حضرت امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:محمد۔کنیت:ابوعبداللہ۔لقب:امام المحدثین،محدث الخراسان،حاکم نیشاپوری،صاحب ا لمستدرک۔والدکا اسمِ گرامی:عبداللہ۔مکمل نام:امام ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:امام ابوعبد اللہ محمد بن عبداللہ بن حمدون بن نعیم بن حکم الضبی ۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 3/ربیع الاول 321ھ،مطابق مارچ/933ءکو"نیشاپور"(ایران) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ کا وطن ایران کا مشہور مردم خیز شہرنیشاپور ہے جو اس عہد کا زبردست علمی مرکز تھا آپ کے والد بلند پایہ عالم تھے انہیں امام مسلم کی زیارت کا شرف حاصل تھا۔ چنانچہ حاکم بچپن ہی سے اپنے باپ اور ماموں کی توجہ خاص کے سبب علم حدیث کی تحصیل میں مشغول ہوگئے اور ذوق علم اتنا بڑھا کہ نیشاپور سے نکل کرعراق،خراسان، ماوراء النہر کے بیشتر شیوخ و اساتذہ کی بارگاہوں سے کسب فیض کے لیے سفر کیے اور اپنے دامن علم کو گلشن نبوت کے سدا بہار پھولوں سے مالا مال کیا۔ حدیث کے علاوہ فقہ، تفسیر، قرأت، تصوف و سلوک اور تاریخ میں بھی مہارت پیدا کی ان کے اساتذہ کی تعداد دوہزار بتائی جاتی ہے۔
بیعت و خلافت: آپ حضرت ابوعثمان مغربی،شیخ جعفر خلدی،شیخ اسماعیل صفار وغیرہ کی خدمت میں رہ کر روحانی استفادہ فرمایا۔(وفیات المشاہیر والاعلام)
تلامذہ: تاریخِ اسلام کی عظیم ہستیوں نے آپ سے کسبِ علم کیاہے: جن میں سے چند یہ ہیں:امام دارقطنی، ابوالفتح بن ابو الفوارس، ابو العلاء واسطی، محمد بن احمد بن یعقوب، ابو ذر ہروی، ابو یعلیٰ خلیلی، امام ابوبکر بیہقی، شیخ ابو القاسم قشیری،ابو عثمان اسماعیل صابونی،شیخ ابو بکر بن علی قفال۔(علیہم الرحمۃ والرضوان)
سیرت وخصائص: امام حاکم نے اپنے دامن میں بڑے بڑے علماء و فقہاء اور قراء کا علم جمع کرلیا تھا۔ علمی جامعیت اور فضل و کمال میں وہ اپنے معاصرین پر فائق تھے۔ اگرچہ انہیں تمام اسلامی علوم وفنون میں ا دراک حاصل تھا مگر حدیث اور علوم حدیث سے خصوصی لگاؤ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فخر المحدثین اورنقاد حدیث کی حیثیت سے علمی دنیا میں متعارف ہوئے۔ آپ کی علمی جلالت کا اعتراف ملت اسلامیہ کے اکابر محدثین و مورخین نے کیا ہے۔
ابن خلکان: ‘‘امام اھل الحدیث فی عصرہ والمولف فیہ الکتب اللتی لم یسبق الی مثلھا، کان عالما عارفا واسع العلم’’ اپنے زمانہ میں محدثین کے امام تھے اور حدیث میں ایسی کتابوں کے مولف ہیں کہ کوئی ان پر سبقت نہ لے جاسکا وہ عالم، عارف اور وسیع علم والے تھے۔ (وفیات الاعیان، ج۲، ص۳۶۴)
حافظ ذہبی: ‘‘الحاکم الحافظ الکبیر امام المحدثین۔۔۔ صاحب التصانیف’’ امام حاکم بہت بڑے حافظ حدیث، محدثین کے جلیل القدر امام اور بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ، ج۳، ص۲۲۷)
خطیب بغدادی: ‘‘کان من اھل الفضل والمعرفۃ والعلم والحفظ’’ وہ اہل علم و فضل صاحب معرفت حافظ حدیث تھے۔ (تاریخ بغداد، ج۵، ص۴۷۳)
علامہ سبکی: ‘‘آپ اپنے زمانہ کی باکمال منفرد شخصیت تھے۔’’ حجاز، شام، مصر، عراق، خراسان، ماوراء النہر، رے، بلاد جبال و طبرستان وغیرہ میں کوئی آپ کا مدمقابل نہ تھا۔ آپ امام وقت اور عظیم محدث تھے آپ کی امامت، عظمت شان، قدر منزلت پر علماء کا اتفاق ہے۔ (طبقات الشافعیہ، ص۶۴، ۶۶)
امام حاکم فن اسماء الرجال اور جرح و تعدیل میں بڑا کمال رکھتے تھے۔ حدیثوں پر حکم لگانے، صحت و ضعف کی نشاندہی کرنے اور راویوں پر جرح و تعدیل کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے ۔
حاکم اپنے عالمانہ کمالات اور زہدو ورع کے باعث مرجع خلائق تھے اسلامی سوسائٹی کاہر طبقہ آپ کا بیحد احترام کرتا تھا آپ جس مجلس میں موجود ہوتے اس کے افق میں چاند لگا دیتے تھے علمائے وقت نہ صرف آپ کا احترام کرتے تھے بلکہ اپنی ذات پر انہیں ترجیح دیتے تھے وہ اپنے زمانہ میں بے نظیر تھے۔وہ زہد و اتقاء اور دیانت و امانت میں ممتاز تھے۔ حافظ ابن کثیر کا بیان ہے کہ حاکم،متدین، امین، صاحب ِورع اور اللہ تعالیٰ کی جانب مائل رہتے تھے تصوف سے اشتعال اور اکابر صوفیہ و مشائخ سے وابستگی بھی ان کے تدین کا ثبوت ہے۔
وصال: امام ابو عبداللہ حاکم اپنے وطن نیشاپور میں 3/ صفر/ 405ھ ،مطابق اگست/1014ءکو دفعۃً دارفانی سے کوچ کرگئے حمام سے غسل کرکے نکل رہے تھے اور صرف تہہ بند باندھے ہوئے تھے کہ ایک آہ کی اور روحِ قفس عنصری سے پرواز کر گئی عصر بعد تجہیز و تکفین کی گئی قاضی ابوبکر نے نماز جنازہ پڑھائی۔
ماخذمراجع: محدثینِ عظام حیات وخدمات۔
//php } ?>