حضرت امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری

حضرت حافظ الحدیث امام محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری

(صاحب المستدرک)

 

ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن محمد بن حمدویہ بن نعیم اضبی طہمانی نیشاپوری     کی ولادت ماہِ ربیع الاوّل ۳۲۱ھ میں ہوئی۔ (وفیات ج ۲ص۳۶۴) آپ کا وطن ایران کا مشہور مردم خیز شہر نیشاپور ہے جو اس عہد کا زبردست علمی مرکز تھا آپ کے والد بلند پایہ عالم تھےانہیں امام مسلم کی زیارت کا شرف حاصل تھا۔ چنانچہ امام حاکم بچپن سے ہی اپنے باپ اور ماموں کی توجہ خاص کے سبب علم حدیث کی تحصیل میں مشغول ہوگئےاور ذوق علم اتنا بڑھا کہ نیشاپور سے نکل کر عراق ، خراسان، ماوراء النہر کے بیشتر شیوخ و اساتذہ کی بارگاہوں سے کسب فیض کے لیے سفر کیے اور اپنے دامن علم کو گلشن نبوت کے سدا بہار پھولوں سے مالا مال کیا۔ حدیث کے علاوہ فقہ، تفسیر ، قرأت ، تصوف و سلوک اور تاریخ میں بھی مہارت پیدا کی ان کے اساتذہ کی تعداد دو ہزار بتائی جاتی ہے۔

چند اہم شیوخ و اساتذہ یہ ہیں:

محمد بن علی عمر، ابو جعفر، ابو العباس، محمد بن صالح ابو ہانی، محمد بن عبداللہ صفار، ابو عبداللہ بن اخرم ، ابوالعباس بن محبوب، ابو حامد بن حفویہ ، حسن بن یعقوب بخاری ، ابو نضر محمد بن یو سف، ابو الولید ، حسان بن محمد، ابو عمروبن سماک، ابو بکر نجاد، ابن درستویہ ، ابو سہل بن زیاد ، عبد الرحمٰن بن حمدان جلاب، علی بن محمد بن عقبہ شیبانی ، ابو علی حافظ، ابن ابی ہریرۃ، ابو محمود ملیح بن احمد سنجری، ابو جعفر محمد علی، ابو حامد بن حسنویہ مقری ، ابو سہل محمد بن سلیمان صعلوکی ، محمد بن ابی منصور ، صرام بن امام، علی بن علی نقار کوفی، ابو عیسیٰ بکار بغدادی، ابو عمر بن نجید، ابوالحسن بو شنجی، ابو سعید احمد بن یعقوب ثقفی، ابو القاسم۔ (تذکرۃ الحفاظ ج۳ص۲۲۷)

تلامذہ:

            امام حاکم جس پایہ کے محدث فقیہ اور صاحب علم شخص تھےاس کا تقاضاتھا کہ وقت کے معارف جو شائقین آپ کی بارگاہ سے وابستہ ہو کر اکتساب علم و فضل کریں چناچہ ایسا ہی ہوا آپ کی درسگاہ طالبان علم کی آما جگاہ بن گئی ہزاروں تشنگان علم خوب خوب سیراب ہو ئے جن کی پوری فہرست ازبس دشوار ہے۔

چند اہم تلامذہ کے نام یہ ہیں:

دار قطنی ، ابو الفتح بن ابو الفوارس، ابو العلاءواسطی ، محمد بن احمد بن یعقوب، ابو ذر ہروی ، ابو یعلیٰ خلیلی، ابو بکر بیہقی، ابوالقاسم قشیری، ابو صالح موذن، زکی عبدالحمید بحیری، عثمان بن محمد ، ابو بکر احمد بن علی بن خلف شیرازی، علی بن امام ، محمد بن منصور صرام، ابو علی بن نقار(تذکرہ ج۳ ص ۲۲۸)ابو عثمان اسماعیل بن عبدالرحمان صابونی ، ابو القاسم بن عبداللہ بن احمد ازہری، ابو بکر بن علی بن اسماعیل قفال۔

علم و فضل اور حدیث:

