حضرت خواجہ نور محمد چوراہی
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1179 | ||
یوم وصال | 1286 | شعبان المعظم | 12 |
حضرت خواجہ نور محمد چوراہی (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ نور محمد چوراہی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی:حضرت خواجہ نور محمد چوراہی رحمۃ اللہ علیہ۔لقب:بابا جیو۔آپ کا شجرۂ نسب 35 واسطوں سے خلیفہ دوم امیر المونین سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اِس طرح ملتا ہے:حضرت خواجہ نور محمد چوراہی بن خواجہ محمد فیض اللہ بن خان محمد بن علی محمد بن شیخ سلیمان بن سلطان شیخ الاسلام بن عبدالرسول بن عبدالحئی بن شیخ محمد بن شیخ حبیب اللہ بن شیخ امام رفیع الدین بن شیخ نصیر الدین بن شیخ سلیمان بن شیخ یوسف بن شیخ اسحاق بن شیخ عبدللہ بن شیخ شعیب بن شیخ احمد بن شیخ یوسف بن شیخ شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلی بن شیخ نصیر الدین بن شیخ محمود بن شیخ سلیمان بن شیخ مسعود بن شیخ عبداللہ (الواعظ الاصغر) بن شیخ عبداللہ (الواعظ الاکبر) بن شیخ ابوالفتح بن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن شیخ ناصر بن شیخ عبداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عبداللہ بن سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ (تاریخ مشائخِ نقشبند:456/از علامہ قصوری)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1179ھ مطابق 1766ءکو" موضع تیزئی شریف"مضافاتِ وادیِ تیراہ(افغانستان) میں ہُوئی۔ آپ حضرت خواجہ محمد فیض اللہ قدس سرّہ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔
تحصیلِ علم: آپ نے علومِ دینیہ کی اکثر کتابیں حضرت مولانا محمد امین رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں اور انہیں سے یہ تکمیل کی۔ اپنی والدہ ماجدہ سے بھی ابتدائی کتب وکتب فقہ پڑھیں۔ حضرت مولانا محمد امین آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ محمد فیض اللہ قدس سرہ کے خلیفۂ مجاز بھی تھے۔لہٰذا آپ نے تصوّف میں بھی ان سے استفادہ کیا۔پھر والد گرامی قدر سے سلوک کی منزلیں طے کیں۔ چونکہ علومِ ٖظاہری وباطنی مین مہارتِ تامہ اور شہرتِ عامہ حاصل تھی لہٰذا لوگ اپنی الجھنیں لے کر حاضر ہوتے اور آپ اُن کی آن میں تمام گتھیاں سلجھا دیتے اسی دوران آپ نے اپنے قلم سے قرآن مجید کا ایک نسخہ مکمل کیا جو آج بھی دربار ِ عالیہ چورہ شریف میں موجود ہے اور اس کے آخر میں یہ الفاظ رقم ہیں۔ " قرآن مجید بدست خواجہ نورمحمد رحمۃ اللہ علیہ 2/ربیع لثانی1227ھ ازشاگردآں میاں نصراللہ نور اللہ مرقدہ ٗساکن کھودوپور"۔(ایضاً:464)
بیعت وخلافت: سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں آ پ اپنے والد گرامی حضرت خواجہ محمد فیض اللہ تیراہی رحمۃ اللہ علیہ کےدست ِ حق پرست پر بیعت ہوئے،اور سلسلہ تعلیم وسلوک کی منازل طے کرنے کےبعد خلافت واجازت سےمشرف کےگئے۔
سیرت وخصائص: صاحب ِ تقویٰ وعزیمت،شیخِ شریعت وطریقت،سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کےنیر تاباں،امام الاولیاء،قدوۃ الصلحاء،حضرت خواجہ نور محمد چوراہی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ مادرزاد ولی تھے۔جب آپ کی ولادت ہوئی تو والد بزرگوار نے نور محمد نام رکھا اور فرمایا کہ یہ لڑکا امامِ ربّانی حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ کا متبع ہوگا اور اس سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجدّدیہ کو بڑا فروغ حاصل ہوگا۔ آپ کا فیض اتنا عام ہوا کہ لوگ گروہ در گروہ داخل سلسلہ ہونے کے لیے آتے تھے اور ان کو فرصت نہ ملتی تھی۔
