حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1093 | ذوالقعدہ | 05 |
یوم وصال | 1152 | ذوالقعدہ | 04 |
حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب:اسمِ گرامی: حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی۔کنیت:ابوالبرکات۔لقب:شمس الدین،قیوم رابع۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:حضرت خواجہ محمد زبیرسرہندی بن خواجہ شیخ ابوالعلی بن خواجہ حجۃ اللہ محمدنقشبند ثانی بن خواجہ محمد معصوم سرہندی بن امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔(تاریخِ مشائخِ نقشبند:435)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 5/ذیقعدہ1093ھ مطابق 2/نومبر1682ء،بروز پیرکوہوئی۔(ایضا:435)
تحصیلِ علم: آپ کاساراخاندان نورعلیٰ نورتھا۔جن میں جذبۂ حریت، استقامت علی الدین اورعلم وعمل شریعت وطریقت میں بےمثال تھے۔جہاں ہرطرف قال اللہ وقال رسول اللہﷺکی صدائیں دلوں کوجلابخشتی تھیں۔اس نورانی و روحانی فضا میں حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندیکی تربیت ہوئی۔ جب آپ کی عمر مبارک چار برس چار ماہ ہوئی تو آپ کو ایک سعادت مند ادیب اور طالع مند اتالیق کے سپرد کیا گیا۔ سات برس کی عمر میں ہی شائستگی حال،آراستگیِ مقال،اوضاع ِکریمانہ اوراطوار ِبزرگانہ آپ کی جبین سعادت سےہویدا ہوگئے تھے۔آپ ابھی صرف تیرہ برس کے تھے کہ والد گرامی حضرت شیخ خواجہ ابوالعلی کا وصال ہوگیا اور آپ کی پرورش جدّامجد حضرت خواجہ نقشبند ثانی قدس سرہ نے کی اور ظاہری و باطنی علوم میں مالا مال کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ کم سِنی ہی میں آپ پر استغراق غالب ہوجایا کرتا تھا اور حضرت نقشبند ثانی قدس سرہ نے آپ کو قیومیّت کی بشارت دی تھی چنانچہ حضرت حجۃ اللہ خواجہ محمد نقشبند ثانی قدس سرہ کے وصال کے بعد بروز ہفتہ یکم صفر 1114ھ/24جون/1702ء کو مسند قیومیّت و ارشاد پر متمکن ہوئے۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں اپنےجدکریم حضرت خواجہ محمدنقشبندِ ثانیکےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اوران کےخلیفہ ٔ اعظم بنے،اور ان کےوصال کےبعد مسند ارشاد پرفائزہوئے۔
سیرت وخصائص: عارف باللہ واصل باللہ،قطب الارشاد،قیومِ زماں،حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی۔آپ خاندان ِ حضرت مجددکےفردفرید،اور ان کی علمی وروحانی امانتوں کےوارث،اورجامع شریعت وطریقت تھے۔آپ کی ذاتِ سےسلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کوفروغ حاصل ہوا۔حضرت حجۃ اللہ خواجہ محمد ثانی ِ نقشبندکےپوتےاورخلیفۂ اعظم تھے۔آپ اپنے وقت کے قطبِ دوراں اور قیوم زماں تھے۔ آپ کے شب و روز عبادت الٰہی اور خلق خدا کو ہدایت کرنے میں صرف ہوتے تھے۔ آپ کا حلقہ بہت وسیع تھا اور زمانے کے بڑے بڑے علماء و امراء آپ کے معتقد تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین و دنیا کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا۔ جب بھی آپ دولت کدہ سے باہر تشریف لاتے تو امراء شاہی اپنے دوشالے اور پگڑیاں فرش راہ بناتے تاکہ متبرک ہوجائیں اور آپ کے قدم مبارک زمین پر نہ پڑیں۔ اگر آپ کسی جگہ وعظ، مجلس یا عیادتِ مریض کے لیے تشریف لے جاتے تو آپ کی سواری اور جلوس شاہانہ ہوتا۔ باوجود اس ظاہری کرّو فر کے دل خدا کی طرف لگا ہواتھا۔ آپ ہر امیر و غریب کو ایک نظر سے دیکھتے تھے اور ہر مرید کو درجۂ کمال تک پہنچانے کی سعیٔ بلیغ فرماتے تھے۔کم کھانا،کم بولنا،کم سونا آپ کی زندگی کا خاص اصول تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ فضول اور لغو گفتگو میں بہت سی مصیبتیں اور پریشانیاں پنہاں ہیں کم کھانے سے جسم میں سُستی واقع نہیں ہوتی اورکم سونے سے زیادہ وقت عبادت الٰہی میں گزارسکتے ہیں۔یہ وقت بڑا قیمتی ہے،اس کی قدر کرنی چاہیےتقویٰ،پرہیز گاری،اتباعِ سنّت اورکثرت ِعبادت میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔
آپ نہایت کثیر العبادت تھے۔نمازِ تہجّد میں ساٹھ ساٹھ مرتبہ سورۃ یٰسین پڑھا کرتے تھے۔نمازِ فجر کے بعد چاشت تک مراقبہ فرماتے۔بعد ازاں قدرے قیلولہ فرماتے اور پھر نمازِ زوال ادا کرتے۔ اس کے بعد تلاوت قرآن مجید میں مشغول ہوجاتے اور پھر نمازِ ظہر سے پہلے حلقہ بنا کر بمع دوستاں ختم خواجگان پڑھتے اور ذکر و فکر کے بعد مریدوں کو توجہ دیتے نماز ظہر ادا کر کے مریدوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ آپ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بار صرف اسی وقت ہی کھانا کھاتے تھے۔ نمازِ عصر کے بعد کبھی حدیث شریف اور کبھی مکتوباتِ امام ربّانی مجدّد الف ثانی قدس سرہ کا دَرس دیا کرتے تھے نمازِ مغرب کے بعد نماز اوابین میں قرآنِ مجید کے دس پارے پڑھتے تھے۔ بعد ازاں حلقۂ ذکر ہوتا۔ پھر نمازِ عشاء پڑھ کر دولت کدہ میں استراحت فرماتے۔ چوبیس ہزار مرتبہ کلمہ طیّبہ، پندرہ ہزار مرتبہ اسم ذات دن کو اور پھر دس ہزار مرتبہ کلمہ شریف رات کو آپ کا دائمی وظیفہ تھا۔ (تاریخ مشائخِ نقشبند:436)
ایک مرتبہ کسی تقریب میں جامع مسجد کے قریب سے گزرے۔سواری کے ساتھ عقیدت مندوں کا بے شمار ہجوم نجوم تھا۔حضرت شاہ گلشن نے مسجد سے آپ کی سواری کی رونق دیکھ کر اپنی پرانی کملی اتار کر پھینک دی اور کہا کہ اسے جلا دو۔ کیونکہ جس قدر نُور اس بزرگ کی سواری میں ہے اُس کا ایک شمّہ بھی مَیں اپنی کملی میں نہیں دیکھتا۔ حالانکہ تیس سال سے اس کملی میں ریاضت و مجاہدہ کر رہا ہوں۔ کسی نے بتایا کہ یہ حضرت خواجہ محمد زبیر ہیں۔ اس پر شاہ گلشن کہنے لگے، الحمدللہ! یہ تو ہمارے پیر زادہ ہیں اور ہماری عزّت و آبرو ان کے صدقے باقی رہ گئی ہے۔
فضل وکمالات: آپ کا ایک مرید سخت بیمار ہوگیا اور نزع کی حالت طاری ہوگئی۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے بچّے تھے۔ اُس کے گھر والے آپ کے پاس حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے۔ آپ کو اس کے حال پر رحم آیا اور اُسے اپنے ضمن میں لے لیا۔ وہ شفایاب ہوکرعرصہ دراز تک بقیدِ حیات رہا۔ چونکہ آپ کی رُوح مبارک اُس کی زندگی کی قیّم تھی۔ اس لیے جس دن آپ نے وصال فرمایا وہ شخص بھی دنیا سے چل بسا۔
ایک شخص آپ سے بیعت کرنے کے لیے گھر سے روانہ ہوا۔ راستے میں اُسے ایک گھوڑا سوار ملا۔ اُس نے قصدِ سفر پوچھا تو اُس شخص نے جواب دیا کہ میں حضرت خواجہ محمد زبیر کی خدمت میں بیعت ہونےکےلیےجا رہا ہوں۔گھوڑ سوار نیچے اُترا اور کہا کہ میں ہی خواجہ محمد زبیر ہوں۔ وہ شخص بہت خوش ہوا۔ اور درخواستِ بیعت کی۔ آپ نے اُسے داخل سلسلۂ عالیہ مجّددیہ کیا اور اجازت دے دی۔ اُس شخص نے سوچا کہ مَیں اب تو سرہند شریف کے نزدیک پہنچ گیا ہوں۔ لٰہذا کیوں نہ امام ربّانی حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ کے روضۂ مقدس کی زیارت بھی کرتا جاؤں۔ جب سرہند شریف میں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم تھا جو کسی کو دفن کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ جب اُس شخص نے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ حضرت خواجہ زبیر وصال فرما گئے ہیں۔ جب اُس نے زیارت کی تو وہی شکل مبارک تھی جس نے اُسے راستے میں بیعت کیا تھا۔ایک شخص کابل سے آپ کی زیارت کے ارادہ سےروانہ ہوا۔ راستے میں اُسے ایک شیر ملا جسے دیکھ کر وہ بہت خوفزدہ ہوگیا۔ اُس شخص نے آپ کی طرف توجہ کی تو آپ فوراً تشریف لائے اور ایک پتھر اٹھا کر شیر پر پھینکا جس سے وہ لومڑی کی طرح دم دبا کر بھاگ گیا اور آپ بھی نظروں سے غائب ہوگئے۔(تاریخِ مشائخِ نقشبند:438)
تاریخِ وصال: آپ38برس مسند قیومیت پررونق افروز رہ کربروز بدھ،بوقتِ اشراق،4/ذی قعدہ 1152ھ مطابق 3/فروری1740ءکودہلی میں ہوا۔ آپ کی نعش مبارک سر ہند شریف لائی گئی۔ اور 11/ذیقعد بروز جمعرات شیخ سعدالدین کی حویلی میں جسے آپ نے شیخ موصوف کے بیٹے سے بعوض چار ہزار روپے خریدا تھا میں دفن کیے گئے۔ 1153ھ میں آپ کے مرقدِ انور پر ایک عالی شان روضہ تعمیر کیا گیا۔ جو رنگا رنگ کے نقش و نگار سے آراستہ کیاگیا تھا۔
ماخذومراجع: تاریخ مشائخِ نقشبند۔
جناب صابر براری نےخوب کہا:
قُطبِ دَوراں اور قیومِ زماں تھے بالیقیں ۔۔۔۔۔۔اہلِ بینش جانتے ہیں عظمتِ خواجہ زبیر
سالِ رحلت آپ کا یہ، آپ ہی کے فیض سے۔۔۔۔کہیے صابر ’’نُورِ عالم طلعتِ خواجہ زبیر‘‘
(1740ء)