                        امام حاکم نے اپنے دامن میں بڑے بڑے علماءوفقہا اور قراء کا علم جمع کرلیا تھا۔ علمی جا معیت اور فضل و کمال میں وہ اپنے معا صرین پر فائق تھے۔اگر چہ انہیں تمام اسلامی علوم و فنون میں ادراک حاصل تھا مگر حدیث اور علوم حدیث سے خصوصی لگاؤ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فخر المحدثین اور نقاد حدیث کی حیثیت سے علمی دنیا میں متعارف ہوئے۔ آپ کی علمی جلالت کا اعتراف ملت اسلامیہ کے اکابر محدثین ومورخین نے کیا ہے ۔

ابن خلکان: امام اھل الحدیث فی عصرہ والمؤلف فیہ الکتب اللتی لم یسبق الی مثلھا، کان عالما عارفا واسع العلم" اپنے زمانے میں محدثین کے امام تھےاور حدیث میں ایسی کتابوں کے مؤلف ہیں کہ کوئی ان پر سبقت نہ لےجا سکا وہ عالم، عارف اور وسیع علم والے تھے۔ (وفیات الاعیان ج۲ ص۳۶۴)

حافط ذہبی: الحاکم الحافظ الکبیرامام المحدثین…صاحب التصانیف" امام حاکم بہت بڑے حافظ الحدیث ، محدثین کے جلیل القدر امام اور بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ (تذکرۃالحفاظ ج ۳ ص۲۲۷)

خلیل بن عبداللہ: " وھو ثقۃ واسع العلم" وہ ثقہ اور کثیرالعلم تھے۔ (ایضاًص ۲۲۹)

عبدالغافر بن اسماعیل: ابو عبداللہ الحاکم ھو امام اھل الحدیث فی عصرہ العارف بہ حق معرفتہ ابو عبداللہ حاکم اپنے زمانے کے اصحاب حدیث کے امام تھےاور فن حدیث کو کماحقہ جانتے تھے۔(ایضاً ص ۲۳۱)

خطیب بغدادی: کان من اھل الفضل و المعرفۃ والعلم والحفظ وہ اہل علم وفضل صاحب صاحب معرفت حافظ حدیث تھے۔ ( تاریخ بغداد ج۵ص۴۷۳)

علامہ سبکی: " آپ اپنے زمانہ کی با کمال منفرد شخصیت تھے۔ حجاز ، شام، مصر،عراق،خراسان، ماوراءالنہر، رَے، بلادوجبال و طبرستان وغیرہ میں کوئی آپ کا مد مقابل نہ تھا۔آپ امام ِوقت اور عظیم محدث تھے آپ کی امامت، عظمت، شان، قدرومنزلت پر علماءکا اتفاق ہے۔(طبقات الشافعیہ ۲۲،۲۴)

            امام حاکم فن اسماءالرجال اور جرح و تعدیل میں بڑا کمال رکھتے تھے۔ حدیثوں پر حکم لگانے ، صحت و ضعف کی نشاندہی کرنے اور راویوں پر جرح اور تعدیل کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ ابو بکر صبغی، ابو الولیدنیشاپوری جیسے حضرات ( جو آپ کے اساتذہ ہیں) جرح اور تعدیل میں آپ کی جانب رجوع کرتے تھے۔ علل حدیث ، صحیح وضعیف کی معرفت کے لیے آپ کی خدمات حاصل کرتے تھے۔(طبقات الشافعیہ ج۳ ص ۶۵)

            حاکم اپنے عالمانہ کمالات اور زہد وورع کے باعث مرجع خلائق تھےاسلامی سوسائٹی کا ہر طبقہ آپ کا بیحد احترام کرتا تھا آپ جس مسجد میں موجود ہوتےاس کے افق میں چار چاند لگا دیتے تھے علمائے وقت نہ صرف آپ کا احترام کرتے تھے بلکہ اپنی ذات پر انہیں ترجیح دیتے تھےوہ اپنے زمانہ میں بے نظیر تھے۔

