حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 0806 | رمضان المبارک | |
یوم وصال | 0895 | ربيع الأول | 29 |
حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: خواجہ عبید اللہ۔ لقب: ناصر الدین، احرار۔’’خواجۂ احرار ‘‘کےعظیم لقب سے معروف ہیں۔سلسلہ ٔنسب: خواجہ عبید اللہ احرار بن محمود بن قطبِ وقت خواجہ شہاب الدین۔آپ کا خاندانی تعلق عارف باللہ حضرت خواجہ محمد باقی بغدادیکی اولاد سے ہے۔والدہ ماجدہ کا تعلق عارف باللہ شیخ عمر یاغستانی کی اولاد امجاد سے ہے،اور مشہور بزرگ حضرت محمود شاشی کی دخترنیک اختر تھیں۔(تاریخ مشائخِ نقشبند؛ ص،237؛ از؛ مولانا صادق قصوری)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت یاغستان مضافاتِ تاشقند (ازبکستان) میں ماہِ رمضان المبارک 806ھ مطابق 1404ء کو ہوئی۔
بچپن میں آثارِ سعادت: بچپن ہی سے آثارِ رشد و ہدایت اور انوارِ قبول و عنایت آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ ولادت کے بعد چالیس دن تک جو کہ ایامِ نِفاس ہیں، آپ نے اپنی والدہ کا دودھ نہ پیا۔جب انہوں نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا تو پینا شروع کردیا۔تین چار سال کی عمر میں اللہ جل شانہ کی معرفت کی باتیں کرکے سب کو حیران کردیتےتھے۔ آپ کے جدِّ امجد خواجہ شہاب الدین جو کہ قطبِ وقت تھے۔ان کا جب وقتِ اخیر آیاتو اپنے پوتوں کو الوداع کہنے کے لیے بلایا۔ خواجہ ٔاحرار اس وقت بہت چھوٹے تھے، جب جدِّ امجد کے حضور گئے تو وہ ان کو دیکھ کر تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اور پھرگود میں لے کر فرمایا : ’’کہ اس فرزند کے بارے میں مجھے بشارتِ نبوی ملی ہے کہ یہ نونہال مستقبل میں ایک جہان کا پیر و مرشد ہوگا۔اور اس سے شریعت و طریقت دونوں کو رونق حاصل ہوگی۔(ایضا: 237)
تحصیلِ علم: آپ بچپن سے ہی عام بچوں سے مختلف تھے۔کھیل کھود سے کوئی شغف نہیں رکھتےتھے۔آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم کو آپ کی تعلیم کا بہت خیال تھا۔اس لیے وہ آپ کو تاشقند سے سمر قند لےگئے۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے ایک روز قبل مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام عبیداللہ احرار ہے۔ اُس نے تمام روئے زمین کو اپنی روحانیت میں لے لیا ہے۔ اور وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمرقند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوانِ رعنا کون ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ یہی’’خواجہ عبیداللہ احرار ہیں، عنقریب دنیا کے سلاطین ان کے در کے گدا ہوں گے‘‘۔
سمر قند ہی میں آپ حضرت سیّد قاسم تبریزی کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی خلیفہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی کی زیارت کی جو سید امیر حمزہ بن سیّد امیر کلال قدس سرہما کے خلیفۂ اول تھے۔ حضرت خواجہ نقشبندکے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوانی کی خدمت میں بھی بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سیّد قاسم تبریزی اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔خواجہ فضل اللہ ابو للیثی (جو سمر قند کے اکابر علماء میں سے تھے) فرماتے تھے: کہ ہم خواجہ عبیداللہ احرار کے باطن کے کمال کو تو نہیں جانتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نےظاہری طورپرمروجہ نصاب سے بہت کم پڑھا ہے۔لیکن اللہ جل شانہ نے ان کو ظاہری علوم میں بھی ایسا کمال عطاء فرمایا ہے کہ جب وہ تفسیرِ بیضاوی کی مشکل عبارات پر علماء کےسامنے اشکال پیش کرتے۔تو سب علماء اس کےحل سےعاجزآجاتے۔(ایضا: 237)
