حضرت خواجہ نور محمد چوراہی

حضرت خواجہ نور محمد چوراہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت خواجہ نُور محمد المعروف بابا جیو کی ولادت باسعادت ۱۱۷۹ ھ میں موضعِ تیزئی شریف مضافاتِ تیراہ(افغانستان) میں ہُوئی۔ آپ حضرت خواجہ محمد فیض اللہ قدس سرّہ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ فیض باطنی والد گرامی سے ہی حاصل کیا تھا۔ آپ کا شجرۂ نسب(۳۳) واسطوں سے سیّدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔

آپ مادرزاد ولی تھے۔ حضرت خواجہ محمد فیض اللہ قدس سرہ کی دو بیویاں تھیں، بڑی بیوی سے صرف ایک صاجزادی تھی جبکہ دوسری بیوی کے ابھی تک کوئی اولاد نہ تھی، پہلی بیوی نے بارگاہِ ایزوی میں منّت مانی تھی کہ ہمارے گھر فرزندِ ارجمند پیدا ہو تو میں تادم واپسیں روزانہ ایک سو نوافل ادا کیا کروں گی جبکہ چھوٹی بیوی نے یہ وعدہ کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے اولادِ نرینہ عطا فرمائی تو میں بڑی بیوی کو پیش کردوں گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی دعا قبول فرمائی اور چھوٹی بیوی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام والد بزرگوار نے نور محمد رکھا اور فرمایا کہ یہ لڑکا امامِ ربّانی مجدّد الف ثانی قدس سرہ کا متبع ہوگا اور اس سے سلسلہ عالی نقشبندیہ مجدّدیہ کو فروغ حاصل ہوگا۔

آپ نے علومِ دینیہ کی اکثر کتابیں حضرت مولانا محمد امین رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں اور انہیں سے یہ تکمیل کی۔ اپنی والدہ ماجدہ سے بھی ابتدائی کتب وکتب فقہ پڑھیں۔ حضرت مولانا محمد امین آپ کے والد گرامی حضرت خواجہ محمد فیض اللہ قدس سرہ کے خلیفۂ مجاز بھی تھے۔لہٰذا آپ نے تصوّف میں بھی ان سے استفادہ کیا۔پھر والد گرامی قدر سے سلوک کی منزلیں طے کیں۔ چونکہ علومِ ٖظاہری وباطنی مین مہارتِ تامہ اور شہرتِ عامہ حاصل تھی لہٰذا لوگ اپنی الجھنیں لے کر حاضر ہوتے اور آپ اُن کی آن میں تمام گتھیاں سلجھا دیتے اسی دوران آپ نے اپنے قلم سے قرآن مجید کا ایک نسخہ مکمل کیا جو آج بھی دربار ِ عالیہ چورہ شریف میں موجود ہے اور اس کے آخر میں یہ الفاظ رقم ہیں۔ ’’ قرآن مجید بدست خواجہ نورمحمد رحمۃ اللہ علیہ ۲؍ربیع لثانی۱۲۲۷ھ ازشاگردآں میاں نصراللہ نور اللہ مرقدہ ٗساکن کھودوپور۔‘‘

جب آپ سجادہ نشین ہوئے تو سب سے پہلے آپ کی خدمت کی خدمت میں دوافغان بھائی اللہ نور اور رجب نور حاضر ہو کر شرف بیعت سے مشرف ہوئے اور آپ کی خصوصی توجہ کے باعث سلوک ومعرفت کی تمام منزلیں جلد طے کر کے منصب اجازت وخلافت پر بھی فائز ہوگئے۔ ان کا فیض اتنا عام ہوا کہ لوگ گروہ در گروہ داخل سلسلہ ہونے کے لیے آتے تھے اور ان کو فرصت نہ ملتی تھی۔ یہ دونوں بھائی صاحب کشف وکرامت تھے۔

