حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ
یاغستان نزد تاشقند (روس) (۸۰۶ھ/ ۱۴۰۴ء۔۔۔۸۹۵ھ/ ۱۴۹۰) شہر سمرقند (روس)
قطعۂ تاریخِ وصال
ناصرالدین خواجۂ احرار |
|
تھے مشائخ میں کامل و یکتا |
(صاؔبر براری، کراچی)
زد بجہان نوبت شاہنشہی |
|
کوکبۂ فقر عبید اللہی |
مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ
آپ کا نام عبیداللہ ہے۔ ناصرالدین لقب ہے کیونکہ آپ سے دینِ اسلام کو نصرت پہنچی۔ احرار بھی آپ کا لقب ہے جو اصل میں خواجہ احرار ہے۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حر (واحد احرار) اُسے کہتے ہیں، جو عبودیت کی حدود کو بر درجۂ کمال قائم کرے اور اغیار کی غلامی سے نکل جائے۔ استعمال میں بعض وقت لفظ خواجہ کو حذف کرکے فقط احرار کہتے ہیں۔
آپ کی ولادت باسعادت یا غستان مضافاتِ تاشقند میں ماہ رمضان المبارک ۸۰۶ھ میں ہوئی۔ مادۂ تاریخ ولادت ’’تاجِ عارفاں‘‘ ہے۔ والد گرامی کا اسم مبارک محمود بن شہاب الدین ہے آپ حضرت خواجہ محمد باقی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد امجاد سے ہیں۔ مادرزاد ولی تھے۔ والدہ ماجدہ شیخ عمر یاغستانی کی اولاد سے تھیں اور حضرت خواجہ محمود شاشی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر تھیں، ولادت کے بعد چالیس دن تک جو کہ ایامِ نفاس ہیں، آپ نے اپنی والدہ کا دودھ نہ پیا۔ جب انہوں نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا تو پینا شروع کردیا۔
بچپن ہی سے آثارِ رشدہ و ہدایت اور انوارِ قبول و عنایت آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ تین چار سال کی عمر سے نسبت آگاہی بحق سبحانہ تعالیٰ حاصل تھی، مگر دل پر وہی نسبت غالب تھی۔ آپ کے جدِّ امجد خواجہ شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ جو کہ قطبِ وقت تھے، کا جب وقتِ اخیر ہوا تو اپنے پوتوں کو الوداع کہنے کے لیے بلایا۔ خواجہ احرار اس وقت بہت چھوٹے تھے، جب جدِّ امجد کے حضور گئے تو وہ ان کو دیکھ کر تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اور پھر گود میں لے کر فرمایا کہ اس فرزند کے بارے میں مجھ کو بشارت نبوی ہے کہ یہ پیر عالم گیر ہوگا اور اس سے شریعت و طریقت کو رونق حاصل ہوگی۔
آپ بچپن ہی میں مزاراتِ مشائخ پر حاضر ہوتے۔ جب سن بلوغ کو پہنچے تو تاشقند سے مزارات کی گشت کر آتے۔ آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی تعلیم کا بڑا خیال تھا۔ بدیں وجہ وہ آپ کو تاشقند سے سمر قند لے گئے، مگر شغلِ باطنی کا غلبہ علم ظاہری کی تحصیل سے مانع رہا۔
خواجہ فضل اللہ ابو للیثی رحمۃ اللہ علیہ (جو سمر قند کے اکابر علماء میں سے تھے) فرماتے تھے کہ ہم خواجہ عبیدالہ احرار کے باطن کے کمال کو نہیں جانتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے بحسبِ ظاہر علوم رسمی سے بہت کم پڑھا ہے اور ایسا دن کم ہوگا کہ وہ تفسیر قاضی بیضاوی میں ہمارے سامنے کوئی شبہ (شک گمان) پیش کریں اور ہم سب اس کے حل سے عاجز نہ آئے ہوں، بائیس برس کی عمر سے انتیس برس کی عمر تک آپ سفر ہی میں رہے اور اس عرصہ میں آپ کو بہت سے مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے ایک روز قبل مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام عبیداللہ احرار ہے۔ اُس نے تمام روئے زمین کو اپنی روحانیت میں لے لیا ہے۔ اور وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمرقند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے جو نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوانِ رعنا کون ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ یہ ’’خواجہ عبیداللہ احرار ہیں، عنقریب دنیا کے سلاطین ان کے در کے گدا ہوں گے‘‘۔
سمر قند ہی میں آپ حضرت سیّد قاسم تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی رحمۃ اللہ علیہ[۱] خلیفہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی رحمہ اللہ علیہ کی زیارت کی جو سید امیر حمزہ بن سیّد امیر کلال قدس سرہما کے خلیفۂ اول تھے۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوافی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھی بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سیّد قاسم تبریزی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
[۱۔ پر مس قصبہ وا بکنی کے نواحی دیہات میں سے ہے جو بخارا سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ (قصوؔری)]
ہرات میں آپ نے ایک سوداگر سے حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل سنے۔ اس لیے وہاں سے اُن کی صحبت کی نیت سے بلخ کے راستے حصار کی طرف متوجہ ہوئے۔ بلخ میں مولانا حسام الدین پارسا خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہما کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں سے حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ کے مزار کی زیارت کے لیے چغانیاں تشریف لے گئے اور چغانیاں سے ہلفتو، مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جس کا قصّہ آپ خود یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’جب میں ولایت چغانیاں پہنچا تو بیمار ہوگیا اور بیس روز تپ لرزہ آتا رہا۔ اس عرصہ میں نواج چغانیاں کے بعضے لوگوں نے مولانا خواجہ یعقوب چرخی کی بہت غیبت (بدگوئی، برائی) کی ۔ بیماری کے دنوں میں ایسی پریشان باتوں کے سننے سے خواجہ چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات کے ارادے میں بڑا فتور واقع ہوا۔ آخر کار میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو اس قدر دور فاصلہ سے آیا ہے لہٰذا اب یہ بات اچھی نہیں کہ تو ان سے ملاقات نہ کرے۔ چنانچہ میں اُن کی خدمت میں پہنچا وہ بڑی عنایت سے پیش آئے اور ہر طرح کی باتیں کیں۔ لیکن دوسرے روز جو میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو بہت غصہ ہوئے اور سختی و درشتی سے پیش آئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اُن کے غصہ کا سبب غیبت کا سننا اور تیرے ارادے میں فتور کا آنا ہوگا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ لطف و کرم سے پیش آئے اور بہت توجہ اور عنایت فرمائی، اور حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی ملاقات کا حال بیان فرماکر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ بیعت کر۔ چونکہ اُن کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت اُن کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کوسمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا اور صورت تبدیل کرکے ایسی خوبصورت اور شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بے خود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دستِ مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اُس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو، میں نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسبِ طریقہ حضراتِ خواجگان نقشبندیہ مجھے شغل نفی و اثبات جس کو وقوفِ عددی کہتے ہیں، سکھایا اور فرمایا کہ جو کچھ ہم کو خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچا ہے یہی ہے اگر تم بطریقِ جذبہ طالبوں کی تربیت کرو تو تمہیں اختیار ہے‘‘۔
کہتے ہیں کہ مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی، اُس کی نسبت آپ نے کس طرح فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے، چاہو تو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں، صرف اجازت کی دیر ہو، مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے تو اُسے خواجہ عبیداللہ احرار کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ، تیل اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔
اس کے بعد حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے حضراتِ خواجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے اور جب طریقِ رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتادینا۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی، اُس کی نسبت آپ نے کس طرح فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے چاہو تو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں، صرف اجازت کی دیرہو۔ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہیے، تو اُسے خواجہ عبیداللہ احرار کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ، تیل اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔
اس کے بعد حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے حضراتِ خواجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے اور جب طریقِ رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتادینا۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ یعقوب چرخی قدس سرہ کی خدمت سے رخصت پاکر پھر ہرات میں آئے اور کم و بیش ایک سال وہاں رہے۔ بعد ازاں انتیس سال کی عمر میں وطن مالوف کی طرف مراجعت فرمائی اور تاشقند میں مقیم ہوکر زراعت کا کام ایک شخص کی شراکت میں شروع کیا۔ دونوں ایک جوڑی بیل سے کھیتی کا کام کرنے لگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی زراعت میں بڑی برکت دی۔ آپ کے مال و منال، ضیاع و عقار گلہ و مواشی اور اسباب و املاک اندازہ کی حد سے زائد تھے مگر یہ سب درویشوں کے لیے تھے۔ چنانچہ مولانا جامی قدس سرہ السامی اپنی کتاب یوسف زلیخا میں آپ کے منقبت میں یوں لکھتے ہیں ؎
ازاں دانہ کز و آدم بنا کام |
|
ز بستانِ بہشت آمد بدیں دام |
’’جس دانہ سے حضرت آدم رضی اللہ عنہ ناچار باغ بہشت سے اس جال (دنیا) میں آئے۔
اُن کے ہزار کھیت زیر کاشت ہیں جو کہ راہِ بہشت میں چلنے کا توشہ ہیں۔
وہ اس کھیت (دنیا) میں بیج بو رہے ہیں اور اُس عالم میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔‘‘
وفات:
آپ کی وفاتِ حسرت آیت۲۹؍ ربیع الاوّل ۸۹۵ھ/ ۱۴۹۰ء کو ہوئی۔ رات کو جب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگا تو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کی گئیں جن سے وہ مکان نہایت روشن ہوگیا۔ اس حال میں اچانک دیکھا گیا کہ آپ کے دو ابروئے مبارک کے درمیان سے ایک نور چمکتی بجلی کی طرح نمودار ہوا۔ جس کی شعاع نے شمعوں کے نور کو مات کردیا۔ حاضرین نے اُس نور کا مشاہدہ کیا۔ بعد ازاں آپ کا وصال ہوگیا اور محلہ خواجہ کفشیر، محوطہ ملایاں سمر قند میں دفن ہوئے۔ آپ کی اولادِ امجاد نے آپ کے مرقد مبارک پر عالیشان عمارت تعمیر کردی اور قبر مبارک کو نہایت عمدہ وضع پر بنایا۔
آپ کے مرید باصفا مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ قطعۂ تاریخ وصال کہا ؎
بہشت صد و نود و پنج در شبِ شنبہ |
|
کہ بود سلخ مہ فوت احمدِ مرسل |
کرامات:
۱۔ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمت سے مراد یہ ہے کہ دل ایک امر پر اس مضبوطی سے جم جائے اور پھر اُس کے خلاف کوئی چیز دل میں نہ آئے۔ ایسی ہمت مراد سے متخلف نہیں ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ اوائلِ جوانی میں جبکہ ہم مولانا سعدالدین کاشغری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہرات میں تھے اور دونوں سیر کیا کرتے تھے۔ تو کبھی کشتی لڑنے والوں کے اکھاڑہ میں جا پہنچتے اور اپنی قوت و توجہات کا امتحان کرتے۔ دو پہلوانوں میں سے ایک کی طرف توجہ مبذول کرتے تو وہ غالب آجاتا۔ پھر مغلوب کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ غالب ہوجاتا۔ اس طرح کئی بار اتفاق ہوا۔ مقصود یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ ہمت کی تاثیر کس درجہ پر پہنچتی ہے۔
۲۔ حضرت مولانا ناصرالدین اتراری رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہ کے خادموں میں تھے، بیان کرتے ہیں کہ حضرت نے واقعہ میں دیکھا تھا کہ آپ کی مدد سے شریعت کو تقویت پہنچے گی۔ آپ کے قلبِ مبارک میں خیال آیا کہ یہ بات سلاطین کی مدد کے بغیر حاصل نہ ہوگی۔ اس غرض سے آپ سمر قند کی طرف آئے۔ اُس وقت میرزا عبداللہ بن میرزا ابراہیم بن میرزا شاہرخ بن امری تیمور ولایت سمر قند کا حاکم تھا۔ میں سفر میں آپ کی خدمت میں تھا۔ جب آپ سمر قند پہنچے تو میرزا عبداللہ کا ایک امری آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اُس سے فرمایا کہ ہمارے یہاں آنے کی غرض تمہارے میرزا سے ملاقات ہے۔ اگر تمہارے ذریعہ سے یہ کام ہوجائے تو بڑی اچھی بات ہے۔ اُس امیر نے نہایت بے ادبی اور غیر شائستگی سے جواب دیا کہ ہمارا میرزا بے پرواہ جوان ہے، اُس سے ملاقات مشکل ہے۔ درویشوں کو ایسی باتوں سے کیا مطلب؟ آپ نے خفا ہوکر فرمایا کہ ہم کو سلاطین کی ملاقات کا حکم ہوا ہے ہم آپ اپنے آپ نہیں آئے۔ اگر تمہارا میرزا پروا نہیں کرتا تو دوسر الایا جائے گا جو پروا کرے گا۔
جب وہ امیر چلا گیا تو آپ نے اُس کا نام سیاہی سے اُس مکان کی دیوار پر لکھا اور اپنے لعابِ دہن سے مٹاکر فرمایا کہ مارا کام اس بادشاہ اور اس کے امیروں سےنہیں چل سکتا اور اُسی روز تاشقند کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ امیر مرگیا اور ایک مہینے کے بعد سلطان ابوسعید میرزا ابن محمد میر ابن میر انشاہ بن امیر تیمور اطرافِ ترکستان سے ظاہر ہوا اور اُس نے میرزا عبداللہ پر حملہ کرکے اُسے قتل کر ڈالا۔ یہ واقعہ ۸۵۵ھ کا ہے۔
۳۔ میرزا بابر بن میرزا با یسنغر بن میرزا شاہرخ بن امیر تیمور ایک لاکھ سپاہ لے کر خراسان سے سمرقدن کی طرف متوجہ ہوا۔ میرزا سلطان ابوسعید نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے اُس کے مقابلہ کی طاقت و ہمت نہیں ہے، کیا کروں؟ آپ نے اُسے تسلی دی۔ جب میرزا بابر، دریائے آمویہ سے گزرا تو سلطان ابوسعید کے امیروں کی ایک جماعت نے اتفاق و مشورہ کیا کہ میرزا کو ترکستان لے جائیں اور وہاں قلعہ نشین ہوجائیں۔ چنانچہ تمام سامان اونٹوں پر لدوادیا گیا، حضرت کو جو خبر لگی تو شتر بانوں پر خفا ہوئے، سامان اُتروادیا اور خود میرزا ابوسعید کے ہاں تشریف لے گئے۔ میرزا سے فرمایا کہ کہاں جاتے ہو، جانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، یہیں کام بن جائے گا۔ میں نے تمہاری مہم اپنے ذمہ لے لی ہے۔ امیر گھبرا گئے یہاں تک کہ بعضوں نے اپنی پگڑیاں زمین پر پھینک دیں اور کہنے لگے کہ حضرت خواجہ ہم کو مروا رہے ہیں۔ میرزا ابوسعید کا چونکہ اعتقادِ صادق تھا لہٰذا اس نے کسی کی نہ سنی اور سمرقند ہی میں قلعہ نشین ہوگیا۔
جب میرزا بابر قلعۂ سمرقند کے قریب پہنچا تو اس کا سپہ سالار خلیل عیدگاہ سمر قند کے دروازہ پر ٹھہر گیا۔ شہر سے تھوڑے سے آدمی نکل کر خلیل سے لڑے، خلیل گرفتار ہوگیا، میرزا بابر سمرقند کے پرانے قلعہ میں اُترا۔ اُس کے سپاہی سامانِ معیشت کے لیے جس طرف جاتے اہلِ سمرقندکو پکڑ کر ناک کان کاٹ ڈالتے۔ اس طرح میرزا بابر کے لشکر کے بہت سے سپاہیوں نے اپنے ناک کان کٹوالیے۔ اس صورتِ حال تمام لشکر بہت تنگ آگیا۔ چند روز کے بعد اُن کے گھوڑوں میں وبا نمودار ہوئی۔ جس سے بہت سے گھوڑے تلف ہوگئے۔ آخر کار میرزا بابر نے مولانا محمد معمائی کو حجرت کی خدمت میں بھیج کر صلح کی درخواست کی، مولانا محمد نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ ہمارا میرزا نہایت غیور اور عالی ہمت بادشاہ ہے۔ جس طرف متوجہ ہوتا ہے بغیر اسیر کیے واپس نہیں آتا۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اُس کے جواب میں فرمایا کہ میں اُس کے دادا میرزا شاہ رخ (المتوفی ۸۵۰ھ) کے زمانہ میں ہرات میں تھا۔ مجھے اُس کے طفیل سے بڑی فراغت اور جمعیت حاصل تھی۔ اگر شاہ رخ کے حقوق نہ ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ میرزا بابر کا کیا حال ہوتا۔ آخر کار حضرت اقدس کے خاص مرید مولانا قاسم رحمۃاللہ علیہ کی وساطت سے صلح ہوگئی۔
۴۔ جب مرزا سلطان ابوسعید بتاریخ ۲۵؍رجب ۸۷۳ھ شہید ہوگیا تو اُس وقت اُس کے گیارہ بیٹوں میں سے چار برسر حکومت تھے۔ چنانچہ میرزا الغ بیگ، کابل میں۔ میرزا سلطان احمد، سمر قند میں، میرزا عمر شیخ ولایتِ اند جان و فرغانہ میں اور میرزا سلطان محمود، حصار اور بدخشاں میں حکمران تھا۔ میرزا سلطان محمود نے سمرقند کے محاصرہ کا ارادہ کیا، حضرت خواجہ کو پتہ چلا تو آپ نے بذریعہ رقعہ و پیام اُسے اس حرکت سے باز رہنے کا حکم دیا مگر وہ راہِ راست پر نہ آیا اور ولایت حصار سے سمر قند روانہ ہوگیا۔ بے شمار سامان و لشکر اُس کے ساتھ تھا۔ اپنے لشکر کے علاوہ چار ہزار تُر کمان (ایک قوم جو ترکوں سے کم مرتبہ ہونے کی وجہ سے ترکمان کہلاتی ہے) ہمرکاب تھے۔ میرزا سلطان احمد میں مقابلہ کی تاب نہ تھی۔ اس لیے اُس نے بھاگنا چاہا اور حضرت خواجہ سے اجازت چاہی۔ حضرت اقدس شہر سمرقند کے مدرسہ میں مقیم تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم بھاگ جاؤ گے تو سمر قند کے تمام باشندے قید ہوجائیں گے۔ تم مت گھبراؤ، میں تمہارے معاملہ کا ذمہ دار ہوں، اگر دشمن مغولب نہ ہوا تو تم مجھ سے مواخذہ کرنا، پھر آپ نے میرزا سلطان احمد کو مدرسہ کے ایک حجرے میں اتارا جس کا ایک ہی دروازہ تھا اور آپ اُس دروازے میں بیٹھ گئے۔ خادموں نے آپ کے حکم سے ایک تیز رفتار اونٹنی لاکر اس حجرے کے آگے بٹھادی آپ نے فرمایا کہ اگر میرزا سلطان محمود، سمرقند پہ قابض ہوجائےا ور اُس دروازے سے کہ جہاں لڑائی ہو شہر میں داخل ہوجائے تو تم اس اونٹنی پر سوار ہوکر دوسرے دروازے سے بھاگ جائیو، آپ نے اس تدبیر سے میرزا سلطان احمد کو تسکین دی، بعد ازاں آپ نے مولانا سیّد حسین، مولانا قاسم، میر عبدالاول اور مولانا جعفر کو جو آپ کے اکابر اصحاب میں تھے، طلب فرمایا اور حکم دیا کہ تم فورا اُس دروازے کے برج میں جاکر مراقبہ کرو۔ چنانچہ وہ وہاں جاکر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مراقبہ میں بیٹھتے ہی ہم نے دیکھا کہ ہم نیست ہیں، تمام حضرت ہی حضرت ہیں اور تمام عالم آپ کےو جود مبارک سے پُر ہے۔ لڑائی وقت چاشت تک جاری رہی۔ قریب تھا کہ دشمن غالب آجائے، شہر والے حیران و پریشان تھے کہ ناگاہ دشتِ قبچان کی طرف سے ایک سخت آندھی اُٹھی اور میرزا محمود کے لشکر و لشکر گاہ میں گرد و غبار کا وہ طوفان برپا ہوا کہ کسی کو آنکھ کھولنے کی مجال نہ رہی۔ ہوا پیادوں اور سواروں کو زمین پر گراتی۔ خیمہ وغیرہ کو اکھاڑ کر اُوپر کی طرف اڑاتی اور زمین پر پھینک دیتی، میرزا سلطان محمود اپنے امیروں اور ترکمانوں کی جماعت کثیر کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے دیوار کے پشتہ کے نیچے گھوڑے پر سوار کھڑا تھا کہ ناگاہ پشتہ کا ایک حصہ پھٹ گیا جس کے ہولناک دھماکہ سے قریباً چار سو مرد اور گھوڑے جو اس کے نیچے کھڑے تھےدب کر مرگئے۔ ترکمانوں کے گھوڑے بھاگنے لگے۔ سواروں نے ہر چند روکا مگر نہ رکے۔ القصدلشکر پراگندہ و منتشر ہوگیا۔ میرزا سلطان محمود کو شکست ہوئی۔ میرزا سلطان احمد کے لشکر اور شہر کے لوگوں نے قریباً پانچ کوس تک اُن کا تعاقب کیا اور بہت سے سوار اور گھوڑے پکڑ لائے اور بہت سا مال و متاع ہاتھ آیا۔
۵۔ مولانا شیخ ابوسعید مجلد جو میرزا شاہ رُخ کے زمانہ میں نہایت خوبصورت جوان تھے بیان کرتے ہیں کہ جوانی میں ایک بار ایک خوبصورت عورت سے اتفاقاً میری ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے مکان میں آگئی میں نے چاہا کہ خلوت میں اُ سسے بات چیت کروں۔ دریں اثنا میں نے حضرت خواجہ کی آواز سنی کہ فرماتے ہیں: ابوسعید! چہ کار مے کنی؟ یہ سن کر میری حالت بدل گئی اور میرے دل پر ہیبت طاری ہوگئی اور میرے اعضاء میں رعشہ طاری ہوگیا۔ میں نے فوراً اُس عورت کو مکان سے نکال دیا کچھ عرصہ بعد حضرت شتریف لائے جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمانے لگے کہ اگر حق تعالیٰ کی توفیق تیری یاوری نہ کرتی تو شیطان تجھ کو برباد کردیتا۔
۶۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے مخلصوں سے ایک بزرگ نقل کرتے ہیں کہ سمر قند میں میرا ایک غلام غائب ہوگیا۔ اُس غلام کے سوا میرے پاس اور کچھ مال و متاع نہ تھا، چار مہینے میں نے اس کی تلاش میں سر گردانی کی۔ سمرقند کے نواح میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں میں کئی بار نہ گیا۔ پہاڑ اور صحرا میں بہت پھرا مگر کہیں بھی اُس کا سراغ نہ ملا۔ اسی پریشانی کے عالم میں مارا مارا پھر رہا تھا کہ ناگاہ ایک صحرا میں حضرت خواجہ قدس سرہ ملے۔ آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب و خدام بھی تھے۔ میں نے حالتِ اضطراب میں حضرت کے گھوڑے کی باگ تھام لی اور بڑی نیاز مندی اور عاجزی سے اپنا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو دہقانی آدمی ہیں۔ ایسی باتوں کو کیا جانیں۔ میں نے چونکہ سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ ایسا تصرف کرتے ہیں کہ غیب کی خبر دے دیتے ہیں بلکہ غیب کو حاضر بھی کردیتے ہیں، اس لیے اصرار کیا اور گھوڑے کی باگ نہ چھوڑی جب آپ نے کوئی چارہ نہ دیکھا تو ایک لخطہ سکوت فرمایا اور پوچھا کہ یہ گاؤں جو نظر آ رہا ہے کیا اس میں بھی تم نے اُسے تلاش کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں تو بارہا اس میں گیا ہوں مگر محروم واپس لوٹا ہوں ارشاد کیا کہ اب پھر جاؤ، وہاں مل جائے گا یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیرز دوڑایا۔ جب میں اس گاؤں کے نزدیک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں وہ غلام پانی کا گھڑا بھر سامنے رکےے خشک و ویران جگہ پر حیران و پریشان کھڑا ہے جونہی میری نظر اس پر پڑی میں نے بے اختیار نعرہ مارا اور کہا اے غلام! تو اس عرصہ میں کہاں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کے گھر سے نکلا تو ایک شخص مجھ کو بہکا کر خوارزم میں لے گیا او روہاں مجھے فروخت کردیا۔ جس شخص نے مجھے خریدا تھا، آج اُس کے ہاں ایک مہمان آیا، اُس نے مجھے حکم دیا کہ پانی کا ایک گھڑا لاؤ ، تاکہ کھانا تیار کریں، میں گھڑا اُٹھاکر پانی کے کنارے پر پہنچا اور پانی سے بھرلیا جب میں نے گھڑا پانی سے نکالا تو اپنے آپ کو یہاں پایا اور اب میں یہ فیصلہ نہیں کرپاتا کہ یہ معاملہ بیداری میں دیکھ رہا ہوں یا خواب میں۔ حضرت خواجہ قدس سرہ کا یہ تصرف دیکھ کر میرا حال بدل گیا۔ میں نے غلام کو تو آزاد کردیا اور حضرت خواجہ قدس سرہ کا غلام بن گیا۔
۷۔ مولانا زادہ فرکنی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا نظام الدین علیہ الرحمۃ کے مرید تھے۔ وہ اپنے مرشد کی وفات کے بعد حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے ہیں۔ اُن کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں کے ساتھ ایک گاؤں کو جا رہا تھا۔ سردی کا موسم تھا۔ نمازِ عصر تو راستے میں پڑھی مگر ابھی وہ گاؤں چھ میل دور تھا کہ سورج غروب ہونے لگا۔ میرےد ل میں خیال آیا کہ دن ختم ہوگیا، راستہ خطرناک ہوا سرد اور فاصلہ زیادہ ہے، اب کیا حال ہوگا؟ جب یہ خیال بار بار میرے دل میں آیاتو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے میری طرف رخ مبارک پھیر کر ارشاد کیا کہ ڈرو مت، ممکن ہے کہ غروبِ آفتاب سے پہلے منزل پر پہنچ جائیں، یہ فرماکر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا اور میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گھوڑا دوڑا رہا تھا اور پلٹ پلٹ کر آفاتب کی ٹکیہ کو بھی دیکھتا جاتا تھا لیکن وہ اُسی طرح اُفق پر ٹھہرا ہوا تھا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے اُس میں میخ (کیل) ٹھونک دی ہے۔ جب ہم گاؤں میں پہنچے تو یک بیک سورج ایسا غروب ہوا کہ شفق کی سرخی و سپیدی جو غروب کے بعد ہوا کرتی ہے اُس کا کوئی نشان نہ رہا اور عالم میں ایسی تاریکی پھیل گئی کہ شکلوں اور رنگتوں کا نظر آنا ناممکن ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ حضرت خواجہ قدس سرہ کا تصف ہے۔ عارفِ رومی رحمۃ اللہ علیہ نے سچ کہا ہے کہ ؎
اولیاء راہست قدرت از الٰہا |
|
تیر گشتہ راباز گرد انند از قضا |
۸۔ حضرت خواجہ قدس سرہ کا ایک خادم سمر قند جا رہا تھا۔ آپ نے اُس کو ارشاد فرمایا کہ ہمارے لیے وہاں سے خالص شہد کے چند ڈبے لانا۔ وہ کئی ڈبے شہد سے بھرکو اور سب کے منہ پر مہر (Seal) لگاکر روانہ ہوا۔ اتفاقاً بازار میں کسی کام کے لیے ایک بزاز کی دکان پر رکنا پڑا اور شہد کے ڈبوں کو اپنے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا۔ ناگاہ ایک خوبصورت شراب سے مست عورت جو اُس بزاز کی آشنا تھی، وہاں آئی اور بزاز سے باتیں کرنے لگی۔ اُس خادم نے نظرِ حرام سے اس عورت کو دو تین بار دیکھا اور پھر ڈبوں کو اُٹھاکر تاشقند آگیا۔ جب وہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے دربارِ گوہر بار میں پہنچا تو آپ جنگل کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ اُس نے آپ کے پیچھے جانا چاہا مگر اتنے میں آپ تشریف لے آئے۔ اُس نے وہ ڈبے پیش کیے۔ حضرت اقدس نے ڈبوں کو ایک نظر دیکھتے ہی خفا ہوکر فرمایا کہ ان ڈبوں سے تو شراب کی بو آتی ہے۔ اے بدبخت! ہم نے تجھے شہد لانے کو کہا تھا مگر تو ہمارے لیے شراب لے آیا۔ خادم نے عرض کیا کہ میں تو شہد لایا ہوں آپ کے حکم سے جب کھول کر دیکھا گیا تو ہر ڈبہ شراب سے بھرا ہوا پایا گیا۔
۹۔ جس وقت آپ نے مولانا جامی قدس سرہ السامی سے حضرت خواجہ یعقوب چرخیق دس سرہ سے اپنے مرید ہونے کی داستان بیان فرمائی اور بتایا گیا کہ کس طرح خواجہ چرخی رحمۃ اللہ علیہ نورانی شکل میں ظاہر ہوئے تھے تو آپ بھی بطریق خلع و لبس مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ کے روبرو ایسی نورانی شکل میں ظاہر ہوئے کہ جو مولانا جامی کے محبوب تھے۔
۱۰۔ آپ کے ایک مرید ہوا میں اڑتے تھے۔ آپ نے یہ گستاخی آمیز حال دیکھ کر اُن کا سب حال چھین لیا۔ اُس نے بہت عاجزی اور آہ وزاری کی مگر آپ نے نہ دیا تب وہ آپ کو اکیلا پاکر چھری سے حملہ آور ہوا۔ آپ فوراً جنگل ی چروائے کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ وہ مرید حیران و پریشان ہوا اور آپ نے چھری اُس کے ہاتھ سے چھین لی اور پھر اصلی حالت میں آگئے، فرمایا کہ اب بتا! تیرا کیا حال کروں، وہ قدموں میں گر پڑا، آپ نے خطا معاف کرکے جو کچھ چھین لیا تھا واپس کردیا۔
۱۱۔ آپ کے کچھ خدام ایک دفعہ بازار میں گئے اُن میں سے ایک خادم، ایک صاحبِ جمال کو دیکھنے لگا تو دوسروں نے منع کیا، اُس نے کہا کہ میں بنظر شہوتِ نفس نہیں دیکھتا جب واپس آیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اب تک نفس کے مکر و فریب سے بیڈر نہیں ہوا تم کب سے ہوگئے کہ بغیر شہوتِ نفس کے دیکھتے ہو؟ وہ از حد شرمسار و نادم ہوا۔ آپ بہت ہی اشرافِ خواطر رکھتے تھے، جو جو خطرہ کسی کے دل پر گزرتا، آپ اُس کو پکڑلیتے تھے اور فرمادیتے تھے کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ کے پاس بیٹھ کر کسی طرح کا خطرہ جی میں لاوے۔
۱۲۔ ایک عالم آپ کی تعریف سن کر زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ جب شہر کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ اونٹوں پر بہت سا غلہ شہر میں جا رہا ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ غلہ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، سخت متعجب ہوئے کہ یہ کیسی فقیری ہے، اس قدر دنیاداری اور امارت ہے۔ دل میں خیال آیا کہ لوٹ جائیں لیکن پھر سوچا کہ اس قدر مسافت طے کرکے آیا ہوں، مل لینے میں کیا حرج ہے۔ خانقاہ شریف میں پہنچے تو اتفاقاً نیند آگئی، خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا ہے اور نفسہ انفسی کا عالم ہے۔ ایک شخص کہ جس کا یہ عالم قرض دار تھا، وہ اس سے قرض کا خواہاں ہے اور چاہتا تھا کہ قرض کے عوض اپنے اعمال دے دے۔ وہ عالم سخت پریشانی اور حیرانی کے عالم میں تھا کہ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے آئے اور صورتِ حال معلوم کرکے اپنے پاس سے سب قرض ادا کردیا۔ اتنے میں عالم کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو حضرت خواجہ خانقاہ میں تشریف فرما ہیں اور مسکرا کر فرمایا کہ میں مال اسی واسطے رکھتا ہوں کہ دوستوں کو قرض سے نجات دلاؤں، وہ عالم قدموں میں گر کر معافی کا طلبگار ہوا اور داخلِ سلسلہ ہوگیا۔
۱۳۔ دو درویش دور درازس کا سفر کرکے آپ کی زیارت کے لیے جب خانقاہ میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ قدس سرہ بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں وہ درویش سخت حیران ہوئے کہ یہ کیسے شیخ ہیں جو بادشاہ کے پاس جاتے ہیں۔ بئس الفقیرعلی باب الامیر کے مصداق ہیں۔ اتفاقاً اُسی وقت دو چار شاہی دربار سے بھاگ نکلے، اُن کو تلاش کرتے کرتے سپاہیوں نے ان درویشوں کو آپکڑا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ شریعت کے مطابق ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں حضرت خواجہ قدس سرہ اُس وقت بادشاہ کے پاس جلوہ افروز تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں درویش چور نہیں ہیں بلکہ یہ تو مجھے ملنے کے لیے آئے ہیں، ان کو چھوڑ دو،پھر آپ دونوں درویشوں کو ساتھ لے کر خانقاہ میں تشریف لائے، اور فرمایا کہ میں بادشاہ کے پاس اس لیے گیا تھا کہ تمہارے ہاتھ قطع ہونے سے بچاؤں، اگر میں وہاں نہ ہوتا تو تمہارے ہاتھ قطع ہوچکے تھے اور بئس الفقیر علی باب الامیر کے مصداق میں جب ہوتا کہ طمعِ دنیا کے لیے جاتا، وہ دونوں درویش شرمسار ہوئے اور قدموں میں گرگئے۔
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ پیر کون ہے؟ پیر وہ شخص ہے جو حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کا خیال رکھتا ہو، یعنی جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے، اُس پر عمل پیرا ہو، اور جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے اُس سے مکمل اجتناب کرے۔ اور وہ خود اور اُس کی تمام خواہشات اُس سے گم ہوگئی ہوں اور وہ ایسا آئینہ ہوگیا ہو جس میں سوائے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و اوصاف کے کچھ نظر نہ آئے۔ اس مقام میں وہ صفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصف ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ کے تصوف کا مظہر بن جاتا ہے اور تصرف الٰہی سے اصحابِ استعداد کے باطن میں تصرف کرتا ہے ؎
از بسکہ در کنار ہمے گیرداں نگار |
|
بگرفت بوئے یار و رہا کرد بوئے طین |
۲۔ مرید وہ ہے کہ ارادت کی آگ کی تاثیر سے اُس کی خواہش جل گئی ہو اور اُس کی مرادوں میں سے کچھ نہ رہا ہو اور اپنے دل کی بصیرت سے پیر کے آئینہ میں مراد کا جمال دیکھ کر اُس نے سب قبلوں سے منہ پھیرلیا ہو اور پیر کا جمال اس کا قبلہ ہوگیا ہو اور پیر کی بندگی میں آزادی سے فارغ ہوکر سوائے پیر کے آستانہ کے اپنے سرِ نیاز کو کہیں خم نہ کرتا ہو۔ اور سب سے منہ پھیر کر اپنی سعادت پیر کی قبولیت میں اور اپنی شقاوت پیر کے رد میں سمجھتا ہو بلکہ نیستی کا خط وجود کی پیشانی پر کھینچ کر وجودِ غیر کے شعور کے تفرقہ سے رہائی پاگیا ہو ؎
آنرا کہ در سرائے نگاریست فارغ است |
|
از باغ و بوستاں و تماشائے لالہ زار |
۳۔ ہم درویشوں کی ایک جماعت ایک جگہ بیٹھی تھی۔ دورانِ گفتگو اس حدیث شریف کا ذکر ہوا کہ جمعۃ المبارک کے دن ایک ایسی ساعت ہوتی ہے کہ اُس میں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے، مل جاتا ہے، اس ساعت کا تذکرہ ہوا کہ اگر وہ ساعت میسر آئے تو اُس میں اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہیے، ہر ایک نے کچھ نہ کچھ کہا، جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ اربابِ جمعیت[۱] کی صحبت مانگنی چاہیے کیونکہ اس کے ضمن میں تمام سعادتیں حاصل ہیں۔
[۱۔ اربابِ جمعیت سے مراد وہ سالکین ہیں جو تمام سے منہ پھیر کر مطلوبِ حقیقی کے مشاہدہ میں مستغرق ہیں۔]
۴۔ اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ توحید کیا ہے تو یہ جواب دے کہ غیر اللہ کی آگاہی سے دل کا آزاد کرنا توحید ہے، اگر پوچھا جائے کہ وحدت کیا ہے تو یہ جواب دے کہ غیراللہ کے وجود کے علم و شعور سے دل کی خلاصی وحدت ہے، اگر پوچھا جائے کہ اتحاد کیا ہے، تو یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں استغراق اتحاد ہے اگر پوچھا جائے کہ سعادت کیا ہے؟ تو یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی دید کے ساتھ خودی سے خلاصی سعادت ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ شقاوت کیا ہے؟ تو جواب دے کہ خودی میں رہتا اور حق سے باز رہنا شقاوت ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ وصل کیا ہے؟ تو جواب دے کہ وجودِ حق تعالیٰ کے نور کے شہود کے ساتھ اپنے آپ کو بھول جانا وصل ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ فصل کیا ہے؟ تو یہ جواب دے کہ دل کا غیراللہ سے جدا کرنا فصل ہے، اگر پوچھا جائے کہ سکر کیا ہے؟ تو جواب دے کہ ایسے حال کا دل پر ظاہر ہونا کہ دل اُس چیز کو پشیدہ نہ رکھ سکے۔ جس کا پوشیدہ رکھا اُس حال سے پہلے واجب تھا۔
۵۔ فرماتے تھے کہ اگر تمام احوال[۱] اور مواجید[۲] ہمیں عطا کیے جائیں اور ہمیں اہل سنت و جماعت کے عقائد سے آراستہ نہ کیا جائے تو ہم اُسے بجز خرابی کچھ نہیں سمجھتے اور اگر تمام خرابیاں ہم پر جمع کی جائیں اور اہل سنت و جماعت کے عقائد سے سرفراز فرمایا جائے تو ہمیں کچھ ڈر نہیں۔
[۱۔ احوال جمع ہے حال کی۔ حال وہ معنی ہے جو سالک کے دل پر بغٰر تصنع اور اکتساب کے وارد ہوتا ہے۔ مثلاً خوشی یا غم یا قبض یا بسط وغیرہ۔ حال جب دائم ہو اور ملکہ بن جائے تو اُسے مقام کہتے ہیں پس احوال مواہب ہیں اور مقامات مکاسب۔ حال عین جود سے آتے ہیں اور مقامات بذل مجہود سے حاصل ہوتے ہیں۔
۲۔ مواجید جمع ہے وجد کی وجد وہ ہے جو سال کے دل پر آئے اور بغیر تکلف و تصنع کے وارد ہو۔ مواجید اور اوراد و وظائف پر بفضلِ الٰہی مترتب ہوتے ہیں۔ اکتساب کو ان میں دخل نہیں۔]
۶۔ ہماری زبان دل کا آئینہ ہے، دل روح کا آئینہ ہے اور روح حقیقتِ انسانی کا آئینہ ہے۔ حقیقتِ انسانی اللہ تعالیٰ کا آئینہ ہے۔ حقائقِ غیبیہ، غیب ذات سے دور دراز فاصلے طے کرکے زبان پر آتے ہیں اور یہاں صورتِ لفظی قبول کرکے مستعدانِ حقائق کے کانوں میں پہنچتے ہیں۔
۷۔ میں جو بعض اکابر کی خدمت میں رہا، تو انہوں نے مجھے دو چیزیں عطا فرمائیں، ایک یہ کہ میں جوکچھ لکھوں جدید ہوگا نہ کہ قدیم۔ دوسرے یہ کہ میں جو کچھ کہوں، مقبول ہوگا۔
۸۔ آیۂ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْن کے معنی میں آپ فرماتے تھے کہ اس کے دو معنی ہیں پہلا یہ کہ اہلِ صدق کے ساتھ مجالست و مصاحبت کو لازم پکڑے تاکہ اُن کی صحبت کے دوام کے سبب سے اُس کا باطن اُن کے صفات و اخلاق کے انوارسے روشن ہوجائے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ باطن کی شاہراہ سے اُس گروہ کے ساتھ رابطہ کا طریق اختیار کرے جو واسطہ ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں اور صحبت کو اس امر میں حصر (احاطہ کرنا، گھیرنا) نہ کرے کہ ہمیشہ آنکھ کے ساتھ دیکھے بلکہ ایسا کرے کہ صحبتِ دائمی ہوجائے اور صورت سے معنی کی طرف عبور کرے تاکہ واسطہ ہمیشہ نظر میں رہے۔ جب اس بات کو دوام کے طور پر ملحوظ رکھے گا، تو اُس کے باطن کو اُن کے باطن کے ساتھ نسبت و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور اس واسطہ سے اُسے مقصود اصلی حاصل ہوجائے گا۔
۹۔ حدیث میں جو آیا ہے شیبتنی سورہ ھود (سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا) اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں استقامت کا حکم آیا ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے فاسْتَقِمْ کما اُمِرْتَ (پس تو استقامت کر جیسا کہ تجھے حکم ہوا ہے) اور استقامت نہایت دشوار ہے کیونکہ استقامت کے معنی ہیں قائم رہنا حد وسط میں تمام افعال و اقوال اور اخلاق و احوال میں بدیں طور کہ تمام افعال میں ضرورت سے تجاوز صادر نہ ہو اور افراط و تفریط سے محفوظ رہے اسی سبب سے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ضروری کام تو استقامت ہے۔ کرامت و خوارقِ عادات کے ظہور کا کچھ اعتبار نہیں۔
۱۰۔ لوگوں کے اعمال و اخلاق سے جمادات کا متاثر ہونا محققین کے نزدیک ایک ثابت امر ہے۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے اس بارے میں بہت تحقیق کی ہے۔ یہ تاثر اس درجہ تک ہے کہ اگر ایک شخص نماز کو جو افضلِ عبادات ہے، ایسی جگہ ادا کرے جو ایک جماعت کے اعمال و اخلاق ناپسندیدہ سے متاثر ہوگئی ہو تو اُس نماز کا جمال اور رونق اس نماز کے برابر نہیں جو ایسی جگہ میں ادا کی جائے جو اربابِ جمعیت کی برکت سے متاثر ہو۔ یہی سبب ہے کہ حرمِ مکہ میں دو رکعت نماز غیر محرم میں بہت سی رکعتوں کے برابر ہے۔
۱۱۔ ہمارے زمانہ میں توحید یہ ہوگئی ہے کہ لوگ بازاروں میں جاتے ہیں اور بے ریش لڑکوں کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ایسے مشاہدہ سے خدا کی پناہ! تفصیل اس بادشاہ کی یوں ہے کہ حضرت سیّد قاسم تبریزی قدس سرہ اس ولایت (ملک) میں تشریف لائے تھے۔ اُن کے مریدوں کی ایک جماعت بازاروں میں پھرتی تھی۔ اور بے ریش لڑکوں کا نظارہ کرتی اور ان سے تعلق پیدا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ صورتِ جمیلہ (حسین شکل و صورت) میں ہم اللہ تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ حضرت سیّد قدس سرہ بعض اوقات فرماتے کہ ہمارے سور کہاں گئے ہیں؟ اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گروہ حضرت سیّد کی نظرِ بصیرت میں سور کی شکل میں دکھائی دیتا تھا۔
۱۲۔ ایک روز آپ نے ایک شخص سے کہا کہ اگر تمہیں حضرت خواجۂ خواجگان بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں ایک نسبت حاصل ہوجائے اور پھر اس کے بعد تم کسی دوسرے بزرگ کی خدمت میں چلے جاؤ۔ اور اس کی صحبت میں بھی وہی نسبت پھر حاصل ہوجائے تو تم کیا کرو گے، کیا خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو چھوڑ دو گے؟ پھر از خود ہی فرمایا کہ کسی دوسری جگہ سے اگر تمہیں وہی نسبت حاصل ہو تو تمہیں چاہیے کہ اُس نسبت کو حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ہی کا فیض سمجھو۔ پھر یہ حکایت بیان کی کہ حضرت شیخ قطب الدین حیدر قدس سرہ کے مریدوں میں ایک مرید حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کی خانقاہ میں گیا۔ وہ نہایت بھوکا تھا۔ اس نے اپنے پیر کے گاؤں کی طرف منہ کرکے کہا شیئا للہ قطب الدین حیدر رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کو جو اس کا حال معلوم ہوا تو اپنے خادم کو حکم دیا کہ کہ فوراً کھانا اس کے پاس لے جاکر کھلاؤ، جب وہ درویش کھانا کھاکر فارغ ہوا تو پھر اپنے پیر کے گاؤں کی طرف منہ کرکے کہا شکراً للہ قطب الدین حیدر۔ کہ آپ نے ہم کو کسی جگہ نہیں چھوڑا، جب خادم حضرت شیخ کے پاس گیا تو انہوں نے پوچھا کہ تو نے اس درویش کو کیسا پایا؟ خادم نے عرض کیا کہ وہ مہمل شخص ہے۔ کھانا تو آپ کا کھاتا ہے مگر شکر قطب الدین حیدر کا کرتا ہے حضرت شیخ نے فرمایا کہ مریدی اُس سے دیکھنی چاہیے کہ ظاہری و باطنی فائدہ جس جگہ پائے اُسے اپنے پیر کی برکت سے سمجھے۔
۱۳۔ ایک روز تعظیمِ ساداتِ کرام کے بارے میں ارشادات فرما رہے تھے کہ جن بستی میں سادات رہتے ہوں، میں اس میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ اُن کی بزرگی اور شرف زیادہ ہے، میں اُن کی تعظیم و تکریم کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
ایک روز امام اعظم قدس سرہ درس کی مجلس میں کئی بار اُٹھے کسی کو اس کا سبب معلوم نہ ہوا۔ آخر کار حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد نے دریافت کیا، حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ساداتِ علوی کا ایک لڑکا اُن لڑکوں میں ہے جو مدرسہ کے صحن میں کھیل رہے ہیں، وہ لڑکا جب ا س درس کے قریب آتا ہے اور اُس پر میری نظر پڑتی ہے تو میں اس کی تعظیم کے لیے اُٹھتا ہوں۔
۱۴۔ کشفِ قبور یہ ہے کہ صاحبِ قبر کی روح مثالی صورتوں میں سے کسی مناسب صورت کے ساتھ مشتمل ہوجاتی ہے۔ صاحب کشف اُس کو بصیرت کی آنکھ سے اُسی صورت میں مشاہدہ کرتا ہے لیکن چونکہ شیطان کو مختلف صورتوں اور شکلوں کے ساتھ متمثل و متشکل ہوجانے کی قوت ہوتی ہے اس لیے ہمارے خواجگان قدس اللہ ارواحہم نے اس کشف کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ اصحابِ قبور کی زیارت میں اُن کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی بزرگ کی قبر پر پہنچتے ہیں تو اپنے آپ کو تمام کیفیتوں اور نسبتوں سے خالی کرکے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ دیکھیے کیا نسبت ظاہر ہو۔ اُس نسبت سے صاحبِ قبر کا حال معلوم کرلیتے ہیں اور بیگانوں کی صحبت میں بھی اُن کا یہی طریق ہے کہ جو شخص اُن کے پاس بیٹھے وہ اپنے باطن پر نظر ڈالتے ہیں۔ جو کچھ اس شخص کے آنے کے بعد ظاہر ہو وہ جان لیتے ہیں کہ یہ اُس کی نسبت ہے اور ہمارا اس میں کچھ دخل نہیں، اس نسبت کے مطابق لطف یا قہر سے اُس سے پیش آتے ہیں۔
۱۵۔ محققین کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ موت کے بعد اولیاء اللہ ترقی کرتے ہیں۔
۱۶۔ اس سلسلہ (سلسلہ نقشبندیہ) کے خواجگان قدس اللہ ارواحہم ہر ریاکار اور بازیگر کی طرف نسبت نہیں رکھتے۔ اُن کا کارخانہ بلند ہے۔
۱۷۔ ہر زمانہ میں رجالِ غیب صالحین میں سے اُس شخص کی صحبت میں رہتے ہیں جو عزیمت[۱] پر عمل کرتا ہے ۔ یہ گروہ رخصت سے بھاگتا ہے۔ رخصت پر عمل کرنا ضعیفوں کا کام ہے۔ ہمارے خواجگان قدس اللہ ارواحہم کا طریقہ عزیمت ہے۔
[۱۔ عزیمت شریعت میں اصل مشروع کو کہتے ہیں اور رخصت اُسے بولتے ہیں جو کسی عذر کے سبب سے مباح سمجھا گیا ہو حالانکہ اُس کی حرمت کی دلیل قائم ہو۔]
۱۸۔ جس وقت آپ عزیمت و احتیاط کے طریق سے کوئ کام کرتے تو فرماتے کہ لقمہ و طعام میں احتیاط کرنا ضروریات سے ہے۔ چاہیے کہ کھانا پکانے والا باوضو ہو۔ وہ شعور و آگاہی سے لکڑی چولہے میں رکھے اور آگ جلائے۔ جس پکانے میں غصہ یا پریشان باتیں ظہور میں آئیں اُس کھانے کو حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نہ کھاتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ اس کھانے میں ظلمت ہے ہمیں اس کا کھانا جائز نہیں۔
۱۹۔ چاہیے کہ مرید کی توجہ پیر کے دو ابرو کے درمیان ہو اور پیر کو تمام اوقات اور احوال میں آگاہ و حاضر سمجھے تاکہ پیر کی بزرگی اور عظمت اُس میں تصرف کرے اور جو چیز پیر کے حضور میں نامناسب ہو وہ مرید کے باطن سے کوچ کرجائے۔ اس امر کے کمال کے سبب سے یہ حال ہوجائے کہ پیر و مرید کے درمیان سے حجاب اُٹھ جائے اور پیر کی تمام مرادیں اور مقاصد بلکہ اس کے احوال و مواجید مرید کے مشاہدہ و معائنہ میں آجائیں۔
۲۰۔ ردی خطرات اور طبعی مقتضیات میں گرفتاری سے خلاصی کا طریقہ تین چیزوں میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ اول یہ کہ اعمالِ خیر جو اس گروہ نے مقرر کیے ہیں، اُن میں سے ہر ایک عمل اپنے اوپر لازم کرے اور طریقِ ریاضت اختیار کرے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوت و طاقت کو درمیان سے اُٹھا دے اور جان لے کہ میں ایسا نہیں کہ خود بخود اس بلا سے خلاصی حاصل کرسکوں اور عاجزی و محتاجی کے طور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور تضرع و انکساری کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اُس کو اس بلا سے نجات دے۔ تیسرے یہ کہ اپنے پیر کی ہمت و باطن سے مدد طلب کرے اور اُس کو اپنی توجہ کا قبلہ بنائے اس تقریر کے بعد آپ نے حاضرین سے پوچھا کہ ان تین طریقوں میں سے بہتر کون سا ہے؟ پھر آپ نے خود ہی فرمایا کہ پیر کی ہمت سے مدد مانگنا اور اُس کی طرف متوجہ ہونا بہتر ہے۔ کیونکہ طالب اس صورت میں اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے عاجز سمجھ کر پیر کو اس توجہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب میں وصول کا وسیلہ بناتا ہے۔ یہ امر حصولِ نتیجہ کے قریب تر ہے۔ جو کچھ طالب کا مقصود ہے۔ اس تقدیر پر زیادہ جلدی متفرع ہوگیا کیونکہ وہ ہمیشہ پیر کی ہمت سے مدد طلب کرنے والا ہوگا۔
۲۱۔ عبادت سے مراد یہ ہے کہ اوامر پر عمل کریں اور نواہی سے پرہیز کریں۔ عبودیت سے مراد اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ توجہ اور اقبال ہے۔
۲۲۔ شریعت، طریقت اور حقیقت تین چیزیں ہیں۔ احکامِ ظاہری کا جاری کرنا شریعت ہے۔ جمعیت باطن میں تعمل و تکلف طریقت ہے اور اس جمعیت میں رُسوخ حقیقت ہے۔
۲۳۔ سیر دو طرح کی ہے سیرِ مستطیل اور سیرِ مستدیر[۱]۔ سیر مستطیل بعد در بعد ہے اور سیر مستدیر قرب در قرب ہے۔ سیرِ مستطیل سے مراد مقصود کو اپنے دائرے کے خارج سے طلب کرنا ہے اور سیرِ مستدیر اپنے دل کے گرد پھرنا اور مقصود کو اپنے سے ڈھونڈنا ہے۔
[۱۔ سیر مستطیل سے مراد سیرِ آفاقی اور سیرِ مستدیر سے مراد سیر انفسی ہے (قصوری)]
۲۴۔ علم دو ہیں۔ علم وراثت اور علم لدنی، علمِ وراثت وہ ہے جس سے پہلے کوئی عمل ہو، چنانچہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لمن عمل بما علم ورثہ اللہ علم ما لم یعلم.