عبدالغافر کہتے ہیں:لقد سمعت مشائخنایذکرون ایامہ و یحکون ان مقدمی عصرہ مثل الصعلوکی والامام ابن فورک وسائرالائمۃ یقدمونہ علی انفسھم و یراعون حق فضلہ و یعرفون لہ الحرمۃالاکیدۃ میں نے اپنے مشائخ سے سنا ہے کہ وہ امام حاکم کے حالات بڑے مزے لے کر بیان کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ صعلوکی اور امام ابن فورک اور اس زمانہ کے دوسرے سر بر آوردہ امام ان کو اپنے پر مقدم سمجھتے تھے۔ ان کی فضیلت کا اعتراف کرتے تھےاور ان سے بے حد تعظیم و تکریم سے پیش آتے تھے۔(تذکرۃ الحفاظ ج۳ ص۲۳۱) علوء اسناد کے ساتھ نادر سندوں کے بھی وہ ماہر تھے۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں:

امام حاکم نے اپنی کتاب علوم الحدیث کے آخر میں ایک اسناد ایسی ذکر کی ہےجس میں نیچے سے لیکر اوپر تک پانچ راویوں کا ایک ہی نام خلف ہےلکھتے ہیں "اخبر نی خلف نا خلف نا خلف نا خلف نا خلف" پھر فرماتے ہیں راوی امیر خلف بن احمد سنجری ، دوسرے ابو صالح خلف بن محمد بخاری خیام، تیسرے صاحب المسند خلف بن سلیمان نسفی، چوتھے خلف بن محمد کردوس واسطی اور پانچویں خلف بن موسی بن خلف ہیں امام حاکم فرماتے ہیں میں نے یہی سند ابو صالح کےذریعہ بھی سنی ہےاس کا متن مذکور نہیں۔(تذکرہ ج ۳ ص ۲۳۰)

تصانیف:

            امام حاکم اپنے قت کے جلیل القدر صاحب تصنیف محدث تھے۔ انہیں قرطاس و قلم سے ہمیشہ واسطہ رہا اور ان کے قلم سے بیشمار مفید کتابیں نکلیں جن کی ضخامت ایک ہزار جزء سے متجاوز تھی۔ انہوں نے مکہ معظّمہ کی حاضری کے وقت آب زم زم پیتے وقت یہ دعا کی تھی۔ " اے اللہ مجھے عمدہ کتابیں لکھنے کی توفیق عطا فرما"۔ ابو حازم عبدوی کہتے ہیں میں نے حاکم کو کہتے سنا " شربت ماء زمزم و سالت اللہ ان یر زقنی حسن التصنیف"میں نے زمزم کا پانی پیا تھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ وہ مجھے بہترین اور مایہ ناز کتابیں تصنیف کرنے کی سعادت بخشے ۔ (تذکرۃ الحفاظ ج۳ ص ۲۳۲)

            امام حاکم کی مہارت فی التصنیف کا اندازہ درج ذیل بیان سے لگا نا آسان ہوگا۔

حافظ محمد بن طاہر کہتے ہیں میں نے حافظ سعد بن علی زنجانی سے مکہ مکرمہ میں حدیث کا سماع کیا ایک دن میں نے ان سے پوچھا چار حافظ حدیث ہمعصر ہیں ان میں بڑا حافظ حدیث کون ہےفرمانے لگے وہ کون ہیں؟ میں نے عرض کیا بغداد میں دار قطنی ، مصر میں عبدالغنی ، اصفہان میں ابن مندہ، اور نیشاپور میں حاکم۔پہلے تو خاموش رہے پھر میرے اصرار پر بولے۔ اماالدار قطنی فا علمھم بلعلل و اما عبدالغنی فا علمھم بالا نساب و اما بن مندۃ فا کثر ھم حدیثا مع معرفۃ تا مۃ واما الحاکم فا حسنھم تصنیفا دار قطنی علل حدیث کے اور عبدالغنی انساب کے بڑے عالم ہیں۔ ابن مندہ کے پاس حدیث کا زیادہ علم ہے اور انہیں اس فن میں معرفت تامہ حاصل ہےاور حاکم تصنیف میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ (ایضاً ص ۲۳۳)

