قیوم ثالث حجۃ اللہ حضرت خواجہ محمد نقشبند

قیوم ثالث حجۃ اللہ  حضرت  خواجہ محمد نقشبند قدس سرہ

ولادت با سعادت:

آپ حضرت عروۃ الوثقیٰ  خواجہ معصوم سرہندی کے دوسرے فرزند ہیں۔ بروز جمعہ ۷ رمضان المبارک ۱۰۳۴ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرض موت میں حضرت عروۃ الوثقیٰ سے فرمایا تھا کہ اِس سال میرے وصال کے بعد تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ جو قرب الٰہی کے کمالات میں میرے برابر ہوگا۔

ظاہری و باطنی علوم کا حصول:

آپ نے علم ظاہری و باطنی اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاصل کیا۔ بوجہ علم استعداد تھوڑے عرصہ میں آپ پر وہ اسرار منکشف ہوئے جن کی نسبت حضرت عروۃ الوثقیٰ فرماتے تھے کہ یہ حیطہ درک عقل و تصویر خیال سے باہر ہیں۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ نے اپنی قیومیت کے اکتالیسویں سال ۱۰۷۴ھ میں آپ کو قطب الاقطابی اور قیومیت کی بشارت دی۔ چنانچہ آپ خود بیان فرماتے ہیں۔ کہ میں نے جب بعض علوم و معارف اور اسرار حضرت قیوم ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بیان کیے تو فرمایا کہ یہ علوم و معارف جو تم بیان کرتے ہو مقطعات قرآنی کے اسرار ہیں جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے خلوت میں فرمائے تھے۔ بعد ازاں دوسرےروز مجھے خلوت میں بلا کر قیومیت کی بشارت دی اور فرمایا کہ جو تاج مدینہ منورہ سے رخصت ہوتے وقت جنابِ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عنایت فرمایا تھا اب وہی تاج تمہیں عنایت ہوا ہے۔ میں عرض کیا کہ وہ تاج طینت اصالت قیومیت اور محبوبیت ذاتی پر مشتمل تھا۔ فرمایا بعینہ وہی تاج ہے جو مجھے عنایت ہوا تھا۔ اب وہی تمہیں دیا گیا ہے۔

مسندِ ارشاد:

آپ نے ۱۱ ربیع الاول ۱۰۷۹ھ کو مسند ارشاد پر جلوس فرمایا۔ آپ کی کثرت ارشاد کا یہ عالم تھا کہ آپ کی قیومیت کے پچیسویں سال ہر روز چار پانچ سو آدمی بلکہ اس سے زیادہ حاضر خدمت ہوکر مرید ہوتے۔ بڑے بڑے مشائخ اور علماء اپنی اپنی مشیخت اور درس و تدریس کو چھوڑ کر آپ کے مُرید ہوئ۔ روئے زمین کے مختلف حصوں سے لوگ ٹڈی دل کی طرح آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ توران، ترکستان اور بدخشاں کے بادشاہ اپنی اپنی حدود تک استقبال کے لیے آئے۔ اور اپنے اپنے ایلچی مع ہدایا آپ کی خدمت میں بھیجے۔ غرض اس قدر لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ کابل میں گنجائش نہ رہی۔ مجلس اقدس میں آپ کا دبدبہ اس طرح کا تھا کہ بادشاہ اور امراء کو جرأت نہ تھی کہ بات کریں۔

وصال مُبارک:

آپ نے پینتیس سال مسند قیومیت و ارشاد پر رونق افروز رہ کر بروز شب جمعہ ۲۹ محرم الحرام ۱۱۱۴ھ میں سرہند میں وصال فرمایا۔ آپ کو اُس مکان میں جو قدیم سے آپ کی ملکیت تھا حضرت عروۃ الوثقیٰ کے روضہ مبارک کے شمال کی طرف تین تیر پرتاب کے فاصلہ پر فتح باغ کے قریب دفن کیا گیا۔ اور مرقد مبارک پر نہایت عالی شان خوبصورت قبہ بنوایا گیا۔ آپ کے مقبرہ میں چار قبریں ہیں۔ ایک آپ کی دوسری آپ کے فرزندمحمد عمر کی، تیسری آپ کی بیٹی کی، چوتھی آپ کی زوجہ کی۔

حضرت حجۃ اللہ قیوم ثالث نے اپنی قیومیت کے اخیر سال حضرت عروۃ الوثقیٰ کے روضہ مبارک سے شمال کی طرف تین تیر پر تاب کے فاصلہ پر ایک عالی شان خوبصورت مسجد بنوائی تھی۔ اس کے تین گنبد اور دو برج تھے۔ صحن میں وضو کے لیے ایک حوض بنوایا تھا۔ اور مسجد کے مقابل ایک محل اور چند حجرے سالکوں کو توجہ دینے اور مراقبہ کے لیے بنوائے تھے۔ آج ان سب کے کھنڈرات نظر آتے ہیں۔

اولاد پاک:

آپ کی اولاد چھ لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ آپ کے فرزندِ اکبر حضرت ابوالعلی ۱۰۶۴ھ میں پیدا ہوئے۔ صاحب کشف و کرامات تھے۔ ۱۱۰۷ھ میں وفات پائی اور حضرت عروۃ الوثقیٰ کے قبہ میں دفن ہوئے۔ حضرت ابوالعلی کے بڑے بیٹے قیوم رابع خواجہ محمد زبیر قدس سرہ بروز دوشنبہ ۵ ذیقعدہ ۱۰۹۳ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت حجۃ اللہ نے ان کو قیومیت کی بشارت دی تھی۔ چنانچہ حضرت حجۃ اللہ کے وصال کے بعد انہوں نے یوم شنبہ یکم صفر ۱۱۱۴ھ میں مسند قیومیت و ارشاد پر جلوس فرمایا اور اڑتیس سال اس مسند پر رونق افروز رہ کر ۴ ذیقعدہ ۱۱۵۳ھ میں دہلی میں وصال فرمایا۔ آپ کی نعش مبارک کو سرہند لے آئے۔ اور جمعرات کے دن ۱۱ ذیقعدہ کو شیخ سعد الدین کی حویلی میں جسے انہوں نے شیخ موصوف کے فرزند سے چار ہزار روپیہ دے کر خریدا تھا دفن کیے گئے۔ ۱۱۵۳ھ میں آپ کے مرقد مبارک پر ایک عالی شان روضہ بنایا گیا۔ جو رنگا رنگ کے نقش و نگار سے آراستہ تھا اور جس میں چین اور فرنگ کی گلکاری کی ہوئی تھی۔

تذکرہ مشائخ نقشبندیہ

تجویزوآراء