’’جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو وارث بناتا ہے اُس علم کا جو اُسے معلوم نہیں‘‘۔
اور علم لدنی وہ علم ہے جس سے پہلے کوئی عمل نہ ہو، بلکہ بغیر کسی سابق عمل کے اللہ تعالیٰ محض عنایت بے علت سے اپنے پاس سے بندے کو کسی خاص علم کے ساتھ مشرف کرے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا (سورہ کہف۔ ع۹)
’’اور سکھایا تھا ہم نے اُس کو اپنے پاس سے علم‘‘۔
آپ نے فرمایا کہ علم کی طرح اجر بھی دو قسم کا ہے۔ اجرِ ممنون اور اجرِ غیر ممنون۔ اجرِ ممنون وہ ہے جو کسی عمل کے مقابلہ میں نہ ہو بلکہ محض موہبت (عطا، بخشش) ہو۔ اور اجرِ غیر ممنون وہ ہے جو کسی عمل کے مقابلہ میں ہو۔
۲۵۔ لوگوں نے خیال کیا ہے کہ شاید کمال نا الحق کہنے میں ہے نہیں، بلکہ کمال اس میں ہے کہ انا کو دور کیا جائے اور کبھی اُسے یاد نہ کیا جائے۔
۲۶۔ فنائے مطلق کے معنی یہ نہیں کہ صاحبِ فنا کو اپنے اوصاف و افعال کا شعور نہ ہو بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ بطریقِ ذوق اپنے آپ سے اوصاف و افعال کے اسناد کی نفی کرے اور فاعلِ حقیقی جل ذکرہٗ (اُس کے ذکر کی بڑی عظمت اور شان ہے) کے لیے اسناد ثابت کرے۔ وہ جو صوفیہ قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم نے فرمایا ہے کہ نفی اثبات کے ساتھ مخالفت نہیں رکھتی، اُس کے یہی معنی ہیں۔ آپ نے مثال کے طور پر فرمایا کہ یہ کپڑا جو میں پہنے ہوئے ہوں عاریتی ہے اور مجھے اس کے عاریتی ہونے کا علم نہیں اور اس سبب سے کہ اس کو میں اپنی ملک سمجھتا ہوں اسے سے تعلق رکھتا ہوں ناگاہ مجھے اس کپڑے کے عاریتی ہونے کا علم ہوگیا، اُسی وقت میرا تعلق اس سے منقطع ہوگیا حالانکہ میں بالفعل پہپن رہا ہوں۔ اسی پر تمام صفات کو قیاس کرنا چاہیے کہ سب عاریتی ہیں تاکہ غیراللہ سے دل منقطع ہوجائے اور پاک و مطہر ہوجائے۔
۲۷۔ وصل، حقیقت میں یہ ہے کہ دل بطریقِ ذوق اللہ تعالیٰ کے ساتھ جمع ہوجائے جب یہ بات ددائم (ہمیشہ) ہوجائے تو اسے دوام وصل بولتے ہیں۔ نہایت یہی ہے۔ وہ جو حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو بدایت (انتہا کو ابتدا میں) درج کرتے ہیں۔ اس سے مراد یہی نہایت ہے اور جو آپ نے فرمایا ہے کہ ہم محض قبولیت کا واسطہ ہیں، ہم سے منقطع ہونا چاہیے او رمقصود سے ملنا چاہیے یہی وصل ہے۔
۲۸۔ تجلی کے معنی کشف ہیں۔ اس امر کا ظہور دو طرح سے ہوسکتا ہے۔ ایک کشفِ عیانی جو دار جزا میں سر کی آنکھ کے ساتھ مقصود کے جمال کا مشاہدہ ہے۔ دوسرے یہ کہ غلبۂ محبت کے ساتھ غائب کو کثرت سے حاصل کرنے کے ذریعہ سے کہ وہ غائب مثل محسوس کے ہوجائے کیونکہ خواص محبت میں سے ہے کہ وہ غائب کو مثل محسوس کے کردیتی ہے۔ دنیا میں اربابِ کمال کے قدم کی انتہا یہی ہے۔
۲۹۔ اگر ہم شیخی کرتے تو اس زمانہ میں کسی شیخ کو مرید نہ مل سکتا۔ لیکن ہمیں اور کام کا حکم ملا ہے کہ مسلمانوں کو ظالموں کے شر سے بجائیں، اس واسطے ہمیں بادشاہوں سے میل جول رکھنا اور اُن کے نفوس کو مسخر کان اور اس عمل کے ذریعہ سے مسلمانوں کی مطلب بر آری ضروری ہے۔
۳۰۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی عنایت سے مجھے ایسی قوت عطا کی ہے کہ اگر میں چاہوں تو ایک رقعہ سے بادشاہِ خطا کو جو الوہیت کا دعویٰ کرتا ہے ایسا کردوں کہ بادشاہت چھوڑ کر ننگے پاؤں خطا سے خار و خاشاک میں دوڑتا ہوا اپنے آپ کو میرے آستانہ پر پہنچائے لیکن باوجود ایسی قوت کے ہم خدا کے حکم کے منتظر ہیں جس وقت وہ چاہے اور حکم دے وقوع میں آئے گا۔ اس مقام کے لیے ادب لازم ہے اور ادب یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کا تابع بنائے نہ کہ اللہ کو اپنے ارادہ کا تابع بنائے۔
۳۱۔ ہر روز سونے سے قبل اپنے گزشتہ اوقات کو یاد کرو کہ کس طرح گزرے ہیں۔ اگر غیر طاعت سے گزرے ہیں تو توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
۳۲۔ منجملہ آدابِ طریقت سے یہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہے کیونکہ دوامِ وضو سے فراخیِ رزق ہوتی ہے۔
۳۳۔ جو شخص فقیروں کی صحبت میں آئے، اُسے چاہیے کہ اپنے آپ کو نہایت مفلس ظاہرکرے تاکہ اُس پر اُن کو رحم آئے۔
۳۴۔ رہبر کا سایہ ذکرِ حق کرنے سے زیادہ بہتر ہے یعنی مرید کے لیے رہبر کا سایہ اُس کے ذکرِ حق کرنے سے زیادہ نفع مند ہے۔ کیونکہ مرید کو اُس وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کامل مناسبت حاصل نہیں ہوتی تاکہ براستہ ذکر اُسے مکمل نفع حاصل ہو۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار قدس سرہ
نام و لقب:
آپ کا نامِ مبارک عبد اللہ ہے۔ ناصر الدین لقب ہے۔ کیونکہ آپ سے دین اسلام کو نصرت پہنچی۔ احرار بھی آپ کا لقب ہے۔ جو اصل میں خواجہ احرار ہے۔ چونکہ آپ کے اسم گرامی کے معنی میں چھُٹائی پائی جاتی ہے۔ اس لیے اس کے تدارک کے لیے آپ کو خواجہ احرار بالا ضافت لقب دیا گیا۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے۔ کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حرّ (واحد احرار) اُسے کہتے ہیں جو عبودیت۔ کی حدود کو بدرجہ کمال قائم کرے اور اغیار کی رقیت (غلامی) سے نکل جائے۔ استعمال میں بعض وقت لفظ خواجہ کو حذف کر کے فقط احرار کہتے ہیں۔
ولادت با سعادت:
آپ باغستان میں جوتا شقند واقع توران کے مضافات سے ہے ماہ رمضان ۸۰۶ھ میں پیدا ہوئے۔ تولّد کے بعد چالیس دن تک کہ ایام نفاس ہیں آپ نے اپنی ماں کا دودھ نہ پیا۔ جب اس نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا۔ تو پینا شروع کیا۔ لڑکپن ہی سے رشد و سعادت کے آثار اور قبول و عنایت الٰہی کے انوار آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ تین چار سال کی عمر سے نسبت آگاہی بحق سبحانہ تعالیٰ حاصل تھی۔ طفولیت میں مکتب میں آمدو رفت رکھتے۔ مگر دل پر وہی نسبت غالب تھی۔ بچپن میں مزارات مشائخ پر حاضر ہوتے۔ جب سن بلوغ کو پہنچے۔ تو تاشقند کے مزارات پر جو ایک دوسرے سے فاصلہ پر واقع ہیں پھرا کرتے۔ اور بعض دفعہ ایک ہی رات میں تمام مزارات کی گشت کر آتے۔
تحصیل علم:
آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم علیہ الرحمۃ کو آپ کی تعلیم کا بڑا خیال تھا۔ اسی غرض سے وہ آپ کو بائیس سال کی عمر میں تاشقند سے سمر قند لے گئے۔ مگر شغل باطنی غلبہ علم ظاہری کی تحصیل سے مانع رہا۔ خواجہ فضل اللہ ابو اللیثی جو سمر قند کے اکابر علماء سے تھے فرماتے تھے کہ ہم خواجہ عبید اللہ کے باطن کے کمال کو نہیں جانتے۔ مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے بحسب ظاہر علوم رسمی سے بہت کم پڑھا ہےا ور ایسا دن کم ہوگا کہ وہ تفسیر قاضی بیضاوی میں ہمارے سامنے کوئی شبہ پیش کریں اور ہم سب اس کے حل سے عاجز نہ آئے ہوں۔
سیر و سیاحت:
بائیس برس کی عمر سے انتیس برس کی عمر تک آپ سفر میں رہے۔ اس عرصہ آپ کو بہت سے مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے ایک روز مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا۔ تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام خواجہ عبید اللہ ہے۔ اُس نےتمام روئے زمین کو لے لیا۔ وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمر قند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے جو نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے۔ مولانا نے فرمایا۔ ’’وہ خواجہ عبید اللہ ہیں۔ عنقریب دنیا کے سلاطین ان میں مبتلا ہوں گے۔‘‘
سمر قند ہی میں آپ حضرت سید قاسم تبریزی کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی [۱] خلیفہ حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہما کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی کی زیارت کی۔ جو سید امیر حمزہ بن سید امیر کلال کے خلیفہ اول تھے۔ اور خواجہ بزرگ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوانی کی خدمت میں بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سید قاسم تبریزی اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے۔ اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
[۱۔پرمس قصبہ وابکنی کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا نام ہے۔ وہاں سے بخارا چار شرعی فرسنگ ہے۔ رشحات۔]
مولانا یعقوب چرخی کی خدمت میں حاضری:
ہرات میں آپ نے ایک سودا گر سے حضرت خواجہ یعقوب چرخی کے فضائل سنے۔ اس لیے وہاں سے اُن کی صحبت کی نیت سے بلخ کے راستے حصار کی طرف متوجہ ہوئے۔ بلخ میں حسام الدین پارساہ خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور وہاں سے حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ کے مزار کی زیارت کے لیے چغانیاں پہنچے۔ اور چغانیاں سے ہلفتوں میں مولانا یعقوب چرخی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جس کا قصہ آپ خود یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’جب میں ولایت چغانیاں میں پہنچا تو بیمار ہوگیا۔ اور بیس روز تپ لرزہ آتا رہا۔ اِس عرصہ میں نواح چغانیاں کے بعضے لوگوں نے مولانا یعقوب چرخی کی بہت غیبت کی۔ بیماری کے دنوں میں ایسی پریشان باتوں کے سننے سے مولانا کی ملاقات کے ارادے میں بڑا فتور واقع ہوا۔ آخر کار میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو اس قدر دور فاصلہ سے آیا ہے یہ اچھا نہیں کہ تو ان سے ملاقات نہ کرے میں روانہ ہوگیا۔ اور ان کی خدمت میں پہنچا۔ وہ بڑی عنایت سے پیش آئے اور ہر طرح کی باتیں کیں۔ لیکن دوسرے روز جو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو تو بہت غصہ ہوئے اور سخت و درشتی سے پیش آئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ان کے غصہ کا سبب غیبت کا سننا اور تیرے ارادے میں فتور کا آنا ہوگا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ لطف سے پیش آئے اور بہت توجہ و عنایت فرمائی۔ اور حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ سے اپنی ملاقات کا حال بیان فرما کر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ بیعت کر۔ چونکہ ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت ان کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کو سمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا۔ اور بطریق خلع و لبس اپنی صورت تبدیل کر کے ایسی صورت میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بیخود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دست مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے۔ جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو۔ میں نے بلا توقف مولانا یعقوب کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسب طریقہ حضرات خواجگان مجھے شغل نفی و اثبات جس کو وقوف عددی کہتے ہیں سکھایا اور فرمایا کہ جو کچھ ہم کو حضرت خواجہ بزرگ سے پہنچا ہے یہی ہے۔ اگر تم بطریق جذبہ طالبوں کی تربیت کرو۔ تو تمہیں اختیار ہے۔‘‘
طالب اور مرشد:
کہتے ہیں کہ مولانا کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی اس کی نسبت کس طرح آپ نے فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے۔ چاہو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں۔ صرف اجازت کی دیر ہو۔ مولانا جامی نفحات الانس میں لکھتے ہیں۔ مولانا یعقوب فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے۔ اُسے خواجہ عبید اللہ کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ اور تیل بتی سب تیارر ہے۔ صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے تھے کہ جب میں نے مولانا یعقوب سے اجازت طلب کی تو آپ نے مجھ سے حضرات خوجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے۔ جب طریق رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتا دینا۔
وطن کی طرف واپسی:
حضرت خواجہ عبید اللہ مولانا یعقوب کی خدمت سے رخصت پاکر پھر ہرات میں آئے۔ اور کم و بیش ایک سال وہیں رہے۔ بعد ازاں انتیس سال کی عمر میں وطن مالوف کی طرف مراجعت فرمائی۔ اور تاشقند میں مقیم ہوکر زراعت کا کام ایک شخص کی شراکت میں شروع کیا۔ دونوں ایک جوڑی بیل سے کھیتی کا کام کرنے لگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی زراعت میں بڑی برکت دی۔ آپ کے مال ومنال اور ضیاع و عقار(جڑی بوٹیاں وغیرہ) اور گلہ و مویشی اور اسباب و املاک اندازہ کی حد سے زائد تھے۔ مگر یہ سب درویشوں کے لیے تھے۔ چنانچہ مولانا جامی یوسف زلیخا میں آپ کی منقبت میں یوں لکھتے ہیں۔ ؎
ازاں دانہ کزو آدم بنا کام
زبستانِ بہشت آمد بدیں دام
جس دانہ سے حضرت آدم علیہ السلام ناچار باغ بہشت سے اس جال (دنیا) میں آئے۔
ہزارش مزرعہ در زیر کشت است
کہ زادِ فتنِ راہِ بہشت است
اُن کے ہزار کھیت زیر کاشت ہیں جو راہِ بہشت میں چلنے کا توشہ ہیں۔
دریں مزرعہ فشاند تخم دانہ
در آں عالم کند انبار خانہ
وہ اِس کھیت (دنیا) میں بیج بو رہے ہیں اور اُس عالم میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔
کرامات کا بیان
۱۔ حضرت خواجہ احرار فرماتے ہیں کہ ہمت سے مراد دل کا ایک امر پر اس طرح جمع کرنا ہے کہ اُس کا خلاف دل میں نہ آئے۔ ایسی ہمت سے مراد متخلف نہیں ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ اوائل جوانی میں جب کہ ہم مولانا سعد الدین کا شغری کے ساتھ ہرات میں تھے اور دونوں سیر کیا کرتے تھے۔ تو کبھی کشتی لڑنے والوں کے اکھاڑہ میں جا پہنچتے۔ اور اپنی قوت اور توجہات کا امتحان کرتے۔ دو پہلوانوں میں سے ایک کی طرف توجہ مبذول کرتے۔ تو وہ غالب آتا۔ پھر مغلوب کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ غالب ہوجاتا اس طرح کئی بار اتفاق ہوا۔ مقصود یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ ہمت کی تاثیر کس درجہ پر پہنچی ہے۔
حاکم کی موت:
مولانا ناصر الدین اتراری جو حضرت عبید اللہ احرار کے خادموں میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ حضرت نے واقعہ میں دیکھا تھا کہ آپ کی مدد سے شریعت کو تقویت پہنچے گی۔ آپ کے مبارک دل میں آیا کہ یہ بات سلاطین کی مدد کے بغیر حاصل نہ ہوگی۔ اس غرض سے آپ سمر قند کی طرف آئے۔ اس وقت میر زا عبد اللہ بن میر زا ابراہیم بن میر زا شاہرخ بن امیر تیمور ولایت سمر قند کا حاکم تھا۔ میں اس سفر میں آپ کی خدمت میں تھا۔ جب آپ سمر قند میں پہنچے تو میرزا عبد اللہ کا ایک امیر آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ یہاں آنے سے ہماری غرض تمہارے میرزا کی ملاقات ہے۔ اگر تمہارے ذریعہ سے یہ کام ہوجائے تو خوب ہے۔ اس امیر نے بے ادبی سے جواب دیا کہ ہمارا میرزا بے پروا جوان ہے۔ اُس سے ملاقات مشکل ہے۔ درویشون کو ایسی باتوں سے کیا مطلب۔ آپ نے خفا ہوکر فرمایا کہ ہم کو سلاطین کی ملاقات کا حکم ہوا ہے۔ ہم اپنے آپ نہیں آئے۔ اگر تمہارا میرزا پروا نہیں کرتا تو دوسرا لایا جائے گا جو پروا کرے گا۔ جب وہ امیر چلاگیا تو آپ نے اس کا نام سیاہی سے اُس مکان کی دیوار پر لکھا اور اپنے لعابِ دہن سے مٹادیا اور فرمایا کہ ہمارا کام اِس بادشاہ اور اس کے امیروں سے نہیں چل سکتا۔ اور اُسی روز تاشقند کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ امیر مرگیا اور ایک مہینے کے بعد سلطان ابو سعید مرزا بن محمد میر انشاہ بن امیر تیمور اطراف ترکستان سے ظاہر ہوا اور اُس نے میرزا عبد اللہ پر حملہ کر کے اُسے (۸۵۵ھ میں) قتل کر ڈالا۔
میرزا بابر پر توجہ:
میرزا بابر بن میرزا بایسنغر بن میرزا شاہرخ بن امیر تیمور ایک لاکھ سپاہ لے کر خراسان سے سمر قند کی طرف متوجہ ہوا۔ میر زا سلطان ابو سعید نے حضرت کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ مجھے اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ کیا کروں۔ آپ نے اسے تسلی دی۔ جب میرزا دریائے آمو سے گزرا تو سلطان ابو سعید کے امیروں کی ایک جماعت نے اتفاق و مشورہ کیا کہ میرزا کو ترکستان میں لے جائیں۔ اور وہاں قلعہ نشین ہوجائیں۔ چنانچہ کل سامان اونٹوں پر لدوا دیا گیا۔ حضرت کو جو خبر لگی تو شتر بانوں پر خفا ہوئے اور سامان اتروادیا۔ اور خود میر زا کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ کہاں جاتے ہو۔ جانے کی ضرورت نہیں۔ یہیں کام بن جائے گا۔ میں نے تمہاری مہم اپنے ذمہ لے لی ہے۔ امیر گھبرا گئے۔ یہاں تک کہ بعضوں نے اپنی پگڑیاں زمین پر پھینک دیں اور کہنے لگے کہ حضرت خواجہ ہم کو مروا رہے ہیں۔ چونکہ میرزا کا اعتقاد صادق تھا اس نے کسی کی نہ سنی اور سمر قند ہی میں قلعہ نشین ہوگیا۔
جب میر زا بابر سمر قند کے قلعہ کے گرد پہنچا تو خلیل جو اس کے مقدمہ لشکر پر تھا عید گاہ سمر قند کے دروازے پر ٹہر گیا۔ شہر سے تھوڑے سے آدمی نکل کر خلیل سے لڑے۔ خلیل گرفتار ہوگیا۔ میرزا بابر سمر قند کے پرانے قلعہ میں اترا۔ اس کے لشکری سامان معیشت کے لیے جس طرف جاتے ہیں اہل سمر قند ان کو پکڑ کر ناک کان کاٹ دیتے۔ اس طرح میرزا بابر کے لشکر کے بہت سے سپاہیوں نے اپنے ناک کان کٹوا لیے۔ میرزا بابر کا لشکر نہایت تنگ آگیا۔ اور چند روز کے بعد ان کے گھوڑوں میں وباء نمودار ہوئی۔ جس سے بہت گھوڑے تلف ہوئے۔ آخر کار میرزا بابر نے مولانا محمد معمائی کو حضرت کی خدمت میں بھیج کر صلح کی درخواست کی۔ مولانا محمد نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ ہمارا میرزا نہایت غیور اور عالی ہمت بادشاہ ہے۔ جس طرف متوجہ ہوتا ہے بغیر اسیر کیے واپس نہیں آتا۔ حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اُس کے دادا میرزا شاہرخ (متوفی ۸۵۰ھ) کے زمانہ میں ہرات میں تھا۔ مجھے اُس کے طفیل سے بڑی فراغت اور جمعیت حاصل تھی۔ اگر شاہرخ کے حقوق نہ ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ میرزا بابر کا کیا حال ہوتا۔ آخر الامر حضرت کے خاص مرید مولانا قاسم کی وساطت سے صلح ہوگئی۔
دشمن پر غلبہ:
جب میرزا سلطان ابو سعید بتاریخ ۲۵؍ رجب ۸۷۳ھ شہید ہوگیا تو اُس وقت اُس کے گیارہ بیٹوں میں سے چار برسرِ حکومت تھے۔ چنانچہ میرزا الغ بیگ کابل میں میرزا سلطان محمود حصار و قندوز و بدخشاں میں حکمران تھا۔ میرزا سلطان محمود نے سمر قند کے محاصرہ کا رادہ کیا۔ جب حضرت خواجہ کو یہ خبر لگی تو آپ نے بذریعہ رقعہ و پیام میرزا سلطان محمود کو اس حرکت سے منع فرمایا۔ مگر وہ روبراہ نہ ہوا۔ اور ولایت حصار سے سمر قند کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ سامان و لشکر بے شمار تھا اور چغتائی لشکر کے علاوہ چار ہزار ترکمان ہم رکاب تھے۔ میرزا سلطان احمد میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی۔ اس لیے اس نے بھاگنا چاہا اور حضرت خواجہ سے اجازت چاہی۔ حضرت شہر سمر قند کے مدرسہ میں مقیم تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم بھاگ جاؤ گے تو سمر قند کے تمام باشندے قید ہوجائیں گے۔ تم گھبراؤمت۔ میں تمہارے معاملہ کا ذمہ دار ہوں۔ اگر دشمن مغلوب نہ ہوا تو تم مجھ سے مواخذہ کرنا۔ پھر آپ نے میرزا سلطان احمد کو مدرسہ کے ایک حجرے میں اتارا جس کا ایک ہی دروازہ تھا اور آپ اس دروازے میں بیٹھ گئے۔ خادموں نے آپ کے حکم سے ایک تیز رفتار اونٹنی لاکر اس حجرے کے آگے بٹھادی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میرزا سلطان محمود سمر قند پر قابض ہوجائے اور اس دروازے سے کہ جہاں لڑائی ہو شہر میں داخل ہوجائے تو تم اس اونٹنی پر سوار ہوکر دوسرے دروازے سے بھاگ جائیو۔ آپ نے تدبیر سے میرزا سلطان احمد کو تسکین دی۔ بعد ازاں آپ نے مولانا سید حسین اور مولانا قاسم اور میر عبد الاول اور مولانا جعفر کو جو آپ کے اکابر اصحاب سے تھے طلب فرمایا اور حکم دیا کہ تم فوراً اس دروازے کے برج میں جاکر مراقبہ کرو۔ چنانچہ وہ وہاں جاکر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ مولانا قاسم کا بیان ہے کہ مراقبہ میں بیٹھتے ہی ہم نے دیکھا کہ ہم نیست ہیں۔ تمام حضرت ہی حضرت ہیں اور تمام عالم آپ کے وجود مبارک سے پر ہے۔لڑائی وقت چاشت تک جاری رہی۔ قریب تھا کہ دشمن غالب آجائے۔ شہر والے حیران و پریشان تھے کہ ناگاہ دشت قبچاق کی طرف سے ایک سخت آندھی اٹھی اور میرزا سلطان محمود کے لشکر و لشکر گاہ میں گرد و غبار کا وہ طوفان برپا ہوا کہ کسی کو آنکھ کھولنے کی مجال نہ رہی۔ ہوا پیادوں اور سواروں کو زمین پر گراتی۔ اور خیمہ و سرا پردہ خرگاہ کو اکھاڑ کر اوپر کی طرف اڑاتی اور زمین پر پھینک دیتی۔ میرزا سلطان محمود اپنے امیروں اور ترکمانوں کی جماعت کثیر کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے دیوار کے پشتہ کے نیچے گھوڑے پر سوار کھڑا تھا۔ کہ ناگاہ پشتہ کا ایک حصہ پھٹ گیا۔ جس کے ہولناک دھماکہ سے قریباً چار سو مرد اور گھوڑے جو اس کے نیچے کھڑے تھے دب کر مرگئے۔ ترکمانوں کے گھوڑے بھاگنے لگے۔ سواروں نے ہر چند رو کا مگر نہ رکے۔ القصہ لشکر پراگندہ ہوگیا۔ میرزا سلطان محمود کوشکست ہوئی میرزا سلطان احمد کے لشکر اور شہر کے لوگوں نے قریباً پانچ کوس تک ان کا تعاقب کیا۔ اور بہت سے سوار اور گھوڑے پکڑ لائے اور بہت کچھ سامانِ غنیمت ہاتھ آیا۔
بدکاری سے بچالیا:
مولانا شیخ ابو سعید مجلد جو میرزا شاہرخ کے زمانہ میں نہایت خوبصورت جوان تھے بیان کرتے ہیں کہ جوانی میں ایک بار ایک خوبصورت عورت سے اتفاقاً میری ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے مکان میں آگئی۔ میں نے چاہا کہ خلوت میں اس سے بات چیت کروں۔ اس اثنا میں ناگاہ میں نے حضرت خواجہ کی آواز سنی کہ فرماتے ہیں۔ ابو سعید! چہ کار مے کنی؟ (یہ کیا کام کر رہے ہو )یہ سن کر میری حالت بدل گئی اور میرے دل پر ہیبت طاری ہوگئی اور میرے اعضا میں رعشہ پیدا ہوگیا۔ میں نے اٹھ کر فوراً اس عورت کو اپنے مکان سے نکال دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد تشریف لائے۔ جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمانے لگے کہ اگر حق تعالیٰ کی توفیق تیری یاوری نہ کرتی شیطان تجھ کو برباد کردیتا۔
گمشدہ غلام کی واپسی:
حضرت خواجہ کے مخلصوں میں سے ایک بزرگ نقل کرتے ہیں کہ سمر قند میں میرا ایک غلام غائب ہوگیا۔ اس غلام کے سوا میرا مال و متاع اور کچھ نہ تھا۔ چار مہینے میں نے اس کی تلاش کی۔ سمر قند کے نواح میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں میں کئی بار نہ گیا۔ پہاڑ اور صحرا میں بہت پھرا۔ مگر کہیں اس کا نشان نہ پایا۔ اس پریشانی میں ناگاہ حضرت خواجہ مجھے صحرا میں ملے۔ آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب و خدام بھی تھے۔ میں حالت اضطراب میں حضرت کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ اور نیاز مندی سے اپنا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو دہقانی آدمی ہیں۔ ایسی باتوں کو کیا جانیں۔ میں نے سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ ایسا تصرف کیا کرتے ہیں کہ غائب کی خبر دے دیتے ہیں۔ بلکہ غائب کو حاضر کر دیتے ہیں۔ اس لیے میں نے اصرار کیا اور گھوڑے کی باگ نہ چھوڑی۔ جب آپ نے کوئی چارہ نہ دیکھا تو ایک لحظہ سکوت فرمایا اور پوچھا کہ یہ گاؤں جو نظر آ رہا ہے کیا اس میں بھی تم نے اسے تلاش کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو بار ہا اس میں گیا ہوں مگر محروم واپس آیا ہوں۔ فرمایا پھر تلاش کرو مل جائے گا۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا۔ جب میں اس گاؤں کے نزدیک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس غلام نے پانی کا گھڑا بھرا ہوا آگے رکھا ہے اور خشک جگہ پر حیران کھڑا ہے۔ جب میری نظر اس پر پڑی میں نے بے اختیار نعرہ مارا اور کہا اے غلام! تو اس عرصہ میں کہاں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کے گھر سے نکلا تو ایک شخص بہکا کر مجھے خوارزم میں لے گیا۔ اور وہاں مجھے ایک شخص کے ہاتھ فروخت کردیا۔ میں اس شخص کی خدمت میں تھا۔ آج اس کے ہاں ایک مہمان آیا اس نے مجھ سے کہا کہ پانی کا گھڑا پھر لاؤ تاکہ کھانا تیار کریں۔ میں گھڑا اٹھا کر پانی کے کنارے پر پہنچا اور پانی سے بھر لیا۔ جب میں نے پانی سے نکالا تو اپنے آپ کو یہاں حاضر پاتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں یہ معاملہ بیداری میں دیکھ رہا ہوں یا خواب میں۔ حضرت خواجہ کا یہ تصرف دیکھ کر میرا حال بدل گیا۔ میں نے غلام کو تو آزاد کردیا اور خود حضرت کا غلام بن گیا۔
سورج کا ٹھہر جانا:
مولانا زادہ فرکنی مولانا نظام الدین کے مرید تھے وہ اپنے مرشد کی وفات کے بعد حضرت خواجہ کی خدمت میں بہت رہے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت خواجہ کے ہمراہ ایک گاؤں کو جا رہا تھا۔ جاڑے کا موسم تھا اور دن چھوٹے۔ ہم نے عصر راستے میں پڑھی۔ شام ہونے کو آئی۔ آفتاب زرد ہوگیا۔ منزل تک پہنچنے میں دوشرعی (کوس) باقی تھے۔ اس صحرا میں کوئی پناہ وآرام گاہ نہ تھی۔ میرے دل میں آیا کہ دن ختم ہوگیا۔ راستہ خطر ناک، ہوا سرد اور فاصلہ زیادہ ہے کیا حال ہوگا۔ جب یہ خیال کئی بار میرے دل میں آیا تو حضرت نے منہ پھیر کر فرمایا کہ ڈرو مت۔ گھوڑا دوڑاؤ۔ ممکن ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے ہم منزل پر پہنچ جائیں۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا۔ میں بھی آپ کے پیچھے تیز دوڑا رہا تھا۔ اور پلٹ پلٹ کر آفتاب کی ٹکیہ کو دیکھتا جاتا تھا۔ آفتاب اسی طرح افق پر ٹھیرا ہوا تھا۔ گویا کسی نے اس میں میخ ٹھونک دی ہے جس سے وہ افق پر ٹھیرا ہوا ہے۔ جب ہم گاؤں میں پہنچے تو یک بیک آفتاب ایسا غروب ہوا کہ شفق کی سرخی و سپیدی جو غروب کے بعد ہوا کرتی ہے اس کا کوئی نشان نہ رہا۔ اور عالم میں ایسی تاریکی پھیل گئی کہ شکلوں اور رنگوں کا نظر آنا نا ممکن ہوگیا۔ یہ دیکھ کر حیرت و ہیبت مجھ پر طاری ہوئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ حضرت خواجہ کا تصرف ہے۔ آخر کار بے اختیار ہوکر میں نے حضرت خواجہ سے عرض کیا کہ خدا کے لیے فرمائیے یہ کیا راز تھا جو میں نے دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بھی طریقت کے شعبدوں میں سے ایک شعبدہ تھا۔
شہد شراب میں بدل گئی:
خواجہ کلال فرماتے ہیں ! کہ حضرت کا ایک خادم سمر قند کو جا رہا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ ہمارے واسطے سمر قند سے چند ڈبے خالص شہد کے لانا۔ وہ سمر قند سے کئی ڈبے شہد سے بھر کر اور ان کے منہ پر مہر لگا کر روانہ ہوا۔ اتفاقاً بازار سمر قند میں کسی کام کے لیے بزاز کی دکان پر ٹھیر گیا اور اس نے شہد کے ڈبوں کو اپنے سامنے رکھ لیا۔ ناگاہ ایک خوبصورت مست عورت جو اس بزاز کی آشنا تھی وہاں آئی اور دکان کے ایک طرف بیٹھ کر بزاز سے باتیں کرنے لگی۔ اس خادم نے دو تین بار نظر حرام سے اس عورت کو دیکھا۔ پھر وہ ڈبوں کو اٹھا کر تاشقند لے آیا۔ جب وہ حضرت کے دولت خانہ میں پہنچا تو آپ جنگل تشریف لے گئے تھے۔ اُس نے آپ کے پیچھے جانا چاہا۔ اتنے میں حضرت تشریف لے آئے۔ اس نے وہ ڈبے پیش کیے۔ جب حضرت کی نظر ان ڈبوں پر پڑی تو خفا ہوکر فرمایا کہ ان ڈبوں سے شراب کی بو آتی ہے۔ اے بد بخت! میں نے تجھ سے شہد لانے کو کہا تھا۔ تو میرے واسطے شراب لے آیا۔ خادم نے عرض کیا کہ میں تو شہد لایا ہوں۔ آپ کے ارشاد سے جب کھول کر دیکھا گیا تو ہر ڈبہ شراب سے بھرا ہوا پایا گیا۔
وصال مُبارک:
آپ کی تاریخ وفات شب شنبہ ۲۹ ربیع الاول ۸۹۵ھ ہے۔ شام و خفتن(سونے کاوقت) کے درمیان جب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگا تو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کی گئیں۔ جن سے وہ مکان نہایت روشن ہوگیا۔ اس حال میں اچانک دیکھا گیا کہ آپ کے دو ابروئے مبارک کے درمیان ایک نور چمکتی بجلی کی طرح نمودار ہوا۔ جس کی شعاع نے شمع کے نور کو ماند کردیا۔ حاضرین نے اس نور کا مشاہدہ کیا۔ بعد ازاں آپ کا وصال ہوگیا۔ اور محلّہ خواجہ کفشیر میں محوطہ ملایاں میں دفن ہوئے آپ کی اولاد بزرگوار نے آپ کے مرقد مبارک پر عالیشان عمارت تعمیر کردی اور قبر مبارک کو نہایت عمدہ وضع پر بنایا۔
(مشائخِ نقشبندیہ)
یاغستان نزد تاشقند (روس) (۸۰۶ھ/ ۱۴۰۴ء۔۔۔۸۹۵ھ/ ۱۴۹۰) شہر سمرقند (روس)
قطعۂ تاریخِ وصال
ناصرالدین خواجۂ احرار |
|
تھے مشائخ میں کامل و یکتا |
(صاؔبر براری، کراچی)
زد بجہان نوبت شاہنشہی |
|
کوکبۂ فقر عبید اللہی |
مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ
آپ کا نام عبیداللہ ہے۔ ناصرالدین لقب ہے کیونکہ آپ سے دینِ اسلام کو نصرت پہنچی۔ احرار بھی آپ کا لقب ہے جو اصل میں خواجہ احرار ہے۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حر (واحد احرار) اُسے کہتے ہیں، جو عبودیت کی حدود کو بر درجۂ کمال قائم کرے اور اغیار کی غلامی سے نکل جائے۔ استعمال میں بعض وقت لفظ خواجہ کو حذف کرکے فقط احرار کہتے ہیں۔
آپ کی ولادت باسعادت یا غستان مضافاتِ تاشقند میں ماہ رمضان المبارک ۸۰۶ھ میں ہوئی۔ مادۂ تاریخ ولادت ’’تاجِ عارفاں‘‘ ہے۔ والد گرامی کا اسم مبارک محمود بن شہاب الدین ہے آپ حضرت خواجہ محمد باقی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد امجاد سے ہیں۔ مادرزاد ولی تھے۔ والدہ ماجدہ شیخ عمر یاغستانی کی اولاد سے تھیں اور حضرت خواجہ محمود شاشی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر تھیں، ولادت کے بعد چالیس دن تک جو کہ ایامِ نفاس ہیں، آپ نے اپنی والدہ کا دودھ نہ پیا۔ جب انہوں نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا تو پینا شروع کردیا۔
بچپن ہی سے آثارِ رشدہ و ہدایت اور انوارِ قبول و عنایت آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ تین چار سال کی عمر سے نسبت آگاہی بحق سبحانہ تعالیٰ حاصل تھی، مگر دل پر وہی نسبت غالب تھی۔ آپ کے جدِّ امجد خواجہ شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ جو کہ قطبِ وقت تھے، کا جب وقتِ اخیر ہوا تو اپنے پوتوں کو الوداع کہنے کے لیے بلایا۔ خواجہ احرار اس وقت بہت چھوٹے تھے، جب جدِّ امجد کے حضور گئے تو وہ ان کو دیکھ کر تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اور پھر گود میں لے کر فرمایا کہ اس فرزند کے بارے میں مجھ کو بشارت نبوی ہے کہ یہ پیر عالم گیر ہوگا اور اس سے شریعت و طریقت کو رونق حاصل ہوگی۔
آپ بچپن ہی میں مزاراتِ مشائخ پر حاضر ہوتے۔ جب سن بلوغ کو پہنچے تو تاشقند سے مزارات کی گشت کر آتے۔ آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی تعلیم کا بڑا خیال تھا۔ بدیں وجہ وہ آپ کو تاشقند سے سمر قند لے گئے، مگر شغلِ باطنی کا غلبہ علم ظاہری کی تحصیل سے مانع رہا۔
خواجہ فضل اللہ ابو للیثی رحمۃ اللہ علیہ (جو سمر قند کے اکابر علماء میں سے تھے) فرماتے تھے کہ ہم خواجہ عبیدالہ احرار کے باطن کے کمال کو نہیں جانتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے بحسبِ ظاہر علوم رسمی سے بہت کم پڑھا ہے اور ایسا دن کم ہوگا کہ وہ تفسیر قاضی بیضاوی میں ہمارے سامنے کوئی شبہ (شک گمان) پیش کریں اور ہم سب اس کے حل سے عاجز نہ آئے ہوں، بائیس برس کی عمر سے انتیس برس کی عمر تک آپ سفر ہی میں رہے اور اس عرصہ میں آپ کو بہت سے مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے ایک روز قبل مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام عبیداللہ احرار ہے۔ اُس نے تمام روئے زمین کو اپنی روحانیت میں لے لیا ہے۔ اور وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمرقند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے جو نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوانِ رعنا کون ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ یہ ’’خواجہ عبیداللہ احرار ہیں، عنقریب دنیا کے سلاطین ان کے در کے گدا ہوں گے‘‘۔
سمر قند ہی میں آپ حضرت سیّد قاسم تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی رحمۃ اللہ علیہ[۱] خلیفہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی رحمہ اللہ علیہ کی زیارت کی جو سید امیر حمزہ بن سیّد امیر کلال قدس سرہما کے خلیفۂ اول تھے۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوافی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھی بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سیّد قاسم تبریزی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
[۱۔ پر مس قصبہ وا بکنی کے نواحی دیہات میں سے ہے جو بخارا سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ (قصوؔری)]