            الاربعین ، الامالی ، العشیات، تراجم الشیوخ، تراجم المسند علی شرط الصحیحین، التخلیص، فضا ئل امام شا فعی ، فضائل العشرۃالمبشرۃ، فضا ئل فاطمہ ، فوائد الخراسانیین، فوائد الشیوخ، فوائد العراقیین، ماتفرد باخراجہ کل واحد من الامامین، کتاب المبتدامن اللائی، مناقب الصدیق،کتاب العلل، تخریج الصحیحین، تفسیر القرآن، مزکی الاخبار، تاریخ نیشاپور، معرفتہ علوم الحدیث، المستدرک علی الصحیحین، المدخل الی علم الحدیث۔

مستدرک:

           تدوین حدیث کے باب میں مستدرک حدیث کی وہ کتابیں ہیں جن میں ان احادیث کو نقل کیا جاتا ہےجو حدیث کی کسی کتاب کی شروط کے مطابق ہونے کے باوجود اس میں درج زیل ہونے سے رہ گئی ہوںاس نو ع کی کتب حدیث میں مستدرک علی الصحیحین حاکم کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی حاکم نے اپنی کتا ب میں بخاری اور مسلم کی شرائط تخریج پر ان احادیث کو جمع کیاہے جو شیخین کی کتابوں(صحیح بخاری و صحیح مسلم)میں درج ذیل نہیں کی گئی تھیں حاکم مستدرک کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

ہمارے زمانہ میں مبتد عین کی ایک اور جماعت پیدا ہوئی جو حدیث کے راویوں پر سب وشتم کرتی ہےکہ کل وہ حدیثیں جو جو تمھارے نزدیک صحت کو پہنچ چکی ہیں وہ دس ہزار سے زیادہ نہیں ہیں اور یہ اسانید جمع کی گئی ہیں اور ہزاروں جزءیا کم وبیش پر مشتمل ہیں وہ سب مستقیم اور غیر صحیح ہیں اور مجھ سے اس شہر کے علماء کی ایک ممتاز جماعت نے یہ خواہش کی کہ میں ایک ایسی جامع کتاب لکھوں کہ جس میں وہ حدیثیں جمع کی جائیں جن کی سندوں سے امام بخاری اور امام مسلم نے استدلال کیا ہے اس وجہ سے کہ جو سند علت قادحہ سے خالی ہو اس سے نکال ڈالنے کی کوئی صورت نہیں کیونکہ ان دونوں بزرگوں نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا۔ ان دونوں کے معاصرین اور ان کے بعد آنے والے علماء کی ایک جماعت نے چند ایسی احادیث کی تخریج کی تھی جن کا اخراج ان دونوں نے کیا تھا اس لیے وہ حدیثیں معلول تھیں تو میں نے ایسی احادیث کی جانب سے مدافعت کرنے میں اپنی اس کتاب کے اندر جس کانام (المدخل الی الصحیح بمارضیہ اہل الصنعہ ہے)پوری کوشش کی۔اور میں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی حدیث کے اخراج پر جن کےرواۃ ایسے ثقہ ہوں جن سے شیخین بھی استدلال کرسکتے ہوں امداد کا طالب ہوں اور تمام فقہائے اسلام کے نزدیک اسانیدو متون میں ثقات کی زیادتی مقبول ہے۔(مستدرک حاکم بحوالہ بستان المحدثین ص ۶۹،۷۰)

حاکم نے جس بنیادی مقصد کو پیش نظر رکھ کے مستدرک کی تالیف کا اہم کام کیااسے بغض حیثیتوں سے کافی شہرت وقبولِ عام حاصل ہوا۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اس کتاب کو طبقئہ دوم کی کتب حدیث میں شمار کیا ہے۔ بعض اصحاب نے مستدرک کے بارے میں حد سے تجاویز کیا ہے۔ چناچہ ابو سعید مداینی کہتے ہیں میں نے مستدرک کو اول سے آخر تک دیکھا ہےمگر کوئی حدیث بھی بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق نہ پائی۔(بستان المحدثین ص۷۲)