حضرت خواجہ نور محمد تقریباً اَسّی سال تیزئی شریف میں فروکش رہے اور ہزاروں تشنہ لوگوں کو فیض وکرم، رُشدو ہدایت اور عشق ومحبت کے چشموں سے سیراب کیا۔ آج بھی ان کے فیض کا ڈنکا بج رہا ہے۔ جب آپ کے روحانی کمالات کا شہرہ عام ہو اتو بعض لوگ حسد وبغض کی آگ میں جل کر درپئے آزار ہوگئے۔ آپ تمام باتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے مگر حاسیدین کی معاندانہ سرگرمیاں بڑھتی گئیں۔ چپری نامی گاؤں کا ایک حاسد مولوی ولی خاں بغض وعناد کی آتش کا شکار ہوکر جگہ جگہ لوگوں کو آپ کے خلاف ورغلاتا اور بہکاتا پھر تا تھا کہ ’’آپ کی خدمت میں کوئی نہ جائے کیونکہ آپ کا طریقہ (سلسلہ نقشبندیہ) اچھا نہیں ہے۔‘‘

ولی خاں کی اِن خرافات سے ناواقف و سادہ لوح افغان مشتعل ہوکر آپکی مخالفت میں کمر بستہ ہوگئے۔ اور پنجاب سے آنے والے آپ کے عقیدت مندوں کو پریشان کرنے اور لوٹنے لگے۔ جب صورتِ حال انتہائی بگڑ گئی تو آپ نے ولی خاں کو بُلا کر ارشاد فرمایا کہ ’’اگر میرے عقیدہ عمل اور قول و فعل میں کوئی شرعی سقم ہے تو مجھے آگاہ کرو ورنہ اس فضول اور بلاوجہ مخالفت سے باز آؤ‘‘۔ ولی خاں تو محض حسد کا مارا ہوا تھا، عقیدے اور قول و فعل کی خرابی کیا بیان کرتا۔ بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کے مریدوں کو تنگ کرنے لگا۔ آخر کار احباب و اعزہ کی تکالیف برداشت کرنا مشکل ہوگیا تو آپ موضع دراوڑ(تیزئی شریف سے ۱۵ میل دُور) تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے ۱۲۸۴ھ میں دُور چورہ شریف ضِلع اٹک(پنجاب) میں قدومِ میمنت لزوم فرما کر مستقل رہائش اختیار کرلی اور یہیں ۱۲؍ شعبان ۱۲۸۱ھ ؍ ۱۷؍ نومبر ۱۸۶۹ء کو رحلت فرمائی۔ خلیفہ مولوی مست علی ساکن متراں والی ضِلع سیال کوٹ نے یہ قطعۂ تاریخ وصال کہا۔

رفت نُور محمّد ازدنیا
مست مسکین کہ ہست خادمِ اُو

کہ ہم عمر خود نگفتہ در دغ
سال تاریخ اُوبگفت ’’فروغ‘‘
۱۲۸۶ھ

آپ کے چاروں صاحبزادے خواجہ احمد گل، خواجہ فقیر محمد، خواجہ دین ،محمد اور خواجہ شاہ محمد قدس اسرار ہم باکمال تھے۔ یہ ہر چہار حضرات آپ کی رحلت کے بعد مسندِ خلافت پر بیٹھے۔ آپ کے انتقال کے وقت آپ کے پاس دوسرے صاحبزادے حضرت فقیر محمد رحمۃ اللہ علیہ موجود تھے اور سرِ مبارک آپ کا اُن کے زانو پر تھا۔ اور انہوں نے بدستِ خود تجہیز و تکفین کی اور مبارک ہاتھوں سے آپ کو لحد شریف میں لٹایا اور آپ کا جو کچھ فیض باطنی اور خزانہ مخفی تھا وہ اُسی وقت اُن کو عطا کیا گیا۔

یُوں تو آپ کے تمام خلفاء ایک سے بڑھ کر ایک تھے مگر خواجہ انور خٹکی، خواجہ شاہ نامدار ہنتیا لیوی المعروف ہاوئی نامدار، خواجہ محمد منیر ہوشیار پوری اور حافظ عبداللطیف قصہ خوانی رحمۃ اللہ علیہ آسمان شہرت پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکے اور ایک عالم نے اُن سے رُوحانی فیض پایا۔