ہرات میں آپ نے ایک سوداگر سے حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل سنے۔ اس لیے وہاں سے اُن کی صحبت کی نیت سے بلخ کے راستے حصار کی طرف متوجہ ہوئے۔ بلخ میں مولانا حسام الدین پارسا خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہما کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں سے حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ کے مزار کی زیارت کے لیے چغانیاں تشریف لے گئے اور چغانیاں سے ہلفتو، مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جس کا قصّہ آپ خود یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’جب میں ولایت چغانیاں پہنچا تو بیمار ہوگیا اور بیس روز تپ لرزہ آتا رہا۔ اس عرصہ میں نواج چغانیاں کے بعضے لوگوں نے مولانا خواجہ یعقوب چرخی کی بہت غیبت (بدگوئی، برائی) کی ۔ بیماری کے دنوں میں ایسی پریشان باتوں کے سننے سے خواجہ چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات کے ارادے میں بڑا فتور واقع ہوا۔ آخر کار میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو اس قدر دور فاصلہ سے آیا ہے لہٰذا اب یہ بات اچھی نہیں کہ تو ان سے ملاقات نہ کرے۔ چنانچہ میں اُن کی خدمت میں پہنچا وہ بڑی عنایت سے پیش آئے اور ہر طرح کی باتیں کیں۔ لیکن دوسرے روز جو میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو بہت غصہ ہوئے اور سختی و درشتی سے پیش آئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اُن کے غصہ کا سبب غیبت کا سننا اور تیرے ارادے میں فتور کا آنا ہوگا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ لطف و کرم سے پیش آئے اور بہت توجہ اور عنایت فرمائی، اور حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی ملاقات کا حال بیان فرماکر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ بیعت کر۔ چونکہ اُن کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت اُن کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کوسمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا اور صورت تبدیل کرکے ایسی خوبصورت اور شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بے خود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دستِ مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اُس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو، میں نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسبِ طریقہ حضراتِ خواجگان نقشبندیہ مجھے شغل نفی و اثبات جس کو وقوفِ عددی کہتے ہیں، سکھایا اور فرمایا کہ جو کچھ ہم کو خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچا ہے یہی ہے اگر تم بطریقِ جذبہ طالبوں کی تربیت کرو تو تمہیں اختیار ہے‘‘۔
کہتے ہیں کہ مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی، اُس کی نسبت آپ نے کس طرح فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے، چاہو تو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں، صرف اجازت کی دیر ہو، مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے تو اُسے خواجہ عبیداللہ احرار کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ، تیل اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔
اس کے بعد حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے حضراتِ خواجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے اور جب طریقِ رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتادینا۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی، اُس کی نسبت آپ نے کس طرح فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے چاہو تو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں، صرف اجازت کی دیرہو۔ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہیے، تو اُسے خواجہ عبیداللہ احرار کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ، تیل اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔
اس کے بعد حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے حضراتِ خواجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے اور جب طریقِ رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتادینا۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ یعقوب چرخی قدس سرہ کی خدمت سے رخصت پاکر پھر ہرات میں آئے اور کم و بیش ایک سال وہاں رہے۔ بعد ازاں انتیس سال کی عمر میں وطن مالوف کی طرف مراجعت فرمائی اور تاشقند میں مقیم ہوکر زراعت کا کام ایک شخص کی شراکت میں شروع کیا۔ دونوں ایک جوڑی بیل سے کھیتی کا کام کرنے لگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی زراعت میں بڑی برکت دی۔ آپ کے مال و منال، ضیاع و عقار گلہ و مواشی اور اسباب و املاک اندازہ کی حد سے زائد تھے مگر یہ سب درویشوں کے لیے تھے۔ چنانچہ مولانا جامی قدس سرہ السامی اپنی کتاب یوسف زلیخا میں آپ کے منقبت میں یوں لکھتے ہیں ؎
ازاں دانہ کز و آدم بنا کام |
|
ز بستانِ بہشت آمد بدیں دام |
’’جس دانہ سے حضرت آدم رضی اللہ عنہ ناچار باغ بہشت سے اس جال (دنیا) میں آئے۔
اُن کے ہزار کھیت زیر کاشت ہیں جو کہ راہِ بہشت میں چلنے کا توشہ ہیں۔
وہ اس کھیت (دنیا) میں بیج بو رہے ہیں اور اُس عالم میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔‘‘
وفات:
آپ کی وفاتِ حسرت آیت۲۹؍ ربیع الاوّل ۸۹۵ھ/ ۱۴۹۰ء کو ہوئی۔ رات کو جب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگا تو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کی گئیں جن سے وہ مکان نہایت روشن ہوگیا۔ اس حال میں اچانک دیکھا گیا کہ آپ کے دو ابروئے مبارک کے درمیان سے ایک نور چمکتی بجلی کی طرح نمودار ہوا۔ جس کی شعاع نے شمعوں کے نور کو مات کردیا۔ حاضرین نے اُس نور کا مشاہدہ کیا۔ بعد ازاں آپ کا وصال ہوگیا اور محلہ خواجہ کفشیر، محوطہ ملایاں سمر قند میں دفن ہوئے۔ آپ کی اولادِ امجاد نے آپ کے مرقد مبارک پر عالیشان عمارت تعمیر کردی اور قبر مبارک کو نہایت عمدہ وضع پر بنایا۔
آپ کے مرید باصفا مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ قطعۂ تاریخ وصال کہا ؎
بہشت صد و نود و پنج در شبِ شنبہ |
|
کہ بود سلخ مہ فوت احمدِ مرسل |
کرامات:
۱۔ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمت سے مراد یہ ہے کہ دل ایک امر پر اس مضبوطی سے جم جائے اور پھر اُس کے خلاف کوئی چیز دل میں نہ آئے۔ ایسی ہمت مراد سے متخلف نہیں ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ اوائلِ جوانی میں جبکہ ہم مولانا سعدالدین کاشغری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہرات میں تھے اور دونوں سیر کیا کرتے تھے۔ تو کبھی کشتی لڑنے والوں کے اکھاڑہ میں جا پہنچتے اور اپنی قوت و توجہات کا امتحان کرتے۔ دو پہلوانوں میں سے ایک کی طرف توجہ مبذول کرتے تو وہ غالب آجاتا۔ پھر مغلوب کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ غالب ہوجاتا۔ اس طرح کئی بار اتفاق ہوا۔ مقصود یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ ہمت کی تاثیر کس درجہ پر پہنچتی ہے۔
۲۔ حضرت مولانا ناصرالدین اتراری رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہ کے خادموں میں تھے، بیان کرتے ہیں کہ حضرت نے واقعہ میں دیکھا تھا کہ آپ کی مدد سے شریعت کو تقویت پہنچے گی۔ آپ کے قلبِ مبارک میں خیال آیا کہ یہ بات سلاطین کی مدد کے بغیر حاصل نہ ہوگی۔ اس غرض سے آپ سمر قند کی طرف آئے۔ اُس وقت میرزا عبداللہ بن میرزا ابراہیم بن میرزا شاہرخ بن امری تیمور ولایت سمر قند کا حاکم تھا۔ میں سفر میں آپ کی خدمت میں تھا۔ جب آپ سمر قند پہنچے تو میرزا عبداللہ کا ایک امری آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اُس سے فرمایا کہ ہمارے یہاں آنے کی غرض تمہارے میرزا سے ملاقات ہے۔ اگر تمہارے ذریعہ سے یہ کام ہوجائے تو بڑی اچھی بات ہے۔ اُس امیر نے نہایت بے ادبی اور غیر شائستگی سے جواب دیا کہ ہمارا میرزا بے پرواہ جوان ہے، اُس سے ملاقات مشکل ہے۔ درویشوں کو ایسی باتوں سے کیا مطلب؟ آپ نے خفا ہوکر فرمایا کہ ہم کو سلاطین کی ملاقات کا حکم ہوا ہے ہم آپ اپنے آپ نہیں آئے۔ اگر تمہارا میرزا پروا نہیں کرتا تو دوسر الایا جائے گا جو پروا کرے گا۔
جب وہ امیر چلا گیا تو آپ نے اُس کا نام سیاہی سے اُس مکان کی دیوار پر لکھا اور اپنے لعابِ دہن سے مٹاکر فرمایا کہ مارا کام اس بادشاہ اور اس کے امیروں سےنہیں چل سکتا اور اُسی روز تاشقند کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ امیر مرگیا اور ایک مہینے کے بعد سلطان ابوسعید میرزا ابن محمد میر ابن میر انشاہ بن امیر تیمور اطرافِ ترکستان سے ظاہر ہوا اور اُس نے میرزا عبداللہ پر حملہ کرکے اُسے قتل کر ڈالا۔ یہ واقعہ ۸۵۵ھ کا ہے۔
۳۔ میرزا بابر بن میرزا با یسنغر بن میرزا شاہرخ بن امیر تیمور ایک لاکھ سپاہ لے کر خراسان سے سمرقدن کی طرف متوجہ ہوا۔ میرزا سلطان ابوسعید نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے اُس کے مقابلہ کی طاقت و ہمت نہیں ہے، کیا کروں؟ آپ نے اُسے تسلی دی۔ جب میرزا بابر، دریائے آمویہ سے گزرا تو سلطان ابوسعید کے امیروں کی ایک جماعت نے اتفاق و مشورہ کیا کہ میرزا کو ترکستان لے جائیں اور وہاں قلعہ نشین ہوجائیں۔ چنانچہ تمام سامان اونٹوں پر لدوادیا گیا، حضرت کو جو خبر لگی تو شتر بانوں پر خفا ہوئے، سامان اُتروادیا اور خود میرزا ابوسعید کے ہاں تشریف لے گئے۔ میرزا سے فرمایا کہ کہاں جاتے ہو، جانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، یہیں کام بن جائے گا۔ میں نے تمہاری مہم اپنے ذمہ لے لی ہے۔ امیر گھبرا گئے یہاں تک کہ بعضوں نے اپنی پگڑیاں زمین پر پھینک دیں اور کہنے لگے کہ حضرت خواجہ ہم کو مروا رہے ہیں۔ میرزا ابوسعید کا چونکہ اعتقادِ صادق تھا لہٰذا اس نے کسی کی نہ سنی اور سمرقند ہی میں قلعہ نشین ہوگیا۔
جب میرزا بابر قلعۂ سمرقند کے قریب پہنچا تو اس کا سپہ سالار خلیل عیدگاہ سمر قند کے دروازہ پر ٹھہر گیا۔ شہر سے تھوڑے سے آدمی نکل کر خلیل سے لڑے، خلیل گرفتار ہوگیا، میرزا بابر سمرقند کے پرانے قلعہ میں اُترا۔ اُس کے سپاہی سامانِ معیشت کے لیے جس طرف جاتے اہلِ سمرقندکو پکڑ کر ناک کان کاٹ ڈالتے۔ اس طرح میرزا بابر کے لشکر کے بہت سے سپاہیوں نے اپنے ناک کان کٹوالیے۔ اس صورتِ حال تمام لشکر بہت تنگ آگیا۔ چند روز کے بعد اُن کے گھوڑوں میں وبا نمودار ہوئی۔ جس سے بہت سے گھوڑے تلف ہوگئے۔ آخر کار میرزا بابر نے مولانا محمد معمائی کو حجرت کی خدمت میں بھیج کر صلح کی درخواست کی، مولانا محمد نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ ہمارا میرزا نہایت غیور اور عالی ہمت بادشاہ ہے۔ جس طرف متوجہ ہوتا ہے بغیر اسیر کیے واپس نہیں آتا۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اُس کے جواب میں فرمایا کہ میں اُس کے دادا میرزا شاہ رخ (المتوفی ۸۵۰ھ) کے زمانہ میں ہرات میں تھا۔ مجھے اُس کے طفیل سے بڑی فراغت اور جمعیت حاصل تھی۔ اگر شاہ رخ کے حقوق نہ ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ میرزا بابر کا کیا حال ہوتا۔ آخر کار حضرت اقدس کے خاص مرید مولانا قاسم رحمۃاللہ علیہ کی وساطت سے صلح ہوگئی۔
۴۔ جب مرزا سلطان ابوسعید بتاریخ ۲۵؍رجب ۸۷۳ھ شہید ہوگیا تو اُس وقت اُس کے گیارہ بیٹوں میں سے چار برسر حکومت تھے۔ چنانچہ میرزا الغ بیگ، کابل میں۔ میرزا سلطان احمد، سمر قند میں، میرزا عمر شیخ ولایتِ اند جان و فرغانہ میں اور میرزا سلطان محمود، حصار اور بدخشاں میں حکمران تھا۔ میرزا سلطان محمود نے سمرقند کے محاصرہ کا ارادہ کیا، حضرت خواجہ کو پتہ چلا تو آپ نے بذریعہ رقعہ و پیام اُسے اس حرکت سے باز رہنے کا حکم دیا مگر وہ راہِ راست پر نہ آیا اور ولایت حصار سے سمر قند روانہ ہوگیا۔ بے شمار سامان و لشکر اُس کے ساتھ تھا۔ اپنے لشکر کے علاوہ چار ہزار تُر کمان (ایک قوم جو ترکوں سے کم مرتبہ ہونے کی وجہ سے ترکمان کہلاتی ہے) ہمرکاب تھے۔ میرزا سلطان احمد میں مقابلہ کی تاب نہ تھی۔ اس لیے اُس نے بھاگنا چاہا اور حضرت خواجہ سے اجازت چاہی۔ حضرت اقدس شہر سمرقند کے مدرسہ میں مقیم تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم بھاگ جاؤ گے تو سمر قند کے تمام باشندے قید ہوجائیں گے۔ تم مت گھبراؤ، میں تمہارے معاملہ کا ذمہ دار ہوں، اگر دشمن مغولب نہ ہوا تو تم مجھ سے مواخذہ کرنا، پھر آپ نے میرزا سلطان احمد کو مدرسہ کے ایک حجرے میں اتارا جس کا ایک ہی دروازہ تھا اور آپ اُس دروازے میں بیٹھ گئے۔ خادموں نے آپ کے حکم سے ایک تیز رفتار اونٹنی لاکر اس حجرے کے آگے بٹھادی آپ نے فرمایا کہ اگر میرزا سلطان محمود، سمرقند پہ قابض ہوجائےا ور اُس دروازے سے کہ جہاں لڑائی ہو شہر میں داخل ہوجائے تو تم اس اونٹنی پر سوار ہوکر دوسرے دروازے سے بھاگ جائیو، آپ نے اس تدبیر سے میرزا سلطان احمد کو تسکین دی، بعد ازاں آپ نے مولانا سیّد حسین، مولانا قاسم، میر عبدالاول اور مولانا جعفر کو جو آپ کے اکابر اصحاب میں تھے، طلب فرمایا اور حکم دیا کہ تم فورا اُس دروازے کے برج میں جاکر مراقبہ کرو۔ چنانچہ وہ وہاں جاکر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مراقبہ میں بیٹھتے ہی ہم نے دیکھا کہ ہم نیست ہیں، تمام حضرت ہی حضرت ہیں اور تمام عالم آپ کےو جود مبارک سے پُر ہے۔ لڑائی وقت چاشت تک جاری رہی۔ قریب تھا کہ دشمن غالب آجائے، شہر والے حیران و پریشان تھے کہ ناگاہ دشتِ قبچان کی طرف سے ایک سخت آندھی اُٹھی اور میرزا محمود کے لشکر و لشکر گاہ میں گرد و غبار کا وہ طوفان برپا ہوا کہ کسی کو آنکھ کھولنے کی مجال نہ رہی۔ ہوا پیادوں اور سواروں کو زمین پر گراتی۔ خیمہ وغیرہ کو اکھاڑ کر اُوپر کی طرف اڑاتی اور زمین پر پھینک دیتی، میرزا سلطان محمود اپنے امیروں اور ترکمانوں کی جماعت کثیر کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے دیوار کے پشتہ کے نیچے گھوڑے پر سوار کھڑا تھا کہ ناگاہ پشتہ کا ایک حصہ پھٹ گیا جس کے ہولناک دھماکہ سے قریباً چار سو مرد اور گھوڑے جو اس کے نیچے کھڑے تھےدب کر مرگئے۔ ترکمانوں کے گھوڑے بھاگنے لگے۔ سواروں نے ہر چند روکا مگر نہ رکے۔ القصدلشکر پراگندہ و منتشر ہوگیا۔ میرزا سلطان محمود کو شکست ہوئی۔ میرزا سلطان احمد کے لشکر اور شہر کے لوگوں نے قریباً پانچ کوس تک اُن کا تعاقب کیا اور بہت سے سوار اور گھوڑے پکڑ لائے اور بہت سا مال و متاع ہاتھ آیا۔
۵۔ مولانا شیخ ابوسعید مجلد جو میرزا شاہ رُخ کے زمانہ میں نہایت خوبصورت جوان تھے بیان کرتے ہیں کہ جوانی میں ایک بار ایک خوبصورت عورت سے اتفاقاً میری ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے مکان میں آگئی میں نے چاہا کہ خلوت میں اُ سسے بات چیت کروں۔ دریں اثنا میں نے حضرت خواجہ کی آواز سنی کہ فرماتے ہیں: ابوسعید! چہ کار مے کنی؟ یہ سن کر میری حالت بدل گئی اور میرے دل پر ہیبت طاری ہوگئی اور میرے اعضاء میں رعشہ طاری ہوگیا۔ میں نے فوراً اُس عورت کو مکان سے نکال دیا کچھ عرصہ بعد حضرت شتریف لائے جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمانے لگے کہ اگر حق تعالیٰ کی توفیق تیری یاوری نہ کرتی تو شیطان تجھ کو برباد کردیتا۔
۶۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے مخلصوں سے ایک بزرگ نقل کرتے ہیں کہ سمر قند میں میرا ایک غلام غائب ہوگیا۔ اُس غلام کے سوا میرے پاس اور کچھ مال و متاع نہ تھا، چار مہینے میں نے اس کی تلاش میں سر گردانی کی۔ سمرقند کے نواح میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں میں کئی بار نہ گیا۔ پہاڑ اور صحرا میں بہت پھرا مگر کہیں بھی اُس کا سراغ نہ ملا۔ اسی پریشانی کے عالم میں مارا مارا پھر رہا تھا کہ ناگاہ ایک صحرا میں حضرت خواجہ قدس سرہ ملے۔ آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب و خدام بھی تھے۔ میں نے حالتِ اضطراب میں حضرت کے گھوڑے کی باگ تھام لی اور بڑی نیاز مندی اور عاجزی سے اپنا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو دہقانی آدمی ہیں۔ ایسی باتوں کو کیا جانیں۔ میں نے چونکہ سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ ایسا تصرف کرتے ہیں کہ غیب کی خبر دے دیتے ہیں بلکہ غیب کو حاضر بھی کردیتے ہیں، اس لیے اصرار کیا اور گھوڑے کی باگ نہ چھوڑی جب آپ نے کوئی چارہ نہ دیکھا تو ایک لخطہ سکوت فرمایا اور پوچھا کہ یہ گاؤں جو نظر آ رہا ہے کیا اس میں بھی تم نے اُسے تلاش کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں تو بارہا اس میں گیا ہوں مگر محروم واپس لوٹا ہوں ارشاد کیا کہ اب پھر جاؤ، وہاں مل جائے گا یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیرز دوڑایا۔ جب میں اس گاؤں کے نزدیک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں وہ غلام پانی کا گھڑا بھر سامنے رکےے خشک و ویران جگہ پر حیران و پریشان کھڑا ہے جونہی میری نظر اس پر پڑی میں نے بے اختیار نعرہ مارا اور کہا اے غلام! تو اس عرصہ میں کہاں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کے گھر سے نکلا تو ایک شخص مجھ کو بہکا کر خوارزم میں لے گیا او روہاں مجھے فروخت کردیا۔ جس شخص نے مجھے خریدا تھا، آج اُس کے ہاں ایک مہمان آیا، اُس نے مجھے حکم دیا کہ پانی کا ایک گھڑا لاؤ ، تاکہ کھانا تیار کریں، میں گھڑا اُٹھاکر پانی کے کنارے پر پہنچا اور پانی سے بھرلیا جب میں نے گھڑا پانی سے نکالا تو اپنے آپ کو یہاں پایا اور اب میں یہ فیصلہ نہیں کرپاتا کہ یہ معاملہ بیداری میں دیکھ رہا ہوں یا خواب میں۔ حضرت خواجہ قدس سرہ کا یہ تصرف دیکھ کر میرا حال بدل گیا۔ میں نے غلام کو تو آزاد کردیا اور حضرت خواجہ قدس سرہ کا غلام بن گیا۔
۷۔ مولانا زادہ فرکنی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا نظام الدین علیہ الرحمۃ کے مرید تھے۔ وہ اپنے مرشد کی وفات کے بعد حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے ہیں۔ اُن کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں کے ساتھ ایک گاؤں کو جا رہا تھا۔ سردی کا موسم تھا۔ نمازِ عصر تو راستے میں پڑھی مگر ابھی وہ گاؤں چھ میل دور تھا کہ سورج غروب ہونے لگا۔ میرےد ل میں خیال آیا کہ دن ختم ہوگیا، راستہ خطرناک ہوا سرد اور فاصلہ زیادہ ہے، اب کیا حال ہوگا؟ جب یہ خیال بار بار میرے دل میں آیاتو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے میری طرف رخ مبارک پھیر کر ارشاد کیا کہ ڈرو مت، ممکن ہے کہ غروبِ آفتاب سے پہلے منزل پر پہنچ جائیں، یہ فرماکر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا اور میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گھوڑا دوڑا رہا تھا اور پلٹ پلٹ کر آفاتب کی ٹکیہ کو بھی دیکھتا جاتا تھا لیکن وہ اُسی طرح اُفق پر ٹھہرا ہوا تھا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے اُس میں میخ (کیل) ٹھونک دی ہے۔ جب ہم گاؤں میں پہنچے تو یک بیک سورج ایسا غروب ہوا کہ شفق کی سرخی و سپیدی جو غروب کے بعد ہوا کرتی ہے اُس کا کوئی نشان نہ رہا اور عالم میں ایسی تاریکی پھیل گئی کہ شکلوں اور رنگتوں کا نظر آنا ناممکن ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ حضرت خواجہ قدس سرہ کا تصف ہے۔ عارفِ رومی رحمۃ اللہ علیہ نے سچ کہا ہے کہ ؎
اولیاء راہست قدرت از الٰہا |
|
تیر گشتہ راباز گرد انند از قضا |
۸۔ حضرت خواجہ قدس سرہ کا ایک خادم سمر قند جا رہا تھا۔ آپ نے اُس کو ارشاد فرمایا کہ ہمارے لیے وہاں سے خالص شہد کے چند ڈبے لانا۔ وہ کئی ڈبے شہد سے بھرکو اور سب کے منہ پر مہر (Seal) لگاکر روانہ ہوا۔ اتفاقاً بازار میں کسی کام کے لیے ایک بزاز کی دکان پر رکنا پڑا اور شہد کے ڈبوں کو اپنے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا۔ ناگاہ ایک خوبصورت شراب سے مست عورت جو اُس بزاز کی آشنا تھی، وہاں آئی اور بزاز سے باتیں کرنے لگی۔ اُس خادم نے نظرِ حرام سے اس عورت کو دو تین بار دیکھا اور پھر ڈبوں کو اُٹھاکر تاشقند آگیا۔ جب وہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے دربارِ گوہر بار میں پہنچا تو آپ جنگل کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ اُس نے آپ کے پیچھے جانا چاہا مگر اتنے میں آپ تشریف لے آئے۔ اُس نے وہ ڈبے پیش کیے۔ حضرت اقدس نے ڈبوں کو ایک نظر دیکھتے ہی خفا ہوکر فرمایا کہ ان ڈبوں سے تو شراب کی بو آتی ہے۔ اے بدبخت! ہم نے تجھے شہد لانے کو کہا تھا مگر تو ہمارے لیے شراب لے آیا۔ خادم نے عرض کیا کہ میں تو شہد لایا ہوں آپ کے حکم سے جب کھول کر دیکھا گیا تو ہر ڈبہ شراب سے بھرا ہوا پایا گیا۔
۹۔ جس وقت آپ نے مولانا جامی قدس سرہ السامی سے حضرت خواجہ یعقوب چرخیق دس سرہ سے اپنے مرید ہونے کی داستان بیان فرمائی اور بتایا گیا کہ کس طرح خواجہ چرخی رحمۃ اللہ علیہ نورانی شکل میں ظاہر ہوئے تھے تو آپ بھی بطریق خلع و لبس مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ کے روبرو ایسی نورانی شکل میں ظاہر ہوئے کہ جو مولانا جامی کے محبوب تھے۔
۱۰۔ آپ کے ایک مرید ہوا میں اڑتے تھے۔ آپ نے یہ گستاخی آمیز حال دیکھ کر اُن کا سب حال چھین لیا۔ اُس نے بہت عاجزی اور آہ وزاری کی مگر آپ نے نہ دیا تب وہ آپ کو اکیلا پاکر چھری سے حملہ آور ہوا۔ آپ فوراً جنگل ی چروائے کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ وہ مرید حیران و پریشان ہوا اور آپ نے چھری اُس کے ہاتھ سے چھین لی اور پھر اصلی حالت میں آگئے، فرمایا کہ اب بتا! تیرا کیا حال کروں، وہ قدموں میں گر پڑا، آپ نے خطا معاف کرکے جو کچھ چھین لیا تھا واپس کردیا۔
۱۱۔ آپ کے کچھ خدام ایک دفعہ بازار میں گئے اُن میں سے ایک خادم، ایک صاحبِ جمال کو دیکھنے لگا تو دوسروں نے منع کیا، اُس نے کہا کہ میں بنظر شہوتِ نفس نہیں دیکھتا جب واپس آیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اب تک نفس کے مکر و فریب سے بیڈر نہیں ہوا تم کب سے ہوگئے کہ بغیر شہوتِ نفس کے دیکھتے ہو؟ وہ از حد شرمسار و نادم ہوا۔ آپ بہت ہی اشرافِ خواطر رکھتے تھے، جو جو خطرہ کسی کے دل پر گزرتا، آپ اُس کو پکڑلیتے تھے اور فرمادیتے تھے کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ کے پاس بیٹھ کر کسی طرح کا خطرہ جی میں لاوے۔
۱۲۔ ایک عالم آپ کی تعریف سن کر زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ جب شہر کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ اونٹوں پر بہت سا غلہ شہر میں جا رہا ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ غلہ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، سخت متعجب ہوئے کہ یہ کیسی فقیری ہے، اس قدر دنیاداری اور امارت ہے۔ دل میں خیال آیا کہ لوٹ جائیں لیکن پھر سوچا کہ اس قدر مسافت طے کرکے آیا ہوں، مل لینے میں کیا حرج ہے۔ خانقاہ شریف میں پہنچے تو اتفاقاً نیند آگئی، خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا ہے اور نفسہ انفسی کا عالم ہے۔ ایک شخص کہ جس کا یہ عالم قرض دار تھا، وہ اس سے قرض کا خواہاں ہے اور چاہتا تھا کہ قرض کے عوض اپنے اعمال دے دے۔ وہ عالم سخت پریشانی اور حیرانی کے عالم میں تھا کہ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے آئے اور صورتِ حال معلوم کرکے اپنے پاس سے سب قرض ادا کردیا۔ اتنے میں عالم کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو حضرت خواجہ خانقاہ میں تشریف فرما ہیں اور مسکرا کر فرمایا کہ میں مال اسی واسطے رکھتا ہوں کہ دوستوں کو قرض سے نجات دلاؤں، وہ عالم قدموں میں گر کر معافی کا طلبگار ہوا اور داخلِ سلسلہ ہوگیا۔
۱۳۔ دو درویش دور درازس کا سفر کرکے آپ کی زیارت کے لیے جب خانقاہ میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ قدس سرہ بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں وہ درویش سخت حیران ہوئے کہ یہ کیسے شیخ ہیں جو بادشاہ کے پاس جاتے ہیں۔ بئس الفقیرعلی باب الامیر کے مصداق ہیں۔ اتفاقاً اُسی وقت دو چار شاہی دربار سے بھاگ نکلے، اُن کو تلاش کرتے کرتے سپاہیوں نے ان درویشوں کو آپکڑا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ شریعت کے مطابق ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں حضرت خواجہ قدس سرہ اُس وقت بادشاہ کے پاس جلوہ افروز تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں درویش چور نہیں ہیں بلکہ یہ تو مجھے ملنے کے لیے آئے ہیں، ان کو چھوڑ دو،پھر آپ دونوں درویشوں کو ساتھ لے کر خانقاہ میں تشریف لائے، اور فرمایا کہ میں بادشاہ کے پاس اس لیے گیا تھا کہ تمہارے ہاتھ قطع ہونے سے بچاؤں، اگر میں وہاں نہ ہوتا تو تمہارے ہاتھ قطع ہوچکے تھے اور بئس الفقیر علی باب الامیر کے مصداق میں جب ہوتا کہ طمعِ دنیا کے لیے جاتا، وہ دونوں درویش شرمسار ہوئے اور قدموں میں گرگئے۔
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ پیر کون ہے؟ پیر وہ شخص ہے جو حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کا خیال رکھتا ہو، یعنی جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے، اُس پر عمل پیرا ہو، اور جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے اُس سے مکمل اجتناب کرے۔ اور وہ خود اور اُس کی تمام خواہشات اُس سے گم ہوگئی ہوں اور وہ ایسا آئینہ ہوگیا ہو جس میں سوائے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و اوصاف کے کچھ نظر نہ آئے۔ اس مقام میں وہ صفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصف ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ کے تصوف کا مظہر بن جاتا ہے اور تصرف الٰہی سے اصحابِ استعداد کے باطن میں تصرف کرتا ہے ؎
از بسکہ در کنار ہمے گیرداں نگار |
|
بگرفت بوئے یار و رہا کرد بوئے طین |
۲۔ مرید وہ ہے کہ ارادت کی آگ کی تاثیر سے اُس کی خواہش جل گئی ہو اور اُس کی مرادوں میں سے کچھ نہ رہا ہو اور اپنے دل کی بصیرت سے پیر کے آئینہ میں مراد کا جمال دیکھ کر اُس نے سب قبلوں سے منہ پھیرلیا ہو اور پیر کا جمال اس کا قبلہ ہوگیا ہو اور پیر کی بندگی میں آزادی سے فارغ ہوکر سوائے پیر کے آستانہ کے اپنے سرِ نیاز کو کہیں خم نہ کرتا ہو۔ اور سب سے منہ پھیر کر اپنی سعادت پیر کی قبولیت میں اور اپنی شقاوت پیر کے رد میں سمجھتا ہو بلکہ نیستی کا خط وجود کی پیشانی پر کھینچ کر وجودِ غیر کے شعور کے تفرقہ سے رہائی پاگیا ہو ؎
آنرا کہ در سرائے نگاریست فارغ است |
|
از باغ و بوستاں و تماشائے لالہ زار |
۳۔ ہم درویشوں کی ایک جماعت ایک جگہ بیٹھی تھی۔ دورانِ گفتگو اس حدیث شریف کا ذکر ہوا کہ جمعۃ المبارک کے دن ایک ایسی ساعت ہوتی ہے کہ اُس میں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے، مل جاتا ہے، اس ساعت کا تذکرہ ہوا کہ اگر وہ ساعت میسر آئے تو اُس میں اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہیے، ہر ایک نے کچھ نہ کچھ کہا، جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ اربابِ جمعیت[۱] کی صحبت مانگنی چاہیے کیونکہ اس کے ضمن میں تمام سعادتیں حاصل ہیں۔
[۱۔ اربابِ جمعیت سے مراد وہ سالکین ہیں جو تمام سے منہ پھیر کر مطلوبِ حقیقی کے مشاہدہ میں مستغرق ہیں۔]
۴۔ اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ توحید کیا ہے تو یہ جواب دے کہ غیر اللہ کی آگاہی سے دل کا آزاد کرنا توحید ہے، اگر پوچھا جائے کہ وحدت کیا ہے تو یہ جواب دے کہ غیراللہ کے وجود کے علم و شعور سے دل کی خلاصی وحدت ہے، اگر پوچھا جائے کہ اتحاد کیا ہے، تو یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں استغراق اتحاد ہے اگر پوچھا جائے کہ سعادت کیا ہے؟ تو یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی دید کے ساتھ خودی سے خلاصی سعادت ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ شقاوت کیا ہے؟ تو جواب دے کہ خودی میں رہتا اور حق سے باز رہنا شقاوت ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ وصل کیا ہے؟ تو جواب دے کہ وجودِ حق تعالیٰ کے نور کے شہود کے ساتھ اپنے آپ کو بھول جانا وصل ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ فصل کیا ہے؟ تو یہ جواب دے کہ دل کا غیراللہ سے جدا کرنا فصل ہے، اگر پوچھا جائے کہ سکر کیا ہے؟ تو جواب دے کہ ایسے حال کا دل پر ظاہر ہونا کہ دل اُس چیز کو پشیدہ نہ رکھ سکے۔ جس کا پوشیدہ رکھا اُس حال سے پہلے واجب تھا۔
۵۔ فرماتے تھے کہ اگر تمام احوال[۱] اور مواجید[۲] ہمیں عطا کیے جائیں اور ہمیں اہل سنت و جماعت کے عقائد سے آراستہ نہ کیا جائے تو ہم اُسے بجز خرابی کچھ نہیں سمجھتے اور اگر تمام خرابیاں ہم پر جمع کی جائیں اور اہل سنت و جماعت کے عقائد سے سرفراز فرمایا جائے تو ہمیں کچھ ڈر نہیں۔
[۱۔ احوال جمع ہے حال کی۔ حال وہ معنی ہے جو سالک کے دل پر بغٰر تصنع اور اکتساب کے وارد ہوتا ہے۔ مثلاً خوشی یا غم یا قبض یا بسط وغیرہ۔ حال جب دائم ہو اور ملکہ بن جائے تو اُسے مقام کہتے ہیں پس احوال مواہب ہیں اور مقامات مکاسب۔ حال عین جود سے آتے ہیں اور مقامات بذل مجہود سے حاصل ہوتے ہیں۔
۲۔ مواجید جمع ہے وجد کی وجد وہ ہے جو سال کے دل پر آئے اور بغیر تکلف و تصنع کے وارد ہو۔ مواجید اور اوراد و وظائف پر بفضلِ الٰہی مترتب ہوتے ہیں۔ اکتساب کو ان میں دخل نہیں۔]
۶۔ ہماری زبان دل کا آئینہ ہے، دل روح کا آئینہ ہے اور روح حقیقتِ انسانی کا آئینہ ہے۔ حقیقتِ انسانی اللہ تعالیٰ کا آئینہ ہے۔ حقائقِ غیبیہ، غیب ذات سے دور دراز فاصلے طے کرکے زبان پر آتے ہیں اور یہاں صورتِ لفظی قبول کرکے مستعدانِ حقائق کے کانوں میں پہنچتے ہیں۔
۷۔ میں جو بعض اکابر کی خدمت میں رہا، تو انہوں نے مجھے دو چیزیں عطا فرمائیں، ایک یہ کہ میں جوکچھ لکھوں جدید ہوگا نہ کہ قدیم۔ دوسرے یہ کہ میں جو کچھ کہوں، مقبول ہوگا۔
۸۔ آیۂ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْن کے معنی میں آپ فرماتے تھے کہ اس کے دو معنی ہیں پہلا یہ کہ اہلِ صدق کے ساتھ مجالست و مصاحبت کو لازم پکڑے تاکہ اُن کی صحبت کے دوام کے سبب سے اُس کا باطن اُن کے صفات و اخلاق کے انوارسے روشن ہوجائے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ باطن کی شاہراہ سے اُس گروہ کے ساتھ رابطہ کا طریق اختیار کرے جو واسطہ ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں اور صحبت کو اس امر میں حصر (احاطہ کرنا، گھیرنا) نہ کرے کہ ہمیشہ آنکھ کے ساتھ دیکھے بلکہ ایسا کرے کہ صحبتِ دائمی ہوجائے اور صورت سے معنی کی طرف عبور کرے تاکہ واسطہ ہمیشہ نظر میں رہے۔ جب اس بات کو دوام کے طور پر ملحوظ رکھے گا، تو اُس کے باطن کو اُن کے باطن کے ساتھ نسبت و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور اس واسطہ سے اُسے مقصود اصلی حاصل ہوجائے گا۔
۹۔ حدیث میں جو آیا ہے شیبتنی سورہ ھود (سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا) اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں استقامت کا حکم آیا ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے فاسْتَقِمْ کما اُمِرْتَ (پس تو استقامت کر جیسا کہ تجھے حکم ہوا ہے) اور استقامت نہایت دشوار ہے کیونکہ استقامت کے معنی ہیں قائم رہنا حد وسط میں تمام افعال و اقوال اور اخلاق و احوال میں بدیں طور کہ تمام افعال میں ضرورت سے تجاوز صادر نہ ہو اور افراط و تفریط سے محفوظ رہے اسی سبب سے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ضروری کام تو استقامت ہے۔ کرامت و خوارقِ عادات کے ظہور کا کچھ اعتبار نہیں۔
۱۰۔ لوگوں کے اعمال و اخلاق سے جمادات کا متاثر ہونا محققین کے نزدیک ایک ثابت امر ہے۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے اس بارے میں بہت تحقیق کی ہے۔ یہ تاثر اس درجہ تک ہے کہ اگر ایک شخص نماز کو جو افضلِ عبادات ہے، ایسی جگہ ادا کرے جو ایک جماعت کے اعمال و اخلاق ناپسندیدہ سے متاثر ہوگئی ہو تو اُس نماز کا جمال اور رونق اس نماز کے برابر نہیں جو ایسی جگہ میں ادا کی جائے جو اربابِ جمعیت کی برکت سے متاثر ہو۔ یہی سبب ہے کہ حرمِ مکہ میں دو رکعت نماز غیر محرم میں بہت سی رکعتوں کے برابر ہے۔
۱۱۔ ہمارے زمانہ میں توحید یہ ہوگئی ہے کہ لوگ بازاروں میں جاتے ہیں اور بے ریش لڑکوں کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ایسے مشاہدہ سے خدا کی پناہ! تفصیل اس بادشاہ کی یوں ہے کہ حضرت سیّد قاسم تبریزی قدس سرہ اس ولایت (ملک) میں تشریف لائے تھے۔ اُن کے مریدوں کی ایک جماعت بازاروں میں پھرتی تھی۔ اور بے ریش لڑکوں کا نظارہ کرتی اور ان سے تعلق پیدا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ صورتِ جمیلہ (حسین شکل و صورت) میں ہم اللہ تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ حضرت سیّد قدس سرہ بعض اوقات فرماتے کہ ہمارے سور کہاں گئے ہیں؟ اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گروہ حضرت سیّد کی نظرِ بصیرت میں سور کی شکل میں دکھائی دیتا تھا۔
۱۲۔ ایک روز آپ نے ایک شخص سے کہا کہ اگر تمہیں حضرت خواجۂ خواجگان بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں ایک نسبت حاصل ہوجائے اور پھر اس کے بعد تم کسی دوسرے بزرگ کی خدمت میں چلے جاؤ۔ اور اس کی صحبت میں بھی وہی نسبت پھر حاصل ہوجائے تو تم کیا کرو گے، کیا خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو چھوڑ دو گے؟ پھر از خود ہی فرمایا کہ کسی دوسری جگہ سے اگر تمہیں وہی نسبت حاصل ہو تو تمہیں چاہیے کہ اُس نسبت کو حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ہی کا فیض سمجھو۔ پھر یہ حکایت بیان کی کہ حضرت شیخ قطب الدین حیدر قدس سرہ کے مریدوں میں ایک مرید حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کی خانقاہ میں گیا۔ وہ نہایت بھوکا تھا۔ اس نے اپنے پیر کے گاؤں کی طرف منہ کرکے کہا شیئا للہ قطب الدین حیدر رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کو جو اس کا حال معلوم ہوا تو اپنے خادم کو حکم دیا کہ کہ فوراً کھانا اس کے پاس لے جاکر کھلاؤ، جب وہ درویش کھانا کھاکر فارغ ہوا تو پھر اپنے پیر کے گاؤں کی طرف منہ کرکے کہا شکراً للہ قطب الدین حیدر۔ کہ آپ نے ہم کو کسی جگہ نہیں چھوڑا، جب خادم حضرت شیخ کے پاس گیا تو انہوں نے پوچھا کہ تو نے اس درویش کو کیسا پایا؟ خادم نے عرض کیا کہ وہ مہمل شخص ہے۔ کھانا تو آپ کا کھاتا ہے مگر شکر قطب الدین حیدر کا کرتا ہے حضرت شیخ نے فرمایا کہ مریدی اُس سے دیکھنی چاہیے کہ ظاہری و باطنی فائدہ جس جگہ پائے اُسے اپنے پیر کی برکت سے سمجھے۔