بیعت و خلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں حضرت یعقوب چرخی(خلیفہ خواجۂ خواجگان حضرت بہاء الدین نقشبند) کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔حضرت خواجہ احرارفرماتے ہیں: جب آپ نے بیعت کےلئے ہاتھ بڑھایا۔تو ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت اُن کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کوسمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا اور صورت تبدیل کرکے ایسی خوب صورت شکل اور شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بے خود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں۔ آپ نے دوسری دفعہ اپنا دستِ مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اُس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو، میں نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسبِ طریقہ حضراتِ خواجگان نقشبندیہ مجھے نفی و اثبات کے اذکا رسکھائے اور فرمایا کہ جو کچھ ہمیں خواجہ نقشبندسے پہنچا ہے یہی ہے اگر تم بطریقِ جذب طالبوں کی تربیت کرو تو تمہیں اختیار ہے،سلسلہ نقشبندیہ کی اشاعت میں کوشش کرنا اور کسی کا خوف مت کرنا۔اہل لوگوں کی تربیت کرنا‘‘۔حضرت خواجہ احرار کو بیعت کےساتھ خلافت و اجازت سےنواز دیا گیا۔وہاں پہلے سےجودرویش موجود تھے ان کو غیرت آئی کہ ہمیں عرصہ ٔدراز ہوچکاہےکہ کبھی ایسا لطف نہیں جو اس نووارد پر کیا ہے۔مولانا عبدالرحمن جامیؔ لکھتے ہیں: ’’کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی فرماتےتھےکہ جوطالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے تو اسےخواجہ عبید اللہ احرار کی طرح آنا چاہئےکہ چراغ،تیل،اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانےکی دیرہے‘‘۔(ایضا:239)
سیرت و خصائص: ناصر الاسلام والدین،شیخ الاسلام،قطب الوقت،سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کےنیرِتاباں،سید الاحرار،عارف باللہ،عاشقِ رسول اللہ، صاحبِ معارفِ و اسرار،حضرت خواجہ عبیداللہ احرار۔آپمادرزادولی کامل تھے۔خاندانی لحاظ سےبھی آپ کا تعلق ایک علمی و روحانی خانوادے سے تھا۔لیکن آپ ہمارے زمانےکےاخلاف کی طرح ’’پدرم سلطان بود‘‘کی طرح نہ تھے۔بلکہ علم وعمل،تقویٰ و فضیلت کےاعلیٰ معیار پر فائز تھے۔آپ کالقب ’’احرار‘‘ ہے۔اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حر (واحد؛احرار) اُسے کہتے ہیں، جو عبودیت کی حدود کو بدرجۂ کمال قائم کرے،اور ماسوی اللہ کی غلامی سے آزاد ہوجائے۔
بچپن ہی سےاہل اللہ سے سچی عقیدت تھی۔کم سنی میں ہی مزارات ِ مشائخ پرحاضرہوتے۔جب سن بلوغ کو پہنچے تو تاشقندکےمزارات پرروزانہ حاضری دیتے۔حضرت خواجہ عبیداللہ احرار خواجہ یعقوب چرخی قدس سرہ کی خدمت سے رخصت ہوکر پھر ہرات میں آئے اور کم و بیش ایک سال وہاں رہے۔ انتیس سال کی عمر میں اپنے وطن کی طرف واپس آئے ،اور تاشقند میں مقیم ہوکر اپنے معاش کےلئے زراعت کا کام شروع کیا اس کام میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت پیدا فرمائی،اور آپ کےہاں مال ومتاع،جانور و مویشی،اور اجناس وغیرہ کی فراوانی ہوگئی۔یوں بظاہر آپ کی زندگی شاہانہ تھی،لیکن یہ سب کچھ درویشوں کی خدمت اور فقراء کےلئے تھا۔