آپ کی کرمات بے حد و حساب ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

۱۔ آپ کے ایک مخلص عقیدت مند مستری جان محمد موضع کنٹ کے ہاں اولاد نہیں تھی، جس کی وجہ سے وہ نہایت پریشان رہتا تھا۔ ایک روز خیال آیا کہ میرا یہ تمام ساز و سامان آلاتِ آہنگری اور مال و دولت کس کام ہے جبکہ میرے بعد ان کو کام میں لانے والا میرا کوئی وارث نہیں ہے۔ یہ خیال آتے ہی اپنے قدیمی یارِ طریقت میاں نیک محمد رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں بمعہ آلاتِ آہنگری آپ کی خدمت میں دراوڑ شریف حاضر ہوا اور حالِ دل عرض کیا اور روتے ہوئے کہا۔

رَحم کُن برما کہ نا کارہ ایم
چارۂ ماکن کربے چارہ ایم

ہم پر رحم کر کہ ہم کنارہ ہیں
ہمارا چارہ کر کہ ہم بغیر چارہ کے ہیں

آپ نے بکمال شفقت اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ’’اللہ رب العزّت عنقریب تمہیں اپنی عنایات، نواز شات اور کرم نوازیوں سے مشرّف فرمائے گا‘‘۔ بوقتِ رُخصت پھر دُعا فرمائی اور ارشاد کیا کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہیں دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائے گا۔ پہلے بیٹے کا نام سلیمان، دوسرے کا غلام محمد اور بیٹی کانام عائشہ بی بی رکھنا۔ لیکن افسوس کہ سلیمان تمہیں داغِ مفارقت دے جائے گا جبکہ غلام محمد صاحب اولاد ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

۲۔ مذکورہ بالا مستری جان محمد کو اُس کے گاؤں کا ایک شخص ناجائز تنگ کرتا تھا اور نقصان پہنچاتا تھا۔ آپ نے خواب میں چند مخلصین کو مشرّفِ بزیارت کرکے تاکید فرمائی کہ فلاں آدمی ہمارے جان محمد کو تنگ کرتا ہے، اُسے منع کرو ورنہ اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ سب لوگوں نے اُس شخص کو باری باری سمجھایا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ جان محمد کے درپئے آزاد ہوگیا۔ چند دن بعد گاؤں کے بہت سے لوگ ایک جگہ تماشہ دیکھنے جارہے تھے، وہ شخص بھی اپنی گھوڑی پر سوار تھا کہ راستہ میں گھوڑی نے اُسے ایسا گرایا کہ اس کا تمام جسم چکنا چور ہوگیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے دم توڑگیا۔

مباش درپئے آزار دہرچہ خواہی کن
کہ درشریعتِ ماغیرازیں گناہے نیست

’’تو جو کچھ چاہتا ہے کہ مگر کسی کے درپے آزار نہ ہو، کہ ہماری شریعت میں اس سے بڑھ کر کوئی اور گناہ نہیں ہے۔

۳۔ ایک دفعہ آپ پنجاب کے مختلف مقامات کا دورہ فرما کر واپس تشریف لے جارہے تھے۔ جب دریائے سندھ کو عبور کرنے کے لیے کشتی میں اسوار ہوئے تو ایک فقیر مسمّی بابا جمال اورنگ آبادی، آپ کو نذر پیش کرنے کے لیے دوڑا۔ دریں اثنا کشتی چل پڑی تو اس نے ملاح کو آواز دی کہ ذرا کشتی روکنا۔ ملاح نے کشتی کھڑی کردی تو بابا جمال کنارے پر کھڑا ہوکر روپیہ نظر کرنے لگا۔ جلدی میں اُس کے ہاتھ سے روپیہ دریا میں گر گیا اور پریشان ہوکر رونے لگا کہ وائے قسمت میری نذر قبول نہیں ہُوئی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آہ وذاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خلوصِ دل سے دیا ہُوا نذرانہ بارگاہِ ایزاوی میں قبول ہوچکا ہے۔ تلاش کرو روپیہ ضرور مل جائے گا۔