۱۳۔ ایک روز تعظیمِ ساداتِ کرام کے بارے میں ارشادات فرما رہے تھے کہ جن بستی میں سادات رہتے ہوں، میں اس میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ اُن کی بزرگی اور شرف زیادہ ہے، میں اُن کی تعظیم و تکریم کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
ایک روز امام اعظم قدس سرہ درس کی مجلس میں کئی بار اُٹھے کسی کو اس کا سبب معلوم نہ ہوا۔ آخر کار حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد نے دریافت کیا، حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ساداتِ علوی کا ایک لڑکا اُن لڑکوں میں ہے جو مدرسہ کے صحن میں کھیل رہے ہیں، وہ لڑکا جب ا س درس کے قریب آتا ہے اور اُس پر میری نظر پڑتی ہے تو میں اس کی تعظیم کے لیے اُٹھتا ہوں۔
۱۴۔ کشفِ قبور یہ ہے کہ صاحبِ قبر کی روح مثالی صورتوں میں سے کسی مناسب صورت کے ساتھ مشتمل ہوجاتی ہے۔ صاحب کشف اُس کو بصیرت کی آنکھ سے اُسی صورت میں مشاہدہ کرتا ہے لیکن چونکہ شیطان کو مختلف صورتوں اور شکلوں کے ساتھ متمثل و متشکل ہوجانے کی قوت ہوتی ہے اس لیے ہمارے خواجگان قدس اللہ ارواحہم نے اس کشف کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ اصحابِ قبور کی زیارت میں اُن کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی بزرگ کی قبر پر پہنچتے ہیں تو اپنے آپ کو تمام کیفیتوں اور نسبتوں سے خالی کرکے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ دیکھیے کیا نسبت ظاہر ہو۔ اُس نسبت سے صاحبِ قبر کا حال معلوم کرلیتے ہیں اور بیگانوں کی صحبت میں بھی اُن کا یہی طریق ہے کہ جو شخص اُن کے پاس بیٹھے وہ اپنے باطن پر نظر ڈالتے ہیں۔ جو کچھ اس شخص کے آنے کے بعد ظاہر ہو وہ جان لیتے ہیں کہ یہ اُس کی نسبت ہے اور ہمارا اس میں کچھ دخل نہیں، اس نسبت کے مطابق لطف یا قہر سے اُس سے پیش آتے ہیں۔
۱۵۔ محققین کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ موت کے بعد اولیاء اللہ ترقی کرتے ہیں۔
۱۶۔ اس سلسلہ (سلسلہ نقشبندیہ) کے خواجگان قدس اللہ ارواحہم ہر ریاکار اور بازیگر کی طرف نسبت نہیں رکھتے۔ اُن کا کارخانہ بلند ہے۔
۱۷۔ ہر زمانہ میں رجالِ غیب صالحین میں سے اُس شخص کی صحبت میں رہتے ہیں جو عزیمت[۱] پر عمل کرتا ہے ۔ یہ گروہ رخصت سے بھاگتا ہے۔ رخصت پر عمل کرنا ضعیفوں کا کام ہے۔ ہمارے خواجگان قدس اللہ ارواحہم کا طریقہ عزیمت ہے۔
[۱۔ عزیمت شریعت میں اصل مشروع کو کہتے ہیں اور رخصت اُسے بولتے ہیں جو کسی عذر کے سبب سے مباح سمجھا گیا ہو حالانکہ اُس کی حرمت کی دلیل قائم ہو۔]
۱۸۔ جس وقت آپ عزیمت و احتیاط کے طریق سے کوئ کام کرتے تو فرماتے کہ لقمہ و طعام میں احتیاط کرنا ضروریات سے ہے۔ چاہیے کہ کھانا پکانے والا باوضو ہو۔ وہ شعور و آگاہی سے لکڑی چولہے میں رکھے اور آگ جلائے۔ جس پکانے میں غصہ یا پریشان باتیں ظہور میں آئیں اُس کھانے کو حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نہ کھاتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ اس کھانے میں ظلمت ہے ہمیں اس کا کھانا جائز نہیں۔
۱۹۔ چاہیے کہ مرید کی توجہ پیر کے دو ابرو کے درمیان ہو اور پیر کو تمام اوقات اور احوال میں آگاہ و حاضر سمجھے تاکہ پیر کی بزرگی اور عظمت اُس میں تصرف کرے اور جو چیز پیر کے حضور میں نامناسب ہو وہ مرید کے باطن سے کوچ کرجائے۔ اس امر کے کمال کے سبب سے یہ حال ہوجائے کہ پیر و مرید کے درمیان سے حجاب اُٹھ جائے اور پیر کی تمام مرادیں اور مقاصد بلکہ اس کے احوال و مواجید مرید کے مشاہدہ و معائنہ میں آجائیں۔
۲۰۔ ردی خطرات اور طبعی مقتضیات میں گرفتاری سے خلاصی کا طریقہ تین چیزوں میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ اول یہ کہ اعمالِ خیر جو اس گروہ نے مقرر کیے ہیں، اُن میں سے ہر ایک عمل اپنے اوپر لازم کرے اور طریقِ ریاضت اختیار کرے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوت و طاقت کو درمیان سے اُٹھا دے اور جان لے کہ میں ایسا نہیں کہ خود بخود اس بلا سے خلاصی حاصل کرسکوں اور عاجزی و محتاجی کے طور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور تضرع و انکساری کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اُس کو اس بلا سے نجات دے۔ تیسرے یہ کہ اپنے پیر کی ہمت و باطن سے مدد طلب کرے اور اُس کو اپنی توجہ کا قبلہ بنائے اس تقریر کے بعد آپ نے حاضرین سے پوچھا کہ ان تین طریقوں میں سے بہتر کون سا ہے؟ پھر آپ نے خود ہی فرمایا کہ پیر کی ہمت سے مدد مانگنا اور اُس کی طرف متوجہ ہونا بہتر ہے۔ کیونکہ طالب اس صورت میں اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے عاجز سمجھ کر پیر کو اس توجہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب میں وصول کا وسیلہ بناتا ہے۔ یہ امر حصولِ نتیجہ کے قریب تر ہے۔ جو کچھ طالب کا مقصود ہے۔ اس تقدیر پر زیادہ جلدی متفرع ہوگیا کیونکہ وہ ہمیشہ پیر کی ہمت سے مدد طلب کرنے والا ہوگا۔
۲۱۔ عبادت سے مراد یہ ہے کہ اوامر پر عمل کریں اور نواہی سے پرہیز کریں۔ عبودیت سے مراد اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ توجہ اور اقبال ہے۔
۲۲۔ شریعت، طریقت اور حقیقت تین چیزیں ہیں۔ احکامِ ظاہری کا جاری کرنا شریعت ہے۔ جمعیت باطن میں تعمل و تکلف طریقت ہے اور اس جمعیت میں رُسوخ حقیقت ہے۔
۲۳۔ سیر دو طرح کی ہے سیرِ مستطیل اور سیرِ مستدیر[۱]۔ سیر مستطیل بعد در بعد ہے اور سیر مستدیر قرب در قرب ہے۔ سیرِ مستطیل سے مراد مقصود کو اپنے دائرے کے خارج سے طلب کرنا ہے اور سیرِ مستدیر اپنے دل کے گرد پھرنا اور مقصود کو اپنے سے ڈھونڈنا ہے۔
[۱۔ سیر مستطیل سے مراد سیرِ آفاقی اور سیرِ مستدیر سے مراد سیر انفسی ہے (قصوری)]
۲۴۔ علم دو ہیں۔ علم وراثت اور علم لدنی، علمِ وراثت وہ ہے جس سے پہلے کوئی عمل ہو، چنانچہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لمن عمل بما علم ورثہ اللہ علم ما لم یعلم.
’’جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو وارث بناتا ہے اُس علم کا جو اُسے معلوم نہیں‘‘۔
اور علم لدنی وہ علم ہے جس سے پہلے کوئی عمل نہ ہو، بلکہ بغیر کسی سابق عمل کے اللہ تعالیٰ محض عنایت بے علت سے اپنے پاس سے بندے کو کسی خاص علم کے ساتھ مشرف کرے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا (سورہ کہف۔ ع۹)
’’اور سکھایا تھا ہم نے اُس کو اپنے پاس سے علم‘‘۔
آپ نے فرمایا کہ علم کی طرح اجر بھی دو قسم کا ہے۔ اجرِ ممنون اور اجرِ غیر ممنون۔ اجرِ ممنون وہ ہے جو کسی عمل کے مقابلہ میں نہ ہو بلکہ محض موہبت (عطا، بخشش) ہو۔ اور اجرِ غیر ممنون وہ ہے جو کسی عمل کے مقابلہ میں ہو۔
۲۵۔ لوگوں نے خیال کیا ہے کہ شاید کمال نا الحق کہنے میں ہے نہیں، بلکہ کمال اس میں ہے کہ انا کو دور کیا جائے اور کبھی اُسے یاد نہ کیا جائے۔
۲۶۔ فنائے مطلق کے معنی یہ نہیں کہ صاحبِ فنا کو اپنے اوصاف و افعال کا شعور نہ ہو بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ بطریقِ ذوق اپنے آپ سے اوصاف و افعال کے اسناد کی نفی کرے اور فاعلِ حقیقی جل ذکرہٗ (اُس کے ذکر کی بڑی عظمت اور شان ہے) کے لیے اسناد ثابت کرے۔ وہ جو صوفیہ قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم نے فرمایا ہے کہ نفی اثبات کے ساتھ مخالفت نہیں رکھتی، اُس کے یہی معنی ہیں۔ آپ نے مثال کے طور پر فرمایا کہ یہ کپڑا جو میں پہنے ہوئے ہوں عاریتی ہے اور مجھے اس کے عاریتی ہونے کا علم نہیں اور اس سبب سے کہ اس کو میں اپنی ملک سمجھتا ہوں اسے سے تعلق رکھتا ہوں ناگاہ مجھے اس کپڑے کے عاریتی ہونے کا علم ہوگیا، اُسی وقت میرا تعلق اس سے منقطع ہوگیا حالانکہ میں بالفعل پہپن رہا ہوں۔ اسی پر تمام صفات کو قیاس کرنا چاہیے کہ سب عاریتی ہیں تاکہ غیراللہ سے دل منقطع ہوجائے اور پاک و مطہر ہوجائے۔
۲۷۔ وصل، حقیقت میں یہ ہے کہ دل بطریقِ ذوق اللہ تعالیٰ کے ساتھ جمع ہوجائے جب یہ بات ددائم (ہمیشہ) ہوجائے تو اسے دوام وصل بولتے ہیں۔ نہایت یہی ہے۔ وہ جو حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو بدایت (انتہا کو ابتدا میں) درج کرتے ہیں۔ اس سے مراد یہی نہایت ہے اور جو آپ نے فرمایا ہے کہ ہم محض قبولیت کا واسطہ ہیں، ہم سے منقطع ہونا چاہیے او رمقصود سے ملنا چاہیے یہی وصل ہے۔
۲۸۔ تجلی کے معنی کشف ہیں۔ اس امر کا ظہور دو طرح سے ہوسکتا ہے۔ ایک کشفِ عیانی جو دار جزا میں سر کی آنکھ کے ساتھ مقصود کے جمال کا مشاہدہ ہے۔ دوسرے یہ کہ غلبۂ محبت کے ساتھ غائب کو کثرت سے حاصل کرنے کے ذریعہ سے کہ وہ غائب مثل محسوس کے ہوجائے کیونکہ خواص محبت میں سے ہے کہ وہ غائب کو مثل محسوس کے کردیتی ہے۔ دنیا میں اربابِ کمال کے قدم کی انتہا یہی ہے۔
۲۹۔ اگر ہم شیخی کرتے تو اس زمانہ میں کسی شیخ کو مرید نہ مل سکتا۔ لیکن ہمیں اور کام کا حکم ملا ہے کہ مسلمانوں کو ظالموں کے شر سے بجائیں، اس واسطے ہمیں بادشاہوں سے میل جول رکھنا اور اُن کے نفوس کو مسخر کان اور اس عمل کے ذریعہ سے مسلمانوں کی مطلب بر آری ضروری ہے۔
۳۰۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی عنایت سے مجھے ایسی قوت عطا کی ہے کہ اگر میں چاہوں تو ایک رقعہ سے بادشاہِ خطا کو جو الوہیت کا دعویٰ کرتا ہے ایسا کردوں کہ بادشاہت چھوڑ کر ننگے پاؤں خطا سے خار و خاشاک میں دوڑتا ہوا اپنے آپ کو میرے آستانہ پر پہنچائے لیکن باوجود ایسی قوت کے ہم خدا کے حکم کے منتظر ہیں جس وقت وہ چاہے اور حکم دے وقوع میں آئے گا۔ اس مقام کے لیے ادب لازم ہے اور ادب یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کا تابع بنائے نہ کہ اللہ کو اپنے ارادہ کا تابع بنائے۔
۳۱۔ ہر روز سونے سے قبل اپنے گزشتہ اوقات کو یاد کرو کہ کس طرح گزرے ہیں۔ اگر غیر طاعت سے گزرے ہیں تو توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
۳۲۔ منجملہ آدابِ طریقت سے یہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہے کیونکہ دوامِ وضو سے فراخیِ رزق ہوتی ہے۔
۳۳۔ جو شخص فقیروں کی صحبت میں آئے، اُسے چاہیے کہ اپنے آپ کو نہایت مفلس ظاہرکرے تاکہ اُس پر اُن کو رحم آئے۔
۳۴۔ رہبر کا سایہ ذکرِ حق کرنے سے زیادہ بہتر ہے یعنی مرید کے لیے رہبر کا سایہ اُس کے ذکرِ حق کرنے سے زیادہ نفع مند ہے۔ کیونکہ مرید کو اُس وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کامل مناسبت حاصل نہیں ہوتی تاکہ براستہ ذکر اُسے مکمل نفع حاصل ہو۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار قدس سرہ
نام و لقب:
آپ کا نامِ مبارک عبد اللہ ہے۔ ناصر الدین لقب ہے۔ کیونکہ آپ سے دین اسلام کو نصرت پہنچی۔ احرار بھی آپ کا لقب ہے۔ جو اصل میں خواجہ احرار ہے۔ چونکہ آپ کے اسم گرامی کے معنی میں چھُٹائی پائی جاتی ہے۔ اس لیے اس کے تدارک کے لیے آپ کو خواجہ احرار بالا ضافت لقب دیا گیا۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے۔ کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حرّ (واحد احرار) اُسے کہتے ہیں جو عبودیت۔ کی حدود کو بدرجہ کمال قائم کرے اور اغیار کی رقیت (غلامی) سے نکل جائے۔ استعمال میں بعض وقت لفظ خواجہ کو حذف کر کے فقط احرار کہتے ہیں۔
ولادت با سعادت:
آپ باغستان میں جوتا شقند واقع توران کے مضافات سے ہے ماہ رمضان ۸۰۶ھ میں پیدا ہوئے۔ تولّد کے بعد چالیس دن تک کہ ایام نفاس ہیں آپ نے اپنی ماں کا دودھ نہ پیا۔ جب اس نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا۔ تو پینا شروع کیا۔ لڑکپن ہی سے رشد و سعادت کے آثار اور قبول و عنایت الٰہی کے انوار آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ تین چار سال کی عمر سے نسبت آگاہی بحق سبحانہ تعالیٰ حاصل تھی۔ طفولیت میں مکتب میں آمدو رفت رکھتے۔ مگر دل پر وہی نسبت غالب تھی۔ بچپن میں مزارات مشائخ پر حاضر ہوتے۔ جب سن بلوغ کو پہنچے۔ تو تاشقند کے مزارات پر جو ایک دوسرے سے فاصلہ پر واقع ہیں پھرا کرتے۔ اور بعض دفعہ ایک ہی رات میں تمام مزارات کی گشت کر آتے۔
تحصیل علم:
آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم علیہ الرحمۃ کو آپ کی تعلیم کا بڑا خیال تھا۔ اسی غرض سے وہ آپ کو بائیس سال کی عمر میں تاشقند سے سمر قند لے گئے۔ مگر شغل باطنی غلبہ علم ظاہری کی تحصیل سے مانع رہا۔ خواجہ فضل اللہ ابو اللیثی جو سمر قند کے اکابر علماء سے تھے فرماتے تھے کہ ہم خواجہ عبید اللہ کے باطن کے کمال کو نہیں جانتے۔ مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے بحسب ظاہر علوم رسمی سے بہت کم پڑھا ہےا ور ایسا دن کم ہوگا کہ وہ تفسیر قاضی بیضاوی میں ہمارے سامنے کوئی شبہ پیش کریں اور ہم سب اس کے حل سے عاجز نہ آئے ہوں۔
سیر و سیاحت:
بائیس برس کی عمر سے انتیس برس کی عمر تک آپ سفر میں رہے۔ اس عرصہ آپ کو بہت سے مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے ایک روز مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا۔ تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام خواجہ عبید اللہ ہے۔ اُس نےتمام روئے زمین کو لے لیا۔ وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمر قند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے جو نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے۔ مولانا نے فرمایا۔ ’’وہ خواجہ عبید اللہ ہیں۔ عنقریب دنیا کے سلاطین ان میں مبتلا ہوں گے۔‘‘
سمر قند ہی میں آپ حضرت سید قاسم تبریزی کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی [۱] خلیفہ حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہما کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی کی زیارت کی۔ جو سید امیر حمزہ بن سید امیر کلال کے خلیفہ اول تھے۔ اور خواجہ بزرگ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوانی کی خدمت میں بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سید قاسم تبریزی اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے۔ اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
[۱۔پرمس قصبہ وابکنی کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا نام ہے۔ وہاں سے بخارا چار شرعی فرسنگ ہے۔ رشحات۔]
مولانا یعقوب چرخی کی خدمت میں حاضری:
ہرات میں آپ نے ایک سودا گر سے حضرت خواجہ یعقوب چرخی کے فضائل سنے۔ اس لیے وہاں سے اُن کی صحبت کی نیت سے بلخ کے راستے حصار کی طرف متوجہ ہوئے۔ بلخ میں حسام الدین پارساہ خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور وہاں سے حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ کے مزار کی زیارت کے لیے چغانیاں پہنچے۔ اور چغانیاں سے ہلفتوں میں مولانا یعقوب چرخی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جس کا قصہ آپ خود یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’جب میں ولایت چغانیاں میں پہنچا تو بیمار ہوگیا۔ اور بیس روز تپ لرزہ آتا رہا۔ اِس عرصہ میں نواح چغانیاں کے بعضے لوگوں نے مولانا یعقوب چرخی کی بہت غیبت کی۔ بیماری کے دنوں میں ایسی پریشان باتوں کے سننے سے مولانا کی ملاقات کے ارادے میں بڑا فتور واقع ہوا۔ آخر کار میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو اس قدر دور فاصلہ سے آیا ہے یہ اچھا نہیں کہ تو ان سے ملاقات نہ کرے میں روانہ ہوگیا۔ اور ان کی خدمت میں پہنچا۔ وہ بڑی عنایت سے پیش آئے اور ہر طرح کی باتیں کیں۔ لیکن دوسرے روز جو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو تو بہت غصہ ہوئے اور سخت و درشتی سے پیش آئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ان کے غصہ کا سبب غیبت کا سننا اور تیرے ارادے میں فتور کا آنا ہوگا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ لطف سے پیش آئے اور بہت توجہ و عنایت فرمائی۔ اور حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ سے اپنی ملاقات کا حال بیان فرما کر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ بیعت کر۔ چونکہ ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت ان کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کو سمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا۔ اور بطریق خلع و لبس اپنی صورت تبدیل کر کے ایسی صورت میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بیخود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دست مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے۔ جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو۔ میں نے بلا توقف مولانا یعقوب کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسب طریقہ حضرات خواجگان مجھے شغل نفی و اثبات جس کو وقوف عددی کہتے ہیں سکھایا اور فرمایا کہ جو کچھ ہم کو حضرت خواجہ بزرگ سے پہنچا ہے یہی ہے۔ اگر تم بطریق جذبہ طالبوں کی تربیت کرو۔ تو تمہیں اختیار ہے۔‘‘
طالب اور مرشد:
کہتے ہیں کہ مولانا کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی اس کی نسبت کس طرح آپ نے فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے۔ چاہو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں۔ صرف اجازت کی دیر ہو۔ مولانا جامی نفحات الانس میں لکھتے ہیں۔ مولانا یعقوب فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے۔ اُسے خواجہ عبید اللہ کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ اور تیل بتی سب تیارر ہے۔ صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے تھے کہ جب میں نے مولانا یعقوب سے اجازت طلب کی تو آپ نے مجھ سے حضرات خوجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے۔ جب طریق رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتا دینا۔
وطن کی طرف واپسی:
حضرت خواجہ عبید اللہ مولانا یعقوب کی خدمت سے رخصت پاکر پھر ہرات میں آئے۔ اور کم و بیش ایک سال وہیں رہے۔ بعد ازاں انتیس سال کی عمر میں وطن مالوف کی طرف مراجعت فرمائی۔ اور تاشقند میں مقیم ہوکر زراعت کا کام ایک شخص کی شراکت میں شروع کیا۔ دونوں ایک جوڑی بیل سے کھیتی کا کام کرنے لگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی زراعت میں بڑی برکت دی۔ آپ کے مال ومنال اور ضیاع و عقار(جڑی بوٹیاں وغیرہ) اور گلہ و مویشی اور اسباب و املاک اندازہ کی حد سے زائد تھے۔ مگر یہ سب درویشوں کے لیے تھے۔ چنانچہ مولانا جامی یوسف زلیخا میں آپ کی منقبت میں یوں لکھتے ہیں۔ ؎
ازاں دانہ کزو آدم بنا کام
زبستانِ بہشت آمد بدیں دام
جس دانہ سے حضرت آدم علیہ السلام ناچار باغ بہشت سے اس جال (دنیا) میں آئے۔
ہزارش مزرعہ در زیر کشت است
کہ زادِ فتنِ راہِ بہشت است
اُن کے ہزار کھیت زیر کاشت ہیں جو راہِ بہشت میں چلنے کا توشہ ہیں۔
دریں مزرعہ فشاند تخم دانہ
در آں عالم کند انبار خانہ
وہ اِس کھیت (دنیا) میں بیج بو رہے ہیں اور اُس عالم میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔
کرامات کا بیان
۱۔ حضرت خواجہ احرار فرماتے ہیں کہ ہمت سے مراد دل کا ایک امر پر اس طرح جمع کرنا ہے کہ اُس کا خلاف دل میں نہ آئے۔ ایسی ہمت سے مراد متخلف نہیں ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ اوائل جوانی میں جب کہ ہم مولانا سعد الدین کا شغری کے ساتھ ہرات میں تھے اور دونوں سیر کیا کرتے تھے۔ تو کبھی کشتی لڑنے والوں کے اکھاڑہ میں جا پہنچتے۔ اور اپنی قوت اور توجہات کا امتحان کرتے۔ دو پہلوانوں میں سے ایک کی طرف توجہ مبذول کرتے۔ تو وہ غالب آتا۔ پھر مغلوب کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ غالب ہوجاتا اس طرح کئی بار اتفاق ہوا۔ مقصود یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ ہمت کی تاثیر کس درجہ پر پہنچی ہے۔
حاکم کی موت:
مولانا ناصر الدین اتراری جو حضرت عبید اللہ احرار کے خادموں میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ حضرت نے واقعہ میں دیکھا تھا کہ آپ کی مدد سے شریعت کو تقویت پہنچے گی۔ آپ کے مبارک دل میں آیا کہ یہ بات سلاطین کی مدد کے بغیر حاصل نہ ہوگی۔ اس غرض سے آپ سمر قند کی طرف آئے۔ اس وقت میر زا عبد اللہ بن میر زا ابراہیم بن میر زا شاہرخ بن امیر تیمور ولایت سمر قند کا حاکم تھا۔ میں اس سفر میں آپ کی خدمت میں تھا۔ جب آپ سمر قند میں پہنچے تو میرزا عبد اللہ کا ایک امیر آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ یہاں آنے سے ہماری غرض تمہارے میرزا کی ملاقات ہے۔ اگر تمہارے ذریعہ سے یہ کام ہوجائے تو خوب ہے۔ اس امیر نے بے ادبی سے جواب دیا کہ ہمارا میرزا بے پروا جوان ہے۔ اُس سے ملاقات مشکل ہے۔ درویشون کو ایسی باتوں سے کیا مطلب۔ آپ نے خفا ہوکر فرمایا کہ ہم کو سلاطین کی ملاقات کا حکم ہوا ہے۔ ہم اپنے آپ نہیں آئے۔ اگر تمہارا میرزا پروا نہیں کرتا تو دوسرا لایا جائے گا جو پروا کرے گا۔ جب وہ امیر چلاگیا تو آپ نے اس کا نام سیاہی سے اُس مکان کی دیوار پر لکھا اور اپنے لعابِ دہن سے مٹادیا اور فرمایا کہ ہمارا کام اِس بادشاہ اور اس کے امیروں سے نہیں چل سکتا۔ اور اُسی روز تاشقند کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ امیر مرگیا اور ایک مہینے کے بعد سلطان ابو سعید مرزا بن محمد میر انشاہ بن امیر تیمور اطراف ترکستان سے ظاہر ہوا اور اُس نے میرزا عبد اللہ پر حملہ کر کے اُسے (۸۵۵ھ میں) قتل کر ڈالا۔
میرزا بابر پر توجہ:
میرزا بابر بن میرزا بایسنغر بن میرزا شاہرخ بن امیر تیمور ایک لاکھ سپاہ لے کر خراسان سے سمر قند کی طرف متوجہ ہوا۔ میر زا سلطان ابو سعید نے حضرت کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ مجھے اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ کیا کروں۔ آپ نے اسے تسلی دی۔ جب میرزا دریائے آمو سے گزرا تو سلطان ابو سعید کے امیروں کی ایک جماعت نے اتفاق و مشورہ کیا کہ میرزا کو ترکستان میں لے جائیں۔ اور وہاں قلعہ نشین ہوجائیں۔ چنانچہ کل سامان اونٹوں پر لدوا دیا گیا۔ حضرت کو جو خبر لگی تو شتر بانوں پر خفا ہوئے اور سامان اتروادیا۔ اور خود میر زا کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ کہاں جاتے ہو۔ جانے کی ضرورت نہیں۔ یہیں کام بن جائے گا۔ میں نے تمہاری مہم اپنے ذمہ لے لی ہے۔ امیر گھبرا گئے۔ یہاں تک کہ بعضوں نے اپنی پگڑیاں زمین پر پھینک دیں اور کہنے لگے کہ حضرت خواجہ ہم کو مروا رہے ہیں۔ چونکہ میرزا کا اعتقاد صادق تھا اس نے کسی کی نہ سنی اور سمر قند ہی میں قلعہ نشین ہوگیا۔
جب میر زا بابر سمر قند کے قلعہ کے گرد پہنچا تو خلیل جو اس کے مقدمہ لشکر پر تھا عید گاہ سمر قند کے دروازے پر ٹہر گیا۔ شہر سے تھوڑے سے آدمی نکل کر خلیل سے لڑے۔ خلیل گرفتار ہوگیا۔ میرزا بابر سمر قند کے پرانے قلعہ میں اترا۔ اس کے لشکری سامان معیشت کے لیے جس طرف جاتے ہیں اہل سمر قند ان کو پکڑ کر ناک کان کاٹ دیتے۔ اس طرح میرزا بابر کے لشکر کے بہت سے سپاہیوں نے اپنے ناک کان کٹوا لیے۔ میرزا بابر کا لشکر نہایت تنگ آگیا۔ اور چند روز کے بعد ان کے گھوڑوں میں وباء نمودار ہوئی۔ جس سے بہت گھوڑے تلف ہوئے۔ آخر کار میرزا بابر نے مولانا محمد معمائی کو حضرت کی خدمت میں بھیج کر صلح کی درخواست کی۔ مولانا محمد نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ ہمارا میرزا نہایت غیور اور عالی ہمت بادشاہ ہے۔ جس طرف متوجہ ہوتا ہے بغیر اسیر کیے واپس نہیں آتا۔ حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اُس کے دادا میرزا شاہرخ (متوفی ۸۵۰ھ) کے زمانہ میں ہرات میں تھا۔ مجھے اُس کے طفیل سے بڑی فراغت اور جمعیت حاصل تھی۔ اگر شاہرخ کے حقوق نہ ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ میرزا بابر کا کیا حال ہوتا۔ آخر الامر حضرت کے خاص مرید مولانا قاسم کی وساطت سے صلح ہوگئی۔
دشمن پر غلبہ:
جب میرزا سلطان ابو سعید بتاریخ ۲۵؍ رجب ۸۷۳ھ شہید ہوگیا تو اُس وقت اُس کے گیارہ بیٹوں میں سے چار برسرِ حکومت تھے۔ چنانچہ میرزا الغ بیگ کابل میں میرزا سلطان محمود حصار و قندوز و بدخشاں میں حکمران تھا۔ میرزا سلطان محمود نے سمر قند کے محاصرہ کا رادہ کیا۔ جب حضرت خواجہ کو یہ خبر لگی تو آپ نے بذریعہ رقعہ و پیام میرزا سلطان محمود کو اس حرکت سے منع فرمایا۔ مگر وہ روبراہ نہ ہوا۔ اور ولایت حصار سے سمر قند کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ سامان و لشکر بے شمار تھا اور چغتائی لشکر کے علاوہ چار ہزار ترکمان ہم رکاب تھے۔ میرزا سلطان احمد میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی۔ اس لیے اس نے بھاگنا چاہا اور حضرت خواجہ سے اجازت چاہی۔ حضرت شہر سمر قند کے مدرسہ میں مقیم تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم بھاگ جاؤ گے تو سمر قند کے تمام باشندے قید ہوجائیں گے۔ تم گھبراؤمت۔ میں تمہارے معاملہ کا ذمہ دار ہوں۔ اگر دشمن مغلوب نہ ہوا تو تم مجھ سے مواخذہ کرنا۔ پھر آپ نے میرزا سلطان احمد کو مدرسہ کے ایک حجرے میں اتارا جس کا ایک ہی دروازہ تھا اور آپ اس دروازے میں بیٹھ گئے۔ خادموں نے آپ کے حکم سے ایک تیز رفتار اونٹنی لاکر اس حجرے کے آگے بٹھادی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میرزا سلطان محمود سمر قند پر قابض ہوجائے اور اس دروازے سے کہ جہاں لڑائی ہو شہر میں داخل ہوجائے تو تم اس اونٹنی پر سوار ہوکر دوسرے دروازے سے بھاگ جائیو۔ آپ نے تدبیر سے میرزا سلطان احمد کو تسکین دی۔ بعد ازاں آپ نے مولانا سید حسین اور مولانا قاسم اور میر عبد الاول اور مولانا جعفر کو جو آپ کے اکابر اصحاب سے تھے طلب فرمایا اور حکم دیا کہ تم فوراً اس دروازے کے برج میں جاکر مراقبہ کرو۔ چنانچہ وہ وہاں جاکر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ مولانا قاسم کا بیان ہے کہ مراقبہ میں بیٹھتے ہی ہم نے دیکھا کہ ہم نیست ہیں۔ تمام حضرت ہی حضرت ہیں اور تمام عالم آپ کے وجود مبارک سے پر ہے۔لڑائی وقت چاشت تک جاری رہی۔ قریب تھا کہ دشمن غالب آجائے۔ شہر والے حیران و پریشان تھے کہ ناگاہ دشت قبچاق کی طرف سے ایک سخت آندھی اٹھی اور میرزا سلطان محمود کے لشکر و لشکر گاہ میں گرد و غبار کا وہ طوفان برپا ہوا کہ کسی کو آنکھ کھولنے کی مجال نہ رہی۔ ہوا پیادوں اور سواروں کو زمین پر گراتی۔ اور خیمہ و سرا پردہ خرگاہ کو اکھاڑ کر اوپر کی طرف اڑاتی اور زمین پر پھینک دیتی۔ میرزا سلطان محمود اپنے امیروں اور ترکمانوں کی جماعت کثیر کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے دیوار کے پشتہ کے نیچے گھوڑے پر سوار کھڑا تھا۔ کہ ناگاہ پشتہ کا ایک حصہ پھٹ گیا۔ جس کے ہولناک دھماکہ سے قریباً چار سو مرد اور گھوڑے جو اس کے نیچے کھڑے تھے دب کر مرگئے۔ ترکمانوں کے گھوڑے بھاگنے لگے۔ سواروں نے ہر چند رو کا مگر نہ رکے۔ القصہ لشکر پراگندہ ہوگیا۔ میرزا سلطان محمود کوشکست ہوئی میرزا سلطان احمد کے لشکر اور شہر کے لوگوں نے قریباً پانچ کوس تک ان کا تعاقب کیا۔ اور بہت سے سوار اور گھوڑے پکڑ لائے اور بہت کچھ سامانِ غنیمت ہاتھ آیا۔
بدکاری سے بچالیا:
مولانا شیخ ابو سعید مجلد جو میرزا شاہرخ کے زمانہ میں نہایت خوبصورت جوان تھے بیان کرتے ہیں کہ جوانی میں ایک بار ایک خوبصورت عورت سے اتفاقاً میری ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے مکان میں آگئی۔ میں نے چاہا کہ خلوت میں اس سے بات چیت کروں۔ اس اثنا میں ناگاہ میں نے حضرت خواجہ کی آواز سنی کہ فرماتے ہیں۔ ابو سعید! چہ کار مے کنی؟ (یہ کیا کام کر رہے ہو )یہ سن کر میری حالت بدل گئی اور میرے دل پر ہیبت طاری ہوگئی اور میرے اعضا میں رعشہ پیدا ہوگیا۔ میں نے اٹھ کر فوراً اس عورت کو اپنے مکان سے نکال دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد تشریف لائے۔ جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمانے لگے کہ اگر حق تعالیٰ کی توفیق تیری یاوری نہ کرتی شیطان تجھ کو برباد کردیتا۔
گمشدہ غلام کی واپسی:
حضرت خواجہ کے مخلصوں میں سے ایک بزرگ نقل کرتے ہیں کہ سمر قند میں میرا ایک غلام غائب ہوگیا۔ اس غلام کے سوا میرا مال و متاع اور کچھ نہ تھا۔ چار مہینے میں نے اس کی تلاش کی۔ سمر قند کے نواح میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں میں کئی بار نہ گیا۔ پہاڑ اور صحرا میں بہت پھرا۔ مگر کہیں اس کا نشان نہ پایا۔ اس پریشانی میں ناگاہ حضرت خواجہ مجھے صحرا میں ملے۔ آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب و خدام بھی تھے۔ میں حالت اضطراب میں حضرت کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ اور نیاز مندی سے اپنا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو دہقانی آدمی ہیں۔ ایسی باتوں کو کیا جانیں۔ میں نے سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ ایسا تصرف کیا کرتے ہیں کہ غائب کی خبر دے دیتے ہیں۔ بلکہ غائب کو حاضر کر دیتے ہیں۔ اس لیے میں نے اصرار کیا اور گھوڑے کی باگ نہ چھوڑی۔ جب آپ نے کوئی چارہ نہ دیکھا تو ایک لحظہ سکوت فرمایا اور پوچھا کہ یہ گاؤں جو نظر آ رہا ہے کیا اس میں بھی تم نے اسے تلاش کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو بار ہا اس میں گیا ہوں مگر محروم واپس آیا ہوں۔ فرمایا پھر تلاش کرو مل جائے گا۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا۔ جب میں اس گاؤں کے نزدیک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس غلام نے پانی کا گھڑا بھرا ہوا آگے رکھا ہے اور خشک جگہ پر حیران کھڑا ہے۔ جب میری نظر اس پر پڑی میں نے بے اختیار نعرہ مارا اور کہا اے غلام! تو اس عرصہ میں کہاں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کے گھر سے نکلا تو ایک شخص بہکا کر مجھے خوارزم میں لے گیا۔ اور وہاں مجھے ایک شخص کے ہاتھ فروخت کردیا۔ میں اس شخص کی خدمت میں تھا۔ آج اس کے ہاں ایک مہمان آیا اس نے مجھ سے کہا کہ پانی کا گھڑا پھر لاؤ تاکہ کھانا تیار کریں۔ میں گھڑا اٹھا کر پانی کے کنارے پر پہنچا اور پانی سے بھر لیا۔ جب میں نے پانی سے نکالا تو اپنے آپ کو یہاں حاضر پاتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں یہ معاملہ بیداری میں دیکھ رہا ہوں یا خواب میں۔ حضرت خواجہ کا یہ تصرف دیکھ کر میرا حال بدل گیا۔ میں نے غلام کو تو آزاد کردیا اور خود حضرت کا غلام بن گیا۔
سورج کا ٹھہر جانا:
مولانا زادہ فرکنی مولانا نظام الدین کے مرید تھے وہ اپنے مرشد کی وفات کے بعد حضرت خواجہ کی خدمت میں بہت رہے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت خواجہ کے ہمراہ ایک گاؤں کو جا رہا تھا۔ جاڑے کا موسم تھا اور دن چھوٹے۔ ہم نے عصر راستے میں پڑھی۔ شام ہونے کو آئی۔ آفتاب زرد ہوگیا۔ منزل تک پہنچنے میں دوشرعی (کوس) باقی تھے۔ اس صحرا میں کوئی پناہ وآرام گاہ نہ تھی۔ میرے دل میں آیا کہ دن ختم ہوگیا۔ راستہ خطر ناک، ہوا سرد اور فاصلہ زیادہ ہے کیا حال ہوگا۔ جب یہ خیال کئی بار میرے دل میں آیا تو حضرت نے منہ پھیر کر فرمایا کہ ڈرو مت۔ گھوڑا دوڑاؤ۔ ممکن ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے ہم منزل پر پہنچ جائیں۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا۔ میں بھی آپ کے پیچھے تیز دوڑا رہا تھا۔ اور پلٹ پلٹ کر آفتاب کی ٹکیہ کو دیکھتا جاتا تھا۔ آفتاب اسی طرح افق پر ٹھیرا ہوا تھا۔ گویا کسی نے اس میں میخ ٹھونک دی ہے جس سے وہ افق پر ٹھیرا ہوا ہے۔ جب ہم گاؤں میں پہنچے تو یک بیک آفتاب ایسا غروب ہوا کہ شفق کی سرخی و سپیدی جو غروب کے بعد ہوا کرتی ہے اس کا کوئی نشان نہ رہا۔ اور عالم میں ایسی تاریکی پھیل گئی کہ شکلوں اور رنگوں کا نظر آنا نا ممکن ہوگیا۔ یہ دیکھ کر حیرت و ہیبت مجھ پر طاری ہوئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ حضرت خواجہ کا تصرف ہے۔ آخر کار بے اختیار ہوکر میں نے حضرت خواجہ سے عرض کیا کہ خدا کے لیے فرمائیے یہ کیا راز تھا جو میں نے دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بھی طریقت کے شعبدوں میں سے ایک شعبدہ تھا۔
شہد شراب میں بدل گئی:
خواجہ کلال فرماتے ہیں ! کہ حضرت کا ایک خادم سمر قند کو جا رہا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ ہمارے واسطے سمر قند سے چند ڈبے خالص شہد کے لانا۔ وہ سمر قند سے کئی ڈبے شہد سے بھر کر اور ان کے منہ پر مہر لگا کر روانہ ہوا۔ اتفاقاً بازار سمر قند میں کسی کام کے لیے بزاز کی دکان پر ٹھیر گیا اور اس نے شہد کے ڈبوں کو اپنے سامنے رکھ لیا۔ ناگاہ ایک خوبصورت مست عورت جو اس بزاز کی آشنا تھی وہاں آئی اور دکان کے ایک طرف بیٹھ کر بزاز سے باتیں کرنے لگی۔ اس خادم نے دو تین بار نظر حرام سے اس عورت کو دیکھا۔ پھر وہ ڈبوں کو اٹھا کر تاشقند لے آیا۔ جب وہ حضرت کے دولت خانہ میں پہنچا تو آپ جنگل تشریف لے گئے تھے۔ اُس نے آپ کے پیچھے جانا چاہا۔ اتنے میں حضرت تشریف لے آئے۔ اس نے وہ ڈبے پیش کیے۔ جب حضرت کی نظر ان ڈبوں پر پڑی تو خفا ہوکر فرمایا کہ ان ڈبوں سے شراب کی بو آتی ہے۔ اے بد بخت! میں نے تجھ سے شہد لانے کو کہا تھا۔ تو میرے واسطے شراب لے آیا۔ خادم نے عرض کیا کہ میں تو شہد لایا ہوں۔ آپ کے ارشاد سے جب کھول کر دیکھا گیا تو ہر ڈبہ شراب سے بھرا ہوا پایا گیا۔
وصال مُبارک:
