حضرت خواجہ عبد الواحد بن زید
حضرت خواجہ عبد الواحد بن زید (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ عبد الواحد بن زید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آں فائز بہ مکاشفات توحید وجود، مصداق تجسم ایقاصاً وہم رقود، شہباز قضائے تجرید، ہمائے آشیانۂ تفرید، صید محبت، فردِ حقیقت حضرت خواجہ عبد الواحد بن زید قدس سرہٗ حضرت خواجہ حسن بصری، کے اعاظم خلفاء میں سے تھے۔ آپ کو ایک خرقۂ خلافت حضرت کمیل ابن زیاد رضی اللہ عنہ سے بھی ملا تھا۔ آپ کے کمالات وکرامات بیشمار ہیں۔ تربیت مریدین میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ریاضات و مجاہدات، ترک و تجرید، ذوق وعشق میں آپ کو نظیر نہیں تھا۔ آپ صائم الدہر تے۔ اور تین دن کے بعد افطار کرتے تھے۔ اور تین لقمہ سے زیادہ تناول نہیں فرماتے تھے۔ آپ پر اکثر گریہ طاری رہتا تھا۔ اور آپ سماع سنتے تھے۔ بیعت ہونے سے چالیس سال قبل آپ ریاضت ومجاہدہ کر چکے تھے۔ آپ کو کمال علم حاصل تھا۔ آپ نے علم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے حاصل کیا تھا۔ روایت ہے کہ کسب دانش آپ نے حضرت امام حسن علی کرم اللہ وجہہ سے حاصل کیا تھا۔ روایت ہے کہ کسب دانش آپ نے حضرت امام حسن بن علی سے کیا تھا۔ آپ خلق خدا سے الگ تھلگ رہتے تھے اور کسی سے نہیں ملتے تھے۔ لیکن اولیاء کرام کی زیارت کے لیے دور دراز سفر اختیار فرماتے تھے اور جس بزرگ کی خدمت میں جاتے سلام کرنے میں سبقت کرتے تھے۔ اور قیام تمام کرتے تھے۔
آپ کا پر اسرار غلام
‘‘سیر الاقطاب’’ میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید نے ایک غلام اس شرف پر خریدا کہ رات کو حاضر رہے۔ اور خدمت کرے۔ جب نصف رات گزرگئی۔ تو آپ نے اُسے طلب کیا۔ آوازین دیں۔ گھر کے تمام دروازے مقفل تھے لیکن غلام نہیں تھا۔ جب صبح ہوئی تو وہ حاضری سے مجھے معذور رکھیں۔ حضرت اقدس نے یہ بات قبول کرلی۔ کچھ اسی طرح گذر جانے کے بعد ایک دن چند ہمسایوں نے آکر عرض کیا کہ آپ کا یہ غلام رات بھر نباشی (کفن چوری) کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا آج رات اس کا امتحان لوں گا۔ رات کے وقت حضرت خواجہ کیا دیکھتے ہیں کہ آدھی رات کے وقت غلام نے اُتھ کر اشارے سے قفل کھولا اور باہر چلا گیا۔ جانے کے بعد قفل اسی طرح ٹھیک ہوگیا۔ دوسرے اور تیسرے دروازے پر پہنچ کر بھی وہی عمل کیا اور اشاروں سے تالے کھولتا ہوا باہر نکل گیا۔ حضرت خواجہ اس کے پیچھے چلے گئے۔ لیکن اس کو علم نہ ہوا۔ قبرستان میں پہنچ کر اس نے اپنے کپڑے اتاردیئے اور ایک قبر میں سے کپڑوں کا جوڑا نکالا اور پہن کر غار میں چلا گیا اور عبادت میں مشغول ہوگیا۔ صبح تک اسی جگہ عبادت میں مشغول رہا۔ صبح کے وقت بارگاہِ حق تعالیٰ میں مناجات کیں کہ خداوندا میرے آقا کی مزدوری عنایت کر۔ یہ کہنا تھا ایک دینار اُوپر سے گرا۔ اس نے دینار اٹھاکر اپنی جیب میں ڈال دیا۔ حضرت خواجہ نے جب یہ معاملہ دیکھا تو حیران رہ گئے اور اپنی بدگمانی پریشمان ہوئے۔ اور توبہ کی۔ آپ نے اُسی وقت تہیۃ کرلیا کہ جب وہ حق تعالیٰ کی بندگی میں اس قدر منہمک ہے تو میں اُسے آزاد کردوں گا۔ اس کے بعد وہ غلام غیب ہوگیا اور حضرت خواجہ علیہ رحمۃ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ تھوڑی دور گئے تھے کہ غیب سے ایک سوار ظاہر ہوا۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ میرا فلاں شہر یہاں سے کتنی دور ہے اس نے جواب دیا کہ اگر تیز چلاجائے تو دو سال کا راستہ ہے۔ یہ سن کر آپ وہاں بیٹھ گئے اور دل میں کہنے لگے اب وہاں جانا بہت مشکل ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ آج رات اسی جگہ پر رہ جاؤں۔ غلام واپس آئے گا جب وہ واپس جانے لگے گا۔ تو اس کے پیچھے چلتا رہوں گا۔ غرضیکہ آپ کا سارا دن وہاں بیٹھے رہے جب رات ہوئی تو وہ غلام ٹھیک اُسی وقت پر پہنچ گیا اور عبادت میں مشغول ہوگیا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے وہی دعا مانگی اور اُوپر سے دینار آ گرا۔ اس نے دینار کو اٹھاکر جیب میں ڈالا۔ حضرت خواجہ چھپے بیٹھے تھے غلام نے اُن کے پاس آکر دونوں دینار جیب سے نکالے اور حضرت اقدس کے پیش کیے کہ یہ لیجئے دونوں راتوں کی اُجرت ہے۔ اور جو نیت آپ نے میرے حق میں کر رکھی ہے اُسے پورا کیجئے۔ حضرت اقدس نے اُسے فوراً آزاد کردیا۔ غلام نے چند سنگریزے اٹھاکر حضرت اقدس کے دامن میں ڈالدیئے اور کہا کہ یہ شکرانہ ہے اسبات کا کہ آپ نےمجھے آزاد کیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہوگیا اور حضرت اقدس کو اشارہ کیا کہ میرے پیچھے چلے آئیں۔ حضرت اقدس اس کے پیچھے روانہ ہوپڑے۔ زیادہ دور نہ گئے ہوں گے کہ اپنے شہر کے نزدیک پہنچ گئے اور اپنے گھر چلے گئے۔ غلام غیب ہوگیا۔ جب حضرت اقدس نے دامن کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہر سنگپارہ ایک قیمتی جوہر بنا ہوا ہے۔ جب وہ لوگ جو غلام کو کفن چور کہتے تھے آئے تو حضرت اقدس نے ان سے کہا کہ دوستو تم لوگ جو اس شخص کے متعلق باتیں بنایا کرتے تھے اس کی حقیقت یہ ہے ۔ چنانچہ آپ نے جو کچھ دیکھا تھا سب اُن کو بتادیا۔ اور فرمایا کہ نباش النور ہے نہ کہ نباش القبور۔ اب آپخود خیال کر سکتے تھے کہ جس آقا کا غلام ایسا ہو وہ خود کیسا ہوگا۔ اگر اُسے سارے جہان کا آقا کہا جائے تو بجا ہے۔ زہے غلام جس کے آقا آپ ہوں سارے جہان کو آپ کی غلامی سے شرف حاصل ہوتا ہے۔
کرامت
اس کتاب میں یہ بھی لکھاہے کہ ایک دن حضرت اقدس راستے میں جارہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بوڑھا عاجز، ضعیف وناتواں دھوپ میں پڑا ہے اور کوئی شخص اس کا پرسانِ حال نہیں ہے۔ آپ کو اس کے حال راز پر رحم آیا۔ اور ابر کواشارہ کیا کہ اس بے نوا پر سایہ کرے۔ جب اس بوڑھے نے یہ کرامت دیکھی تو عرض کیا کہ حضور میرے لیے دعا کریں کہ مجھے صحت ہو۔ آپ نے دعا کی تو وہ اُسی وقت صحت یاب ہوگیا۔ اور اٹھ کر چلا گیا۔
کرامت
اس کتاب میں یہ بھی لکھاہ ے کہ ایک دفعہ درویشوں کی ایک جماعت حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر تھی۔ ان پر بھوک غالب تھی جس کی وجہ سے وہ پریشان اور کمزور تھے۔ لیکن آپ کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی جو ان کو دیتے۔ انہوں نے حضرت خواجہ سے فرمائش کی کہ ہمیں حلوہ کھلائیں۔ جب اس بات پر فقراء نے اصرار کیا تو آپ نے آسمان کی طرف منہ کیا۔ پھر کیا تھا کہ آسمان سے دیناروں کی بارش ہونے لگی۔ فقیر نے دینار اٹھانے کی خواہش کی تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ اُسی قدر اٹھاؤ جس سے حلوہ خرید سکو۔ درویشوں نے اپ کے حکم کی تکمیل کی۔ اور دینار اٹھاکر بازار سے حلوہ خرید لائے۔ اور پیٹ بھر کر کھایا لیکن حضرت اقدس نے اس میں سے کچھ نہ کھایا۔
