حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی

حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی علیہ الرحمۃ

سرہند شریف ۱۰۹۳ھ/۱۶۸۲ء۔۔۔۱۱۵۲ھ/۱۷۴۰ء سرہند شریف

 

قطعۂ تاریخِ وفات

قُطبِ دَوراں اور قیومِ زماں تھے بالیقیں
سالِ رحلت آپ کا یہ، آپ ہی کے فیض سے

 

 

اہلِ بینش جانتے ہیں عظمتِ خواجہ زبیر
کہیے صابر ’’نُورِ عالم طلعتِ خواجہ زبیر‘‘
۱۷۴۰ء

 

(صابر براری، کراچی)

حضرت خواجہ محمد زبیر سرہندی قدس سرہ

آپ حضرت حجۃ اللہ خواجہ محمد نقشبند ثانی قدس سرہ کے پوتے اور خلیفۂ اعظم تھے۔ آپ کی ولادت با سعادت ۵؍ذی قعدہ ۱۰۹۳ھ/۱۶۸۲ء بروز پیر وار ہوئی۔ سلسلۂ نسب حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ تک یُوں پہنچتا ہے۔ خواجہ محمد زبیر بن خواجہ شیخ ابوالعلی بن خواجہ حجۃ اللہ محمد نقشبند ثانی بن خواجہ محمد معصوم بن امام ربّانی حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ۔

آپ ابھی صرف تیرہ برس کے تھے کہ والد گرامی حضرت شیخ خواجہ ابوالعلی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوگیا اور آپ کی پرورش جدّامجد حضرت خواجہ نقشبند ثانی قدس سرہ نے کی اور ظاہری و باطنی علوم میں مالا مال کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ کمسنی ہی میں آپ پر استغراق غالب ہوجایا کرتا تھا اور حضرت نقشبند ثانی قدس سرہ نے آپ کو قیومیّت کی بشارت دی تھی چنانچہ حضرت حجۃ اللہ خواجہ محمد نقشبند ثانی قدس سرہ کے وصال کے بعد بروز ہفتہ یکم صفر ۱۱۱۴ھ/۱۷۰۲ء کو مسند قیومیّت و ارشاد پر متمکن ہوئے۔

آپ قطبِ دوراں اور قیوم زماں تھے۔ آپ کے شب و روز عبادت الٰہی اور  خلق خدا کو ہدایت کرنے میں صرف ہوتے تھے۔ آپ کا حلقہ بہت وسیع تھا اور زمانے کے بڑے بڑے علماء و امراء آپ کے معتقد تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین و دنیا کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا۔ جب بھی آپ دولت کدہ سے باہر تشریف لاتے تو امراء شاہی اپنے دوشالے اور پگڑیاں فرش راہ بناتے تاکہ متبرک ہوجائیں اور آپ کے قدم مبارک زمین پر نہ پڑیں۔ اگر آپ کسی جگہ وعظ، مجلس یا عیادتِ مریض کے لیے تشریف لے جاتے تو آپ کی سواری اور جلوس شاہانہ ہوتا۔ باوجود اس ظاہری کرّد فر کے دل خدا کی طرف لگا ہواتھا۔ آپ ہر امیر و غریب کو ایک نظر سے دیکھتے تھے اور ہر مرید کو درجۂ کمال تک پہنچانے کی سعیٔ بلیغ فرماتے تھے۔ کم کھانا، کم بولنا، کم سونا آپ کی زندگی کا خاص اصول تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ فضول اور لغو گفتگو میں بہت سی مصیبتیں اور پریشانیاں پنہاں ہیں کم کھانے سے جسم میں سُستی واقع نہیں ہوتی اورکم سونے سے زیادہ وقت عبادت الٰہی میں گزارسکتے ہیں۔ یہ وقت بڑا قیمتی ہے، اس کی قدر کرنی چاہیے تقویٰ، پرہیز گاری، اتباعِ سنّت اور کثرت عبادت میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔

آپ نہایت کثیر العبادت تھے۔ نمازِ تہجّد میں ساٹھ ساٹھ مرتبہ سورۃ یٰسین پڑھا کرتے تھے۔ نمازِ فجر کے بعد چاشت تک مراقبہ فرماتے۔ بعد ازاں قدرے قیلولہ فرماتے اور پھر نمازِ زوال ادا کرتے۔ اس کے بعد تلاوت قرآن مجید میں مشغول ہوجاتے اور پھر نمازِ ظہر سے پہلے حلقہ بنا کر بمع دوستاں ختم خواجگان پڑھتے اور ذکر و فکر کے بعد مریدوں کو توجہ دیتے نماز ظہر ادا کر کے مریدوں کے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ آپ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بار صرف اسی وقت ہی کھانا کھاتے تھے۔ نمازِ عصر کے بعد کبھی حدیث شریف اور کبھی مکتوباتِ امام ربّانی مجدّد الف ثانی قدس سرہ کا دَرس دیا کرتے تھے نمازِ مغرب کے بعد نماز اوابین میں قرآنِ مجید کے دس پارے پڑھتے تھے۔ بعد ازاں حلقۂ ذکر ہوتا۔ پھر نمازِ عشاء پڑھ کر دولت کدہ میں استراحت فرماتے۔ چوبیس ہزار مرتبہ کلمہ طیّبہ، پندرہ ہزار مرتبہ اسم ذات دن کو اور پھر دس ہزار مرتبہ کلمہ شریف رات کو آپ کا دائمی وظیفہ تھا۔

ایک مرتبہ کسی تقریب میں جامع مسجد کے قریب سے گزرے۔ سواری کے ساتھ عقیدت مندوں کا بے شمار ہجوم نجوم تھا۔ حضرت شاہ گلشن رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد سے آپ کی سواری کی رونق دیکھ کر اپنی پرانی کملی اتار کر پھینک دی اور کہا کہ اسے جلا دو۔ کیونکہ جس قدر نُور اس بزرگ کی سواری میں ہے اُس کا ایک شمّہ بھی مَیں اپنی کملی میں نہیں دیکھتا۔ حالانکہ تیس سال سے اس کملی میں ریاضت و مجاہدہ کر رہا ہوں۔ کسی نے بتایا کہ یہ حضرت خواجہ محمد زبیر ہیں۔ اس پر شاہ گلشن کہنے لگے، الحمدللہ! یہ تو ہمارے پیر زادہ ہیں اور ہماری عزّت و آبرو ان کے صدقے باقی رہ گئی ہے۔

کرامات

۱۔       ایک شخص نے عرض کیا کہ خاندانِ مجدّدیہ کی تمام نسبت مجھ کو ایک ہی توجہ میں عطا فرمائیں۔ آپ نے ارشاد کیا کہ یہ معمول کے خلاف ہے نیز اگر تمام نسبت ایک ہی توجہ میں کی جائے تو اس کا تحمّل و برداشت حوصلۂ بشریّت سے باہر ہے۔ مگر سائل اپنے سوال پر مصّر رہا اور مزید الحاج و زاری سے عرض گزار ہوا۔ ناچار آپ نے ایک ہی توجہ سے تمام نسبت القاء فرمائی مگر وہ شخص تاب نہ لاسکا۔ اور فی الفور مرگیا۔

۲۔       آپ کا ایک مرید سخت بیمار ہوگیا اور نزع کی حالت طاری ہوگئی۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے بچّے تھے۔ اُس کے گھر والے آپ کے پاس حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے۔ آپ کو اس کے حال پر رحم آیا اور اُسے اپنے ضمن میں لے لیا۔ وہ شفایاب ہوکر عرصہ دراز تک بقیدِ حیات رہا۔ چونکہ آپ کی رُوح مبارک اُس کی زندگی کی قیّم تھی۔ اس لیے جس دن آپ نے وصال فرمایا وہ شخص بھی دنیا سے چل بسا۔