آپ کی تاریخ وفات شب شنبہ ۲۹ ربیع الاول ۸۹۵ھ ہے۔ شام و خفتن(سونے کاوقت) کے درمیان جب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگا تو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کی گئیں۔ جن سے وہ مکان نہایت روشن ہوگیا۔ اس حال میں اچانک دیکھا گیا کہ آپ کے دو ابروئے مبارک کے درمیان ایک نور چمکتی بجلی کی طرح نمودار ہوا۔ جس کی شعاع نے شمع کے نور کو ماند کردیا۔ حاضرین نے اس نور کا مشاہدہ کیا۔ بعد ازاں آپ کا وصال ہوگیا۔ اور محلّہ خواجہ کفشیر میں محوطہ ملایاں میں دفن ہوئے آپ کی اولاد بزرگوار نے آپ کے مرقد مبارک پر عالیشان عمارت تعمیر کردی اور قبر مبارک کو نہایت عمدہ وضع پر بنایا۔
(مشائخِ نقشبندیہ)
یاغستان نزد تاشقند (روس) (۸۰۶ھ/ ۱۴۰۴ء۔۔۔۸۹۵ھ/ ۱۴۹۰) شہر سمرقند (روس)
قطعۂ تاریخِ وصال
ناصرالدین خواجۂ احرار |
|
تھے مشائخ میں کامل و یکتا |
(صاؔبر براری، کراچی)
زد بجہان نوبت شاہنشہی |
|
کوکبۂ فقر عبید اللہی |
مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ
آپ کا نام عبیداللہ ہے۔ ناصرالدین لقب ہے کیونکہ آپ سے دینِ اسلام کو نصرت پہنچی۔ احرار بھی آپ کا لقب ہے جو اصل میں خواجہ احرار ہے۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حر (واحد احرار) اُسے کہتے ہیں، جو عبودیت کی حدود کو بر درجۂ کمال قائم کرے اور اغیار کی غلامی سے نکل جائے۔ استعمال میں بعض وقت لفظ خواجہ کو حذف کرکے فقط احرار کہتے ہیں۔
آپ کی ولادت باسعادت یا غستان مضافاتِ تاشقند میں ماہ رمضان المبارک ۸۰۶ھ میں ہوئی۔ مادۂ تاریخ ولادت ’’تاجِ عارفاں‘‘ ہے۔ والد گرامی کا اسم مبارک محمود بن شہاب الدین ہے آپ حضرت خواجہ محمد باقی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد امجاد سے ہیں۔ مادرزاد ولی تھے۔ والدہ ماجدہ شیخ عمر یاغستانی کی اولاد سے تھیں اور حضرت خواجہ محمود شاشی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر تھیں، ولادت کے بعد چالیس دن تک جو کہ ایامِ نفاس ہیں، آپ نے اپنی والدہ کا دودھ نہ پیا۔ جب انہوں نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا تو پینا شروع کردیا۔
بچپن ہی سے آثارِ رشدہ و ہدایت اور انوارِ قبول و عنایت آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ تین چار سال کی عمر سے نسبت آگاہی بحق سبحانہ تعالیٰ حاصل تھی، مگر دل پر وہی نسبت غالب تھی۔ آپ کے جدِّ امجد خواجہ شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ جو کہ قطبِ وقت تھے، کا جب وقتِ اخیر ہوا تو اپنے پوتوں کو الوداع کہنے کے لیے بلایا۔ خواجہ احرار اس وقت بہت چھوٹے تھے، جب جدِّ امجد کے حضور گئے تو وہ ان کو دیکھ کر تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اور پھر گود میں لے کر فرمایا کہ اس فرزند کے بارے میں مجھ کو بشارت نبوی ہے کہ یہ پیر عالم گیر ہوگا اور اس سے شریعت و طریقت کو رونق حاصل ہوگی۔
آپ بچپن ہی میں مزاراتِ مشائخ پر حاضر ہوتے۔ جب سن بلوغ کو پہنچے تو تاشقند سے مزارات کی گشت کر آتے۔ آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی تعلیم کا بڑا خیال تھا۔ بدیں وجہ وہ آپ کو تاشقند سے سمر قند لے گئے، مگر شغلِ باطنی کا غلبہ علم ظاہری کی تحصیل سے مانع رہا۔
خواجہ فضل اللہ ابو للیثی رحمۃ اللہ علیہ (جو سمر قند کے اکابر علماء میں سے تھے) فرماتے تھے کہ ہم خواجہ عبیدالہ احرار کے باطن کے کمال کو نہیں جانتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے بحسبِ ظاہر علوم رسمی سے بہت کم پڑھا ہے اور ایسا دن کم ہوگا کہ وہ تفسیر قاضی بیضاوی میں ہمارے سامنے کوئی شبہ (شک گمان) پیش کریں اور ہم سب اس کے حل سے عاجز نہ آئے ہوں، بائیس برس کی عمر سے انتیس برس کی عمر تک آپ سفر ہی میں رہے اور اس عرصہ میں آپ کو بہت سے مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے ایک روز قبل مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام عبیداللہ احرار ہے۔ اُس نے تمام روئے زمین کو اپنی روحانیت میں لے لیا ہے۔ اور وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمرقند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے جو نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوانِ رعنا کون ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ یہ ’’خواجہ عبیداللہ احرار ہیں، عنقریب دنیا کے سلاطین ان کے در کے گدا ہوں گے‘‘۔
سمر قند ہی میں آپ حضرت سیّد قاسم تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی رحمۃ اللہ علیہ[۱] خلیفہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی رحمہ اللہ علیہ کی زیارت کی جو سید امیر حمزہ بن سیّد امیر کلال قدس سرہما کے خلیفۂ اول تھے۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوافی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھی بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سیّد قاسم تبریزی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
[۱۔ پر مس قصبہ وا بکنی کے نواحی دیہات میں سے ہے جو بخارا سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ (قصوؔری)]
ہرات میں آپ نے ایک سوداگر سے حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل سنے۔ اس لیے وہاں سے اُن کی صحبت کی نیت سے بلخ کے راستے حصار کی طرف متوجہ ہوئے۔ بلخ میں مولانا حسام الدین پارسا خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہما کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں سے حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ کے مزار کی زیارت کے لیے چغانیاں تشریف لے گئے اور چغانیاں سے ہلفتو، مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جس کا قصّہ آپ خود یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’جب میں ولایت چغانیاں پہنچا تو بیمار ہوگیا اور بیس روز تپ لرزہ آتا رہا۔ اس عرصہ میں نواج چغانیاں کے بعضے لوگوں نے مولانا خواجہ یعقوب چرخی کی بہت غیبت (بدگوئی، برائی) کی ۔ بیماری کے دنوں میں ایسی پریشان باتوں کے سننے سے خواجہ چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات کے ارادے میں بڑا فتور واقع ہوا۔ آخر کار میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو اس قدر دور فاصلہ سے آیا ہے لہٰذا اب یہ بات اچھی نہیں کہ تو ان سے ملاقات نہ کرے۔ چنانچہ میں اُن کی خدمت میں پہنچا وہ بڑی عنایت سے پیش آئے اور ہر طرح کی باتیں کیں۔ لیکن دوسرے روز جو میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو بہت غصہ ہوئے اور سختی و درشتی سے پیش آئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اُن کے غصہ کا سبب غیبت کا سننا اور تیرے ارادے میں فتور کا آنا ہوگا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ لطف و کرم سے پیش آئے اور بہت توجہ اور عنایت فرمائی، اور حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی ملاقات کا حال بیان فرماکر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ بیعت کر۔ چونکہ اُن کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت اُن کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کوسمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا اور صورت تبدیل کرکے ایسی خوبصورت اور شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بے خود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دستِ مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اُس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو، میں نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسبِ طریقہ حضراتِ خواجگان نقشبندیہ مجھے شغل نفی و اثبات جس کو وقوفِ عددی کہتے ہیں، سکھایا اور فرمایا کہ جو کچھ ہم کو خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچا ہے یہی ہے اگر تم بطریقِ جذبہ طالبوں کی تربیت کرو تو تمہیں اختیار ہے‘‘۔
کہتے ہیں کہ مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی، اُس کی نسبت آپ نے کس طرح فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے، چاہو تو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں، صرف اجازت کی دیر ہو، مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے تو اُسے خواجہ عبیداللہ احرار کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ، تیل اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔
اس کے بعد حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے حضراتِ خواجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے اور جب طریقِ رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتادینا۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی، اُس کی نسبت آپ نے کس طرح فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے چاہو تو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں، صرف اجازت کی دیرہو۔ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہیے، تو اُسے خواجہ عبیداللہ احرار کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ، تیل اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔
اس کے بعد حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے حضراتِ خواجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے اور جب طریقِ رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتادینا۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ یعقوب چرخی قدس سرہ کی خدمت سے رخصت پاکر پھر ہرات میں آئے اور کم و بیش ایک سال وہاں رہے۔ بعد ازاں انتیس سال کی عمر میں وطن مالوف کی طرف مراجعت فرمائی اور تاشقند میں مقیم ہوکر زراعت کا کام ایک شخص کی شراکت میں شروع کیا۔ دونوں ایک جوڑی بیل سے کھیتی کا کام کرنے لگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی زراعت میں بڑی برکت دی۔ آپ کے مال و منال، ضیاع و عقار گلہ و مواشی اور اسباب و املاک اندازہ کی حد سے زائد تھے مگر یہ سب درویشوں کے لیے تھے۔ چنانچہ مولانا جامی قدس سرہ السامی اپنی کتاب یوسف زلیخا میں آپ کے منقبت میں یوں لکھتے ہیں ؎
ازاں دانہ کز و آدم بنا کام |
|
ز بستانِ بہشت آمد بدیں دام |
’’جس دانہ سے حضرت آدم رضی اللہ عنہ ناچار باغ بہشت سے اس جال (دنیا) میں آئے۔
اُن کے ہزار کھیت زیر کاشت ہیں جو کہ راہِ بہشت میں چلنے کا توشہ ہیں۔
وہ اس کھیت (دنیا) میں بیج بو رہے ہیں اور اُس عالم میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔‘‘
وفات:
آپ کی وفاتِ حسرت آیت۲۹؍ ربیع الاوّل ۸۹۵ھ/ ۱۴۹۰ء کو ہوئی۔ رات کو جب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگا تو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کی گئیں جن سے وہ مکان نہایت روشن ہوگیا۔ اس حال میں اچانک دیکھا گیا کہ آپ کے دو ابروئے مبارک کے درمیان سے ایک نور چمکتی بجلی کی طرح نمودار ہوا۔ جس کی شعاع نے شمعوں کے نور کو مات کردیا۔ حاضرین نے اُس نور کا مشاہدہ کیا۔ بعد ازاں آپ کا وصال ہوگیا اور محلہ خواجہ کفشیر، محوطہ ملایاں سمر قند میں دفن ہوئے۔ آپ کی اولادِ امجاد نے آپ کے مرقد مبارک پر عالیشان عمارت تعمیر کردی اور قبر مبارک کو نہایت عمدہ وضع پر بنایا۔
آپ کے مرید باصفا مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ قطعۂ تاریخ وصال کہا ؎
بہشت صد و نود و پنج در شبِ شنبہ |
|
کہ بود سلخ مہ فوت احمدِ مرسل |
کرامات:
۱۔ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمت سے مراد یہ ہے کہ دل ایک امر پر اس مضبوطی سے جم جائے اور پھر اُس کے خلاف کوئی چیز دل میں نہ آئے۔ ایسی ہمت مراد سے متخلف نہیں ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ اوائلِ جوانی میں جبکہ ہم مولانا سعدالدین کاشغری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہرات میں تھے اور دونوں سیر کیا کرتے تھے۔ تو کبھی کشتی لڑنے والوں کے اکھاڑہ میں جا پہنچتے اور اپنی قوت و توجہات کا امتحان کرتے۔ دو پہلوانوں میں سے ایک کی طرف توجہ مبذول کرتے تو وہ غالب آجاتا۔ پھر مغلوب کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ غالب ہوجاتا۔ اس طرح کئی بار اتفاق ہوا۔ مقصود یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ ہمت کی تاثیر کس درجہ پر پہنچتی ہے۔
۲۔ حضرت مولانا ناصرالدین اتراری رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہ کے خادموں میں تھے، بیان کرتے ہیں کہ حضرت نے واقعہ میں دیکھا تھا کہ آپ کی مدد سے شریعت کو تقویت پہنچے گی۔ آپ کے قلبِ مبارک میں خیال آیا کہ یہ بات سلاطین کی مدد کے بغیر حاصل نہ ہوگی۔ اس غرض سے آپ سمر قند کی طرف آئے۔ اُس وقت میرزا عبداللہ بن میرزا ابراہیم بن میرزا شاہرخ بن امری تیمور ولایت سمر قند کا حاکم تھا۔ میں سفر میں آپ کی خدمت میں تھا۔ جب آپ سمر قند پہنچے تو میرزا عبداللہ کا ایک امری آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اُس سے فرمایا کہ ہمارے یہاں آنے کی غرض تمہارے میرزا سے ملاقات ہے۔ اگر تمہارے ذریعہ سے یہ کام ہوجائے تو بڑی اچھی بات ہے۔ اُس امیر نے نہایت بے ادبی اور غیر شائستگی سے جواب دیا کہ ہمارا میرزا بے پرواہ جوان ہے، اُس سے ملاقات مشکل ہے۔ درویشوں کو ایسی باتوں سے کیا مطلب؟ آپ نے خفا ہوکر فرمایا کہ ہم کو سلاطین کی ملاقات کا حکم ہوا ہے ہم آپ اپنے آپ نہیں آئے۔ اگر تمہارا میرزا پروا نہیں کرتا تو دوسر الایا جائے گا جو پروا کرے گا۔
جب وہ امیر چلا گیا تو آپ نے اُس کا نام سیاہی سے اُس مکان کی دیوار پر لکھا اور اپنے لعابِ دہن سے مٹاکر فرمایا کہ مارا کام اس بادشاہ اور اس کے امیروں سےنہیں چل سکتا اور اُسی روز تاشقند کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ امیر مرگیا اور ایک مہینے کے بعد سلطان ابوسعید میرزا ابن محمد میر ابن میر انشاہ بن امیر تیمور اطرافِ ترکستان سے ظاہر ہوا اور اُس نے میرزا عبداللہ پر حملہ کرکے اُسے قتل کر ڈالا۔ یہ واقعہ ۸۵۵ھ کا ہے۔
۳۔ میرزا بابر بن میرزا با یسنغر بن میرزا شاہرخ بن امیر تیمور ایک لاکھ سپاہ لے کر خراسان سے سمرقدن کی طرف متوجہ ہوا۔ میرزا سلطان ابوسعید نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے اُس کے مقابلہ کی طاقت و ہمت نہیں ہے، کیا کروں؟ آپ نے اُسے تسلی دی۔ جب میرزا بابر، دریائے آمویہ سے گزرا تو سلطان ابوسعید کے امیروں کی ایک جماعت نے اتفاق و مشورہ کیا کہ میرزا کو ترکستان لے جائیں اور وہاں قلعہ نشین ہوجائیں۔ چنانچہ تمام سامان اونٹوں پر لدوادیا گیا، حضرت کو جو خبر لگی تو شتر بانوں پر خفا ہوئے، سامان اُتروادیا اور خود میرزا ابوسعید کے ہاں تشریف لے گئے۔ میرزا سے فرمایا کہ کہاں جاتے ہو، جانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، یہیں کام بن جائے گا۔ میں نے تمہاری مہم اپنے ذمہ لے لی ہے۔ امیر گھبرا گئے یہاں تک کہ بعضوں نے اپنی پگڑیاں زمین پر پھینک دیں اور کہنے لگے کہ حضرت خواجہ ہم کو مروا رہے ہیں۔ میرزا ابوسعید کا چونکہ اعتقادِ صادق تھا لہٰذا اس نے کسی کی نہ سنی اور سمرقند ہی میں قلعہ نشین ہوگیا۔
جب میرزا بابر قلعۂ سمرقند کے قریب پہنچا تو اس کا سپہ سالار خلیل عیدگاہ سمر قند کے دروازہ پر ٹھہر گیا۔ شہر سے تھوڑے سے آدمی نکل کر خلیل سے لڑے، خلیل گرفتار ہوگیا، میرزا بابر سمرقند کے پرانے قلعہ میں اُترا۔ اُس کے سپاہی سامانِ معیشت کے لیے جس طرف جاتے اہلِ سمرقندکو پکڑ کر ناک کان کاٹ ڈالتے۔ اس طرح میرزا بابر کے لشکر کے بہت سے سپاہیوں نے اپنے ناک کان کٹوالیے۔ اس صورتِ حال تمام لشکر بہت تنگ آگیا۔ چند روز کے بعد اُن کے گھوڑوں میں وبا نمودار ہوئی۔ جس سے بہت سے گھوڑے تلف ہوگئے۔ آخر کار میرزا بابر نے مولانا محمد معمائی کو حجرت کی خدمت میں بھیج کر صلح کی درخواست کی، مولانا محمد نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ ہمارا میرزا نہایت غیور اور عالی ہمت بادشاہ ہے۔ جس طرف متوجہ ہوتا ہے بغیر اسیر کیے واپس نہیں آتا۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اُس کے جواب میں فرمایا کہ میں اُس کے دادا میرزا شاہ رخ (المتوفی ۸۵۰ھ) کے زمانہ میں ہرات میں تھا۔ مجھے اُس کے طفیل سے بڑی فراغت اور جمعیت حاصل تھی۔ اگر شاہ رخ کے حقوق نہ ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ میرزا بابر کا کیا حال ہوتا۔ آخر کار حضرت اقدس کے خاص مرید مولانا قاسم رحمۃاللہ علیہ کی وساطت سے صلح ہوگئی۔
۴۔ جب مرزا سلطان ابوسعید بتاریخ ۲۵؍رجب ۸۷۳ھ شہید ہوگیا تو اُس وقت اُس کے گیارہ بیٹوں میں سے چار برسر حکومت تھے۔ چنانچہ میرزا الغ بیگ، کابل میں۔ میرزا سلطان احمد، سمر قند میں، میرزا عمر شیخ ولایتِ اند جان و فرغانہ میں اور میرزا سلطان محمود، حصار اور بدخشاں میں حکمران تھا۔ میرزا سلطان محمود نے سمرقند کے محاصرہ کا ارادہ کیا، حضرت خواجہ کو پتہ چلا تو آپ نے بذریعہ رقعہ و پیام اُسے اس حرکت سے باز رہنے کا حکم دیا مگر وہ راہِ راست پر نہ آیا اور ولایت حصار سے سمر قند روانہ ہوگیا۔ بے شمار سامان و لشکر اُس کے ساتھ تھا۔ اپنے لشکر کے علاوہ چار ہزار تُر کمان (ایک قوم جو ترکوں سے کم مرتبہ ہونے کی وجہ سے ترکمان کہلاتی ہے) ہمرکاب تھے۔ میرزا سلطان احمد میں مقابلہ کی تاب نہ تھی۔ اس لیے اُس نے بھاگنا چاہا اور حضرت خواجہ سے اجازت چاہی۔ حضرت اقدس شہر سمرقند کے مدرسہ میں مقیم تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم بھاگ جاؤ گے تو سمر قند کے تمام باشندے قید ہوجائیں گے۔ تم مت گھبراؤ، میں تمہارے معاملہ کا ذمہ دار ہوں، اگر دشمن مغولب نہ ہوا تو تم مجھ سے مواخذہ کرنا، پھر آپ نے میرزا سلطان احمد کو مدرسہ کے ایک حجرے میں اتارا جس کا ایک ہی دروازہ تھا اور آپ اُس دروازے میں بیٹھ گئے۔ خادموں نے آپ کے حکم سے ایک تیز رفتار اونٹنی لاکر اس حجرے کے آگے بٹھادی آپ نے فرمایا کہ اگر میرزا سلطان محمود، سمرقند پہ قابض ہوجائےا ور اُس دروازے سے کہ جہاں لڑائی ہو شہر میں داخل ہوجائے تو تم اس اونٹنی پر سوار ہوکر دوسرے دروازے سے بھاگ جائیو، آپ نے اس تدبیر سے میرزا سلطان احمد کو تسکین دی، بعد ازاں آپ نے مولانا سیّد حسین، مولانا قاسم، میر عبدالاول اور مولانا جعفر کو جو آپ کے اکابر اصحاب میں تھے، طلب فرمایا اور حکم دیا کہ تم فورا اُس دروازے کے برج میں جاکر مراقبہ کرو۔ چنانچہ وہ وہاں جاکر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مراقبہ میں بیٹھتے ہی ہم نے دیکھا کہ ہم نیست ہیں، تمام حضرت ہی حضرت ہیں اور تمام عالم آپ کےو جود مبارک سے پُر ہے۔ لڑائی وقت چاشت تک جاری رہی۔ قریب تھا کہ دشمن غالب آجائے، شہر والے حیران و پریشان تھے کہ ناگاہ دشتِ قبچان کی طرف سے ایک سخت آندھی اُٹھی اور میرزا محمود کے لشکر و لشکر گاہ میں گرد و غبار کا وہ طوفان برپا ہوا کہ کسی کو آنکھ کھولنے کی مجال نہ رہی۔ ہوا پیادوں اور سواروں کو زمین پر گراتی۔ خیمہ وغیرہ کو اکھاڑ کر اُوپر کی طرف اڑاتی اور زمین پر پھینک دیتی، میرزا سلطان محمود اپنے امیروں اور ترکمانوں کی جماعت کثیر کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے دیوار کے پشتہ کے نیچے گھوڑے پر سوار کھڑا تھا کہ ناگاہ پشتہ کا ایک حصہ پھٹ گیا جس کے ہولناک دھماکہ سے قریباً چار سو مرد اور گھوڑے جو اس کے نیچے کھڑے تھےدب کر مرگئے۔ ترکمانوں کے گھوڑے بھاگنے لگے۔ سواروں نے ہر چند روکا مگر نہ رکے۔ القصدلشکر پراگندہ و منتشر ہوگیا۔ میرزا سلطان محمود کو شکست ہوئی۔ میرزا سلطان احمد کے لشکر اور شہر کے لوگوں نے قریباً پانچ کوس تک اُن کا تعاقب کیا اور بہت سے سوار اور گھوڑے پکڑ لائے اور بہت سا مال و متاع ہاتھ آیا۔
۵۔ مولانا شیخ ابوسعید مجلد جو میرزا شاہ رُخ کے زمانہ میں نہایت خوبصورت جوان تھے بیان کرتے ہیں کہ جوانی میں ایک بار ایک خوبصورت عورت سے اتفاقاً میری ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے مکان میں آگئی میں نے چاہا کہ خلوت میں اُ سسے بات چیت کروں۔ دریں اثنا میں نے حضرت خواجہ کی آواز سنی کہ فرماتے ہیں: ابوسعید! چہ کار مے کنی؟ یہ سن کر میری حالت بدل گئی اور میرے دل پر ہیبت طاری ہوگئی اور میرے اعضاء میں رعشہ طاری ہوگیا۔ میں نے فوراً اُس عورت کو مکان سے نکال دیا کچھ عرصہ بعد حضرت شتریف لائے جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمانے لگے کہ اگر حق تعالیٰ کی توفیق تیری یاوری نہ کرتی تو شیطان تجھ کو برباد کردیتا۔
۶۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے مخلصوں سے ایک بزرگ نقل کرتے ہیں کہ سمر قند میں میرا ایک غلام غائب ہوگیا۔ اُس غلام کے سوا میرے پاس اور کچھ مال و متاع نہ تھا، چار مہینے میں نے اس کی تلاش میں سر گردانی کی۔ سمرقند کے نواح میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں میں کئی بار نہ گیا۔ پہاڑ اور صحرا میں بہت پھرا مگر کہیں بھی اُس کا سراغ نہ ملا۔ اسی پریشانی کے عالم میں مارا مارا پھر رہا تھا کہ ناگاہ ایک صحرا میں حضرت خواجہ قدس سرہ ملے۔ آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب و خدام بھی تھے۔ میں نے حالتِ اضطراب میں حضرت کے گھوڑے کی باگ تھام لی اور بڑی نیاز مندی اور عاجزی سے اپنا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو دہقانی آدمی ہیں۔ ایسی باتوں کو کیا جانیں۔ میں نے چونکہ سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ ایسا تصرف کرتے ہیں کہ غیب کی خبر دے دیتے ہیں بلکہ غیب کو حاضر بھی کردیتے ہیں، اس لیے اصرار کیا اور گھوڑے کی باگ نہ چھوڑی جب آپ نے کوئی چارہ نہ دیکھا تو ایک لخطہ سکوت فرمایا اور پوچھا کہ یہ گاؤں جو نظر آ رہا ہے کیا اس میں بھی تم نے اُسے تلاش کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں تو بارہا اس میں گیا ہوں مگر محروم واپس لوٹا ہوں ارشاد کیا کہ اب پھر جاؤ، وہاں مل جائے گا یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیرز دوڑایا۔ جب میں اس گاؤں کے نزدیک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں وہ غلام پانی کا گھڑا بھر سامنے رکےے خشک و ویران جگہ پر حیران و پریشان کھڑا ہے جونہی میری نظر اس پر پڑی میں نے بے اختیار نعرہ مارا اور کہا اے غلام! تو اس عرصہ میں کہاں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کے گھر سے نکلا تو ایک شخص مجھ کو بہکا کر خوارزم میں لے گیا او روہاں مجھے فروخت کردیا۔ جس شخص نے مجھے خریدا تھا، آج اُس کے ہاں ایک مہمان آیا، اُس نے مجھے حکم دیا کہ پانی کا ایک گھڑا لاؤ ، تاکہ کھانا تیار کریں، میں گھڑا اُٹھاکر پانی کے کنارے پر پہنچا اور پانی سے بھرلیا جب میں نے گھڑا پانی سے نکالا تو اپنے آپ کو یہاں پایا اور اب میں یہ فیصلہ نہیں کرپاتا کہ یہ معاملہ بیداری میں دیکھ رہا ہوں یا خواب میں۔ حضرت خواجہ قدس سرہ کا یہ تصرف دیکھ کر میرا حال بدل گیا۔ میں نے غلام کو تو آزاد کردیا اور حضرت خواجہ قدس سرہ کا غلام بن گیا۔
۷۔ مولانا زادہ فرکنی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا نظام الدین علیہ الرحمۃ کے مرید تھے۔ وہ اپنے مرشد کی وفات کے بعد حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے ہیں۔ اُن کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں کے ساتھ ایک گاؤں کو جا رہا تھا۔ سردی کا موسم تھا۔ نمازِ عصر تو راستے میں پڑھی مگر ابھی وہ گاؤں چھ میل دور تھا کہ سورج غروب ہونے لگا۔ میرےد ل میں خیال آیا کہ دن ختم ہوگیا، راستہ خطرناک ہوا سرد اور فاصلہ زیادہ ہے، اب کیا حال ہوگا؟ جب یہ خیال بار بار میرے دل میں آیاتو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے میری طرف رخ مبارک پھیر کر ارشاد کیا کہ ڈرو مت، ممکن ہے کہ غروبِ آفتاب سے پہلے منزل پر پہنچ جائیں، یہ فرماکر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا اور میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گھوڑا دوڑا رہا تھا اور پلٹ پلٹ کر آفاتب کی ٹکیہ کو بھی دیکھتا جاتا تھا لیکن وہ اُسی طرح اُفق پر ٹھہرا ہوا تھا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے اُس میں میخ (کیل) ٹھونک دی ہے۔ جب ہم گاؤں میں پہنچے تو یک بیک سورج ایسا غروب ہوا کہ شفق کی سرخی و سپیدی جو غروب کے بعد ہوا کرتی ہے اُس کا کوئی نشان نہ رہا اور عالم میں ایسی تاریکی پھیل گئی کہ شکلوں اور رنگتوں کا نظر آنا ناممکن ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ حضرت خواجہ قدس سرہ کا تصف ہے۔ عارفِ رومی رحمۃ اللہ علیہ نے سچ کہا ہے کہ ؎
اولیاء راہست قدرت از الٰہا |
|
تیر گشتہ راباز گرد انند از قضا |
۸۔ حضرت خواجہ قدس سرہ کا ایک خادم سمر قند جا رہا تھا۔ آپ نے اُس کو ارشاد فرمایا کہ ہمارے لیے وہاں سے خالص شہد کے چند ڈبے لانا۔ وہ کئی ڈبے شہد سے بھرکو اور سب کے منہ پر مہر (Seal) لگاکر روانہ ہوا۔ اتفاقاً بازار میں کسی کام کے لیے ایک بزاز کی دکان پر رکنا پڑا اور شہد کے ڈبوں کو اپنے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا۔ ناگاہ ایک خوبصورت شراب سے مست عورت جو اُس بزاز کی آشنا تھی، وہاں آئی اور بزاز سے باتیں کرنے لگی۔ اُس خادم نے نظرِ حرام سے اس عورت کو دو تین بار دیکھا اور پھر ڈبوں کو اُٹھاکر تاشقند آگیا۔ جب وہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے دربارِ گوہر بار میں پہنچا تو آپ جنگل کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ اُس نے آپ کے پیچھے جانا چاہا مگر اتنے میں آپ تشریف لے آئے۔ اُس نے وہ ڈبے پیش کیے۔ حضرت اقدس نے ڈبوں کو ایک نظر دیکھتے ہی خفا ہوکر فرمایا کہ ان ڈبوں سے تو شراب کی بو آتی ہے۔ اے بدبخت! ہم نے تجھے شہد لانے کو کہا تھا مگر تو ہمارے لیے شراب لے آیا۔ خادم نے عرض کیا کہ میں تو شہد لایا ہوں آپ کے حکم سے جب کھول کر دیکھا گیا تو ہر ڈبہ شراب سے بھرا ہوا پایا گیا۔
۹۔ جس وقت آپ نے مولانا جامی قدس سرہ السامی سے حضرت خواجہ یعقوب چرخیق دس سرہ سے اپنے مرید ہونے کی داستان بیان فرمائی اور بتایا گیا کہ کس طرح خواجہ چرخی رحمۃ اللہ علیہ نورانی شکل میں ظاہر ہوئے تھے تو آپ بھی بطریق خلع و لبس مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ کے روبرو ایسی نورانی شکل میں ظاہر ہوئے کہ جو مولانا جامی کے محبوب تھے۔
۱۰۔ آپ کے ایک مرید ہوا میں اڑتے تھے۔ آپ نے یہ گستاخی آمیز حال دیکھ کر اُن کا سب حال چھین لیا۔ اُس نے بہت عاجزی اور آہ وزاری کی مگر آپ نے نہ دیا تب وہ آپ کو اکیلا پاکر چھری سے حملہ آور ہوا۔ آپ فوراً جنگل ی چروائے کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ وہ مرید حیران و پریشان ہوا اور آپ نے چھری اُس کے ہاتھ سے چھین لی اور پھر اصلی حالت میں آگئے، فرمایا کہ اب بتا! تیرا کیا حال کروں، وہ قدموں میں گر پڑا، آپ نے خطا معاف کرکے جو کچھ چھین لیا تھا واپس کردیا۔
۱۱۔ آپ کے کچھ خدام ایک دفعہ بازار میں گئے اُن میں سے ایک خادم، ایک صاحبِ جمال کو دیکھنے لگا تو دوسروں نے منع کیا، اُس نے کہا کہ میں بنظر شہوتِ نفس نہیں دیکھتا جب واپس آیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اب تک نفس کے مکر و فریب سے بیڈر نہیں ہوا تم کب سے ہوگئے کہ بغیر شہوتِ نفس کے دیکھتے ہو؟ وہ از حد شرمسار و نادم ہوا۔ آپ بہت ہی اشرافِ خواطر رکھتے تھے، جو جو خطرہ کسی کے دل پر گزرتا، آپ اُس کو پکڑلیتے تھے اور فرمادیتے تھے کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ کے پاس بیٹھ کر کسی طرح کا خطرہ جی میں لاوے۔
۱۲۔ ایک عالم آپ کی تعریف سن کر زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ جب شہر کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ اونٹوں پر بہت سا غلہ شہر میں جا رہا ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ غلہ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، سخت متعجب ہوئے کہ یہ کیسی فقیری ہے، اس قدر دنیاداری اور امارت ہے۔ دل میں خیال آیا کہ لوٹ جائیں لیکن پھر سوچا کہ اس قدر مسافت طے کرکے آیا ہوں، مل لینے میں کیا حرج ہے۔ خانقاہ شریف میں پہنچے تو اتفاقاً نیند آگئی، خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا ہے اور نفسہ انفسی کا عالم ہے۔ ایک شخص کہ جس کا یہ عالم قرض دار تھا، وہ اس سے قرض کا خواہاں ہے اور چاہتا تھا کہ قرض کے عوض اپنے اعمال دے دے۔ وہ عالم سخت پریشانی اور حیرانی کے عالم میں تھا کہ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے آئے اور صورتِ حال معلوم کرکے اپنے پاس سے سب قرض ادا کردیا۔ اتنے میں عالم کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو حضرت خواجہ خانقاہ میں تشریف فرما ہیں اور مسکرا کر فرمایا کہ میں مال اسی واسطے رکھتا ہوں کہ دوستوں کو قرض سے نجات دلاؤں، وہ عالم قدموں میں گر کر معافی کا طلبگار ہوا اور داخلِ سلسلہ ہوگیا۔
۱۳۔ دو درویش دور درازس کا سفر کرکے آپ کی زیارت کے لیے جب خانقاہ میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ قدس سرہ بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں وہ درویش سخت حیران ہوئے کہ یہ کیسے شیخ ہیں جو بادشاہ کے پاس جاتے ہیں۔ بئس الفقیرعلی باب الامیر کے مصداق ہیں۔ اتفاقاً اُسی وقت دو چار شاہی دربار سے بھاگ نکلے، اُن کو تلاش کرتے کرتے سپاہیوں نے ان درویشوں کو آپکڑا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ شریعت کے مطابق ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں حضرت خواجہ قدس سرہ اُس وقت بادشاہ کے پاس جلوہ افروز تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں درویش چور نہیں ہیں بلکہ یہ تو مجھے ملنے کے لیے آئے ہیں، ان کو چھوڑ دو،پھر آپ دونوں درویشوں کو ساتھ لے کر خانقاہ میں تشریف لائے، اور فرمایا کہ میں بادشاہ کے پاس اس لیے گیا تھا کہ تمہارے ہاتھ قطع ہونے سے بچاؤں، اگر میں وہاں نہ ہوتا تو تمہارے ہاتھ قطع ہوچکے تھے اور بئس الفقیر علی باب الامیر کے مصداق میں جب ہوتا کہ طمعِ دنیا کے لیے جاتا، وہ دونوں درویش شرمسار ہوئے اور قدموں میں گرگئے۔
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ پیر کون ہے؟ پیر وہ شخص ہے جو حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کا خیال رکھتا ہو، یعنی جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے، اُس پر عمل پیرا ہو، اور جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے اُس سے مکمل اجتناب کرے۔ اور وہ خود اور اُس کی تمام خواہشات اُس سے گم ہوگئی ہوں اور وہ ایسا آئینہ ہوگیا ہو جس میں سوائے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و اوصاف کے کچھ نظر نہ آئے۔ اس مقام میں وہ صفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصف ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ کے تصوف کا مظہر بن جاتا ہے اور تصرف الٰہی سے اصحابِ استعداد کے باطن میں تصرف کرتا ہے ؎
از بسکہ در کنار ہمے گیرداں نگار |
|
بگرفت بوئے یار و رہا کرد بوئے طین |
۲۔ مرید وہ ہے کہ ارادت کی آگ کی تاثیر سے اُس کی خواہش جل گئی ہو اور اُس کی مرادوں میں سے کچھ نہ رہا ہو اور اپنے دل کی بصیرت سے پیر کے آئینہ میں مراد کا جمال دیکھ کر اُس نے سب قبلوں سے منہ پھیرلیا ہو اور پیر کا جمال اس کا قبلہ ہوگیا ہو اور پیر کی بندگی میں آزادی سے فارغ ہوکر سوائے پیر کے آستانہ کے اپنے سرِ نیاز کو کہیں خم نہ کرتا ہو۔ اور سب سے منہ پھیر کر اپنی سعادت پیر کی قبولیت میں اور اپنی شقاوت پیر کے رد میں سمجھتا ہو بلکہ نیستی کا خط وجود کی پیشانی پر کھینچ کر وجودِ غیر کے شعور کے تفرقہ سے رہائی پاگیا ہو ؎
آنرا کہ در سرائے نگاریست فارغ است |
|
از باغ و بوستاں و تماشائے لالہ زار |
۳۔ ہم درویشوں کی ایک جماعت ایک جگہ بیٹھی تھی۔ دورانِ گفتگو اس حدیث شریف کا ذکر ہوا کہ جمعۃ المبارک کے دن ایک ایسی ساعت ہوتی ہے کہ اُس میں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے، مل جاتا ہے، اس ساعت کا تذکرہ ہوا کہ اگر وہ ساعت میسر آئے تو اُس میں اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہیے، ہر ایک نے کچھ نہ کچھ کہا، جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ اربابِ جمعیت[۱] کی صحبت مانگنی چاہیے کیونکہ اس کے ضمن میں تمام سعادتیں حاصل ہیں۔
[۱۔ اربابِ جمعیت سے مراد وہ سالکین ہیں جو تمام سے منہ پھیر کر مطلوبِ حقیقی کے مشاہدہ میں مستغرق ہیں۔]
۴۔ اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ توحید کیا ہے تو یہ جواب دے کہ غیر اللہ کی آگاہی سے دل کا آزاد کرنا توحید ہے، اگر پوچھا جائے کہ وحدت کیا ہے تو یہ جواب دے کہ غیراللہ کے وجود کے علم و شعور سے دل کی خلاصی وحدت ہے، اگر پوچھا جائے کہ اتحاد کیا ہے، تو یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں استغراق اتحاد ہے اگر پوچھا جائے کہ سعادت کیا ہے؟ تو یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی دید کے ساتھ خودی سے خلاصی سعادت ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ شقاوت کیا ہے؟ تو جواب دے کہ خودی میں رہتا اور حق سے باز رہنا شقاوت ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ وصل کیا ہے؟ تو جواب دے کہ وجودِ حق تعالیٰ کے نور کے شہود کے ساتھ اپنے آپ کو بھول جانا وصل ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ فصل کیا ہے؟ تو یہ جواب دے کہ دل کا غیراللہ سے جدا کرنا فصل ہے، اگر پوچھا جائے کہ سکر کیا ہے؟ تو جواب دے کہ ایسے حال کا دل پر ظاہر ہونا کہ دل اُس چیز کو پشیدہ نہ رکھ سکے۔ جس کا پوشیدہ رکھا اُس حال سے پہلے واجب تھا۔