بابا جمال نے پانی میں ہاتھ ڈالا تو پہلی مرتبہ ہی روپیہ اُس کے ہاتھ لگا اور آپ کی خدمتِ اقدس میں بطور نذر پیش کیا۔ یہ آپ کی زبان سے نکلی ہوئی بات تھی کہ روپیہ مل گیا اور نہ کہاں دریائے سندھ کی طوفانی موجیں اور کہاں اُس کی گہرائی میں روپیہ کی تلاش۔

یہ منظر دیکھ کر تمام حاضرین متعجب و ششدر رہ گئے اور طوقِ غلامی سے مشرّف ہوکر داخل طریقہ عالیہ نقشبندیہ مجدّدیہ ہوئے۔ فقیر بابا جمال کو اُسی روز جذب و مستی کی حالت وارد ہوگئی اور وہ اِسی سرشاری میں زبان حال سے کہتا پھرتا۔

ہر ایک نے تجھے اپنی نظر سے پہچانا
جُدا جُدا ہے تیرا اَنداز دلرُبائی کا

۴۔ ایک مرتبہ محمد شاہ نامی شخص صُحبتِ بداں میں گرفتار ہوا۔ آپ کی صاحبزادی کا زیور اور تلوار چوری کرکے لے گیا۔ آپ کی خدمتِ عالیہ میں اطلاع کی گئی تو آپ نے چھوٹے صاحبزادے حضرت شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا کہ ’’محمد شاہ کا پتہ لگاؤ‘‘۔ اُنہوں نے پتہ کرکے عرض کیا کہ موضع ’’چُنگی‘‘ چلا گیا ہے۔ آپ نے ارشاد کیا کہ ’’صبح سے پہلے پہلے اُس سے ملو اور کہو کہ زیور اور تلوار واپس دے دے اور انشاء اللہ تعالیٰ اُس کی زندگی میں کل کا دِن آخری دِن ہے‘‘۔

حضرت شاہ محمد رحمۃ اللہ علیہ حسب الحکم تلاش میں نکلے اور نماز ظہر سے قبل ہی اُس سے زیور اور تلوار واپس لے گئے۔ آپ کے ارشاد کے مطابق عصر کی نماز کے وقت اُس کی گردن پر ایک سُرخ رنگ کی ذرا سی علامت ظاہر ہوئی۔ وہ اُسی وقت کہنے لگا کہ یہ آپ کی بد دُعا کا اثر ہے اور یہ میری موت کی نشانی ہے۔ چنانچہ وہ نماز عشاء سے پہلے ہی اِس دنیائے فانی سے کوچ کرگیا۔

۵۔ ایک دفعہ آپ تیزئی شریف کے نواحی گاؤں ’’لحاظ‘‘ میں تشریف لے گئے۔ گاؤں کے لوگوں نے پانی کی قلت و تکلیف کا ماجرا عرض کرکے دُعا کی درخواست کی۔ آپ نے ارشاد کیا کہ اچھا آج ہم استخارہ کریں گے تم لوگ بھی استخارہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم ہوگا اُس پر عمل کریں گے۔ سب لوگ نماز فجر کے بعد حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ حضور! آپ کی طرف سے ہماری مشکل حل ہونے کا اشارہ ہوا ہے۔ ہم حاضر ہیں جیسا آپ حکم فرمائیں، آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور دوستوں کو ساتھ لے کر مسجد سے پہاڑ کے گوشے کی طرف تشریف لے گئے۔ تقریباً ایک میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد رُک گئے اور ارشاد فرمایا کہ بس اسی جگہ ٹھہرنے کا حکم ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اسی جگہ سے ہی ہمارا مقصد و مدّعا حاصل ہوگا۔