۳۔      ایک شخص آپ سے بیعت کرنے کے لیے گھر سے روانہ ہوا۔ راستے میں اُسے ایک گھوڑا سوار ملا۔ اُس نے قصدِ سفر پوچھا تو اُس شخص نے جواب دیا کہ میں حضرت خواجہ محمد زبیر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بیعت کرنے کے لیے جا رہا ہوں۔ گھوڑ سوار نیچے اُترا اور کہا کہ میں ہی خواجہ محمد زبیر ہوں۔ وہ شخص بہت خوش ہوا۔ اور درخواستِ بیعت کی۔ آپ نے اُسے داخل سلسلۂ عالیہ مجّددیہ کیا اور اجازت دے دی۔ اُس شخص نے سوچا کہ مَیں اب تو سرہند شریف کے نزدیک پہنچ گیا ہوں۔ لٰہذا کیوں نہ امام ربّانی حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ کے روضۂ مقدس کی زیارت بھی کرتا جاؤں۔ جب سرہند شریف میں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم تھا جو کسی کو دفن کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ جب اُس شخص نے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ حضرت خواجہ زبیر رحمۃ اللہ علیہ وصال فرما گئے ہیں۔ جب اُس نے زیارت کی تو وہی شکل مبارک تھی جس نے اُسے راستے میں بیعت کیا تھا۔

۴۔      ایک شخص کابل سے آپ کی زیارت کے ارادہ سےروانہ ہوا۔ راستے میں اُسے ایک شیر ملا جسے دیکھ کر وہ بہت خوفزدہ ہوگیا۔ اُس شخص نے آپ کی طرف توجہ کی تو آپ فوراً تشریف لائے اور ایک پتھر اٹھا کر شیر پر پھینکا جس سے وہ لومڑی کی طرح دم دبا کر بھاگ گیا اور آپ بھی نظروں سے غائب ہوگئے۔

۵۔       آپ کے مرید خاص شاہ مقیم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ جن دِنوں مَیں مکہ معظمہ میں مقیم تھا۔ تو مجھے آپ کے دیدار کا بے حد و حساب اشتیاق ہوا۔ میں بیعت اللہ شریف کے طواف سے دل کو تسلّی دیتا مگر اطمینان نہ ہوتا بلکہ مزید بے چینی ہوئی۔

کعبہ بھی گیا مگر رہا خیال بُتوں کا

 

زم زم بھی پیا، نہ کبھی پیاس جگر کی

اس حالت اضطراب میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ بھی میرے ساتھ طواف فرما رہے ہیں، میں نے بڑھ کر قدم بوسی کرنا چاہی تو آپ نظروں سے غائب ہوگئے۔ میں واپس اپنی جگہ پر پہنچا تو آپ کو پھر طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ میں پھر بڑھ کر قدم بوسی کرنے لگا تو دوبارہ غائب ہوگئے۔ کئی بار اسیا ہوا۔ میرے علاوہ بہت سے لوگوں نے بھی آپ کو حرمین شریفین میں دیکھا۔

۶۔       آپ کے ایک منظورِ نظر مرید محمد عادل اکبر آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شاہجہان آباد (دہلی) جاتے ہوئے دورانِ راہ لیٹروں سے سامنا ہوگیا۔ ایک نے مجھ پر کمند پھینکنا چاہی۔ میں نے گھبرا کر آپ سے التجا کی۔ آپ نے ظاہر ہوکر اُنہیں ڈانٹا اور وہ بندروں کی طرح بھاگ گئے۔

اڑتیس (۳۸) سال مسندِ قیومیّت پر رونق افروز رہ کر ۴؍ذیقعدہ ۱۱۵۲ھ/۱۷۴۰ء کو آپ نے دہلی میں وصال فرمایا۔ آپ کی نعش مبارک سر ہند شریف لائی گئی۔ اور ۱۱؍ذیقعد بروز جمعرات شیخ سعدالدین کی حویلی میں جسے آپ نے شیخ موصوف کے بیٹے سے بعوض چار ہزار روپے خریدا تھا، دفن کیے گئے۔ ۱۱۵۳ھ میں آپ کے مرقدِ انور پر ایک عالی شان روضہ تعمیر کیا گیا۔ جو رنگا رنگ کے نقش و نگار سے آراستہ تھا اور جس میں چین اور فرنگ (انگلستان) کی گلکاری کی ہوئی تھی۔

 

 (تاریخِ مشائخ نقشبند)

تجویزوآراء