۵۔ فرماتے تھے کہ اگر تمام احوال[۱] اور مواجید[۲] ہمیں عطا کیے جائیں اور ہمیں اہل سنت و جماعت کے عقائد سے آراستہ نہ کیا جائے تو ہم اُسے بجز خرابی کچھ نہیں سمجھتے اور اگر تمام خرابیاں ہم پر جمع کی جائیں اور اہل سنت و جماعت کے عقائد سے سرفراز فرمایا جائے تو ہمیں کچھ ڈر نہیں۔
[۱۔ احوال جمع ہے حال کی۔ حال وہ معنی ہے جو سالک کے دل پر بغٰر تصنع اور اکتساب کے وارد ہوتا ہے۔ مثلاً خوشی یا غم یا قبض یا بسط وغیرہ۔ حال جب دائم ہو اور ملکہ بن جائے تو اُسے مقام کہتے ہیں پس احوال مواہب ہیں اور مقامات مکاسب۔ حال عین جود سے آتے ہیں اور مقامات بذل مجہود سے حاصل ہوتے ہیں۔
۲۔ مواجید جمع ہے وجد کی وجد وہ ہے جو سال کے دل پر آئے اور بغیر تکلف و تصنع کے وارد ہو۔ مواجید اور اوراد و وظائف پر بفضلِ الٰہی مترتب ہوتے ہیں۔ اکتساب کو ان میں دخل نہیں۔]
۶۔ ہماری زبان دل کا آئینہ ہے، دل روح کا آئینہ ہے اور روح حقیقتِ انسانی کا آئینہ ہے۔ حقیقتِ انسانی اللہ تعالیٰ کا آئینہ ہے۔ حقائقِ غیبیہ، غیب ذات سے دور دراز فاصلے طے کرکے زبان پر آتے ہیں اور یہاں صورتِ لفظی قبول کرکے مستعدانِ حقائق کے کانوں میں پہنچتے ہیں۔
۷۔ میں جو بعض اکابر کی خدمت میں رہا، تو انہوں نے مجھے دو چیزیں عطا فرمائیں، ایک یہ کہ میں جوکچھ لکھوں جدید ہوگا نہ کہ قدیم۔ دوسرے یہ کہ میں جو کچھ کہوں، مقبول ہوگا۔
۸۔ آیۂ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْن کے معنی میں آپ فرماتے تھے کہ اس کے دو معنی ہیں پہلا یہ کہ اہلِ صدق کے ساتھ مجالست و مصاحبت کو لازم پکڑے تاکہ اُن کی صحبت کے دوام کے سبب سے اُس کا باطن اُن کے صفات و اخلاق کے انوارسے روشن ہوجائے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ باطن کی شاہراہ سے اُس گروہ کے ساتھ رابطہ کا طریق اختیار کرے جو واسطہ ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں اور صحبت کو اس امر میں حصر (احاطہ کرنا، گھیرنا) نہ کرے کہ ہمیشہ آنکھ کے ساتھ دیکھے بلکہ ایسا کرے کہ صحبتِ دائمی ہوجائے اور صورت سے معنی کی طرف عبور کرے تاکہ واسطہ ہمیشہ نظر میں رہے۔ جب اس بات کو دوام کے طور پر ملحوظ رکھے گا، تو اُس کے باطن کو اُن کے باطن کے ساتھ نسبت و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور اس واسطہ سے اُسے مقصود اصلی حاصل ہوجائے گا۔
۹۔ حدیث میں جو آیا ہے شیبتنی سورہ ھود (سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا) اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں استقامت کا حکم آیا ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے فاسْتَقِمْ کما اُمِرْتَ (پس تو استقامت کر جیسا کہ تجھے حکم ہوا ہے) اور استقامت نہایت دشوار ہے کیونکہ استقامت کے معنی ہیں قائم رہنا حد وسط میں تمام افعال و اقوال اور اخلاق و احوال میں بدیں طور کہ تمام افعال میں ضرورت سے تجاوز صادر نہ ہو اور افراط و تفریط سے محفوظ رہے اسی سبب سے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ضروری کام تو استقامت ہے۔ کرامت و خوارقِ عادات کے ظہور کا کچھ اعتبار نہیں۔
۱۰۔ لوگوں کے اعمال و اخلاق سے جمادات کا متاثر ہونا محققین کے نزدیک ایک ثابت امر ہے۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے اس بارے میں بہت تحقیق کی ہے۔ یہ تاثر اس درجہ تک ہے کہ اگر ایک شخص نماز کو جو افضلِ عبادات ہے، ایسی جگہ ادا کرے جو ایک جماعت کے اعمال و اخلاق ناپسندیدہ سے متاثر ہوگئی ہو تو اُس نماز کا جمال اور رونق اس نماز کے برابر نہیں جو ایسی جگہ میں ادا کی جائے جو اربابِ جمعیت کی برکت سے متاثر ہو۔ یہی سبب ہے کہ حرمِ مکہ میں دو رکعت نماز غیر محرم میں بہت سی رکعتوں کے برابر ہے۔
۱۱۔ ہمارے زمانہ میں توحید یہ ہوگئی ہے کہ لوگ بازاروں میں جاتے ہیں اور بے ریش لڑکوں کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ایسے مشاہدہ سے خدا کی پناہ! تفصیل اس بادشاہ کی یوں ہے کہ حضرت سیّد قاسم تبریزی قدس سرہ اس ولایت (ملک) میں تشریف لائے تھے۔ اُن کے مریدوں کی ایک جماعت بازاروں میں پھرتی تھی۔ اور بے ریش لڑکوں کا نظارہ کرتی اور ان سے تعلق پیدا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ صورتِ جمیلہ (حسین شکل و صورت) میں ہم اللہ تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ حضرت سیّد قدس سرہ بعض اوقات فرماتے کہ ہمارے سور کہاں گئے ہیں؟ اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گروہ حضرت سیّد کی نظرِ بصیرت میں سور کی شکل میں دکھائی دیتا تھا۔
۱۲۔ ایک روز آپ نے ایک شخص سے کہا کہ اگر تمہیں حضرت خواجۂ خواجگان بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں ایک نسبت حاصل ہوجائے اور پھر اس کے بعد تم کسی دوسرے بزرگ کی خدمت میں چلے جاؤ۔ اور اس کی صحبت میں بھی وہی نسبت پھر حاصل ہوجائے تو تم کیا کرو گے، کیا خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو چھوڑ دو گے؟ پھر از خود ہی فرمایا کہ کسی دوسری جگہ سے اگر تمہیں وہی نسبت حاصل ہو تو تمہیں چاہیے کہ اُس نسبت کو حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ہی کا فیض سمجھو۔ پھر یہ حکایت بیان کی کہ حضرت شیخ قطب الدین حیدر قدس سرہ کے مریدوں میں ایک مرید حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کی خانقاہ میں گیا۔ وہ نہایت بھوکا تھا۔ اس نے اپنے پیر کے گاؤں کی طرف منہ کرکے کہا شیئا للہ قطب الدین حیدر رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کو جو اس کا حال معلوم ہوا تو اپنے خادم کو حکم دیا کہ کہ فوراً کھانا اس کے پاس لے جاکر کھلاؤ، جب وہ درویش کھانا کھاکر فارغ ہوا تو پھر اپنے پیر کے گاؤں کی طرف منہ کرکے کہا شکراً للہ قطب الدین حیدر۔ کہ آپ نے ہم کو کسی جگہ نہیں چھوڑا، جب خادم حضرت شیخ کے پاس گیا تو انہوں نے پوچھا کہ تو نے اس درویش کو کیسا پایا؟ خادم نے عرض کیا کہ وہ مہمل شخص ہے۔ کھانا تو آپ کا کھاتا ہے مگر شکر قطب الدین حیدر کا کرتا ہے حضرت شیخ نے فرمایا کہ مریدی اُس سے دیکھنی چاہیے کہ ظاہری و باطنی فائدہ جس جگہ پائے اُسے اپنے پیر کی برکت سے سمجھے۔
۱۳۔ ایک روز تعظیمِ ساداتِ کرام کے بارے میں ارشادات فرما رہے تھے کہ جن بستی میں سادات رہتے ہوں، میں اس میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ اُن کی بزرگی اور شرف زیادہ ہے، میں اُن کی تعظیم و تکریم کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
ایک روز امام اعظم قدس سرہ درس کی مجلس میں کئی بار اُٹھے کسی کو اس کا سبب معلوم نہ ہوا۔ آخر کار حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد نے دریافت کیا، حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ساداتِ علوی کا ایک لڑکا اُن لڑکوں میں ہے جو مدرسہ کے صحن میں کھیل رہے ہیں، وہ لڑکا جب ا س درس کے قریب آتا ہے اور اُس پر میری نظر پڑتی ہے تو میں اس کی تعظیم کے لیے اُٹھتا ہوں۔
۱۴۔ کشفِ قبور یہ ہے کہ صاحبِ قبر کی روح مثالی صورتوں میں سے کسی مناسب صورت کے ساتھ مشتمل ہوجاتی ہے۔ صاحب کشف اُس کو بصیرت کی آنکھ سے اُسی صورت میں مشاہدہ کرتا ہے لیکن چونکہ شیطان کو مختلف صورتوں اور شکلوں کے ساتھ متمثل و متشکل ہوجانے کی قوت ہوتی ہے اس لیے ہمارے خواجگان قدس اللہ ارواحہم نے اس کشف کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ اصحابِ قبور کی زیارت میں اُن کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی بزرگ کی قبر پر پہنچتے ہیں تو اپنے آپ کو تمام کیفیتوں اور نسبتوں سے خالی کرکے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ دیکھیے کیا نسبت ظاہر ہو۔ اُس نسبت سے صاحبِ قبر کا حال معلوم کرلیتے ہیں اور بیگانوں کی صحبت میں بھی اُن کا یہی طریق ہے کہ جو شخص اُن کے پاس بیٹھے وہ اپنے باطن پر نظر ڈالتے ہیں۔ جو کچھ اس شخص کے آنے کے بعد ظاہر ہو وہ جان لیتے ہیں کہ یہ اُس کی نسبت ہے اور ہمارا اس میں کچھ دخل نہیں، اس نسبت کے مطابق لطف یا قہر سے اُس سے پیش آتے ہیں۔
۱۵۔ محققین کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ موت کے بعد اولیاء اللہ ترقی کرتے ہیں۔
۱۶۔ اس سلسلہ (سلسلہ نقشبندیہ) کے خواجگان قدس اللہ ارواحہم ہر ریاکار اور بازیگر کی طرف نسبت نہیں رکھتے۔ اُن کا کارخانہ بلند ہے۔
۱۷۔ ہر زمانہ میں رجالِ غیب صالحین میں سے اُس شخص کی صحبت میں رہتے ہیں جو عزیمت[۱] پر عمل کرتا ہے ۔ یہ گروہ رخصت سے بھاگتا ہے۔ رخصت پر عمل کرنا ضعیفوں کا کام ہے۔ ہمارے خواجگان قدس اللہ ارواحہم کا طریقہ عزیمت ہے۔
[۱۔ عزیمت شریعت میں اصل مشروع کو کہتے ہیں اور رخصت اُسے بولتے ہیں جو کسی عذر کے سبب سے مباح سمجھا گیا ہو حالانکہ اُس کی حرمت کی دلیل قائم ہو۔]
۱۸۔ جس وقت آپ عزیمت و احتیاط کے طریق سے کوئ کام کرتے تو فرماتے کہ لقمہ و طعام میں احتیاط کرنا ضروریات سے ہے۔ چاہیے کہ کھانا پکانے والا باوضو ہو۔ وہ شعور و آگاہی سے لکڑی چولہے میں رکھے اور آگ جلائے۔ جس پکانے میں غصہ یا پریشان باتیں ظہور میں آئیں اُس کھانے کو حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نہ کھاتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ اس کھانے میں ظلمت ہے ہمیں اس کا کھانا جائز نہیں۔
۱۹۔ چاہیے کہ مرید کی توجہ پیر کے دو ابرو کے درمیان ہو اور پیر کو تمام اوقات اور احوال میں آگاہ و حاضر سمجھے تاکہ پیر کی بزرگی اور عظمت اُس میں تصرف کرے اور جو چیز پیر کے حضور میں نامناسب ہو وہ مرید کے باطن سے کوچ کرجائے۔ اس امر کے کمال کے سبب سے یہ حال ہوجائے کہ پیر و مرید کے درمیان سے حجاب اُٹھ جائے اور پیر کی تمام مرادیں اور مقاصد بلکہ اس کے احوال و مواجید مرید کے مشاہدہ و معائنہ میں آجائیں۔
۲۰۔ ردی خطرات اور طبعی مقتضیات میں گرفتاری سے خلاصی کا طریقہ تین چیزوں میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ اول یہ کہ اعمالِ خیر جو اس گروہ نے مقرر کیے ہیں، اُن میں سے ہر ایک عمل اپنے اوپر لازم کرے اور طریقِ ریاضت اختیار کرے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوت و طاقت کو درمیان سے اُٹھا دے اور جان لے کہ میں ایسا نہیں کہ خود بخود اس بلا سے خلاصی حاصل کرسکوں اور عاجزی و محتاجی کے طور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور تضرع و انکساری کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اُس کو اس بلا سے نجات دے۔ تیسرے یہ کہ اپنے پیر کی ہمت و باطن سے مدد طلب کرے اور اُس کو اپنی توجہ کا قبلہ بنائے اس تقریر کے بعد آپ نے حاضرین سے پوچھا کہ ان تین طریقوں میں سے بہتر کون سا ہے؟ پھر آپ نے خود ہی فرمایا کہ پیر کی ہمت سے مدد مانگنا اور اُس کی طرف متوجہ ہونا بہتر ہے۔ کیونکہ طالب اس صورت میں اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے عاجز سمجھ کر پیر کو اس توجہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب میں وصول کا وسیلہ بناتا ہے۔ یہ امر حصولِ نتیجہ کے قریب تر ہے۔ جو کچھ طالب کا مقصود ہے۔ اس تقدیر پر زیادہ جلدی متفرع ہوگیا کیونکہ وہ ہمیشہ پیر کی ہمت سے مدد طلب کرنے والا ہوگا۔
۲۱۔ عبادت سے مراد یہ ہے کہ اوامر پر عمل کریں اور نواہی سے پرہیز کریں۔ عبودیت سے مراد اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ توجہ اور اقبال ہے۔
۲۲۔ شریعت، طریقت اور حقیقت تین چیزیں ہیں۔ احکامِ ظاہری کا جاری کرنا شریعت ہے۔ جمعیت باطن میں تعمل و تکلف طریقت ہے اور اس جمعیت میں رُسوخ حقیقت ہے۔
۲۳۔ سیر دو طرح کی ہے سیرِ مستطیل اور سیرِ مستدیر[۱]۔ سیر مستطیل بعد در بعد ہے اور سیر مستدیر قرب در قرب ہے۔ سیرِ مستطیل سے مراد مقصود کو اپنے دائرے کے خارج سے طلب کرنا ہے اور سیرِ مستدیر اپنے دل کے گرد پھرنا اور مقصود کو اپنے سے ڈھونڈنا ہے۔
[۱۔ سیر مستطیل سے مراد سیرِ آفاقی اور سیرِ مستدیر سے مراد سیر انفسی ہے (قصوری)]
۲۴۔ علم دو ہیں۔ علم وراثت اور علم لدنی، علمِ وراثت وہ ہے جس سے پہلے کوئی عمل ہو، چنانچہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لمن عمل بما علم ورثہ اللہ علم ما لم یعلم.
’’جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو وارث بناتا ہے اُس علم کا جو اُسے معلوم نہیں‘‘۔
اور علم لدنی وہ علم ہے جس سے پہلے کوئی عمل نہ ہو، بلکہ بغیر کسی سابق عمل کے اللہ تعالیٰ محض عنایت بے علت سے اپنے پاس سے بندے کو کسی خاص علم کے ساتھ مشرف کرے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا (سورہ کہف۔ ع۹)
’’اور سکھایا تھا ہم نے اُس کو اپنے پاس سے علم‘‘۔
آپ نے فرمایا کہ علم کی طرح اجر بھی دو قسم کا ہے۔ اجرِ ممنون اور اجرِ غیر ممنون۔ اجرِ ممنون وہ ہے جو کسی عمل کے مقابلہ میں نہ ہو بلکہ محض موہبت (عطا، بخشش) ہو۔ اور اجرِ غیر ممنون وہ ہے جو کسی عمل کے مقابلہ میں ہو۔
۲۵۔ لوگوں نے خیال کیا ہے کہ شاید کمال نا الحق کہنے میں ہے نہیں، بلکہ کمال اس میں ہے کہ انا کو دور کیا جائے اور کبھی اُسے یاد نہ کیا جائے۔
۲۶۔ فنائے مطلق کے معنی یہ نہیں کہ صاحبِ فنا کو اپنے اوصاف و افعال کا شعور نہ ہو بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ بطریقِ ذوق اپنے آپ سے اوصاف و افعال کے اسناد کی نفی کرے اور فاعلِ حقیقی جل ذکرہٗ (اُس کے ذکر کی بڑی عظمت اور شان ہے) کے لیے اسناد ثابت کرے۔ وہ جو صوفیہ قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم نے فرمایا ہے کہ نفی اثبات کے ساتھ مخالفت نہیں رکھتی، اُس کے یہی معنی ہیں۔ آپ نے مثال کے طور پر فرمایا کہ یہ کپڑا جو میں پہنے ہوئے ہوں عاریتی ہے اور مجھے اس کے عاریتی ہونے کا علم نہیں اور اس سبب سے کہ اس کو میں اپنی ملک سمجھتا ہوں اسے سے تعلق رکھتا ہوں ناگاہ مجھے اس کپڑے کے عاریتی ہونے کا علم ہوگیا، اُسی وقت میرا تعلق اس سے منقطع ہوگیا حالانکہ میں بالفعل پہپن رہا ہوں۔ اسی پر تمام صفات کو قیاس کرنا چاہیے کہ سب عاریتی ہیں تاکہ غیراللہ سے دل منقطع ہوجائے اور پاک و مطہر ہوجائے۔
۲۷۔ وصل، حقیقت میں یہ ہے کہ دل بطریقِ ذوق اللہ تعالیٰ کے ساتھ جمع ہوجائے جب یہ بات ددائم (ہمیشہ) ہوجائے تو اسے دوام وصل بولتے ہیں۔ نہایت یہی ہے۔ وہ جو حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو بدایت (انتہا کو ابتدا میں) درج کرتے ہیں۔ اس سے مراد یہی نہایت ہے اور جو آپ نے فرمایا ہے کہ ہم محض قبولیت کا واسطہ ہیں، ہم سے منقطع ہونا چاہیے او رمقصود سے ملنا چاہیے یہی وصل ہے۔
۲۸۔ تجلی کے معنی کشف ہیں۔ اس امر کا ظہور دو طرح سے ہوسکتا ہے۔ ایک کشفِ عیانی جو دار جزا میں سر کی آنکھ کے ساتھ مقصود کے جمال کا مشاہدہ ہے۔ دوسرے یہ کہ غلبۂ محبت کے ساتھ غائب کو کثرت سے حاصل کرنے کے ذریعہ سے کہ وہ غائب مثل محسوس کے ہوجائے کیونکہ خواص محبت میں سے ہے کہ وہ غائب کو مثل محسوس کے کردیتی ہے۔ دنیا میں اربابِ کمال کے قدم کی انتہا یہی ہے۔
۲۹۔ اگر ہم شیخی کرتے تو اس زمانہ میں کسی شیخ کو مرید نہ مل سکتا۔ لیکن ہمیں اور کام کا حکم ملا ہے کہ مسلمانوں کو ظالموں کے شر سے بجائیں، اس واسطے ہمیں بادشاہوں سے میل جول رکھنا اور اُن کے نفوس کو مسخر کان اور اس عمل کے ذریعہ سے مسلمانوں کی مطلب بر آری ضروری ہے۔
۳۰۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی عنایت سے مجھے ایسی قوت عطا کی ہے کہ اگر میں چاہوں تو ایک رقعہ سے بادشاہِ خطا کو جو الوہیت کا دعویٰ کرتا ہے ایسا کردوں کہ بادشاہت چھوڑ کر ننگے پاؤں خطا سے خار و خاشاک میں دوڑتا ہوا اپنے آپ کو میرے آستانہ پر پہنچائے لیکن باوجود ایسی قوت کے ہم خدا کے حکم کے منتظر ہیں جس وقت وہ چاہے اور حکم دے وقوع میں آئے گا۔ اس مقام کے لیے ادب لازم ہے اور ادب یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کا تابع بنائے نہ کہ اللہ کو اپنے ارادہ کا تابع بنائے۔
۳۱۔ ہر روز سونے سے قبل اپنے گزشتہ اوقات کو یاد کرو کہ کس طرح گزرے ہیں۔ اگر غیر طاعت سے گزرے ہیں تو توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
۳۲۔ منجملہ آدابِ طریقت سے یہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہے کیونکہ دوامِ وضو سے فراخیِ رزق ہوتی ہے۔
۳۳۔ جو شخص فقیروں کی صحبت میں آئے، اُسے چاہیے کہ اپنے آپ کو نہایت مفلس ظاہرکرے تاکہ اُس پر اُن کو رحم آئے۔
۳۴۔ رہبر کا سایہ ذکرِ حق کرنے سے زیادہ بہتر ہے یعنی مرید کے لیے رہبر کا سایہ اُس کے ذکرِ حق کرنے سے زیادہ نفع مند ہے۔ کیونکہ مرید کو اُس وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کامل مناسبت حاصل نہیں ہوتی تاکہ براستہ ذکر اُسے مکمل نفع حاصل ہو۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار قدس سرہ
نام و لقب:
آپ کا نامِ مبارک عبد اللہ ہے۔ ناصر الدین لقب ہے۔ کیونکہ آپ سے دین اسلام کو نصرت پہنچی۔ احرار بھی آپ کا لقب ہے۔ جو اصل میں خواجہ احرار ہے۔ چونکہ آپ کے اسم گرامی کے معنی میں چھُٹائی پائی جاتی ہے۔ اس لیے اس کے تدارک کے لیے آپ کو خواجہ احرار بالا ضافت لقب دیا گیا۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے۔ کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حرّ (واحد احرار) اُسے کہتے ہیں جو عبودیت۔ کی حدود کو بدرجہ کمال قائم کرے اور اغیار کی رقیت (غلامی) سے نکل جائے۔ استعمال میں بعض وقت لفظ خواجہ کو حذف کر کے فقط احرار کہتے ہیں۔
ولادت با سعادت:
آپ باغستان میں جوتا شقند واقع توران کے مضافات سے ہے ماہ رمضان ۸۰۶ھ میں پیدا ہوئے۔ تولّد کے بعد چالیس دن تک کہ ایام نفاس ہیں آپ نے اپنی ماں کا دودھ نہ پیا۔ جب اس نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا۔ تو پینا شروع کیا۔ لڑکپن ہی سے رشد و سعادت کے آثار اور قبول و عنایت الٰہی کے انوار آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ تین چار سال کی عمر سے نسبت آگاہی بحق سبحانہ تعالیٰ حاصل تھی۔ طفولیت میں مکتب میں آمدو رفت رکھتے۔ مگر دل پر وہی نسبت غالب تھی۔ بچپن میں مزارات مشائخ پر حاضر ہوتے۔ جب سن بلوغ کو پہنچے۔ تو تاشقند کے مزارات پر جو ایک دوسرے سے فاصلہ پر واقع ہیں پھرا کرتے۔ اور بعض دفعہ ایک ہی رات میں تمام مزارات کی گشت کر آتے۔
تحصیل علم:
آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم علیہ الرحمۃ کو آپ کی تعلیم کا بڑا خیال تھا۔ اسی غرض سے وہ آپ کو بائیس سال کی عمر میں تاشقند سے سمر قند لے گئے۔ مگر شغل باطنی غلبہ علم ظاہری کی تحصیل سے مانع رہا۔ خواجہ فضل اللہ ابو اللیثی جو سمر قند کے اکابر علماء سے تھے فرماتے تھے کہ ہم خواجہ عبید اللہ کے باطن کے کمال کو نہیں جانتے۔ مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے بحسب ظاہر علوم رسمی سے بہت کم پڑھا ہےا ور ایسا دن کم ہوگا کہ وہ تفسیر قاضی بیضاوی میں ہمارے سامنے کوئی شبہ پیش کریں اور ہم سب اس کے حل سے عاجز نہ آئے ہوں۔
سیر و سیاحت:
بائیس برس کی عمر سے انتیس برس کی عمر تک آپ سفر میں رہے۔ اس عرصہ آپ کو بہت سے مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے ایک روز مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا۔ تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام خواجہ عبید اللہ ہے۔ اُس نےتمام روئے زمین کو لے لیا۔ وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمر قند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے جو نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے۔ مولانا نے فرمایا۔ ’’وہ خواجہ عبید اللہ ہیں۔ عنقریب دنیا کے سلاطین ان میں مبتلا ہوں گے۔‘‘
سمر قند ہی میں آپ حضرت سید قاسم تبریزی کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی [۱] خلیفہ حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہما کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی کی زیارت کی۔ جو سید امیر حمزہ بن سید امیر کلال کے خلیفہ اول تھے۔ اور خواجہ بزرگ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوانی کی خدمت میں بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سید قاسم تبریزی اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے۔ اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
[۱۔پرمس قصبہ وابکنی کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا نام ہے۔ وہاں سے بخارا چار شرعی فرسنگ ہے۔ رشحات۔]
مولانا یعقوب چرخی کی خدمت میں حاضری:
ہرات میں آپ نے ایک سودا گر سے حضرت خواجہ یعقوب چرخی کے فضائل سنے۔ اس لیے وہاں سے اُن کی صحبت کی نیت سے بلخ کے راستے حصار کی طرف متوجہ ہوئے۔ بلخ میں حسام الدین پارساہ خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور وہاں سے حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ کے مزار کی زیارت کے لیے چغانیاں پہنچے۔ اور چغانیاں سے ہلفتوں میں مولانا یعقوب چرخی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جس کا قصہ آپ خود یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’جب میں ولایت چغانیاں میں پہنچا تو بیمار ہوگیا۔ اور بیس روز تپ لرزہ آتا رہا۔ اِس عرصہ میں نواح چغانیاں کے بعضے لوگوں نے مولانا یعقوب چرخی کی بہت غیبت کی۔ بیماری کے دنوں میں ایسی پریشان باتوں کے سننے سے مولانا کی ملاقات کے ارادے میں بڑا فتور واقع ہوا۔ آخر کار میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو اس قدر دور فاصلہ سے آیا ہے یہ اچھا نہیں کہ تو ان سے ملاقات نہ کرے میں روانہ ہوگیا۔ اور ان کی خدمت میں پہنچا۔ وہ بڑی عنایت سے پیش آئے اور ہر طرح کی باتیں کیں۔ لیکن دوسرے روز جو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو تو بہت غصہ ہوئے اور سخت و درشتی سے پیش آئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ان کے غصہ کا سبب غیبت کا سننا اور تیرے ارادے میں فتور کا آنا ہوگا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ لطف سے پیش آئے اور بہت توجہ و عنایت فرمائی۔ اور حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ سے اپنی ملاقات کا حال بیان فرما کر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ بیعت کر۔ چونکہ ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت ان کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کو سمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا۔ اور بطریق خلع و لبس اپنی صورت تبدیل کر کے ایسی صورت میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بیخود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دست مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے۔ جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو۔ میں نے بلا توقف مولانا یعقوب کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسب طریقہ حضرات خواجگان مجھے شغل نفی و اثبات جس کو وقوف عددی کہتے ہیں سکھایا اور فرمایا کہ جو کچھ ہم کو حضرت خواجہ بزرگ سے پہنچا ہے یہی ہے۔ اگر تم بطریق جذبہ طالبوں کی تربیت کرو۔ تو تمہیں اختیار ہے۔‘‘
طالب اور مرشد:
کہتے ہیں کہ مولانا کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی اس کی نسبت کس طرح آپ نے فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے۔ چاہو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں۔ صرف اجازت کی دیر ہو۔ مولانا جامی نفحات الانس میں لکھتے ہیں۔ مولانا یعقوب فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے۔ اُسے خواجہ عبید اللہ کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ اور تیل بتی سب تیارر ہے۔ صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے تھے کہ جب میں نے مولانا یعقوب سے اجازت طلب کی تو آپ نے مجھ سے حضرات خوجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے۔ جب طریق رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتا دینا۔
وطن کی طرف واپسی:
حضرت خواجہ عبید اللہ مولانا یعقوب کی خدمت سے رخصت پاکر پھر ہرات میں آئے۔ اور کم و بیش ایک سال وہیں رہے۔ بعد ازاں انتیس سال کی عمر میں وطن مالوف کی طرف مراجعت فرمائی۔ اور تاشقند میں مقیم ہوکر زراعت کا کام ایک شخص کی شراکت میں شروع کیا۔ دونوں ایک جوڑی بیل سے کھیتی کا کام کرنے لگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی زراعت میں بڑی برکت دی۔ آپ کے مال ومنال اور ضیاع و عقار(جڑی بوٹیاں وغیرہ) اور گلہ و مویشی اور اسباب و املاک اندازہ کی حد سے زائد تھے۔ مگر یہ سب درویشوں کے لیے تھے۔ چنانچہ مولانا جامی یوسف زلیخا میں آپ کی منقبت میں یوں لکھتے ہیں۔ ؎
ازاں دانہ کزو آدم بنا کام
زبستانِ بہشت آمد بدیں دام
جس دانہ سے حضرت آدم علیہ السلام ناچار باغ بہشت سے اس جال (دنیا) میں آئے۔
ہزارش مزرعہ در زیر کشت است
کہ زادِ فتنِ راہِ بہشت است
اُن کے ہزار کھیت زیر کاشت ہیں جو راہِ بہشت میں چلنے کا توشہ ہیں۔
دریں مزرعہ فشاند تخم دانہ
در آں عالم کند انبار خانہ
وہ اِس کھیت (دنیا) میں بیج بو رہے ہیں اور اُس عالم میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔
کرامات کا بیان
۱۔ حضرت خواجہ احرار فرماتے ہیں کہ ہمت سے مراد دل کا ایک امر پر اس طرح جمع کرنا ہے کہ اُس کا خلاف دل میں نہ آئے۔ ایسی ہمت سے مراد متخلف نہیں ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ اوائل جوانی میں جب کہ ہم مولانا سعد الدین کا شغری کے ساتھ ہرات میں تھے اور دونوں سیر کیا کرتے تھے۔ تو کبھی کشتی لڑنے والوں کے اکھاڑہ میں جا پہنچتے۔ اور اپنی قوت اور توجہات کا امتحان کرتے۔ دو پہلوانوں میں سے ایک کی طرف توجہ مبذول کرتے۔ تو وہ غالب آتا۔ پھر مغلوب کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ غالب ہوجاتا اس طرح کئی بار اتفاق ہوا۔ مقصود یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ ہمت کی تاثیر کس درجہ پر پہنچی ہے۔
حاکم کی موت:
مولانا ناصر الدین اتراری جو حضرت عبید اللہ احرار کے خادموں میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ حضرت نے واقعہ میں دیکھا تھا کہ آپ کی مدد سے شریعت کو تقویت پہنچے گی۔ آپ کے مبارک دل میں آیا کہ یہ بات سلاطین کی مدد کے بغیر حاصل نہ ہوگی۔ اس غرض سے آپ سمر قند کی طرف آئے۔ اس وقت میر زا عبد اللہ بن میر زا ابراہیم بن میر زا شاہرخ بن امیر تیمور ولایت سمر قند کا حاکم تھا۔ میں اس سفر میں آپ کی خدمت میں تھا۔ جب آپ سمر قند میں پہنچے تو میرزا عبد اللہ کا ایک امیر آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ یہاں آنے سے ہماری غرض تمہارے میرزا کی ملاقات ہے۔ اگر تمہارے ذریعہ سے یہ کام ہوجائے تو خوب ہے۔ اس امیر نے بے ادبی سے جواب دیا کہ ہمارا میرزا بے پروا جوان ہے۔ اُس سے ملاقات مشکل ہے۔ درویشون کو ایسی باتوں سے کیا مطلب۔ آپ نے خفا ہوکر فرمایا کہ ہم کو سلاطین کی ملاقات کا حکم ہوا ہے۔ ہم اپنے آپ نہیں آئے۔ اگر تمہارا میرزا پروا نہیں کرتا تو دوسرا لایا جائے گا جو پروا کرے گا۔ جب وہ امیر چلاگیا تو آپ نے اس کا نام سیاہی سے اُس مکان کی دیوار پر لکھا اور اپنے لعابِ دہن سے مٹادیا اور فرمایا کہ ہمارا کام اِس بادشاہ اور اس کے امیروں سے نہیں چل سکتا۔ اور اُسی روز تاشقند کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ امیر مرگیا اور ایک مہینے کے بعد سلطان ابو سعید مرزا بن محمد میر انشاہ بن امیر تیمور اطراف ترکستان سے ظاہر ہوا اور اُس نے میرزا عبد اللہ پر حملہ کر کے اُسے (۸۵۵ھ میں) قتل کر ڈالا۔
میرزا بابر پر توجہ:
میرزا بابر بن میرزا بایسنغر بن میرزا شاہرخ بن امیر تیمور ایک لاکھ سپاہ لے کر خراسان سے سمر قند کی طرف متوجہ ہوا۔ میر زا سلطان ابو سعید نے حضرت کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ مجھے اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ کیا کروں۔ آپ نے اسے تسلی دی۔ جب میرزا دریائے آمو سے گزرا تو سلطان ابو سعید کے امیروں کی ایک جماعت نے اتفاق و مشورہ کیا کہ میرزا کو ترکستان میں لے جائیں۔ اور وہاں قلعہ نشین ہوجائیں۔ چنانچہ کل سامان اونٹوں پر لدوا دیا گیا۔ حضرت کو جو خبر لگی تو شتر بانوں پر خفا ہوئے اور سامان اتروادیا۔ اور خود میر زا کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ کہاں جاتے ہو۔ جانے کی ضرورت نہیں۔ یہیں کام بن جائے گا۔ میں نے تمہاری مہم اپنے ذمہ لے لی ہے۔ امیر گھبرا گئے۔ یہاں تک کہ بعضوں نے اپنی پگڑیاں زمین پر پھینک دیں اور کہنے لگے کہ حضرت خواجہ ہم کو مروا رہے ہیں۔ چونکہ میرزا کا اعتقاد صادق تھا اس نے کسی کی نہ سنی اور سمر قند ہی میں قلعہ نشین ہوگیا۔
جب میر زا بابر سمر قند کے قلعہ کے گرد پہنچا تو خلیل جو اس کے مقدمہ لشکر پر تھا عید گاہ سمر قند کے دروازے پر ٹہر گیا۔ شہر سے تھوڑے سے آدمی نکل کر خلیل سے لڑے۔ خلیل گرفتار ہوگیا۔ میرزا بابر سمر قند کے پرانے قلعہ میں اترا۔ اس کے لشکری سامان معیشت کے لیے جس طرف جاتے ہیں اہل سمر قند ان کو پکڑ کر ناک کان کاٹ دیتے۔ اس طرح میرزا بابر کے لشکر کے بہت سے سپاہیوں نے اپنے ناک کان کٹوا لیے۔ میرزا بابر کا لشکر نہایت تنگ آگیا۔ اور چند روز کے بعد ان کے گھوڑوں میں وباء نمودار ہوئی۔ جس سے بہت گھوڑے تلف ہوئے۔ آخر کار میرزا بابر نے مولانا محمد معمائی کو حضرت کی خدمت میں بھیج کر صلح کی درخواست کی۔ مولانا محمد نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ ہمارا میرزا نہایت غیور اور عالی ہمت بادشاہ ہے۔ جس طرف متوجہ ہوتا ہے بغیر اسیر کیے واپس نہیں آتا۔ حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اُس کے دادا میرزا شاہرخ (متوفی ۸۵۰ھ) کے زمانہ میں ہرات میں تھا۔ مجھے اُس کے طفیل سے بڑی فراغت اور جمعیت حاصل تھی۔ اگر شاہرخ کے حقوق نہ ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ میرزا بابر کا کیا حال ہوتا۔ آخر الامر حضرت کے خاص مرید مولانا قاسم کی وساطت سے صلح ہوگئی۔
دشمن پر غلبہ:
جب میرزا سلطان ابو سعید بتاریخ ۲۵؍ رجب ۸۷۳ھ شہید ہوگیا تو اُس وقت اُس کے گیارہ بیٹوں میں سے چار برسرِ حکومت تھے۔ چنانچہ میرزا الغ بیگ کابل میں میرزا سلطان محمود حصار و قندوز و بدخشاں میں حکمران تھا۔ میرزا سلطان محمود نے سمر قند کے محاصرہ کا رادہ کیا۔ جب حضرت خواجہ کو یہ خبر لگی تو آپ نے بذریعہ رقعہ و پیام میرزا سلطان محمود کو اس حرکت سے منع فرمایا۔ مگر وہ روبراہ نہ ہوا۔ اور ولایت حصار سے سمر قند کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ سامان و لشکر بے شمار تھا اور چغتائی لشکر کے علاوہ چار ہزار ترکمان ہم رکاب تھے۔ میرزا سلطان احمد میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی۔ اس لیے اس نے بھاگنا چاہا اور حضرت خواجہ سے اجازت چاہی۔ حضرت شہر سمر قند کے مدرسہ میں مقیم تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم بھاگ جاؤ گے تو سمر قند کے تمام باشندے قید ہوجائیں گے۔ تم گھبراؤمت۔ میں تمہارے معاملہ کا ذمہ دار ہوں۔ اگر دشمن مغلوب نہ ہوا تو تم مجھ سے مواخذہ کرنا۔ پھر آپ نے میرزا سلطان احمد کو مدرسہ کے ایک حجرے میں اتارا جس کا ایک ہی دروازہ تھا اور آپ اس دروازے میں بیٹھ گئے۔ خادموں نے آپ کے حکم سے ایک تیز رفتار اونٹنی لاکر اس حجرے کے آگے بٹھادی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میرزا سلطان محمود سمر قند پر قابض ہوجائے اور اس دروازے سے کہ جہاں لڑائی ہو شہر میں داخل ہوجائے تو تم اس اونٹنی پر سوار ہوکر دوسرے دروازے سے بھاگ جائیو۔ آپ نے تدبیر سے میرزا سلطان احمد کو تسکین دی۔ بعد ازاں آپ نے مولانا سید حسین اور مولانا قاسم اور میر عبد الاول اور مولانا جعفر کو جو آپ کے اکابر اصحاب سے تھے طلب فرمایا اور حکم دیا کہ تم فوراً اس دروازے کے برج میں جاکر مراقبہ کرو۔ چنانچہ وہ وہاں جاکر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ مولانا قاسم کا بیان ہے کہ مراقبہ میں بیٹھتے ہی ہم نے دیکھا کہ ہم نیست ہیں۔ تمام حضرت ہی حضرت ہیں اور تمام عالم آپ کے وجود مبارک سے پر ہے۔لڑائی وقت چاشت تک جاری رہی۔ قریب تھا کہ دشمن غالب آجائے۔ شہر والے حیران و پریشان تھے کہ ناگاہ دشت قبچاق کی طرف سے ایک سخت آندھی اٹھی اور میرزا سلطان محمود کے لشکر و لشکر گاہ میں گرد و غبار کا وہ طوفان برپا ہوا کہ کسی کو آنکھ کھولنے کی مجال نہ رہی۔ ہوا پیادوں اور سواروں کو زمین پر گراتی۔ اور خیمہ و سرا پردہ خرگاہ کو اکھاڑ کر اوپر کی طرف اڑاتی اور زمین پر پھینک دیتی۔ میرزا سلطان محمود اپنے امیروں اور ترکمانوں کی جماعت کثیر کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے دیوار کے پشتہ کے نیچے گھوڑے پر سوار کھڑا تھا۔ کہ ناگاہ پشتہ کا ایک حصہ پھٹ گیا۔ جس کے ہولناک دھماکہ سے قریباً چار سو مرد اور گھوڑے جو اس کے نیچے کھڑے تھے دب کر مرگئے۔ ترکمانوں کے گھوڑے بھاگنے لگے۔ سواروں نے ہر چند رو کا مگر نہ رکے۔ القصہ لشکر پراگندہ ہوگیا۔ میرزا سلطان محمود کوشکست ہوئی میرزا سلطان احمد کے لشکر اور شہر کے لوگوں نے قریباً پانچ کوس تک ان کا تعاقب کیا۔ اور بہت سے سوار اور گھوڑے پکڑ لائے اور بہت کچھ سامانِ غنیمت ہاتھ آیا۔