آپ نے اُس جگہ دو نفل ادا کیے اور کدال دستِ مبارک میں پکڑ کر زمین کھودنا شروع کردی نیچے سے ایک پتھر نکلا۔ آپ نے بِسم اللہ شریف پڑھ کر تین ضربیں لگائیں، پتھر اپنی جگہ سے ہلا۔ اتنے میں عقیدت مندوں کے ہجوم نجوم نے کھدائی کا کام اپنے ذمہ لے لیا اور آدھ گھنٹہ کی سعئی بلیغ کے بعد پتھر کو باہر نکالا۔ اور اسی جگہ سے نہایت ہی عمدہ شیریں اور شفاف پانی کا چشمہ جاری ہوا۔ آپ کے ارشاد کے مطابق کھدائی کرکے پانی آبادی کی طرف لے جانے کا کام شروع کردیا۔ آپ نے اس جگہ پر تین گائے کی قربانی دی۔ نماز عصر تک پانی موضع ’’لحاظ‘‘ تک پہنچا دیا گیا اور اسی پانی سے وضو کرکے نماز ادا کی گئی۔

مسجد سے آگے پانی کے گزرنے میں ایک بہت بڑا پتھر حائل تھا۔ پانی کو دوسری طرف سے گزارنے کے لیے ایک زمیندار سے کہا گیا کہ وہ اپنی زمین سے پانی گزارنے دے مگر وہ رضا مند نہ ہوا۔ سب حاضرین حیران و پریشان تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ غم و فکر مت کرو۔ اللہ تعالیٰ خود ہی پانی گزرنے کا راستہ بنادے گا۔ چنانچہ نصف شب ایک بہت بڑا آوازہ آیا جس سے لوگوں کے دل ہل گئے۔ سب لوگ پیر و جواں اور خورد وکلاں جاگ اُٹھے اور پھر تمام شب انہیں نیند نہ آئی۔ صبح نماز کے لیے مسجد میں گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُس پتھر میں تین گز مربع(مدوّر شکل) کا سوراخ ہوچکا ہے اور اُس سے پانی گزر رہا ہے۔سچ ہے کہ

اولیاء راہست قوّت ازالہٰہ
تیر جستہ باز گرد انند ز راہ

’’اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت بخشی ہے کہ وہ چھوڑے ہُوئے تیر کو راستے سے واپس لاسکتے ہیں‘‘۔

یہ چشمہ اب تک جاری و ساری ہے اور بے شمار لوگ اس کی زیارت کرچکے ہیں۔ حضرت خواجہ پیر محمد شفیع سجادہ نشین چورہ شریف(المتونی ۱۹۶۶ء) کا ارشاد ہے کہ جب وہ ۱۹۵۱ء میں چند احباب کے ہمراہ تیراہ شریف تشریف لے گئے تھے تو وہ چشمہ بدستور موجود تھا۔

۶۔ ایک مرتبہ آپ دریائے اٹک(دریائے سندھ) کو عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہُوئے۔ اتفاق سے اس کشتی میں سولہ سکھ سپاہی بھی موجود تھے۔ سکھ سپاہیوں میں سے ایک سپاہی بڑی گستاخی سے بولا اور کہا کہ ’’حضرت! آپ تختہ کے نیچے کھڑے رہیں تاکہ ہمارے کھانے کی چیزیں آپ سے نہ چُھو جائیں‘‘۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اُن کو چھو جانے کی تکلیف سے بچائے۔ دریں اثنا کشتی روانہ ہوئی تو دورانِ سفر چند مسائل پر گفتگو ہوئی۔ آپ نے اپنے خاص اندازِ محبت سے سکّھوں کو مسائل سمجھائے، ابھی آپ کی کشتی کنارہ پر پہنچی تھی کہ آپکی کرامت سے تمام سکھ مشرف باسلام ہوگئے۔ دریا کے کنارے سے موضع ’’خوشحال گڑھ‘‘ میں پہنچ کر سب نے حجامت بنوا کر نماز ظہر ادا کی۔