اس کا جواب دیتے ہوئے حافظ ذہبی لکھتے ہیں: مگر انصاف یہ ہے کہ بہت سی حدیثیں ان دونوں بزرگوں یا ان دونوں میں سے ایک شرط کے مطابق پائی جاتی ہےبلکہ غالب گمان یہ ہے کہ بقدر نصف کتاب اس قسم ہو اور بقدر رُبع ایسی ہو کہ بظاہر اس کا اسناد درست ہےلیکن ان دونوں کی شرط کے مطابق نہیں اور باقی رُبع کے بقدر منکرات سے ہیں چناچہ مین نے تلخیص ذہبی میں اس کی تلخیص کی لوگوں کو اس پر مطلع کیا ہے۔(ایضاً۷۲)

شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں !اسی وجہ سےعلماء حدیث نے بیان کردیا ہے کہ حاکم کی مستدرک پر تلخیص ذہبی کے دیکھے بغیر اعتماد نہ کرنہ چاہیے۔(ایضاً)

           شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں: میں نے ان احادیث کا تتبع کیا ہے جن کا حاکم نے اضافہ کیا ہےان کو ایک وجہ سے درست پایا اور ایک وجہ سے غیر درست اس واسطے کہ حاکم نے بہت سی احادیث کو صحت و اتصال میں اساتذہ وشیخین سے ان دونوں کی شرط کے مطابق مروی پایاپس حاکم کا اس وجہ سے اضافہ کرنا درست ہے لیکن شیخین اس حدیث کو ذکر کرتے ہیں جس میں ان کے اساتذہ نے خوب خوب غور کرلیا تھا اور اس کے قبول و صحت پر ان کا اتفاق ہوگیا تھاحاکم نے اکثر ان قواعد پر اعتماد کیا ہےجو محدثین کے فنون سے حاصل کیے گئے ہیں۔(حجتہ اللہ البالغہ ج۱ ص۳۱۴)

            اقوال بالا کی روشنی میں مستدرک کی بعض جہات سے اہمیت وافادیت بہر حال مسلم ہوجاتی ہےاس کتاب کی چند خصوصیات یہ ہیں:

            ٭حاکم نے مستدرک کی تبویب اور حدیثوں کے انتخاب میں حسن و مو زونیت کے علاوہ بعض مقامات پرجدت و اختراع سے کام لیا ہے۔

            ٭امام بخاری و امام مسلم کی بعض خصوصیات واصول اور اس کے متعلق مفید معلومات اس کتاب سے ہو جاتی ہے۔

            ٭مستدرک میں فقہی مسائل سے کم تعرض کیا گیا ہےتا ہم کہیں کہیں اس کا ذکر ضرور ملتا ہےحاکم نے بعض فقہی اختلافات میں مرجّح واولیٰ کی نشان دہی بھی کی جو ان کی اجتہادی بصیرت کا ثبوت ہے۔

            ٭مستدرک میں بعض احادیث کے مصاد رو مراجع کی نشاندہی بھی کی گئی ہےاور حدیثوں کی صحیح تبویب ان کے قوی و عزیز ، ضعیف وشاذ اور غریب ہونے کی بھی نشاندہی کی ہے۔

تدین وتقویٰ:

          وہ زہدو اتقاء اور دیانت و امانت میں ممتاز تھے۔ حافظ ابن کثیر کا بیان ہے کہ حاکم ، متدین(دیندار)، امین ، صاحب حزم وورع اور اللہ تعالیٰ کی جانب مائل رہتے تھے تصوف سے اشتغال اور اکابر صوفیہ ومشائخ سے وابستگی بھی ان کےتدین کا ثبوت ہے۔

وفات:

امام ابو عبداللہ حاکم اپنے وطن نیشاپور میں ۳صفر۴۰۵ھ کو وفعتہً  دار فانی سے کوچ کر گئے حمام سے غسل کرکے نکل رہے تھےاور صرف تہہ بند باندھے ہوئے تھےکہ ایک آہ کی اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی عصر کے بعد تجہیزوتکفین کی گئی قاضی ابو بکر نے نماز جنازہ پڑھائی۔

تجویزوآراء