بدکاری سے بچالیا:
مولانا شیخ ابو سعید مجلد جو میرزا شاہرخ کے زمانہ میں نہایت خوبصورت جوان تھے بیان کرتے ہیں کہ جوانی میں ایک بار ایک خوبصورت عورت سے اتفاقاً میری ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے مکان میں آگئی۔ میں نے چاہا کہ خلوت میں اس سے بات چیت کروں۔ اس اثنا میں ناگاہ میں نے حضرت خواجہ کی آواز سنی کہ فرماتے ہیں۔ ابو سعید! چہ کار مے کنی؟ (یہ کیا کام کر رہے ہو )یہ سن کر میری حالت بدل گئی اور میرے دل پر ہیبت طاری ہوگئی اور میرے اعضا میں رعشہ پیدا ہوگیا۔ میں نے اٹھ کر فوراً اس عورت کو اپنے مکان سے نکال دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد تشریف لائے۔ جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمانے لگے کہ اگر حق تعالیٰ کی توفیق تیری یاوری نہ کرتی شیطان تجھ کو برباد کردیتا۔
گمشدہ غلام کی واپسی:
حضرت خواجہ کے مخلصوں میں سے ایک بزرگ نقل کرتے ہیں کہ سمر قند میں میرا ایک غلام غائب ہوگیا۔ اس غلام کے سوا میرا مال و متاع اور کچھ نہ تھا۔ چار مہینے میں نے اس کی تلاش کی۔ سمر قند کے نواح میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں میں کئی بار نہ گیا۔ پہاڑ اور صحرا میں بہت پھرا۔ مگر کہیں اس کا نشان نہ پایا۔ اس پریشانی میں ناگاہ حضرت خواجہ مجھے صحرا میں ملے۔ آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب و خدام بھی تھے۔ میں حالت اضطراب میں حضرت کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ اور نیاز مندی سے اپنا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو دہقانی آدمی ہیں۔ ایسی باتوں کو کیا جانیں۔ میں نے سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ ایسا تصرف کیا کرتے ہیں کہ غائب کی خبر دے دیتے ہیں۔ بلکہ غائب کو حاضر کر دیتے ہیں۔ اس لیے میں نے اصرار کیا اور گھوڑے کی باگ نہ چھوڑی۔ جب آپ نے کوئی چارہ نہ دیکھا تو ایک لحظہ سکوت فرمایا اور پوچھا کہ یہ گاؤں جو نظر آ رہا ہے کیا اس میں بھی تم نے اسے تلاش کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو بار ہا اس میں گیا ہوں مگر محروم واپس آیا ہوں۔ فرمایا پھر تلاش کرو مل جائے گا۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا۔ جب میں اس گاؤں کے نزدیک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس غلام نے پانی کا گھڑا بھرا ہوا آگے رکھا ہے اور خشک جگہ پر حیران کھڑا ہے۔ جب میری نظر اس پر پڑی میں نے بے اختیار نعرہ مارا اور کہا اے غلام! تو اس عرصہ میں کہاں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کے گھر سے نکلا تو ایک شخص بہکا کر مجھے خوارزم میں لے گیا۔ اور وہاں مجھے ایک شخص کے ہاتھ فروخت کردیا۔ میں اس شخص کی خدمت میں تھا۔ آج اس کے ہاں ایک مہمان آیا اس نے مجھ سے کہا کہ پانی کا گھڑا پھر لاؤ تاکہ کھانا تیار کریں۔ میں گھڑا اٹھا کر پانی کے کنارے پر پہنچا اور پانی سے بھر لیا۔ جب میں نے پانی سے نکالا تو اپنے آپ کو یہاں حاضر پاتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں یہ معاملہ بیداری میں دیکھ رہا ہوں یا خواب میں۔ حضرت خواجہ کا یہ تصرف دیکھ کر میرا حال بدل گیا۔ میں نے غلام کو تو آزاد کردیا اور خود حضرت کا غلام بن گیا۔
سورج کا ٹھہر جانا:
مولانا زادہ فرکنی مولانا نظام الدین کے مرید تھے وہ اپنے مرشد کی وفات کے بعد حضرت خواجہ کی خدمت میں بہت رہے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت خواجہ کے ہمراہ ایک گاؤں کو جا رہا تھا۔ جاڑے کا موسم تھا اور دن چھوٹے۔ ہم نے عصر راستے میں پڑھی۔ شام ہونے کو آئی۔ آفتاب زرد ہوگیا۔ منزل تک پہنچنے میں دوشرعی (کوس) باقی تھے۔ اس صحرا میں کوئی پناہ وآرام گاہ نہ تھی۔ میرے دل میں آیا کہ دن ختم ہوگیا۔ راستہ خطر ناک، ہوا سرد اور فاصلہ زیادہ ہے کیا حال ہوگا۔ جب یہ خیال کئی بار میرے دل میں آیا تو حضرت نے منہ پھیر کر فرمایا کہ ڈرو مت۔ گھوڑا دوڑاؤ۔ ممکن ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے ہم منزل پر پہنچ جائیں۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا۔ میں بھی آپ کے پیچھے تیز دوڑا رہا تھا۔ اور پلٹ پلٹ کر آفتاب کی ٹکیہ کو دیکھتا جاتا تھا۔ آفتاب اسی طرح افق پر ٹھیرا ہوا تھا۔ گویا کسی نے اس میں میخ ٹھونک دی ہے جس سے وہ افق پر ٹھیرا ہوا ہے۔ جب ہم گاؤں میں پہنچے تو یک بیک آفتاب ایسا غروب ہوا کہ شفق کی سرخی و سپیدی جو غروب کے بعد ہوا کرتی ہے اس کا کوئی نشان نہ رہا۔ اور عالم میں ایسی تاریکی پھیل گئی کہ شکلوں اور رنگوں کا نظر آنا نا ممکن ہوگیا۔ یہ دیکھ کر حیرت و ہیبت مجھ پر طاری ہوئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ حضرت خواجہ کا تصرف ہے۔ آخر کار بے اختیار ہوکر میں نے حضرت خواجہ سے عرض کیا کہ خدا کے لیے فرمائیے یہ کیا راز تھا جو میں نے دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بھی طریقت کے شعبدوں میں سے ایک شعبدہ تھا۔
شہد شراب میں بدل گئی:
خواجہ کلال فرماتے ہیں ! کہ حضرت کا ایک خادم سمر قند کو جا رہا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ ہمارے واسطے سمر قند سے چند ڈبے خالص شہد کے لانا۔ وہ سمر قند سے کئی ڈبے شہد سے بھر کر اور ان کے منہ پر مہر لگا کر روانہ ہوا۔ اتفاقاً بازار سمر قند میں کسی کام کے لیے بزاز کی دکان پر ٹھیر گیا اور اس نے شہد کے ڈبوں کو اپنے سامنے رکھ لیا۔ ناگاہ ایک خوبصورت مست عورت جو اس بزاز کی آشنا تھی وہاں آئی اور دکان کے ایک طرف بیٹھ کر بزاز سے باتیں کرنے لگی۔ اس خادم نے دو تین بار نظر حرام سے اس عورت کو دیکھا۔ پھر وہ ڈبوں کو اٹھا کر تاشقند لے آیا۔ جب وہ حضرت کے دولت خانہ میں پہنچا تو آپ جنگل تشریف لے گئے تھے۔ اُس نے آپ کے پیچھے جانا چاہا۔ اتنے میں حضرت تشریف لے آئے۔ اس نے وہ ڈبے پیش کیے۔ جب حضرت کی نظر ان ڈبوں پر پڑی تو خفا ہوکر فرمایا کہ ان ڈبوں سے شراب کی بو آتی ہے۔ اے بد بخت! میں نے تجھ سے شہد لانے کو کہا تھا۔ تو میرے واسطے شراب لے آیا۔ خادم نے عرض کیا کہ میں تو شہد لایا ہوں۔ آپ کے ارشاد سے جب کھول کر دیکھا گیا تو ہر ڈبہ شراب سے بھرا ہوا پایا گیا۔
وصال مُبارک:
آپ کی تاریخ وفات شب شنبہ ۲۹ ربیع الاول ۸۹۵ھ ہے۔ شام و خفتن(سونے کاوقت) کے درمیان جب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگا تو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کی گئیں۔ جن سے وہ مکان نہایت روشن ہوگیا۔ اس حال میں اچانک دیکھا گیا کہ آپ کے دو ابروئے مبارک کے درمیان ایک نور چمکتی بجلی کی طرح نمودار ہوا۔ جس کی شعاع نے شمع کے نور کو ماند کردیا۔ حاضرین نے اس نور کا مشاہدہ کیا۔ بعد ازاں آپ کا وصال ہوگیا۔ اور محلّہ خواجہ کفشیر میں محوطہ ملایاں میں دفن ہوئے آپ کی اولاد بزرگوار نے آپ کے مرقد مبارک پر عالیشان عمارت تعمیر کردی اور قبر مبارک کو نہایت عمدہ وضع پر بنایا۔
(مشائخِ نقشبندیہ)
یاغستان نزد تاشقند (روس) (۸۰۶ھ/ ۱۴۰۴ء۔۔۔۸۹۵ھ/ ۱۴۹۰) شہر سمرقند (روس)
قطعۂ تاریخِ وصال
ناصرالدین خواجۂ احرار |
|
تھے مشائخ میں کامل و یکتا |
(صاؔبر براری، کراچی)
زد بجہان نوبت شاہنشہی |
|
کوکبۂ فقر عبید اللہی |
مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ
آپ کا نام عبیداللہ ہے۔ ناصرالدین لقب ہے کیونکہ آپ سے دینِ اسلام کو نصرت پہنچی۔ احرار بھی آپ کا لقب ہے جو اصل میں خواجہ احرار ہے۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حر (واحد احرار) اُسے کہتے ہیں، جو عبودیت کی حدود کو بر درجۂ کمال قائم کرے اور اغیار کی غلامی سے نکل جائے۔ استعمال میں بعض وقت لفظ خواجہ کو حذف کرکے فقط احرار کہتے ہیں۔
آپ کی ولادت باسعادت یا غستان مضافاتِ تاشقند میں ماہ رمضان المبارک ۸۰۶ھ میں ہوئی۔ مادۂ تاریخ ولادت ’’تاجِ عارفاں‘‘ ہے۔ والد گرامی کا اسم مبارک محمود بن شہاب الدین ہے آپ حضرت خواجہ محمد باقی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد امجاد سے ہیں۔ مادرزاد ولی تھے۔ والدہ ماجدہ شیخ عمر یاغستانی کی اولاد سے تھیں اور حضرت خواجہ محمود شاشی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر تھیں، ولادت کے بعد چالیس دن تک جو کہ ایامِ نفاس ہیں، آپ نے اپنی والدہ کا دودھ نہ پیا۔ جب انہوں نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا تو پینا شروع کردیا۔
بچپن ہی سے آثارِ رشدہ و ہدایت اور انوارِ قبول و عنایت آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ تین چار سال کی عمر سے نسبت آگاہی بحق سبحانہ تعالیٰ حاصل تھی، مگر دل پر وہی نسبت غالب تھی۔ آپ کے جدِّ امجد خواجہ شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ جو کہ قطبِ وقت تھے، کا جب وقتِ اخیر ہوا تو اپنے پوتوں کو الوداع کہنے کے لیے بلایا۔ خواجہ احرار اس وقت بہت چھوٹے تھے، جب جدِّ امجد کے حضور گئے تو وہ ان کو دیکھ کر تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اور پھر گود میں لے کر فرمایا کہ اس فرزند کے بارے میں مجھ کو بشارت نبوی ہے کہ یہ پیر عالم گیر ہوگا اور اس سے شریعت و طریقت کو رونق حاصل ہوگی۔
آپ بچپن ہی میں مزاراتِ مشائخ پر حاضر ہوتے۔ جب سن بلوغ کو پہنچے تو تاشقند سے مزارات کی گشت کر آتے۔ آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی تعلیم کا بڑا خیال تھا۔ بدیں وجہ وہ آپ کو تاشقند سے سمر قند لے گئے، مگر شغلِ باطنی کا غلبہ علم ظاہری کی تحصیل سے مانع رہا۔
خواجہ فضل اللہ ابو للیثی رحمۃ اللہ علیہ (جو سمر قند کے اکابر علماء میں سے تھے) فرماتے تھے کہ ہم خواجہ عبیدالہ احرار کے باطن کے کمال کو نہیں جانتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے بحسبِ ظاہر علوم رسمی سے بہت کم پڑھا ہے اور ایسا دن کم ہوگا کہ وہ تفسیر قاضی بیضاوی میں ہمارے سامنے کوئی شبہ (شک گمان) پیش کریں اور ہم سب اس کے حل سے عاجز نہ آئے ہوں، بائیس برس کی عمر سے انتیس برس کی عمر تک آپ سفر ہی میں رہے اور اس عرصہ میں آپ کو بہت سے مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے ایک روز قبل مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام عبیداللہ احرار ہے۔ اُس نے تمام روئے زمین کو اپنی روحانیت میں لے لیا ہے۔ اور وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمرقند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے جو نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوانِ رعنا کون ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ یہ ’’خواجہ عبیداللہ احرار ہیں، عنقریب دنیا کے سلاطین ان کے در کے گدا ہوں گے‘‘۔
سمر قند ہی میں آپ حضرت سیّد قاسم تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی رحمۃ اللہ علیہ[۱] خلیفہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی رحمہ اللہ علیہ کی زیارت کی جو سید امیر حمزہ بن سیّد امیر کلال قدس سرہما کے خلیفۂ اول تھے۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوافی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھی بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سیّد قاسم تبریزی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
[۱۔ پر مس قصبہ وا بکنی کے نواحی دیہات میں سے ہے جو بخارا سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ (قصوؔری)]
ہرات میں آپ نے ایک سوداگر سے حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے فضائل سنے۔ اس لیے وہاں سے اُن کی صحبت کی نیت سے بلخ کے راستے حصار کی طرف متوجہ ہوئے۔ بلخ میں مولانا حسام الدین پارسا خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہما کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہاں سے حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ کے مزار کی زیارت کے لیے چغانیاں تشریف لے گئے اور چغانیاں سے ہلفتو، مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جس کا قصّہ آپ خود یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’جب میں ولایت چغانیاں پہنچا تو بیمار ہوگیا اور بیس روز تپ لرزہ آتا رہا۔ اس عرصہ میں نواج چغانیاں کے بعضے لوگوں نے مولانا خواجہ یعقوب چرخی کی بہت غیبت (بدگوئی، برائی) کی ۔ بیماری کے دنوں میں ایسی پریشان باتوں کے سننے سے خواجہ چرخی رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات کے ارادے میں بڑا فتور واقع ہوا۔ آخر کار میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو اس قدر دور فاصلہ سے آیا ہے لہٰذا اب یہ بات اچھی نہیں کہ تو ان سے ملاقات نہ کرے۔ چنانچہ میں اُن کی خدمت میں پہنچا وہ بڑی عنایت سے پیش آئے اور ہر طرح کی باتیں کیں۔ لیکن دوسرے روز جو میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو بہت غصہ ہوئے اور سختی و درشتی سے پیش آئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اُن کے غصہ کا سبب غیبت کا سننا اور تیرے ارادے میں فتور کا آنا ہوگا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ لطف و کرم سے پیش آئے اور بہت توجہ اور عنایت فرمائی، اور حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی ملاقات کا حال بیان فرماکر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ بیعت کر۔ چونکہ اُن کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت اُن کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کوسمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا اور صورت تبدیل کرکے ایسی خوبصورت اور شاندار لباس میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بے خود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دستِ مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اُس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو، میں نے بلا توقف اُن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسبِ طریقہ حضراتِ خواجگان نقشبندیہ مجھے شغل نفی و اثبات جس کو وقوفِ عددی کہتے ہیں، سکھایا اور فرمایا کہ جو کچھ ہم کو خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچا ہے یہی ہے اگر تم بطریقِ جذبہ طالبوں کی تربیت کرو تو تمہیں اختیار ہے‘‘۔
کہتے ہیں کہ مولانا یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی، اُس کی نسبت آپ نے کس طرح فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے، چاہو تو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں، صرف اجازت کی دیر ہو، مولانا جاؔمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے تو اُسے خواجہ عبیداللہ احرار کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ، تیل اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔
اس کے بعد حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے حضراتِ خواجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے اور جب طریقِ رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتادینا۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی، اُس کی نسبت آپ نے کس طرح فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے چاہو تو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں، صرف اجازت کی دیرہو۔ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مولانا خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہیے، تو اُسے خواجہ عبیداللہ احرار کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ، تیل اور بتی سب تیار ہے، صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔
اس کے بعد حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے حضراتِ خواجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے اور جب طریقِ رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتادینا۔
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ، خواجہ یعقوب چرخی قدس سرہ کی خدمت سے رخصت پاکر پھر ہرات میں آئے اور کم و بیش ایک سال وہاں رہے۔ بعد ازاں انتیس سال کی عمر میں وطن مالوف کی طرف مراجعت فرمائی اور تاشقند میں مقیم ہوکر زراعت کا کام ایک شخص کی شراکت میں شروع کیا۔ دونوں ایک جوڑی بیل سے کھیتی کا کام کرنے لگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی زراعت میں بڑی برکت دی۔ آپ کے مال و منال، ضیاع و عقار گلہ و مواشی اور اسباب و املاک اندازہ کی حد سے زائد تھے مگر یہ سب درویشوں کے لیے تھے۔ چنانچہ مولانا جامی قدس سرہ السامی اپنی کتاب یوسف زلیخا میں آپ کے منقبت میں یوں لکھتے ہیں ؎
ازاں دانہ کز و آدم بنا کام |
|
ز بستانِ بہشت آمد بدیں دام |
’’جس دانہ سے حضرت آدم رضی اللہ عنہ ناچار باغ بہشت سے اس جال (دنیا) میں آئے۔
اُن کے ہزار کھیت زیر کاشت ہیں جو کہ راہِ بہشت میں چلنے کا توشہ ہیں۔
وہ اس کھیت (دنیا) میں بیج بو رہے ہیں اور اُس عالم میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔‘‘
وفات:
آپ کی وفاتِ حسرت آیت۲۹؍ ربیع الاوّل ۸۹۵ھ/ ۱۴۹۰ء کو ہوئی۔ رات کو جب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگا تو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کی گئیں جن سے وہ مکان نہایت روشن ہوگیا۔ اس حال میں اچانک دیکھا گیا کہ آپ کے دو ابروئے مبارک کے درمیان سے ایک نور چمکتی بجلی کی طرح نمودار ہوا۔ جس کی شعاع نے شمعوں کے نور کو مات کردیا۔ حاضرین نے اُس نور کا مشاہدہ کیا۔ بعد ازاں آپ کا وصال ہوگیا اور محلہ خواجہ کفشیر، محوطہ ملایاں سمر قند میں دفن ہوئے۔ آپ کی اولادِ امجاد نے آپ کے مرقد مبارک پر عالیشان عمارت تعمیر کردی اور قبر مبارک کو نہایت عمدہ وضع پر بنایا۔
آپ کے مرید باصفا مولانا عبدالرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ قطعۂ تاریخ وصال کہا ؎
بہشت صد و نود و پنج در شبِ شنبہ |
|
کہ بود سلخ مہ فوت احمدِ مرسل |
کرامات:
۱۔ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمت سے مراد یہ ہے کہ دل ایک امر پر اس مضبوطی سے جم جائے اور پھر اُس کے خلاف کوئی چیز دل میں نہ آئے۔ ایسی ہمت مراد سے متخلف نہیں ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ اوائلِ جوانی میں جبکہ ہم مولانا سعدالدین کاشغری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہرات میں تھے اور دونوں سیر کیا کرتے تھے۔ تو کبھی کشتی لڑنے والوں کے اکھاڑہ میں جا پہنچتے اور اپنی قوت و توجہات کا امتحان کرتے۔ دو پہلوانوں میں سے ایک کی طرف توجہ مبذول کرتے تو وہ غالب آجاتا۔ پھر مغلوب کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ غالب ہوجاتا۔ اس طرح کئی بار اتفاق ہوا۔ مقصود یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ ہمت کی تاثیر کس درجہ پر پہنچتی ہے۔
۲۔ حضرت مولانا ناصرالدین اتراری رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہ کے خادموں میں تھے، بیان کرتے ہیں کہ حضرت نے واقعہ میں دیکھا تھا کہ آپ کی مدد سے شریعت کو تقویت پہنچے گی۔ آپ کے قلبِ مبارک میں خیال آیا کہ یہ بات سلاطین کی مدد کے بغیر حاصل نہ ہوگی۔ اس غرض سے آپ سمر قند کی طرف آئے۔ اُس وقت میرزا عبداللہ بن میرزا ابراہیم بن میرزا شاہرخ بن امری تیمور ولایت سمر قند کا حاکم تھا۔ میں سفر میں آپ کی خدمت میں تھا۔ جب آپ سمر قند پہنچے تو میرزا عبداللہ کا ایک امری آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اُس سے فرمایا کہ ہمارے یہاں آنے کی غرض تمہارے میرزا سے ملاقات ہے۔ اگر تمہارے ذریعہ سے یہ کام ہوجائے تو بڑی اچھی بات ہے۔ اُس امیر نے نہایت بے ادبی اور غیر شائستگی سے جواب دیا کہ ہمارا میرزا بے پرواہ جوان ہے، اُس سے ملاقات مشکل ہے۔ درویشوں کو ایسی باتوں سے کیا مطلب؟ آپ نے خفا ہوکر فرمایا کہ ہم کو سلاطین کی ملاقات کا حکم ہوا ہے ہم آپ اپنے آپ نہیں آئے۔ اگر تمہارا میرزا پروا نہیں کرتا تو دوسر الایا جائے گا جو پروا کرے گا۔
جب وہ امیر چلا گیا تو آپ نے اُس کا نام سیاہی سے اُس مکان کی دیوار پر لکھا اور اپنے لعابِ دہن سے مٹاکر فرمایا کہ مارا کام اس بادشاہ اور اس کے امیروں سےنہیں چل سکتا اور اُسی روز تاشقند کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ امیر مرگیا اور ایک مہینے کے بعد سلطان ابوسعید میرزا ابن محمد میر ابن میر انشاہ بن امیر تیمور اطرافِ ترکستان سے ظاہر ہوا اور اُس نے میرزا عبداللہ پر حملہ کرکے اُسے قتل کر ڈالا۔ یہ واقعہ ۸۵۵ھ کا ہے۔
۳۔ میرزا بابر بن میرزا با یسنغر بن میرزا شاہرخ بن امیر تیمور ایک لاکھ سپاہ لے کر خراسان سے سمرقدن کی طرف متوجہ ہوا۔ میرزا سلطان ابوسعید نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے اُس کے مقابلہ کی طاقت و ہمت نہیں ہے، کیا کروں؟ آپ نے اُسے تسلی دی۔ جب میرزا بابر، دریائے آمویہ سے گزرا تو سلطان ابوسعید کے امیروں کی ایک جماعت نے اتفاق و مشورہ کیا کہ میرزا کو ترکستان لے جائیں اور وہاں قلعہ نشین ہوجائیں۔ چنانچہ تمام سامان اونٹوں پر لدوادیا گیا، حضرت کو جو خبر لگی تو شتر بانوں پر خفا ہوئے، سامان اُتروادیا اور خود میرزا ابوسعید کے ہاں تشریف لے گئے۔ میرزا سے فرمایا کہ کہاں جاتے ہو، جانے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، یہیں کام بن جائے گا۔ میں نے تمہاری مہم اپنے ذمہ لے لی ہے۔ امیر گھبرا گئے یہاں تک کہ بعضوں نے اپنی پگڑیاں زمین پر پھینک دیں اور کہنے لگے کہ حضرت خواجہ ہم کو مروا رہے ہیں۔ میرزا ابوسعید کا چونکہ اعتقادِ صادق تھا لہٰذا اس نے کسی کی نہ سنی اور سمرقند ہی میں قلعہ نشین ہوگیا۔
جب میرزا بابر قلعۂ سمرقند کے قریب پہنچا تو اس کا سپہ سالار خلیل عیدگاہ سمر قند کے دروازہ پر ٹھہر گیا۔ شہر سے تھوڑے سے آدمی نکل کر خلیل سے لڑے، خلیل گرفتار ہوگیا، میرزا بابر سمرقند کے پرانے قلعہ میں اُترا۔ اُس کے سپاہی سامانِ معیشت کے لیے جس طرف جاتے اہلِ سمرقندکو پکڑ کر ناک کان کاٹ ڈالتے۔ اس طرح میرزا بابر کے لشکر کے بہت سے سپاہیوں نے اپنے ناک کان کٹوالیے۔ اس صورتِ حال تمام لشکر بہت تنگ آگیا۔ چند روز کے بعد اُن کے گھوڑوں میں وبا نمودار ہوئی۔ جس سے بہت سے گھوڑے تلف ہوگئے۔ آخر کار میرزا بابر نے مولانا محمد معمائی کو حجرت کی خدمت میں بھیج کر صلح کی درخواست کی، مولانا محمد نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ ہمارا میرزا نہایت غیور اور عالی ہمت بادشاہ ہے۔ جس طرف متوجہ ہوتا ہے بغیر اسیر کیے واپس نہیں آتا۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اُس کے جواب میں فرمایا کہ میں اُس کے دادا میرزا شاہ رخ (المتوفی ۸۵۰ھ) کے زمانہ میں ہرات میں تھا۔ مجھے اُس کے طفیل سے بڑی فراغت اور جمعیت حاصل تھی۔ اگر شاہ رخ کے حقوق نہ ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ میرزا بابر کا کیا حال ہوتا۔ آخر کار حضرت اقدس کے خاص مرید مولانا قاسم رحمۃاللہ علیہ کی وساطت سے صلح ہوگئی۔
۴۔ جب مرزا سلطان ابوسعید بتاریخ ۲۵؍رجب ۸۷۳ھ شہید ہوگیا تو اُس وقت اُس کے گیارہ بیٹوں میں سے چار برسر حکومت تھے۔ چنانچہ میرزا الغ بیگ، کابل میں۔ میرزا سلطان احمد، سمر قند میں، میرزا عمر شیخ ولایتِ اند جان و فرغانہ میں اور میرزا سلطان محمود، حصار اور بدخشاں میں حکمران تھا۔ میرزا سلطان محمود نے سمرقند کے محاصرہ کا ارادہ کیا، حضرت خواجہ کو پتہ چلا تو آپ نے بذریعہ رقعہ و پیام اُسے اس حرکت سے باز رہنے کا حکم دیا مگر وہ راہِ راست پر نہ آیا اور ولایت حصار سے سمر قند روانہ ہوگیا۔ بے شمار سامان و لشکر اُس کے ساتھ تھا۔ اپنے لشکر کے علاوہ چار ہزار تُر کمان (ایک قوم جو ترکوں سے کم مرتبہ ہونے کی وجہ سے ترکمان کہلاتی ہے) ہمرکاب تھے۔ میرزا سلطان احمد میں مقابلہ کی تاب نہ تھی۔ اس لیے اُس نے بھاگنا چاہا اور حضرت خواجہ سے اجازت چاہی۔ حضرت اقدس شہر سمرقند کے مدرسہ میں مقیم تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم بھاگ جاؤ گے تو سمر قند کے تمام باشندے قید ہوجائیں گے۔ تم مت گھبراؤ، میں تمہارے معاملہ کا ذمہ دار ہوں، اگر دشمن مغولب نہ ہوا تو تم مجھ سے مواخذہ کرنا، پھر آپ نے میرزا سلطان احمد کو مدرسہ کے ایک حجرے میں اتارا جس کا ایک ہی دروازہ تھا اور آپ اُس دروازے میں بیٹھ گئے۔ خادموں نے آپ کے حکم سے ایک تیز رفتار اونٹنی لاکر اس حجرے کے آگے بٹھادی آپ نے فرمایا کہ اگر میرزا سلطان محمود، سمرقند پہ قابض ہوجائےا ور اُس دروازے سے کہ جہاں لڑائی ہو شہر میں داخل ہوجائے تو تم اس اونٹنی پر سوار ہوکر دوسرے دروازے سے بھاگ جائیو، آپ نے اس تدبیر سے میرزا سلطان احمد کو تسکین دی، بعد ازاں آپ نے مولانا سیّد حسین، مولانا قاسم، میر عبدالاول اور مولانا جعفر کو جو آپ کے اکابر اصحاب میں تھے، طلب فرمایا اور حکم دیا کہ تم فورا اُس دروازے کے برج میں جاکر مراقبہ کرو۔ چنانچہ وہ وہاں جاکر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ مولانا قاسم رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مراقبہ میں بیٹھتے ہی ہم نے دیکھا کہ ہم نیست ہیں، تمام حضرت ہی حضرت ہیں اور تمام عالم آپ کےو جود مبارک سے پُر ہے۔ لڑائی وقت چاشت تک جاری رہی۔ قریب تھا کہ دشمن غالب آجائے، شہر والے حیران و پریشان تھے کہ ناگاہ دشتِ قبچان کی طرف سے ایک سخت آندھی اُٹھی اور میرزا محمود کے لشکر و لشکر گاہ میں گرد و غبار کا وہ طوفان برپا ہوا کہ کسی کو آنکھ کھولنے کی مجال نہ رہی۔ ہوا پیادوں اور سواروں کو زمین پر گراتی۔ خیمہ وغیرہ کو اکھاڑ کر اُوپر کی طرف اڑاتی اور زمین پر پھینک دیتی، میرزا سلطان محمود اپنے امیروں اور ترکمانوں کی جماعت کثیر کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے دیوار کے پشتہ کے نیچے گھوڑے پر سوار کھڑا تھا کہ ناگاہ پشتہ کا ایک حصہ پھٹ گیا جس کے ہولناک دھماکہ سے قریباً چار سو مرد اور گھوڑے جو اس کے نیچے کھڑے تھےدب کر مرگئے۔ ترکمانوں کے گھوڑے بھاگنے لگے۔ سواروں نے ہر چند روکا مگر نہ رکے۔ القصدلشکر پراگندہ و منتشر ہوگیا۔ میرزا سلطان محمود کو شکست ہوئی۔ میرزا سلطان احمد کے لشکر اور شہر کے لوگوں نے قریباً پانچ کوس تک اُن کا تعاقب کیا اور بہت سے سوار اور گھوڑے پکڑ لائے اور بہت سا مال و متاع ہاتھ آیا۔
۵۔ مولانا شیخ ابوسعید مجلد جو میرزا شاہ رُخ کے زمانہ میں نہایت خوبصورت جوان تھے بیان کرتے ہیں کہ جوانی میں ایک بار ایک خوبصورت عورت سے اتفاقاً میری ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے مکان میں آگئی میں نے چاہا کہ خلوت میں اُ سسے بات چیت کروں۔ دریں اثنا میں نے حضرت خواجہ کی آواز سنی کہ فرماتے ہیں: ابوسعید! چہ کار مے کنی؟ یہ سن کر میری حالت بدل گئی اور میرے دل پر ہیبت طاری ہوگئی اور میرے اعضاء میں رعشہ طاری ہوگیا۔ میں نے فوراً اُس عورت کو مکان سے نکال دیا کچھ عرصہ بعد حضرت شتریف لائے جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمانے لگے کہ اگر حق تعالیٰ کی توفیق تیری یاوری نہ کرتی تو شیطان تجھ کو برباد کردیتا۔
۶۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے مخلصوں سے ایک بزرگ نقل کرتے ہیں کہ سمر قند میں میرا ایک غلام غائب ہوگیا۔ اُس غلام کے سوا میرے پاس اور کچھ مال و متاع نہ تھا، چار مہینے میں نے اس کی تلاش میں سر گردانی کی۔ سمرقند کے نواح میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں میں کئی بار نہ گیا۔ پہاڑ اور صحرا میں بہت پھرا مگر کہیں بھی اُس کا سراغ نہ ملا۔ اسی پریشانی کے عالم میں مارا مارا پھر رہا تھا کہ ناگاہ ایک صحرا میں حضرت خواجہ قدس سرہ ملے۔ آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب و خدام بھی تھے۔ میں نے حالتِ اضطراب میں حضرت کے گھوڑے کی باگ تھام لی اور بڑی نیاز مندی اور عاجزی سے اپنا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو دہقانی آدمی ہیں۔ ایسی باتوں کو کیا جانیں۔ میں نے چونکہ سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ ایسا تصرف کرتے ہیں کہ غیب کی خبر دے دیتے ہیں بلکہ غیب کو حاضر بھی کردیتے ہیں، اس لیے اصرار کیا اور گھوڑے کی باگ نہ چھوڑی جب آپ نے کوئی چارہ نہ دیکھا تو ایک لخطہ سکوت فرمایا اور پوچھا کہ یہ گاؤں جو نظر آ رہا ہے کیا اس میں بھی تم نے اُسے تلاش کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں تو بارہا اس میں گیا ہوں مگر محروم واپس لوٹا ہوں ارشاد کیا کہ اب پھر جاؤ، وہاں مل جائے گا یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیرز دوڑایا۔ جب میں اس گاؤں کے نزدیک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں وہ غلام پانی کا گھڑا بھر سامنے رکےے خشک و ویران جگہ پر حیران و پریشان کھڑا ہے جونہی میری نظر اس پر پڑی میں نے بے اختیار نعرہ مارا اور کہا اے غلام! تو اس عرصہ میں کہاں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کے گھر سے نکلا تو ایک شخص مجھ کو بہکا کر خوارزم میں لے گیا او روہاں مجھے فروخت کردیا۔ جس شخص نے مجھے خریدا تھا، آج اُس کے ہاں ایک مہمان آیا، اُس نے مجھے حکم دیا کہ پانی کا ایک گھڑا لاؤ ، تاکہ کھانا تیار کریں، میں گھڑا اُٹھاکر پانی کے کنارے پر پہنچا اور پانی سے بھرلیا جب میں نے گھڑا پانی سے نکالا تو اپنے آپ کو یہاں پایا اور اب میں یہ فیصلہ نہیں کرپاتا کہ یہ معاملہ بیداری میں دیکھ رہا ہوں یا خواب میں۔ حضرت خواجہ قدس سرہ کا یہ تصرف دیکھ کر میرا حال بدل گیا۔ میں نے غلام کو تو آزاد کردیا اور حضرت خواجہ قدس سرہ کا غلام بن گیا۔
۷۔ مولانا زادہ فرکنی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا نظام الدین علیہ الرحمۃ کے مرید تھے۔ وہ اپنے مرشد کی وفات کے بعد حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے ہیں۔ اُن کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں کے ساتھ ایک گاؤں کو جا رہا تھا۔ سردی کا موسم تھا۔ نمازِ عصر تو راستے میں پڑھی مگر ابھی وہ گاؤں چھ میل دور تھا کہ سورج غروب ہونے لگا۔ میرےد ل میں خیال آیا کہ دن ختم ہوگیا، راستہ خطرناک ہوا سرد اور فاصلہ زیادہ ہے، اب کیا حال ہوگا؟ جب یہ خیال بار بار میرے دل میں آیاتو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے میری طرف رخ مبارک پھیر کر ارشاد کیا کہ ڈرو مت، ممکن ہے کہ غروبِ آفتاب سے پہلے منزل پر پہنچ جائیں، یہ فرماکر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا اور میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گھوڑا دوڑا رہا تھا اور پلٹ پلٹ کر آفاتب کی ٹکیہ کو بھی دیکھتا جاتا تھا لیکن وہ اُسی طرح اُفق پر ٹھہرا ہوا تھا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے اُس میں میخ (کیل) ٹھونک دی ہے۔ جب ہم گاؤں میں پہنچے تو یک بیک سورج ایسا غروب ہوا کہ شفق کی سرخی و سپیدی جو غروب کے بعد ہوا کرتی ہے اُس کا کوئی نشان نہ رہا اور عالم میں ایسی تاریکی پھیل گئی کہ شکلوں اور رنگتوں کا نظر آنا ناممکن ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مجھ پر ہیبت طاری ہوگئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ حضرت خواجہ قدس سرہ کا تصف ہے۔ عارفِ رومی رحمۃ اللہ علیہ نے سچ کہا ہے کہ ؎
اولیاء راہست قدرت از الٰہا |
|
تیر گشتہ راباز گرد انند از قضا |
۸۔ حضرت خواجہ قدس سرہ کا ایک خادم سمر قند جا رہا تھا۔ آپ نے اُس کو ارشاد فرمایا کہ ہمارے لیے وہاں سے خالص شہد کے چند ڈبے لانا۔ وہ کئی ڈبے شہد سے بھرکو اور سب کے منہ پر مہر (Seal) لگاکر روانہ ہوا۔ اتفاقاً بازار میں کسی کام کے لیے ایک بزاز کی دکان پر رکنا پڑا اور شہد کے ڈبوں کو اپنے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا۔ ناگاہ ایک خوبصورت شراب سے مست عورت جو اُس بزاز کی آشنا تھی، وہاں آئی اور بزاز سے باتیں کرنے لگی۔ اُس خادم نے نظرِ حرام سے اس عورت کو دو تین بار دیکھا اور پھر ڈبوں کو اُٹھاکر تاشقند آگیا۔ جب وہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے دربارِ گوہر بار میں پہنچا تو آپ جنگل کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ اُس نے آپ کے پیچھے جانا چاہا مگر اتنے میں آپ تشریف لے آئے۔ اُس نے وہ ڈبے پیش کیے۔ حضرت اقدس نے ڈبوں کو ایک نظر دیکھتے ہی خفا ہوکر فرمایا کہ ان ڈبوں سے تو شراب کی بو آتی ہے۔ اے بدبخت! ہم نے تجھے شہد لانے کو کہا تھا مگر تو ہمارے لیے شراب لے آیا۔ خادم نے عرض کیا کہ میں تو شہد لایا ہوں آپ کے حکم سے جب کھول کر دیکھا گیا تو ہر ڈبہ شراب سے بھرا ہوا پایا گیا۔
۹۔ جس وقت آپ نے مولانا جامی قدس سرہ السامی سے حضرت خواجہ یعقوب چرخیق دس سرہ سے اپنے مرید ہونے کی داستان بیان فرمائی اور بتایا گیا کہ کس طرح خواجہ چرخی رحمۃ اللہ علیہ نورانی شکل میں ظاہر ہوئے تھے تو آپ بھی بطریق خلع و لبس مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ کے روبرو ایسی نورانی شکل میں ظاہر ہوئے کہ جو مولانا جامی کے محبوب تھے۔
۱۰۔ آپ کے ایک مرید ہوا میں اڑتے تھے۔ آپ نے یہ گستاخی آمیز حال دیکھ کر اُن کا سب حال چھین لیا۔ اُس نے بہت عاجزی اور آہ وزاری کی مگر آپ نے نہ دیا تب وہ آپ کو اکیلا پاکر چھری سے حملہ آور ہوا۔ آپ فوراً جنگل ی چروائے کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ وہ مرید حیران و پریشان ہوا اور آپ نے چھری اُس کے ہاتھ سے چھین لی اور پھر اصلی حالت میں آگئے، فرمایا کہ اب بتا! تیرا کیا حال کروں، وہ قدموں میں گر پڑا، آپ نے خطا معاف کرکے جو کچھ چھین لیا تھا واپس کردیا۔
