رکھتے ہو۔ چند لوگوں کو حکم دیا کہ ان کو مارو‘‘۔چنانچہ جب خواب سے بیدار ہوئے تو زدوکوب کا اثر جسموں پر موجود تھا۔ پس بعد از قدرے گفتگو وہ رافضی علماء وغیرہ تائب ہوکر مرید ہوگئے۔
ایک روز آپ مسجدالحرام میں بیٹھے تھے۔ جب مراقبہ کیا تو دیکھا کہ شیطان ملعون، ذلیل و خوار ننگے سر اور بے رونق ہوکر بیت اللہ شریف چوروں کی طرح چھُپ چھُپ کر پھرتا ہے جب آپ کی نگاہ اُس پر پڑی تو وہ دیکھتے ہی مارے خوف کے راہِ فرار اختیار کر گیا۔
حدیث شریف میں آیا ہے:
اَلشَّیطَانُ یُفِرُّمْنِ ظِلّ عُمرَہ
’’شیطان عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سایہ سے بھاگتا ہے‘‘۔
چونکہ آپ بھی اولادِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، اس لیے شیطان آپ سے بھاگا۔
جب آپ مدینہ منوّرہ گئے تو روضۂ مطہرہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور دیر تک دیوانہ وار روتے رہے۔ بعد ازاں حجرہ شریف کے قریب بیٹھ کر مراقبہ کیا اور دیر تک یہ کلمہ فرماتے رہے۔
اَفْدَیْتَ نَفْسِیْ وَرُوْحِیْ وَاَوْلَادِیْ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ۔
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرا نفس، میری روح اور میری اولاد آپ پر قربان ہو‘‘۔
حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال لُطف و کرم سے آپ کو عنایتِ خاصہ سے ممتاز فرماکر اپنا نائبِ اتم بنایا اور فرمایا:
اَنْتَ فَخْرُ اُمَّتِیْ
’’تم میری اُمّت کے لیے فخر ہو‘‘۔
کرامات
۱۔ مولانا محمد عابد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شروع شروع میں میرے دل میں خیال آیا کہ مُرشد کو اس قدر کشف ضرور ہونا چاہیے کہ سالک کے بعض خطرات سے واقف ہوکر اُن کا دفعیہ کر سکے۔ آپ نے اُسی وقت مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ محمد عابد سُنو! ’’اولیاء اللہ کے بندے ہوتے ہیں۔ انہیں علمِ غیب کا ہونا اور اُن سے کرامات کا صدور واجب نہیں اور اِن باتوں کے نہ ہونے سے اُن کے کمال میں نقص لازم نہیں آتا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو افضل البشر بعد از انبیاء ہیں، میں اس قدر کرامات نہ تھیں جتنی کہ ایک ولی اللہ میں ہوتی ہیں‘‘۔
۲۔ ایک دفعہ سرہند شریف میں بارش نہ ہوئی۔ والیٔ شہر بہت سے لوگوں کو لےکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بارش کے لیے دُعا کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا کہ پچیس روز تک بارش نہ ہوگی چنانچہ آپ کا فرمان درست ثابت ہوا اور چھبیسویں روز مُوسلا دھار بارش ہوئی۔
عبادات و عادات
آپ کا ہر عمل، ہر فعل اور ہر قدم سُنتِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مطابق تھا۔ رخصت کو اعمال میں بالکل دخل نہ دیتے تھے۔ رات تیسرے حصّے میں بیدار ہوتے اور بارہ رکعت نماز تہجّد ادا فرماتے۔ اس نماز میں سورۃ یٰسین تلاوت فرماتے۔ بعد ازاں مراقبہ کر کے اونگھ لیتے اور نمازِ فجر با جماعت ادا کر کے پھر حلقۂ ذکر و مراقبہ کرتے۔ اس سے فارغ ہوکر چار رکعت نماز اشراق ادا کرتے پھر دوستوں کو توجہ باطنی سے نوازتے۔ دن کا تیسرا حصّہ گزرنے کے بعد نماز الضحیٰ پڑھ کر درونِ خانہ تشریف لے جاتے اور دوپہر کا کھانا بمعہ اہل و عیال تناول فرماتے۔ پھر قیلولہ فرما کر چار رکعت فی الزوال پڑھتے۔ نمازِ ظہر کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتے اور تفسیر بیان فرماتے۔ نمازِ عصر کے بعد فقہ، حدیث اور مکتوباتِ امام ربّانی کا درس دیا کرتے۔ نماز مغرب کے بعد چھ رکعت نفل اوابین ادا فرماتے۔ پھر وظائف و اوراد کے بعد دوستوں کو توجّہ دیتے۔ بعد نمازِ عشاء گھر میں تشریف لے جاتے، اور تھوڑا سا کھانا کھا کر آرام فرماتے۔ قصّہ کوتاہ آپ کا تمام وقت ذکر و فکر اور یادِ الٰہی میں بسر ہوتا تھا۔ آپ نہایت متواضع اور خلیق اور مرتاض تھے۔بیماروں کی عیادت اور بیمار پُرسی کے لیے ضرور جاتے غرباء اور مساکین کی دلجوئی کرتے اور اعلیٰ و ادانیٰ میں کوئی تفریق نہ کرتے۔
آپ پر مدت سے عوارضات کا غلبہ تھا۔ خاص کر پاؤں مبارک کا درد شدید ہوگیا تھا۔ ایک روز بعد نماز جمعہ ارشاد فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ تمہاری عمر اَسّی سال ہو رہی ہے اور یہ اُمّت کی اوسط عمر ہے۔ اگر اور عمر چاہتے ہو تو دنیا میں رہو ورنہ ہمارے پاس آجاؤ۔ میں نے لقائے پر وردگار اختیار کیا ہے۔ تم سنّتِ نبوی کی پیروی کرتے رہنا اور حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ کے طریقہ پر پُوری طرح سے پابند رہنا۔
۲۸؍محرم الحرام بروز جمعرات کو آپ پر مرض کا غلبہ شدید تر ہوگیا۔ سانس میں تیزی آگئی مگر بڑے وقار سے وظائف و اوراد پڑھتے رہے۔ رات کو تہجّد کی نماز ادا کر کے دیر تک فاتحہ پڑھتے رہے۔ پھر لیٹ گئے اور شب جمعۃ المبارک ۲۹؍محرام الحرام ۱۱۱۴ھ/۱۷۰۲ء کو پنتیس سال مسندِ قیومیّت و ارشاد پر فائز رہ کر سرہند شریف میں رحلت فرمائی۔ اِنا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپ کو اُس مکان میں جو قدیم سے آپ کی ملکیت تھا، حضرت قیوم ثانی خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے روضۂ مبارک سے شمال کی طرف فتح باغ کے قریب دفن کیا گیا۔ مرقد اقدس پر نہایت عالیشان خوبصورت قُبّہ بنوایا گیا۔ آپ کے مقبرہ میں چار قبریں ہیں۔ ایک آپ کی، دوسری آپ کے فرزند محمد عمر کی، تیسری آپ کی بیٹی کی اور چوتھی آپ کی زوجہ کی۔
آپ نے اپنی قیومیّت کے آخری سال حضرۃ عروہ الوثقیٰ خواجہ محمد معصوم قدس سرہ کے روضہ شریف سے شمال کی طرف ایک عالی شان اور خوبصورت مسجد تعمیر کرائی۔ اس کے تین گنبد اور دو بُرج تھے۔ صحن میں وضو کے لیے ایک حوض بنوایاتھا اور مسجد کے مقابل ایک محل اور چند حجرے سالکوں کو توجّہ دینے اور مراقبہ کے لیے بنوائے تھے جو اعتدادِ زمانہ کی وجہ سے بے نام و نشان ہوگئے ہیں۔
آپ کی اولادِ امجاد چھ لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ آپ کے فرزند اکبر حضرت ابوالعلی رحمۃ اللہ علیہ ۱۰۶۴ھ میں پیدا ہوئے۔ صاحبِ کشف و کرامات تھے۔ ۱۱۰۷ھ میں وفات پائی اور حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ کے قُبّہ میں دفن ہوئے۔ حضرت ابوالعلی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بیٹے قیوم رابع خواجہ محمد زبیر قدس سرہ تھے جن کے حالات آگے آرہے ہیں۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)