علی المرتضیٰ، امیر المؤمنین سیّدنا
اسمِ گرامی: والدنے آپ کا نام ’’علی‘‘
اور والدۂ ماجدہ نے’’حیدر‘‘ رکھا۔
کنیت: ابوالحسن اور ابو تراب ہے۔
اَلقاب: امیر
المومنین،امام المتقین،صاحب اللواء، اسداللہ(شیرِ خدا)،کرار،مرتضیٰ، مولا مشکل کشا۔
نسب :
علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب
بن ہاشم بن عبدِ مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ۔
تاریخِ ولادت:
امیر المؤمنین سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ 13؍ رجب المرجّب،بروز
جمعۃ المبارک، عام الفیل کے 30سال بعد،مطابق 17؍ مارچ 599ء کو بیت اللہ مکۃ المکرمہ میں پیدا ہوئے۔
شیرخداکی سب سے پہلی غذا:
آپ کی والدۂ ماجدہ سیّدہ فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:
’’جب میرے لختِ جگر علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ پیدا ہوئے تو رسولِ اکر مﷺنے آپ
کے مُنھ میں لُعابِ دہن ڈالا اور اور اپنی ’’مَا
یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی‘‘ والی زبانِ مبارک چوسنے کے لیے دی ،آپ
حضورﷺ کی زبان چوستے ہوئے نیند کی آغوش میں چلے گئے اور جب تک
اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ رسولِ اکرمﷺکی زبانِ اقدس کو چوستے رہے اور غذا حاصل
کرتے رہے۔‘‘ (السیرۃ الحلبیۃ، ج1، ص282)
فضائل ومناقب:
امام احمد فرماتے ہیں:
’’جتنی اَحادیث حضرت مولاعلی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں کسی اورصحابی کی فضیلت میں وارد
نہیں ہوئی ہیں۔‘‘(تاریخ
الخلفاء،ص364)
·
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ رسولِ اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں۔
·
بچپن سے ہی رحمتِ عالم ﷺ کے زیرِ تربیت
رہے۔
·
اس بات پر اجماع ہے کہ بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آپ ہی ہیں۔
·
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علی رضی
اللہ تعالٰی عنہ دعوتِ اسلام کے ہر مرحلے اور
آزمائش میں حضور ﷺ کے ساتھ رہے۔
·
2ھ میں مدینۂ منوّرہ آنے کے بعد حضور ﷺ نے
انھیں اپنی دامادی کا شرف بخشا۔
·
ہجرتِ مدینہ کے بعد غزوات کاسلسلہ شروع ہوا تو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہنے تمام غزوات (بدر، اُحد، خندق، بنی قریظہ اور حنین،خیبر وغیرہ) میں کار ہائے
نمایاں سر انجام دیے۔
·
متعدد سَرایا میں آپ کو کمانڈر بنا کر بھیجا گیا، جنھیں آپ نے کامیابی کے ساتھ
انجام کو پہنچایا۔
·
حضور ﷺ کے وصال کے بعد اُن کے غسل اور
تجہیز و تکفین کی سعادت میں بھی آپ شریک
تھے۔
·
غرض آغازِ بعثت سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک آپ حضور نبی اکرم ﷺ کے دست و بازو بنے رہے۔
·
حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللہ
تعالٰی عنہاور حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہکے دورِ خلافت میں آپ مَجلسِ شوریٰ کے رکن تھے۔ حضرات شیخین کو آپ کے مفید
مشوروں پر بڑا اعتماد تھا۔
·
اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ
تعالٰی عنہکی بھی آپ آخر تک حمایت کرتے رہے۔
·
زبانِ نبوّت سے آپ کو’’اَنَا
مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُہَا‘‘ کی سند ملی تھی۔
·
آپ فرمایا کرتے تھے کہ قرآنِ مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق میں
یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ کس بارے میں اور کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔
·
فقہ میں آپ کی ذاتِ گرامی صحابۂ کرام کا مرجع تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود مجتہد اور فقیہ تھے، لیکن آپ سے بھی استفادہ کرتے تھے حتّٰی کہ امیر
معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اختلاف کے باوجود اکثر مواقع پر آپ کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔
·