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

نگاہِ ولی میں یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

عارفِ کامل حضرت میاں محمد محمد جہلمی﷫ نے بھی کیا خوب کہا ہے۔

مَرد ملے تے درد نہ چھوٹے اوگن دے گُن کردا
کامل لوک محمد بخشا لعل بناون پھتروا

ارشاداتِ قدسیہ
۱۔ ایک دن ایک درویش نے عرض کیا کہ حضور یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ دوسرے لوگ صدہا ریاضت و مجاہدات کرکے بھی اس قدر جوشِ عشق و محبت اور جزب و فیض حاصل نہیں کرپاتے جس قدر آپ کے غلام و خدّام چند روز میں حاصل کرلیتے ہیں آپ نے فرمایا:

’’دوست یا اولاد اُس شخص کی تنگ دست و محتاجی ہوتی ہے جن کا باپ یا رفیق غریب و مفلس ہو اور جن کا باپ، رفیق مالدار ہو اُن کو زیادہ تر خلوص و محبت کی ضرورت ہے، محنت کی چنداں حاجت نہیں‘‘۔

۲۔ فرمایا کہ آدمی کو دو چیزیں درست اور دو چیزیں شکستہ چاہئیں۔ درست چیزں یہ کہ: (۱) دیں درست (۲) یقین درست شکستہ چیزیں یہ کہ (۳) دست شکستہ (۴) پاشکستہ۔

۱۔ دیں دست سے مراد یہ ہے کہ قولاً فعلاً اعتقاداً شریعت کے موافق ہو۔

۲۔ یقین درست کے معنی موا عید الٰہی پر پُورا پُورا یقین ہے۔

۳۔ دست شکستہ کا مطلب یہ کہ اشارۃ یا صریحاً کسی سے کسی چیز کا مطلب نہ ہو۔

۴۔ پاشکستہ کا مطلب یہ کہ کسی کے پاس کسی غرض سے نہ جاوے یعنی محتاجی نہ کرے۔

۳۔ فقر و فاقہ کمال طریقہ۔
۴۔ فقیر کے ’’ف‘‘ سے مراد ’’فاقہ‘‘، ’’ق‘‘ سے مراد ’’قناعت‘‘، ’’ر‘‘ سے مراد ’’ریاضت‘‘ اور ’’ی‘‘ سے مراد ’’یادِ الٰہی‘‘ ہے۔ اگر کوئی شخص یہ اُمور بجالاوے تو ’’ف‘‘ سے ’’فضلِ الٰہی‘‘، ’’ق‘‘ سے ’’قُرب الٰہی‘‘، ’’ی‘‘ سے ’’یارئ خدا‘‘ اور ’’ر‘‘ سے ’’رحمت الٰہی‘‘ مراد ہے، حاصل ہو۔ ورنہ ’’ف‘‘ سے ’’فضیحت‘‘، ’’ق‘‘ سے ’’قہر الٰہی‘‘، ’’ی‘‘ سے ’’یاس‘‘ اور ’’ر‘‘ سے ’’رسوائی‘‘ ملے۔

۵۔ طالبِ ذوق و شوق اور کشف و کرامت طالب خدا نہیں۔

۶۔ جس طرح طلبِ حلال مومنوں پر فرض ہے اسی طرح ترکِ حلال عارفوں پر فرض ہے۔ کیونکہ درویشوں کی فاقہ کی رات معراج کی رات ہے۔

۷۔ جو مخدوم بننا چاہتا ہے، اُس کو چاہیئے کہ پیر کی خدمت کے کیونکہ

ہر کہ خدمت کرد اُو مخدوم شُد
ہر کہ خودرا دید اُو محروم شُد

’’جس کسی نے خدمت کی وہ مخدوم بن گیا اور جس نے اپنے آپ کو دیکھا وہ محروم رہا‘‘۔

۸۔ رضائے پیر و مرشد سببِ قبولیت خلق و خالق ہے۔ آرزو گئی پیر سببِ نفرتِ حق اور خلق ہے۔