حضرت خواجہ نور محمد تقریباً اَسّی سال تیزئی شریف میں فروکش رہے اور ہزاروں تشنہ لوگوں کو فیض وکرم، رُشدو ہدایت اور عشق ومحبت کے چشموں سے سیراب کیا۔ آج بھی ان کے فیض کا ڈنکا بج رہا ہے۔ جب آپ کے روحانی کمالات کا شہرہ عام ہو اتو بعض لوگ حسد وبغض کی آگ میں جل کر درپے آزار ہوگئے۔ آپ تمام باتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے مگر حاسدین کی معاندانہ سرگرمیاں بڑھتی گئیں۔ چپری نامی گاؤں کا ایک حاسد مولوی ولی خاں بغض وعناد کی آتش کا شکار ہوکر جگہ جگہ لوگوں کو آپ کے خلاف ورغلاتا اور بہکاتا پھر تا تھا کہ "آپ کی خدمت میں کوئی نہ جائے کیونکہ آپ کا طریقہ (سلسلہ نقشبندیہ) اچھا نہیں ہے۔ولی خاں کی اِن خرافات سے ناواقف و سادہ لوح افغان مشتعل ہوکر آپ کی مخالفت میں کمر بستہ ہوگئے۔ اور پنجاب سے آنے والے آپ کے عقیدت مندوں کو پریشان کرنے اور لوٹنے لگے۔ جب صورتِ حال انتہائی بگڑ گئی تو آپ نے ولی خاں کو بُلا کر ارشاد فرمایا کہ "اگر میرے عقیدہ عمل اور قول و فعل میں کوئی شرعی سقم ہے تو مجھے آگاہ کرو ورنہ اس فضول اور بلاوجہ مخالفت سے باز آجاؤ"۔ ولی خاں تو محض حسد کا مارا ہوا تھا، عقیدے اور قول و فعل کی خرابی کیا بیان کرتا۔ بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کے مریدوں کو تنگ کرنے لگا۔ آخر کار احباب و اعزہ کی تکالیف برداشت کرنا مشکل ہوگیا تو آپ موضع دراوڑ(تیزئی شریف سے ۱۵ میل دُور) تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے 1284ھ میں چورہ شریف ضِلع اٹک(پنجاب) میں قدومِ میمنت لزوم فرما کر مستقل رہائش اختیار کرلی اور یہیں وصال ہوا۔
فضل وکمال: آپ صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔آپ نےسلسلہ عالیہ نقشبندیہ کےفروغ کےلئے بڑا کام کیا۔اسی طرح سینکڑوں غیرمسلم آپ کی برکت سےدولت اسلام سے مشرف ہوئے۔اسی طرح کئی فاسق وفاجر آپ کی صحبت کی بدولت صاحب ِتقویٰ وفضیلت بن گئے۔ایک مرتبہ آپ دریائے سندھ کو عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوئے۔ اتفاق سے اس کشتی میں سولہ سکھ سپاہی بھی موجود تھے۔ سکھ سپاہیوں میں سے ایک سپاہی بڑی گستاخی سےکہنے لگا: کہ حضرت! "آپ تختہ کے نیچے کھڑے رہیں تاکہ ہمارے کھانے کی چیزیں آپ سے نہ چُھو جائیں"۔ آپ نے ارشاد فرمایا:کہ اللہ تعالیٰ اُن کو چھو جانے کی تکلیف سے بچائے۔ دریں اثنا کشتی روانہ ہوئی تو دورانِ سفر چند مسائل پر گفتگو ہوئی۔ آپ نے اپنے خاص اندازِ محبت سے سکھوں کو مسائل سمجھائے، ابھی آپ کی کشتی کنارہ پر نہ پہنچی تھی کہ آپ کی کرامت سے تمام سکھ مشرف بااسلام ہوگئے۔ دریا کے کنارے سے موضع "خوشحال گڑھ" میں پہنچ کر سب نے حجامت بنوا کر نماز ظہر ادا کی۔
عارف ِ کامل حضرت میاں محمد فرماتےہیں:
؏:مرد ملے تے درد نہ چھوٹے اوگن دے گُن کردا۔۔۔۔ کامل لوک محمد بخشا لعل بناون پھتردا۔
آپ کے فرمودات آب زر سے لکھنے کےقابل ہیں۔
1۔آپ فرماتےہیں: فقیر کے ’’ف‘‘سے مراد ’’فاقہ‘‘، ’’ق‘‘سے مراد ’’قناعت‘‘، ’’ر‘‘سے مراد ’’ریاضت‘‘ اور ’’ی‘‘ سے مراد ’’یادِ الٰہی‘‘ ہے۔ اگر کوئی شخص یہ اُمور بجالاوے تو ’’ف‘‘ سے ’’فضلِ الٰہی‘‘، ’’ق‘‘ سے ’’قُرب الٰہی‘‘، ’’ی‘‘ سے ’’یارئ خدا‘‘ اور ’’ر‘‘ سے ’’رحمت الٰہی‘‘ مراد ہے، حاصل ہو۔ ورنہ ’’ف‘‘ سے ’’فضیحت‘‘، ’’ق‘‘ سے ’’قہر الٰہی‘‘، ’’ی‘‘ سے ’’یاس‘‘ اور ’’ر‘‘ سے ’’رسوائی‘‘ ملے۔2۔طالبِ ذوق و شوق اور کشف و کرامت طالب خدا نہیں ہوسکتا۔3۔جس طرح طلبِ حلال مومنوں پر فرض ہے اسی طرح ترکِ حلال عارفوں پر فرض ہے۔ کیونکہ درویشوں کی فاقہ کی رات معراج کی رات ہے۔4۔ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ شریعت پر استقامت رکھے۔
5۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دنیا طلب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُسے آخرت سے محروم رکھتا ہے کیونکہ دوستانِ الٰہی کے لیے دنیا راحت کی جگہ نہیں، راحت کی جگہ تو آخرت ہے۔6۔ترکِ دنیا دل سے ہوتی ہے(دل میں دنیاکی محبت نہ ہو) نہ کہ اسباب سے۔7۔ فقیر دل کی مراد سے خالی ہونے کو کہتے ہیں(جس دل میں معرفت خدا نہ ہو) نہ کہ ہاتھ خالی ہونے کو۔8۔لوگوں کے عیبوں کو نیکی کی طرف تاویل کرو اور اپنی اچھی باتوں کو عیب کی طرف تاویل کرو۔9۔ خواہ دوست ہو یا دشمن سب سے اخلاق سے پیش آنا چاہئے۔حضرت خواجہ صاحب اپنے دشمنوں سےانتقام نہیں لیتے تھے۔آپ نےافغانستان سےہجرت کرنا برداشت کیالیکن معاندین وحاسدین سےانتقام نہ لیا۔
تاریخِ وصال: آپ کاوصال 12شعبان المعظم 1286ھ،مطابق 17نومبر1869ء بروزبدھ ہوا۔آپ کامزار پرانوار"چورہ شریف"ضلع اٹک میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: تاریخ مشائخ نقشبند۔از علامہ مولانا محمد صادق قصوری