‘‘مراۃ الاسرار’’ میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید میرا ایک گھٹنہ بیماری کی وجہ سے شل ہوگیا تھا۔ جس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ ایک رات میں نماز کے لیے کھڑا ہوا لیکن جسم میں طاقت نہ ہونے کی وجہ سے بیٹھ گیا اور محراب میں سر دیکر سوگیا خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ن ہایت ہی حسین و جمیل دوشیزہ دوسری لڑکیوں کے درمیان آئی ہے اس نے مجھے دیکھ کر دوسری لڑکیوں سے کہا کہ اس کو اٹھالو لیکن خیال کرنا نیند سے بیدار نہ ہونے پائے۔چنانچہ انہوں نے مجھے اٹھالیا۔ اس کے بعد اس نےکہا کہ ان کے لیے نرم بستر بچھاؤ۔ لڑکیوں نے ایسا عمدہ ہفت نہالی بستر بچھایا کہ دنیا میں میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ہر رنگ کے عمدہ تکیے بستر پر رکھے اور مجھے آرام سے سلادیا۔ اور قسم و قسم کے عطریات اور پھول بستر پر ڈالے۔ اس کے بعد اُس لڑکی نے میرے پاس آکر میرے درد کی جگہ پر ہاتھ رکھا جس سے مجھے کامل شفا حاصل ہوگئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کبھی شکایت ہی نہیں ہوئی تھی۔
ذوق شہادت وانعام
‘‘مراۃ الاسرار’’ میں یہ بھ ی لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبدالواحد بن زید فرماتے ہیں ایک دفعہ میرے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی اور ہم تیار ہوگئے۔ اس اثناء میں میرے ایک ساتھی نے یہ آیت پڑھی۔ اِنَّ اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم واموالھم بانّ لھم الجنّۃ۔(اللہ تعالیٰ مومنین سے ان کی جانیں اور مال خریدتا ہے جنت کے عوض)۔ وہاں ایک نو جواب لرکا کھڑا تھا جس کو اپنے والد کی طرف سے کافی مال و دولت ورثہ میں حاصل ہوا تھا۔ اس نے یہ آیت سنتے ہی کہا کہ اے شیخ یہ آیت سچ ہے۔ میں نے کہا بالکل سچ ہے۔ اس نے ک ہا آپ گواہ رہیں کہ میں نے اپنی ذات اور اپنا مال بہشت کے عوض فروخت کیا۔ اس کے بعد اس نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور اپنا تمام مال فروخت کر کے ایک گھوڑا او اسلحہ خریدا اور دوسرے دن ہمارے ساتھ جہاد پر روانہ ہوگیا۔ وہ دن میں روزہ رکھتا تھا اور رات میں کھڑا ہوکر نماز پڑھتا تھا۔ ایک رات اس نے یہ فریاد کی۔ اشوقاہ الی عین المرضیۃ (ہائے عین المرضیہ) میرے ساتھیوں نےیہ آواز سن کر کہا کہ شاید عقل جاتی رہی ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے پوچھا کہ اے دوست کون ہے وہ عین المرضیہ؟۔ اس نے جواب دیا کہ حالت غنودگی میں ایک شخص نے آکر مجھ سے کہا کہ عین المرضیہ کے پاس چلو۔ میں اس کے ساتھ چلا گیا اور ہم ایک سبزہ زار میں پہنچ گئے جہاں ایک نہر بہہ رہی تھی۔ نہر کے کنارے پر دو شیزہ لڑکیوں کی ایک ٹولی دیکھی جو حسن وجمال اور زیب وزینت میں اپنا نظیر نہیں رکھتی تھیں۔ جونہی انہوں نے مجھے دیکھ کر خوشی کی حالت میں چِلّا اٹھیں کہ یہ ہے۔ عین المرضیہ کا خاوند۔ اس کے بعد ان لڑکیوں نے کہا کہ ہم عین المرضیہ کی خدمت گار ہیں۔ آپ جلدی ہمارے ساتھ چلیں چنانچہ ہم چل پڑے۔ تھوڑی دور جانے کے بعد ایک اور نہر کے کنارے کچھ اور لڑکیوں کی ٹوپی دیکھی جو حسن وجمال میں اُن سے بھی بڑھتی ہوئی تھیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہم عین المرضیہ کی خدمت گار ہیں آپ جلدی اُن کے پاس چلیں۔چنانچہ ہم آگے کی جانب روانہ ہوئے تو ایک شراب کی نہر نظر آئی جس کے کنارے دو شیزگان کی ایک اور ٹولی دیکھی جو اُن سے بھی زیادہ خوبصورت تھیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا عین المرضیہ تم میں سے ہے۔ اُنہوںن ے جواب دیا کہ اے خدا کے دوست آگے چلو۔ ہم سب اس کی خدمت گار ہیں۔ وہاں سے آگے چل کر ہم نے ایک اور نہر دیکھی جو شہد خالص سے لبریز تھی اور اس کے کنارے پر جو لڑکیاں موجود تھیں وہ اُن سے بھی زیادہ خوبصورت تھیں۔ انہوں نے کہا کہ عین المرضیہ فلاں خیمہ میں آپ کا انتظار کر رہی ہیں۔ چنانچہ ہم آگے بڑھ کر اس خیمہ تک پہنچے جو سفید مروارید سے بنا ہوا تھا۔ اس کے دروازہ پر ایک لڑکی بیٹھی تھی جو نہایت ہی خوبصورت تھی اور زیب و زینت سے آراستہ تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوئی اور خیمہ کے اندر جھانک کر آواز دی کہ یا عین المرضیہ آپ کا شوہر آگیا ہے۔ جب میں خیمہ کے اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں حسن و جمال کا پیکر ایک ایسے زرّین تحت پر جلوہ افروز ہے جو یاقوت ومروادید سے آراستہ پیراستہ ہے۔ میں اُسے دیکھتےہی فریضۃ ہوگیا مجھے دیکھ کر اس نے کہا ‘‘مرحبا یا ولی الرحمٰن’’۔ میں نے آگے بڑھ کر اپنا بازو اس کی گردن میں ڈالا اس نے کہا جلدی مت کرو۔ ابھی حکم نہیں آیا ابھی آپ قید حیات میں ہیں۔ آج رات آپ ہمارے ساتھ روزہ کھولیں گے۔ اس کے بعد میں بیدار ہوگیا اور اب مجھے اس کے بغیر قرار نہیں ہے۔ حضرت خواجہ عبدالواحد فرماتے ہیں کہ اس لڑکے نے یہ بات پوری کی ہی تھی کہ دشمن کی فوج کا ایک دستہ نمودار ہوا۔ اس لڑکے نے آگے بڑھ کر اس پر حملہ کیا اور دشمن کے نو آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر خود بھی شہید ہوگیا جب ہم اس کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اپنے خون میں غلطاں ہے اور قہقہے مار کر ہنس رہا ہے اسی حالت میں اس کا انتقال ہوگیا۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن قریش کی ایک جماعت حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید کی خدمت میں حاضر ہوئی اور تنگ دستی کی شکایت کی۔ آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھاکر دعا کی کہ الٰہی میں تیرے نام سے سوال کرتا ہوں جو بلند ہے اور جس نام سے تو بزرگ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنے دوستوں کے دلوں کو اپنے اس اسم اعظم سے آگاہ کر تا ہے۔ اب تو ہمیں اپنے یہاں سے روزی عطا فرما۔ یہ کہنا تھا کہایک آواز بلند ہوئی اور آسمان سے درہم و دینار کی بارش شروع ہوگئی اور ان لوگوں نے چننا شروع کردیا۔ غرضیکہ آپ کی کرامات اس قدر ہیںکہ اس مختصر کتاب میں ان کی گنجائش نہیں ہے۔
خلفاء
سیر الاقطاب میں روایت ہے کہ حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید کے تین خلفاء تھے۔ حضرت خواجہ فضیل ابن عیاض، حضرت خواجہ ابو الحسن علی بن زرّین اور حضرت خواجہ ابو یعقوب سوسی۔ جس تک حضرت شیخ ابو النجیب سہروردی اور حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ کا سلسلہ جا ملتا ہے۔ اس کتاب میں یہ بھ ی لکھا ہے کہ آخر عمر میں حضرت خواجہ اس قدر بیمار ہوئے کہ اٹھنے کی طاقت نہ تھی۔ بلکہ حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ایک دن نماز کے وقت خادم موجود نہ تھا کہ وضو کراتا۔ آپ نےحق تعالیٰ سے دعا کی کہ یا الٰہی مجھے اس قدر طاقت عنایت ہوکہ اٹھ کر وضو کروں اور نماز ادا کروں اس کے بعد جو حکم ہو بندہ حاضر ہے۔ دعا مانگتے ہی حضرت خواجہ صحت یاب ہوگئے اور اٹھ کر وضو کیا اور جی کھول کر نماز ادا کی۔ اس کے بعد جب اپنے بستر پرواپس گئے تو بدستور سابق بیمار ہوگئے اور ستائیس ماہ صفر ۱۷۷ھ کو ایک روایت کے مطابق ۱۷۰ھ میں جہان فانی سے بصرہ میں رحلت فرمائی۔ اس کتاب میں آپ کی تاریخ وفات یوں نکالی گئی ہے:۔
‘‘از اولیائے کامل بود’’
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد
(اقتباس الانوار)