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
تعالٰی عنہ جن کے فتاوٰی اور مروی اسناد پر فقہِ حنفی کی بنیاد ہے، آپ
کے فیض یافتہ تھے۔
·
تصوف کا سرچشمہ بھی آپ ہی کی ذاتِ گرامی ہے۔ صوفیا کے تمام بڑے سلاسل حضرت
خواجہ حسن بصریرضی اللہ تعالٰی عنہ کے واسطے سے آپ تک پہنچتے ہیں۔
·
آپ شاعری کا بھی نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ ذوق رکھتے تھے۔
·
علمِ نحو کی بنیاد بھی آپ ہی نے رکھی۔ سب سے پہلے ابو لاسود دؤلی کو نحو کے
اصول سکھائے تھے، جس نے بعد میں ان اصولوں کی روشنی میں نحو کے قواعد مرتّب کیے۔
·
آپ کی زندگی ہی میں آپ سے بغض رکھنے والے اور آپ کی تعریف میں غلو کرنے والے
لوگ موجود تھے۔ مشہور صحابی حضرت ابوسعید خدریرضی اللہ تعالٰی عنہفرمایا کرتے تھے کہ میں منافقوں کو بُغضِ علی رضی اللہ تعالٰی عنہسے پہچان لیتا ہوں۔ (ترمذی)
·
علم کے ساتھ عمل کا یہ حال تھا کہ حضرت زبیر بن سعید رضی اللہ تعالٰی عنہکا بیان ہے کہ بنی ہاشم میں آپ سے بڑھ کے کوئی عبادت گزار نہ تھا۔ حضرت عائشہ
صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہافرماتی تھیں کہ علی رضی اللہ تعالٰی عنہقائم اللیل اور صائم النہار تھے۔
مختصرسیرت ِمرتضوی۔
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہنے حضرت ضرار رضی اللہ تعالٰی عنہسے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہکے بارے میں کچھ بیان کریں۔ اس کے جواب میں انہوں نے جو تقریر کی وہ سیرتِ مر
تضوی پر ایک جامع تبصرہ ہے۔
انھوں نے کہا:
’’حضرت علی رضی اللہ
تعالٰی عنہبلند حوصلہ اور نہایت قوی تھے۔ فیصلہ کن بات
کہتے تھے،عادلانہ فیصلے کرتے تھے۔ اُن کی ہرسمت سے علم پھوٹتا اور حکمت ٹپکتی تھی۔
دنیا اور اس کی دل فریبیوں سے و حشت کرتے
تھے۔ رات کی تاریکی وو حشت سے محبّت کرتے تھے، عبرت پذیر اور بہت غور و فکر کرنے والے
تھے۔ معمولی لباس اور جو کاکھانا پسند کرتے تھے۔ ہم میں ہم ہی لوگوں کی طرح رہتے
تھے۔ دین داروں کی تعظیم کرتے تھے۔ غریبوں کو مقرب بناتے تھے۔ ان کے سامنے طاقتور
باطل میں طمع نہیں کر سکتا تھا اور کمزور انصاف سے مایوس نہیں ہوتا تھا۔ بعض مواقع
پر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ رات گزر رہی ہے، ستارے جھلملا رہے ہیں اور
وہ اپنی داڑھی مٹھی میں دبائے ایک بے قرار اور غم رسیدہ انسان کی طرح اشک بار کہہ
رہے ہیں: اے دنیا! کسی اور کو فریب دے تو مجھ سے لگاوٹ کر رہی ہے،میری
مشتاق ہے۔ افسوس! افسوس! میں نے تجھے تین طلاقیں دیں۔ تیری عمر تھوڑی اور تیرا
مقصد حقیر ہے۔ ہائے ہائے ،سفر طویل، راستہ و حشت ناک اور زادِ سفر تھوڑا ہے۔‘‘
دورانِ تقریر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہکی آنکھوں سے آنسو بارش کے قطروں کی طرح ٹپک رہے تھے،اور فرما رہے تھے کہ حضرت
علی رضی اللہ تعالٰی عنہاس سے بھی بڑھ کر شان کے مالک ہیں، اور پھر ان کو انعامات سے نوازا۔
صحابۂ کرامرضی اللہ
تعالٰی عنہم اجمعین کی آپس میں جو محبّت تھی مذکورہ
واقعے سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔(عیون الحکایات،ص25)
مولا علی کاپیغام، محبین کے نام:
امیرالمؤمنین سیّدنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:
’’رسول
اللہ صل اللہ تعالٰی علیہ وسلمکےبعد سب سے بہتر وافضل ابوبکر اور عمرہیں۔‘‘
پھرفرمایا:
’’لایجتمع
حبی وبغض ابی بکر وعمر فی قلب مؤمن۔‘‘
ترجمہ: ’’میری محبّت اور شیخین کریمین ابوبکر وعمر کا بغض کسی مومن
کے دل میں جمع نہیں ہوسکتا۔‘‘ (المعجم
الاوسط للطبرانی،ج،۳،حدیث:۳۹۲۰)
وصال:
امیرالمؤمنین سیّدنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم 4سال 8 ماہ نو دن تک مسندِ خلافت پر رونق افروز رہے۔17 یا
19؍ رمضان المبارک کو ایک بدبخت کے قاتلانہ حملے سے شدید زخمی ہوگئےاوربروزِ
اتوار21؍ رمضان،40ھ مطابق 27؍ جنوری 661 ءکی رات جامِ شہادت نوش فرماگئے۔(تاریخ الخلفاء، ص۱۳۲)