۹۔ پیر کی رضاء سے دیکھ حاصل ہوتا ہے جو کسی مجاہدہ اور ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا۔

۱۰۔ ہر روز پچیس ہزار مرتبہ اسمِ ذات کا ذکر ضروری ہے۔

۱۱۔ فقیر دل کی مراد سے خالی ہونے کو کہتے ہیں نہ کہ ہاتھ خالی ہونے کو۔

۱۲۔ لوگوں کے عیب کو نیکی کی طرف تاویل کرو اور اپنی اچھی باتوں کو عیب کی طرف تاویل کرو۔

۱۳۔ میں تو ہر ایک کو نیک ہی جانتا ہوں۔ جیسا کہ شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔

مرا پیرِ دانائے مُرشد شہاب
دو اندر فرمود برروئے آب

’’میرے دانا پیر و مرشد حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے دریا کے کنارے پر مجھے دو نصیحتیں فرمائیں‘‘۔

یکے آں کہ برخویش خود بیں مباش
دوم آنکہ بر غیر بد میں مباش

’’پہلی یہ کہ تو خود پسند اور خودبیں نہ بن۔ دوسری یہ کہ غیر کو بُری نظر سے دیکھ۔

۱۴۔ طالبانِ حق کو چاہیئے کہ ایک لمحہ جناب الٰہی سے غافل نہ ہوں تاکہ توجہ اللہ بے مزاحمتِ اغیار ہو کہ اسی کو دوامِ حضور بھی کہتے ہیں۔ اور کوئی مقصود سوائے اللہ تعالیٰ دل میں نہ رہے۔

۱۵۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دنیا طلب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُسے آخرت سے محروم رکھتا ہے کیونکہ دوستانِ الٰہی کے لیے دنیا راحت کی جگہ نہیں، راحت کی جگہ تو آخرت ہے۔

۱۶۔ ترکِ دنیا دل سے ہوتی ہے نہ کہ اسباب سے۔

۱۷۔ طالبِ مولا کو سوائے ذاتِ باری کے کسی اور سے محبّت نہیں ہونی چاہیئے۔

۱۸۔ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ شریعت پر استقامت رکھے۔

۱۹۔ ذکرِ اسمِ ذات سے جذبہ پیدا ہوتا ہے اور نفی اثبات سے سلوک۔

۲۰۔ جس قدر طالب میں شکست و عاجزی زیادہ ہوتی ہے اُسی قدر فیض اُس پر زیادہ وارد ہوتا ہے۔

۲۱۔ سالک کو چاہیئے کہ نیچی نظر رکھ کر چلا کرے۔

خوئے سگاں ہست بہر سونگاہ
شیر سر افگندہ دو سوئے راہ

کتّوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر طرف دیکھتے ہیں جبکہ شیر سر جھکا کر راستہ میں چلتا ہے۔

۲۲۔ زیادہ بولنا اور ہنسنا غفلت سے ہے۔

۲۳۔ سلوک حاصل کرنے کی چند شرطیں ہیں۔ استعدادِ کامل، پیر کامل اور فیض الٰہی۔

۲۴۔ ایک مراد ہوتے ہیں ایک مرید۔ مراد وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف کھینچے اور مرید وہ ہے جو خود محنت و ریاضت کر کے مقام حاصل کرتے ہیں۔

۲۵۔ مدارِ کار دو چیزوں پر ہے۔ اول، محبتِ پیر۔ دوم، اتباعِ شریعت۔

۲۶۔ رُستگاری عبادت میں نہیں گناہوں سے بچنے میں ہے۔

۲۷۔ فقر بڑی دولت ہے یہ دولت جس قدر ہوسکے پوشیدہ رکھنی چاہیئے۔

۲۸۔ خواہ دوست ہو یا دشمن سب سے اخلاق سے پیش آنا چاہیئے۔

(تاریخِ مشائخ نقشبند)

تجویزوآراء