مولانا عبدالرحمن جامیؔ آپ کےہم عصر اور نامور شاعرتھے۔انہوں نےآپ کو پہلی دفعہ اس حالت میں دیکھا کہ آپ کی سواری جارہی تھی اور آپ کےجلوس میں خدام کی ایک جماعت تھی۔یہ ظاہری شان و شوکت،اور مال و اسباب اور گھوڑے دیکھ کر مولانا جامیؔ کی شاعری والی حس بیدار ہوئی اور ان کے دلی جذبات اس مصرعے کی صورت میں زبان پر آئے۔ ؏: نہ مرد است آں کہ دنیا دوست دارد۔۔۔یعنی وہ مرد نہیں جو دنیا کو دوست رکھے۔پھر جب مولانا جامی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نےفرمایا کہ جامی تم نےصرف ایک مصرعہ کہا ہے،مکمل شعر نہیں کہا۔ دوسرا مصرعہ بھی کہو۔مولانا آپ کی باطنی بصیرت دیکھ کر ششدر رہ گئے،اور خاموش رہے۔چنانچہ حضرت نے خود ہی دوسرا مصرع بناتے ہوئے فرمایا کہ پورا شعر یوں ہونا چاہئے۔
؏: نہ مرد است آں کہ دنیا دوست دارد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دارد برائے دوست دارد
پھر مولانا جامیآپ کےایسے معتقدہوئے کہ آپ کےہی ہوکر رہ گئے۔آپ کے زیرِ تربیت سلوک کی منازل طےکیں،اور آپ کی شان میں ’’تحفۃ الاحرار‘‘ کتاب لکھ کر عقیدت کا اظہار کیا۔(تاریخ مشائخِ نقشبندیہ؛ص؛320؛از پروفیسر عبدالرسول للہی)
سلسلہ نقشبندیہ کی اشاعت: حضرت خواجہ عبید اللہ احرار کی بدولت مختلف قبائل میں اسلام وسیع پیمانے پر پھیلا۔خاص طور پر ازبک قبائل نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔اسی طرح آپ کےذریعے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کی وسیع ترویج و اشاعت ہوئی۔وسط ایشیاء کےقدیم شہر مرکزتھے۔ اس میں سمرقند،مرو،خیوا، تاشقند، بخارا،ہرات،کےشہر اہم روحانی مراکزتھے۔اسی طرح مغرب میں آپ کے خلیفہ عارف باللہ شیخ عبداللہ سماؤ کےذریعے مغرب میں اناطولیہ اور ترکی میں اشاعت۔یادرہے کہ اناطولیہ براعظموں کےوسط میں واقع ہے۔اس کےاثرات کوہِ قاف اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک پھیلے،اور امام شاملجیسا عظیم مجاہد پیداکیا۔(امام مجاہدسلسلہ نقشبندیہ کےشیخِ طریقت،اور اسم بامسمیّٰ تھے۔وسط ایشیائی ریاستوں میں ان کا کردارہندوستان،کےٹیپوسلطان شہید،اور الجزائر کےعبدالقادر الجزائری جیساتھا۔)
اشاعتِ اسلام: آپ کےعہد میں وسط ایشیا سیاسی انتشار کی لپیٹ میں تھا۔امیر تیمورنے1405ء کو وفات پائی،اور اس کےبعد اس کی اولاد کےباہمی اختلاف کی وجہ سےسلطنت میں انتشار پیدا ہوگیا،اور خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔یہی حال برصغیر کاتھا۔مرکزی حکومت کمزور ہوچکی تھی۔امراء و حکام کی طرف سے رعایا پر بےپناہ ظلم ڈھایا جاتا۔عدل و انصاف،دین داری کےتصورات ناپید تھے۔مزید مغرب یعنی اندلس میں عیسائی حکمرانوں نے1492ء کو غرناطہ پر قبضہ کرکےانتہائی بربریت سےکام لیتے ہوئےمسلم تہذیب و تمدن کےنام و نشان تک مٹادئیے۔اس وقت عالم اسلام کی حالت بعینہ اسی طرح تھی جیسے ہمارے زمانےاکیسویں صدی میں ہے۔اُس وقت حکمران مطلق العنان آمر و جابر ہوتےتھے۔کسی کو ان کےخلاف حق بات تک کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔یہاں تک کہ ان کےدرباری وزراءجان کی معافی مانگ کرشاہ سےبات کرتےتھے۔
ایسے ماحول میں صرف ایسی عظیم شخصیات تھیں،جن کےدلوں میں ماسوی اللہ کسی کاخوف کانہ ہوتاتھا۔وہی ان کوللکارتےتھے،اور ان کےظلم و جبر کی خوب خبر لیتے تھے۔حضرت امام حسین،حضرت امام اعظم، امام احمد بن حنبل،امام غزالی، شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ عبید اللہ احرار، امام شامل، مجدد الفِ ثانی،پیر پٹھان خواجہ تونسوی،علامہ فضلِ حق خیر آبادی،وغیرہ کی سیرت کا مطالعہ کریں،تو یہ حضرات صرف خانقاہوں کےخرقہ پوش صوفی ہی نہ تھے،بلکہ مردِ میدان اور حق کی آواز بھی تھے۔ہمارے زمانے میں معاملہ اس کےبرعکس ہے۔عوام کے ذہن میں ’’غیرسیاسی دین‘‘ کی ایک نئی اصطلاح ڈال دی گئی ہے کہ اہل اللہ کا اربابِ اقتدار اور حکومت سےکوئی واسطہ نہیں ہوتا۔چاہے وہ حدود اللہ کو پامال کریں،حقوق العبادکی خلاف ورزی کریں،انسانیت کی تذلیل ہورہی ہو،عدل و انصاف کےضابطےامیر و غریب کےالگ الگ ہوں،اللہ ﷻکےدین؛ دینِ اسلام کےمقابلے میں لبرل ازم،سیکولر ازم کے قوانین ملک میں رائج ہوں۔ان کےخلاف آواز نہ اٹھانا، نہ یہ تصوف ہے،اور نہ ہی شریعت ہے۔
خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے ہیں: ’’اگر ہم محض پیری مریدی کرتے،تو اس زمانے میں کسی اور پیر کو کوئی مرید نہ ملتا۔لیکن ہمارے ذمےایک اور کام لگایا گیا ہےکہ ظالم کے شر سےمسلمانوں کی حفاظت کریں۔اس مقصد کےلئےبادشاہوں سےتعلق پیدا کرنا اور ان کےنفوس کو مسخرکرنا،اور اس طریقے سے مسلمانوں کےمقاصد پوراکرنا ضروری ہے‘‘۔(تاریخ مشائخِ نقشبندیہ: 302)
نفاذِ اسلام کےلئے عملی کوشش: مولانا ناصرالدین اتراری فرماتے ہیں: حضرت خواجہ عبیداللہ سمرقندتشریف لےگئے،جو اس وقت تیموری حکمرانوں کا دارالخلافہ تھا۔تاکہ حاکم سےملاقات کرکےرعایاپرظلم وجبراور شریعت کی پاسدرای پربات کریں ۔اس وقت امیر تیمور کاپڑپوتامرزا عبداللہ حاکم تھا۔حاکمِ کےعہدیداران میں سےایک سےآپ کی ملاقات ہوئی تو آپ نےفرمایا ہم تمھارے سلطان سےملاقات کرنا چاہتےہیں۔اگرتمھارے ذریعے سے ایساہوجائےتو اچھا ہے۔اس نےایک درویش سمجھتےہوئےلاپرواہی سےجواب دیا کہ ہمارا حاکم ایک لاپرواہ نوجوان ہے۔اس سےملاقات مشکل ہے،اور ویسے بھی درویشوں کوبادشاہ سے ملاقاتوں سےکیا مطلب؟آپ کواس کےاس بےتکےسےجواب سےجلال آگیا۔فرمایا : اگر تمھارےمرزا کو پرواہ نہیں تو اس کی جگہ دوسرا حاکم لائیں گےجسےپرواہ ہوگی۔وہیں سےواپس تاشقندآگئے۔ایک دیوار پر اس کانام لکھ کر مٹادیا۔ایک ہفتےکےبعد وہ مرگیا۔اس کی جگہ ابوسعید مرزا تخت نشین ہوا،جو حضرت کامعتقد اور شریعت کاپاسدار تھا۔یہ 855ھ کا واقعہ ہے۔(تاریخ مشائخِ نقشبندیہ: 306)
تاریخِ وصال: 29؍ربیع الاول1490ھ مطابق 21؍فروری1490ءکو شبِ ہفتہ، مغرب اور عشاء کےمابین واصل باللہ ہوئے۔مزار مبارک سمرقند میں مرجعِ خلائق ہے۔
سنہری تعلیمات: آپ کےملفوظات و تعلیمات آبِ زر سےلکھنے کےقابل ہیں۔یہاں پر چند خصوصی ارشادات نقل کیےجاتے ہیں۔
(1)پیر وہ ہے جو رسول اللہ ﷺکی مرضی میں فنا ہوگیاہو۔جو کچھ آپ نےفرمادیا اس پر قائم گیا،اور اس کی ذات میں اخلاق و اوصافِ نبوی کےعلاوہ کچھ بھی نہ ہو۔یوں وہ اوصافِ نبوی سےمتصف ہوکر تصرفِ حق تعالیٰ کا مظہر بن جاتا ہے۔
(2) آپ فرماتے تھے کہ اگر تمام احوال اور مواجید(تصوف کی اصطلاحات میں مقامات کےنام ہیں)ہمیں عطا کیے جائیں اور ہمیں اہل سنت و جماعت کے عقائد سے آراستہ نہ کیا جائے، تو ہم اُسے بجز خرابی کچھ نہیں سمجھتے اور اگر تمام خرابیاں ہم پر جمع کی جائیں اور اہل سنت و جماعت کے عقائد سے سرفراز فرمایا دجائے تو ہمیں کچھ ڈر نہیں۔
(3) شریعت، طریقت اور حقیقت تین چیزیں ہیں۔ احکامِ ظاہری پرعمل کرنا شریعت ہے۔ جمعیت باطن میں تعمل و تکلف طریقت ہے اور اس جمعیت میں رُسوخ حقیقت ہے۔
(4)محققین کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ موت کے بعد اولیاء اللہ ترقی کرتے ہیں۔