۱۱۔ آپ کے کچھ خدام ایک دفعہ بازار میں گئے اُن میں سے ایک خادم، ایک صاحبِ جمال کو دیکھنے لگا تو دوسروں نے منع کیا، اُس نے کہا کہ میں بنظر شہوتِ نفس نہیں دیکھتا جب واپس آیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اب تک نفس کے مکر و فریب سے بیڈر نہیں ہوا تم کب سے ہوگئے کہ بغیر شہوتِ نفس کے دیکھتے ہو؟ وہ از حد شرمسار و نادم ہوا۔ آپ بہت ہی اشرافِ خواطر رکھتے تھے، جو جو خطرہ کسی کے دل پر گزرتا، آپ اُس کو پکڑلیتے تھے اور فرمادیتے تھے کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ کے پاس بیٹھ کر کسی طرح کا خطرہ جی میں لاوے۔
۱۲۔ ایک عالم آپ کی تعریف سن کر زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ جب شہر کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ اونٹوں پر بہت سا غلہ شہر میں جا رہا ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ غلہ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، سخت متعجب ہوئے کہ یہ کیسی فقیری ہے، اس قدر دنیاداری اور امارت ہے۔ دل میں خیال آیا کہ لوٹ جائیں لیکن پھر سوچا کہ اس قدر مسافت طے کرکے آیا ہوں، مل لینے میں کیا حرج ہے۔ خانقاہ شریف میں پہنچے تو اتفاقاً نیند آگئی، خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا ہے اور نفسہ انفسی کا عالم ہے۔ ایک شخص کہ جس کا یہ عالم قرض دار تھا، وہ اس سے قرض کا خواہاں ہے اور چاہتا تھا کہ قرض کے عوض اپنے اعمال دے دے۔ وہ عالم سخت پریشانی اور حیرانی کے عالم میں تھا کہ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے آئے اور صورتِ حال معلوم کرکے اپنے پاس سے سب قرض ادا کردیا۔ اتنے میں عالم کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو حضرت خواجہ خانقاہ میں تشریف فرما ہیں اور مسکرا کر فرمایا کہ میں مال اسی واسطے رکھتا ہوں کہ دوستوں کو قرض سے نجات دلاؤں، وہ عالم قدموں میں گر کر معافی کا طلبگار ہوا اور داخلِ سلسلہ ہوگیا۔
۱۳۔ دو درویش دور درازس کا سفر کرکے آپ کی زیارت کے لیے جب خانقاہ میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ قدس سرہ بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں وہ درویش سخت حیران ہوئے کہ یہ کیسے شیخ ہیں جو بادشاہ کے پاس جاتے ہیں۔ بئس الفقیرعلی باب الامیر کے مصداق ہیں۔ اتفاقاً اُسی وقت دو چار شاہی دربار سے بھاگ نکلے، اُن کو تلاش کرتے کرتے سپاہیوں نے ان درویشوں کو آپکڑا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ شریعت کے مطابق ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں حضرت خواجہ قدس سرہ اُس وقت بادشاہ کے پاس جلوہ افروز تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں درویش چور نہیں ہیں بلکہ یہ تو مجھے ملنے کے لیے آئے ہیں، ان کو چھوڑ دو،پھر آپ دونوں درویشوں کو ساتھ لے کر خانقاہ میں تشریف لائے، اور فرمایا کہ میں بادشاہ کے پاس اس لیے گیا تھا کہ تمہارے ہاتھ قطع ہونے سے بچاؤں، اگر میں وہاں نہ ہوتا تو تمہارے ہاتھ قطع ہوچکے تھے اور بئس الفقیر علی باب الامیر کے مصداق میں جب ہوتا کہ طمعِ دنیا کے لیے جاتا، وہ دونوں درویش شرمسار ہوئے اور قدموں میں گرگئے۔
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ پیر کون ہے؟ پیر وہ شخص ہے جو حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کا خیال رکھتا ہو، یعنی جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے، اُس پر عمل پیرا ہو، اور جس کام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے اُس سے مکمل اجتناب کرے۔ اور وہ خود اور اُس کی تمام خواہشات اُس سے گم ہوگئی ہوں اور وہ ایسا آئینہ ہوگیا ہو جس میں سوائے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و اوصاف کے کچھ نظر نہ آئے۔ اس مقام میں وہ صفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصف ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ کے تصوف کا مظہر بن جاتا ہے اور تصرف الٰہی سے اصحابِ استعداد کے باطن میں تصرف کرتا ہے ؎
از بسکہ در کنار ہمے گیرداں نگار |
|
بگرفت بوئے یار و رہا کرد بوئے طین |
۲۔ مرید وہ ہے کہ ارادت کی آگ کی تاثیر سے اُس کی خواہش جل گئی ہو اور اُس کی مرادوں میں سے کچھ نہ رہا ہو اور اپنے دل کی بصیرت سے پیر کے آئینہ میں مراد کا جمال دیکھ کر اُس نے سب قبلوں سے منہ پھیرلیا ہو اور پیر کا جمال اس کا قبلہ ہوگیا ہو اور پیر کی بندگی میں آزادی سے فارغ ہوکر سوائے پیر کے آستانہ کے اپنے سرِ نیاز کو کہیں خم نہ کرتا ہو۔ اور سب سے منہ پھیر کر اپنی سعادت پیر کی قبولیت میں اور اپنی شقاوت پیر کے رد میں سمجھتا ہو بلکہ نیستی کا خط وجود کی پیشانی پر کھینچ کر وجودِ غیر کے شعور کے تفرقہ سے رہائی پاگیا ہو ؎
آنرا کہ در سرائے نگاریست فارغ است |
|
از باغ و بوستاں و تماشائے لالہ زار |
۳۔ ہم درویشوں کی ایک جماعت ایک جگہ بیٹھی تھی۔ دورانِ گفتگو اس حدیث شریف کا ذکر ہوا کہ جمعۃ المبارک کے دن ایک ایسی ساعت ہوتی ہے کہ اُس میں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے، مل جاتا ہے، اس ساعت کا تذکرہ ہوا کہ اگر وہ ساعت میسر آئے تو اُس میں اللہ تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہیے، ہر ایک نے کچھ نہ کچھ کہا، جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ اربابِ جمعیت[۱] کی صحبت مانگنی چاہیے کیونکہ اس کے ضمن میں تمام سعادتیں حاصل ہیں۔
[۱۔ اربابِ جمعیت سے مراد وہ سالکین ہیں جو تمام سے منہ پھیر کر مطلوبِ حقیقی کے مشاہدہ میں مستغرق ہیں۔]
۴۔ اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ توحید کیا ہے تو یہ جواب دے کہ غیر اللہ کی آگاہی سے دل کا آزاد کرنا توحید ہے، اگر پوچھا جائے کہ وحدت کیا ہے تو یہ جواب دے کہ غیراللہ کے وجود کے علم و شعور سے دل کی خلاصی وحدت ہے، اگر پوچھا جائے کہ اتحاد کیا ہے، تو یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی میں استغراق اتحاد ہے اگر پوچھا جائے کہ سعادت کیا ہے؟ تو یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی دید کے ساتھ خودی سے خلاصی سعادت ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ شقاوت کیا ہے؟ تو جواب دے کہ خودی میں رہتا اور حق سے باز رہنا شقاوت ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ وصل کیا ہے؟ تو جواب دے کہ وجودِ حق تعالیٰ کے نور کے شہود کے ساتھ اپنے آپ کو بھول جانا وصل ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ فصل کیا ہے؟ تو یہ جواب دے کہ دل کا غیراللہ سے جدا کرنا فصل ہے، اگر پوچھا جائے کہ سکر کیا ہے؟ تو جواب دے کہ ایسے حال کا دل پر ظاہر ہونا کہ دل اُس چیز کو پشیدہ نہ رکھ سکے۔ جس کا پوشیدہ رکھا اُس حال سے پہلے واجب تھا۔
۵۔ فرماتے تھے کہ اگر تمام احوال[۱] اور مواجید[۲] ہمیں عطا کیے جائیں اور ہمیں اہل سنت و جماعت کے عقائد سے آراستہ نہ کیا جائے تو ہم اُسے بجز خرابی کچھ نہیں سمجھتے اور اگر تمام خرابیاں ہم پر جمع کی جائیں اور اہل سنت و جماعت کے عقائد سے سرفراز فرمایا جائے تو ہمیں کچھ ڈر نہیں۔
[۱۔ احوال جمع ہے حال کی۔ حال وہ معنی ہے جو سالک کے دل پر بغٰر تصنع اور اکتساب کے وارد ہوتا ہے۔ مثلاً خوشی یا غم یا قبض یا بسط وغیرہ۔ حال جب دائم ہو اور ملکہ بن جائے تو اُسے مقام کہتے ہیں پس احوال مواہب ہیں اور مقامات مکاسب۔ حال عین جود سے آتے ہیں اور مقامات بذل مجہود سے حاصل ہوتے ہیں۔
۲۔ مواجید جمع ہے وجد کی وجد وہ ہے جو سال کے دل پر آئے اور بغیر تکلف و تصنع کے وارد ہو۔ مواجید اور اوراد و وظائف پر بفضلِ الٰہی مترتب ہوتے ہیں۔ اکتساب کو ان میں دخل نہیں۔]
۶۔ ہماری زبان دل کا آئینہ ہے، دل روح کا آئینہ ہے اور روح حقیقتِ انسانی کا آئینہ ہے۔ حقیقتِ انسانی اللہ تعالیٰ کا آئینہ ہے۔ حقائقِ غیبیہ، غیب ذات سے دور دراز فاصلے طے کرکے زبان پر آتے ہیں اور یہاں صورتِ لفظی قبول کرکے مستعدانِ حقائق کے کانوں میں پہنچتے ہیں۔
۷۔ میں جو بعض اکابر کی خدمت میں رہا، تو انہوں نے مجھے دو چیزیں عطا فرمائیں، ایک یہ کہ میں جوکچھ لکھوں جدید ہوگا نہ کہ قدیم۔ دوسرے یہ کہ میں جو کچھ کہوں، مقبول ہوگا۔
۸۔ آیۂ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْن کے معنی میں آپ فرماتے تھے کہ اس کے دو معنی ہیں پہلا یہ کہ اہلِ صدق کے ساتھ مجالست و مصاحبت کو لازم پکڑے تاکہ اُن کی صحبت کے دوام کے سبب سے اُس کا باطن اُن کے صفات و اخلاق کے انوارسے روشن ہوجائے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ باطن کی شاہراہ سے اُس گروہ کے ساتھ رابطہ کا طریق اختیار کرے جو واسطہ ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں اور صحبت کو اس امر میں حصر (احاطہ کرنا، گھیرنا) نہ کرے کہ ہمیشہ آنکھ کے ساتھ دیکھے بلکہ ایسا کرے کہ صحبتِ دائمی ہوجائے اور صورت سے معنی کی طرف عبور کرے تاکہ واسطہ ہمیشہ نظر میں رہے۔ جب اس بات کو دوام کے طور پر ملحوظ رکھے گا، تو اُس کے باطن کو اُن کے باطن کے ساتھ نسبت و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور اس واسطہ سے اُسے مقصود اصلی حاصل ہوجائے گا۔
۹۔ حدیث میں جو آیا ہے شیبتنی سورہ ھود (سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا) اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں استقامت کا حکم آیا ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے فاسْتَقِمْ کما اُمِرْتَ (پس تو استقامت کر جیسا کہ تجھے حکم ہوا ہے) اور استقامت نہایت دشوار ہے کیونکہ استقامت کے معنی ہیں قائم رہنا حد وسط میں تمام افعال و اقوال اور اخلاق و احوال میں بدیں طور کہ تمام افعال میں ضرورت سے تجاوز صادر نہ ہو اور افراط و تفریط سے محفوظ رہے اسی سبب سے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ضروری کام تو استقامت ہے۔ کرامت و خوارقِ عادات کے ظہور کا کچھ اعتبار نہیں۔
۱۰۔ لوگوں کے اعمال و اخلاق سے جمادات کا متاثر ہونا محققین کے نزدیک ایک ثابت امر ہے۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے اس بارے میں بہت تحقیق کی ہے۔ یہ تاثر اس درجہ تک ہے کہ اگر ایک شخص نماز کو جو افضلِ عبادات ہے، ایسی جگہ ادا کرے جو ایک جماعت کے اعمال و اخلاق ناپسندیدہ سے متاثر ہوگئی ہو تو اُس نماز کا جمال اور رونق اس نماز کے برابر نہیں جو ایسی جگہ میں ادا کی جائے جو اربابِ جمعیت کی برکت سے متاثر ہو۔ یہی سبب ہے کہ حرمِ مکہ میں دو رکعت نماز غیر محرم میں بہت سی رکعتوں کے برابر ہے۔
۱۱۔ ہمارے زمانہ میں توحید یہ ہوگئی ہے کہ لوگ بازاروں میں جاتے ہیں اور بے ریش لڑکوں کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ایسے مشاہدہ سے خدا کی پناہ! تفصیل اس بادشاہ کی یوں ہے کہ حضرت سیّد قاسم تبریزی قدس سرہ اس ولایت (ملک) میں تشریف لائے تھے۔ اُن کے مریدوں کی ایک جماعت بازاروں میں پھرتی تھی۔ اور بے ریش لڑکوں کا نظارہ کرتی اور ان سے تعلق پیدا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ صورتِ جمیلہ (حسین شکل و صورت) میں ہم اللہ تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ حضرت سیّد قدس سرہ بعض اوقات فرماتے کہ ہمارے سور کہاں گئے ہیں؟ اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گروہ حضرت سیّد کی نظرِ بصیرت میں سور کی شکل میں دکھائی دیتا تھا۔
۱۲۔ ایک روز آپ نے ایک شخص سے کہا کہ اگر تمہیں حضرت خواجۂ خواجگان بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کی صحبت میں ایک نسبت حاصل ہوجائے اور پھر اس کے بعد تم کسی دوسرے بزرگ کی خدمت میں چلے جاؤ۔ اور اس کی صحبت میں بھی وہی نسبت پھر حاصل ہوجائے تو تم کیا کرو گے، کیا خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو چھوڑ دو گے؟ پھر از خود ہی فرمایا کہ کسی دوسری جگہ سے اگر تمہیں وہی نسبت حاصل ہو تو تمہیں چاہیے کہ اُس نسبت کو حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ہی کا فیض سمجھو۔ پھر یہ حکایت بیان کی کہ حضرت شیخ قطب الدین حیدر قدس سرہ کے مریدوں میں ایک مرید حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کی خانقاہ میں گیا۔ وہ نہایت بھوکا تھا۔ اس نے اپنے پیر کے گاؤں کی طرف منہ کرکے کہا شیئا للہ قطب الدین حیدر رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کو جو اس کا حال معلوم ہوا تو اپنے خادم کو حکم دیا کہ کہ فوراً کھانا اس کے پاس لے جاکر کھلاؤ، جب وہ درویش کھانا کھاکر فارغ ہوا تو پھر اپنے پیر کے گاؤں کی طرف منہ کرکے کہا شکراً للہ قطب الدین حیدر۔ کہ آپ نے ہم کو کسی جگہ نہیں چھوڑا، جب خادم حضرت شیخ کے پاس گیا تو انہوں نے پوچھا کہ تو نے اس درویش کو کیسا پایا؟ خادم نے عرض کیا کہ وہ مہمل شخص ہے۔ کھانا تو آپ کا کھاتا ہے مگر شکر قطب الدین حیدر کا کرتا ہے حضرت شیخ نے فرمایا کہ مریدی اُس سے دیکھنی چاہیے کہ ظاہری و باطنی فائدہ جس جگہ پائے اُسے اپنے پیر کی برکت سے سمجھے۔
۱۳۔ ایک روز تعظیمِ ساداتِ کرام کے بارے میں ارشادات فرما رہے تھے کہ جن بستی میں سادات رہتے ہوں، میں اس میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ اُن کی بزرگی اور شرف زیادہ ہے، میں اُن کی تعظیم و تکریم کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
ایک روز امام اعظم قدس سرہ درس کی مجلس میں کئی بار اُٹھے کسی کو اس کا سبب معلوم نہ ہوا۔ آخر کار حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگرد نے دریافت کیا، حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ساداتِ علوی کا ایک لڑکا اُن لڑکوں میں ہے جو مدرسہ کے صحن میں کھیل رہے ہیں، وہ لڑکا جب ا س درس کے قریب آتا ہے اور اُس پر میری نظر پڑتی ہے تو میں اس کی تعظیم کے لیے اُٹھتا ہوں۔
۱۴۔ کشفِ قبور یہ ہے کہ صاحبِ قبر کی روح مثالی صورتوں میں سے کسی مناسب صورت کے ساتھ مشتمل ہوجاتی ہے۔ صاحب کشف اُس کو بصیرت کی آنکھ سے اُسی صورت میں مشاہدہ کرتا ہے لیکن چونکہ شیطان کو مختلف صورتوں اور شکلوں کے ساتھ متمثل و متشکل ہوجانے کی قوت ہوتی ہے اس لیے ہمارے خواجگان قدس اللہ ارواحہم نے اس کشف کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ اصحابِ قبور کی زیارت میں اُن کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی بزرگ کی قبر پر پہنچتے ہیں تو اپنے آپ کو تمام کیفیتوں اور نسبتوں سے خالی کرکے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ دیکھیے کیا نسبت ظاہر ہو۔ اُس نسبت سے صاحبِ قبر کا حال معلوم کرلیتے ہیں اور بیگانوں کی صحبت میں بھی اُن کا یہی طریق ہے کہ جو شخص اُن کے پاس بیٹھے وہ اپنے باطن پر نظر ڈالتے ہیں۔ جو کچھ اس شخص کے آنے کے بعد ظاہر ہو وہ جان لیتے ہیں کہ یہ اُس کی نسبت ہے اور ہمارا اس میں کچھ دخل نہیں، اس نسبت کے مطابق لطف یا قہر سے اُس سے پیش آتے ہیں۔
۱۵۔ محققین کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ موت کے بعد اولیاء اللہ ترقی کرتے ہیں۔
۱۶۔ اس سلسلہ (سلسلہ نقشبندیہ) کے خواجگان قدس اللہ ارواحہم ہر ریاکار اور بازیگر کی طرف نسبت نہیں رکھتے۔ اُن کا کارخانہ بلند ہے۔
۱۷۔ ہر زمانہ میں رجالِ غیب صالحین میں سے اُس شخص کی صحبت میں رہتے ہیں جو عزیمت[۱] پر عمل کرتا ہے ۔ یہ گروہ رخصت سے بھاگتا ہے۔ رخصت پر عمل کرنا ضعیفوں کا کام ہے۔ ہمارے خواجگان قدس اللہ ارواحہم کا طریقہ عزیمت ہے۔
[۱۔ عزیمت شریعت میں اصل مشروع کو کہتے ہیں اور رخصت اُسے بولتے ہیں جو کسی عذر کے سبب سے مباح سمجھا گیا ہو حالانکہ اُس کی حرمت کی دلیل قائم ہو۔]
۱۸۔ جس وقت آپ عزیمت و احتیاط کے طریق سے کوئ کام کرتے تو فرماتے کہ لقمہ و طعام میں احتیاط کرنا ضروریات سے ہے۔ چاہیے کہ کھانا پکانے والا باوضو ہو۔ وہ شعور و آگاہی سے لکڑی چولہے میں رکھے اور آگ جلائے۔ جس پکانے میں غصہ یا پریشان باتیں ظہور میں آئیں اُس کھانے کو حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نہ کھاتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ اس کھانے میں ظلمت ہے ہمیں اس کا کھانا جائز نہیں۔
۱۹۔ چاہیے کہ مرید کی توجہ پیر کے دو ابرو کے درمیان ہو اور پیر کو تمام اوقات اور احوال میں آگاہ و حاضر سمجھے تاکہ پیر کی بزرگی اور عظمت اُس میں تصرف کرے اور جو چیز پیر کے حضور میں نامناسب ہو وہ مرید کے باطن سے کوچ کرجائے۔ اس امر کے کمال کے سبب سے یہ حال ہوجائے کہ پیر و مرید کے درمیان سے حجاب اُٹھ جائے اور پیر کی تمام مرادیں اور مقاصد بلکہ اس کے احوال و مواجید مرید کے مشاہدہ و معائنہ میں آجائیں۔
۲۰۔ ردی خطرات اور طبعی مقتضیات میں گرفتاری سے خلاصی کا طریقہ تین چیزوں میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ اول یہ کہ اعمالِ خیر جو اس گروہ نے مقرر کیے ہیں، اُن میں سے ہر ایک عمل اپنے اوپر لازم کرے اور طریقِ ریاضت اختیار کرے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوت و طاقت کو درمیان سے اُٹھا دے اور جان لے کہ میں ایسا نہیں کہ خود بخود اس بلا سے خلاصی حاصل کرسکوں اور عاجزی و محتاجی کے طور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور تضرع و انکساری کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اُس کو اس بلا سے نجات دے۔ تیسرے یہ کہ اپنے پیر کی ہمت و باطن سے مدد طلب کرے اور اُس کو اپنی توجہ کا قبلہ بنائے اس تقریر کے بعد آپ نے حاضرین سے پوچھا کہ ان تین طریقوں میں سے بہتر کون سا ہے؟ پھر آپ نے خود ہی فرمایا کہ پیر کی ہمت سے مدد مانگنا اور اُس کی طرف متوجہ ہونا بہتر ہے۔ کیونکہ طالب اس صورت میں اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے عاجز سمجھ کر پیر کو اس توجہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب میں وصول کا وسیلہ بناتا ہے۔ یہ امر حصولِ نتیجہ کے قریب تر ہے۔ جو کچھ طالب کا مقصود ہے۔ اس تقدیر پر زیادہ جلدی متفرع ہوگیا کیونکہ وہ ہمیشہ پیر کی ہمت سے مدد طلب کرنے والا ہوگا۔
۲۱۔ عبادت سے مراد یہ ہے کہ اوامر پر عمل کریں اور نواہی سے پرہیز کریں۔ عبودیت سے مراد اللہ تعالیٰ کے حضور ہمیشہ توجہ اور اقبال ہے۔
۲۲۔ شریعت، طریقت اور حقیقت تین چیزیں ہیں۔ احکامِ ظاہری کا جاری کرنا شریعت ہے۔ جمعیت باطن میں تعمل و تکلف طریقت ہے اور اس جمعیت میں رُسوخ حقیقت ہے۔
۲۳۔ سیر دو طرح کی ہے سیرِ مستطیل اور سیرِ مستدیر[۱]۔ سیر مستطیل بعد در بعد ہے اور سیر مستدیر قرب در قرب ہے۔ سیرِ مستطیل سے مراد مقصود کو اپنے دائرے کے خارج سے طلب کرنا ہے اور سیرِ مستدیر اپنے دل کے گرد پھرنا اور مقصود کو اپنے سے ڈھونڈنا ہے۔
[۱۔ سیر مستطیل سے مراد سیرِ آفاقی اور سیرِ مستدیر سے مراد سیر انفسی ہے (قصوری)]
۲۴۔ علم دو ہیں۔ علم وراثت اور علم لدنی، علمِ وراثت وہ ہے جس سے پہلے کوئی عمل ہو، چنانچہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لمن عمل بما علم ورثہ اللہ علم ما لم یعلم.
’’جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو وارث بناتا ہے اُس علم کا جو اُسے معلوم نہیں‘‘۔
اور علم لدنی وہ علم ہے جس سے پہلے کوئی عمل نہ ہو، بلکہ بغیر کسی سابق عمل کے اللہ تعالیٰ محض عنایت بے علت سے اپنے پاس سے بندے کو کسی خاص علم کے ساتھ مشرف کرے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا (سورہ کہف۔ ع۹)
’’اور سکھایا تھا ہم نے اُس کو اپنے پاس سے علم‘‘۔
آپ نے فرمایا کہ علم کی طرح اجر بھی دو قسم کا ہے۔ اجرِ ممنون اور اجرِ غیر ممنون۔ اجرِ ممنون وہ ہے جو کسی عمل کے مقابلہ میں نہ ہو بلکہ محض موہبت (عطا، بخشش) ہو۔ اور اجرِ غیر ممنون وہ ہے جو کسی عمل کے مقابلہ میں ہو۔
۲۵۔ لوگوں نے خیال کیا ہے کہ شاید کمال نا الحق کہنے میں ہے نہیں، بلکہ کمال اس میں ہے کہ انا کو دور کیا جائے اور کبھی اُسے یاد نہ کیا جائے۔
۲۶۔ فنائے مطلق کے معنی یہ نہیں کہ صاحبِ فنا کو اپنے اوصاف و افعال کا شعور نہ ہو بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ بطریقِ ذوق اپنے آپ سے اوصاف و افعال کے اسناد کی نفی کرے اور فاعلِ حقیقی جل ذکرہٗ (اُس کے ذکر کی بڑی عظمت اور شان ہے) کے لیے اسناد ثابت کرے۔ وہ جو صوفیہ قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم نے فرمایا ہے کہ نفی اثبات کے ساتھ مخالفت نہیں رکھتی، اُس کے یہی معنی ہیں۔ آپ نے مثال کے طور پر فرمایا کہ یہ کپڑا جو میں پہنے ہوئے ہوں عاریتی ہے اور مجھے اس کے عاریتی ہونے کا علم نہیں اور اس سبب سے کہ اس کو میں اپنی ملک سمجھتا ہوں اسے سے تعلق رکھتا ہوں ناگاہ مجھے اس کپڑے کے عاریتی ہونے کا علم ہوگیا، اُسی وقت میرا تعلق اس سے منقطع ہوگیا حالانکہ میں بالفعل پہپن رہا ہوں۔ اسی پر تمام صفات کو قیاس کرنا چاہیے کہ سب عاریتی ہیں تاکہ غیراللہ سے دل منقطع ہوجائے اور پاک و مطہر ہوجائے۔
۲۷۔ وصل، حقیقت میں یہ ہے کہ دل بطریقِ ذوق اللہ تعالیٰ کے ساتھ جمع ہوجائے جب یہ بات ددائم (ہمیشہ) ہوجائے تو اسے دوام وصل بولتے ہیں۔ نہایت یہی ہے۔ وہ جو حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو بدایت (انتہا کو ابتدا میں) درج کرتے ہیں۔ اس سے مراد یہی نہایت ہے اور جو آپ نے فرمایا ہے کہ ہم محض قبولیت کا واسطہ ہیں، ہم سے منقطع ہونا چاہیے او رمقصود سے ملنا چاہیے یہی وصل ہے۔
۲۸۔ تجلی کے معنی کشف ہیں۔ اس امر کا ظہور دو طرح سے ہوسکتا ہے۔ ایک کشفِ عیانی جو دار جزا میں سر کی آنکھ کے ساتھ مقصود کے جمال کا مشاہدہ ہے۔ دوسرے یہ کہ غلبۂ محبت کے ساتھ غائب کو کثرت سے حاصل کرنے کے ذریعہ سے کہ وہ غائب مثل محسوس کے ہوجائے کیونکہ خواص محبت میں سے ہے کہ وہ غائب کو مثل محسوس کے کردیتی ہے۔ دنیا میں اربابِ کمال کے قدم کی انتہا یہی ہے۔
۲۹۔ اگر ہم شیخی کرتے تو اس زمانہ میں کسی شیخ کو مرید نہ مل سکتا۔ لیکن ہمیں اور کام کا حکم ملا ہے کہ مسلمانوں کو ظالموں کے شر سے بجائیں، اس واسطے ہمیں بادشاہوں سے میل جول رکھنا اور اُن کے نفوس کو مسخر کان اور اس عمل کے ذریعہ سے مسلمانوں کی مطلب بر آری ضروری ہے۔
۳۰۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی عنایت سے مجھے ایسی قوت عطا کی ہے کہ اگر میں چاہوں تو ایک رقعہ سے بادشاہِ خطا کو جو الوہیت کا دعویٰ کرتا ہے ایسا کردوں کہ بادشاہت چھوڑ کر ننگے پاؤں خطا سے خار و خاشاک میں دوڑتا ہوا اپنے آپ کو میرے آستانہ پر پہنچائے لیکن باوجود ایسی قوت کے ہم خدا کے حکم کے منتظر ہیں جس وقت وہ چاہے اور حکم دے وقوع میں آئے گا۔ اس مقام کے لیے ادب لازم ہے اور ادب یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کا تابع بنائے نہ کہ اللہ کو اپنے ارادہ کا تابع بنائے۔
۳۱۔ ہر روز سونے سے قبل اپنے گزشتہ اوقات کو یاد کرو کہ کس طرح گزرے ہیں۔ اگر غیر طاعت سے گزرے ہیں تو توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
۳۲۔ منجملہ آدابِ طریقت سے یہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہے کیونکہ دوامِ وضو سے فراخیِ رزق ہوتی ہے۔
۳۳۔ جو شخص فقیروں کی صحبت میں آئے، اُسے چاہیے کہ اپنے آپ کو نہایت مفلس ظاہرکرے تاکہ اُس پر اُن کو رحم آئے۔
۳۴۔ رہبر کا سایہ ذکرِ حق کرنے سے زیادہ بہتر ہے یعنی مرید کے لیے رہبر کا سایہ اُس کے ذکرِ حق کرنے سے زیادہ نفع مند ہے۔ کیونکہ مرید کو اُس وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کامل مناسبت حاصل نہیں ہوتی تاکہ براستہ ذکر اُسے مکمل نفع حاصل ہو۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
خواجہ ناصر الدین عبید اللہ احرار قدس سرہ
نام و لقب:
آپ کا نامِ مبارک عبد اللہ ہے۔ ناصر الدین لقب ہے۔ کیونکہ آپ سے دین اسلام کو نصرت پہنچی۔ احرار بھی آپ کا لقب ہے۔ جو اصل میں خواجہ احرار ہے۔ چونکہ آپ کے اسم گرامی کے معنی میں چھُٹائی پائی جاتی ہے۔ اس لیے اس کے تدارک کے لیے آپ کو خواجہ احرار بالا ضافت لقب دیا گیا۔ اس لقب میں آپ کی بڑی منقبت ہے۔ کیونکہ اہل اللہ کے نزدیک حرّ (واحد احرار) اُسے کہتے ہیں جو عبودیت۔ کی حدود کو بدرجہ کمال قائم کرے اور اغیار کی رقیت (غلامی) سے نکل جائے۔ استعمال میں بعض وقت لفظ خواجہ کو حذف کر کے فقط احرار کہتے ہیں۔
ولادت با سعادت:
آپ باغستان میں جوتا شقند واقع توران کے مضافات سے ہے ماہ رمضان ۸۰۶ھ میں پیدا ہوئے۔ تولّد کے بعد چالیس دن تک کہ ایام نفاس ہیں آپ نے اپنی ماں کا دودھ نہ پیا۔ جب اس نے نفاس سے پاک ہوکر غسل کیا۔ تو پینا شروع کیا۔ لڑکپن ہی سے رشد و سعادت کے آثار اور قبول و عنایت الٰہی کے انوار آپ کی پیشانی میں نمایاں تھے۔ تین چار سال کی عمر سے نسبت آگاہی بحق سبحانہ تعالیٰ حاصل تھی۔ طفولیت میں مکتب میں آمدو رفت رکھتے۔ مگر دل پر وہی نسبت غالب تھی۔ بچپن میں مزارات مشائخ پر حاضر ہوتے۔ جب سن بلوغ کو پہنچے۔ تو تاشقند کے مزارات پر جو ایک دوسرے سے فاصلہ پر واقع ہیں پھرا کرتے۔ اور بعض دفعہ ایک ہی رات میں تمام مزارات کی گشت کر آتے۔
تحصیل علم:
آپ کے ماموں خواجہ ابراہیم علیہ الرحمۃ کو آپ کی تعلیم کا بڑا خیال تھا۔ اسی غرض سے وہ آپ کو بائیس سال کی عمر میں تاشقند سے سمر قند لے گئے۔ مگر شغل باطنی غلبہ علم ظاہری کی تحصیل سے مانع رہا۔ خواجہ فضل اللہ ابو اللیثی جو سمر قند کے اکابر علماء سے تھے فرماتے تھے کہ ہم خواجہ عبید اللہ کے باطن کے کمال کو نہیں جانتے۔ مگر اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے بحسب ظاہر علوم رسمی سے بہت کم پڑھا ہےا ور ایسا دن کم ہوگا کہ وہ تفسیر قاضی بیضاوی میں ہمارے سامنے کوئی شبہ پیش کریں اور ہم سب اس کے حل سے عاجز نہ آئے ہوں۔
سیر و سیاحت:
بائیس برس کی عمر سے انتیس برس کی عمر تک آپ سفر میں رہے۔ اس عرصہ آپ کو بہت سے مشائخ زمانہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ چنانچہ سمر قند میں آپ اکثر مولانا نظام الدین خلیفہ حضرت علاء الدین عطار قدس سرہ کی صحبت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے ایک روز مولانا نے مراقبہ کے بعد نعرہ مارا۔ جب سبب دریافت کیا گیا۔ تو فرمایا مشرق کی طرف سے ایک شخص نمودار ہوا جس کا نام خواجہ عبید اللہ ہے۔ اُس نےتمام روئے زمین کو لے لیا۔ وہ عجیب بزرگ شخص ہے۔ سمر قند کے قیام میں ایک روز آپ مولانا کے ہاں سے جو نکلے تو ایک بزرگ نے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے۔ مولانا نے فرمایا۔ ’’وہ خواجہ عبید اللہ ہیں۔ عنقریب دنیا کے سلاطین ان میں مبتلا ہوں گے۔‘‘
سمر قند ہی میں آپ حضرت سید قاسم تبریزی کی صحبت سے مشرف ہوئے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ وہاں سے بخارا کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں ایک ہفتہ شیخ سراج الدین کلال پر مسی [۱] خلیفہ حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہما کی صحبت میں رہے۔ بخارا میں پہنچ کر مولانا حسام الدین شاشی کی زیارت کی۔ جو سید امیر حمزہ بن سید امیر کلال کے خلیفہ اول تھے۔ اور خواجہ بزرگ کے خلیفہ خواجہ علاء الدین غجدوانی کی خدمت میں بہت دفعہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے خراسان کا سفر اختیار کیا اور مرو کے راستے ہرات میں آئے۔ ہرات میں آپ نے چار سال قیام کیا۔ اس عرصہ میں آپ اکثر سید قاسم تبریزی اور شیخ بہاء الدین عمر قدس سرہما کی صحبت میں رہے۔ اور کبھی کبھی شیخ زین الدین خوافی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔
[۱۔پرمس قصبہ وابکنی کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا نام ہے۔ وہاں سے بخارا چار شرعی فرسنگ ہے۔ رشحات۔]
مولانا یعقوب چرخی کی خدمت میں حاضری:
ہرات میں آپ نے ایک سودا گر سے حضرت خواجہ یعقوب چرخی کے فضائل سنے۔ اس لیے وہاں سے اُن کی صحبت کی نیت سے بلخ کے راستے حصار کی طرف متوجہ ہوئے۔ بلخ میں حسام الدین پارساہ خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہما کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور وہاں سے حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ کے مزار کی زیارت کے لیے چغانیاں پہنچے۔ اور چغانیاں سے ہلفتوں میں مولانا یعقوب چرخی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جس کا قصہ آپ خود یوں بیان فرماتے ہیں۔
’’جب میں ولایت چغانیاں میں پہنچا تو بیمار ہوگیا۔ اور بیس روز تپ لرزہ آتا رہا۔ اِس عرصہ میں نواح چغانیاں کے بعضے لوگوں نے مولانا یعقوب چرخی کی بہت غیبت کی۔ بیماری کے دنوں میں ایسی پریشان باتوں کے سننے سے مولانا کی ملاقات کے ارادے میں بڑا فتور واقع ہوا۔ آخر کار میں نے اپنے دل میں کہا کہ تو اس قدر دور فاصلہ سے آیا ہے یہ اچھا نہیں کہ تو ان سے ملاقات نہ کرے میں روانہ ہوگیا۔ اور ان کی خدمت میں پہنچا۔ وہ بڑی عنایت سے پیش آئے اور ہر طرح کی باتیں کیں۔ لیکن دوسرے روز جو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو تو بہت غصہ ہوئے اور سخت و درشتی سے پیش آئے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ان کے غصہ کا سبب غیبت کا سننا اور تیرے ارادے میں فتور کا آنا ہوگا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ لطف سے پیش آئے اور بہت توجہ و عنایت فرمائی۔ اور حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ سے اپنی ملاقات کا حال بیان فرما کر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ بیعت کر۔ چونکہ ان کی پیشانی مبارک پر کچھ سفیدی مشابہ برص تھی جو طبیعت کی نفرت کا موجب ہوتی ہے۔ اس لیے میری طبیعت ان کے ہاتھ پکڑنے کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ میری کراہت کو سمجھ گئے اور جلدی اپنا ہاتھ ہٹالیا۔ اور بطریق خلع و لبس اپنی صورت تبدیل کر کے ایسی صورت میں ظاہر ہوئے کہ میں بے اختیار ہوگیا۔ قریب تھا کہ بیخود ہوکر آپ سے لپٹ جاؤں آپ نے دوسری دفعہ اپنا دست مبارک بڑھایا اور فرمایا کہ حضرت خواجہ بہاء الدین قدس سرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا تھا کہ تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے۔ جس نے تمہارا ہاتھ پکڑا اس نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ خواجہ بہاء الدین کا ہاتھ پکڑ لو۔ میں نے بلا توقف مولانا یعقوب کا ہاتھ پکڑ لیا۔ حسب طریقہ حضرات خواجگان مجھے شغل نفی و اثبات جس کو وقوف عددی کہتے ہیں سکھایا اور فرمایا کہ جو کچھ ہم کو حضرت خواجہ بزرگ سے پہنچا ہے یہی ہے۔ اگر تم بطریق جذبہ طالبوں کی تربیت کرو۔ تو تمہیں اختیار ہے۔‘‘
طالب اور مرشد:
کہتے ہیں کہ مولانا کے بعض اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ جس طالب کو آپ نے اس وقت طریقہ کی تعلیم دی اس کی نسبت کس طرح آپ نے فرمادیا کہ تمہیں اختیار ہے۔ چاہو بطریق جذبہ تربیت کرو۔ اس کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ طالب کو مرشد کے پاس اس طرح آنا چاہیے کہ سب چیزیں تیار ہوں۔ صرف اجازت کی دیر ہو۔ مولانا جامی نفحات الانس میں لکھتے ہیں۔ مولانا یعقوب فرماتے تھے کہ جو طالب کسی بزرگ کی صحبت میں آنا چاہے۔ اُسے خواجہ عبید اللہ کی طرح آنا چاہیے کہ چراغ اور تیل بتی سب تیارر ہے۔ صرف دیا سلائی دکھانے کی دیر ہے۔ خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے تھے کہ جب میں نے مولانا یعقوب سے اجازت طلب کی تو آپ نے مجھ سے حضرات خوجگان کے تمام طریقے بیان فرمادیے۔ جب طریق رابطہ کی نوبت پہنچی تو فرمایا کہ اس طریقہ کی تعلیم میں دہشت نہ کھانا اور استعداد والوں کو بتا دینا۔
وطن کی طرف واپسی:
حضرت خواجہ عبید اللہ مولانا یعقوب کی خدمت سے رخصت پاکر پھر ہرات میں آئے۔ اور کم و بیش ایک سال وہیں رہے۔ بعد ازاں انتیس سال کی عمر میں وطن مالوف کی طرف مراجعت فرمائی۔ اور تاشقند میں مقیم ہوکر زراعت کا کام ایک شخص کی شراکت میں شروع کیا۔ دونوں ایک جوڑی بیل سے کھیتی کا کام کرنے لگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی زراعت میں بڑی برکت دی۔ آپ کے مال ومنال اور ضیاع و عقار(جڑی بوٹیاں وغیرہ) اور گلہ و مویشی اور اسباب و املاک اندازہ کی حد سے زائد تھے۔ مگر یہ سب درویشوں کے لیے تھے۔ چنانچہ مولانا جامی یوسف زلیخا میں آپ کی منقبت میں یوں لکھتے ہیں۔ ؎
ازاں دانہ کزو آدم بنا کام
زبستانِ بہشت آمد بدیں دام
جس دانہ سے حضرت آدم علیہ السلام ناچار باغ بہشت سے اس جال (دنیا) میں آئے۔
ہزارش مزرعہ در زیر کشت است
کہ زادِ فتنِ راہِ بہشت است
اُن کے ہزار کھیت زیر کاشت ہیں جو راہِ بہشت میں چلنے کا توشہ ہیں۔
دریں مزرعہ فشاند تخم دانہ
در آں عالم کند انبار خانہ
وہ اِس کھیت (دنیا) میں بیج بو رہے ہیں اور اُس عالم میں ذخیرہ کر رہے ہیں۔
کرامات کا بیان
۱۔ حضرت خواجہ احرار فرماتے ہیں کہ ہمت سے مراد دل کا ایک امر پر اس طرح جمع کرنا ہے کہ اُس کا خلاف دل میں نہ آئے۔ ایسی ہمت سے مراد متخلف نہیں ہوتی۔ فرماتے ہیں کہ اوائل جوانی میں جب کہ ہم مولانا سعد الدین کا شغری کے ساتھ ہرات میں تھے اور دونوں سیر کیا کرتے تھے۔ تو کبھی کشتی لڑنے والوں کے اکھاڑہ میں جا پہنچتے۔ اور اپنی قوت اور توجہات کا امتحان کرتے۔ دو پہلوانوں میں سے ایک کی طرف توجہ مبذول کرتے۔ تو وہ غالب آتا۔ پھر مغلوب کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ غالب ہوجاتا اس طرح کئی بار اتفاق ہوا۔ مقصود یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ ہمت کی تاثیر کس درجہ پر پہنچی ہے۔
حاکم کی موت:
مولانا ناصر الدین اتراری جو حضرت عبید اللہ احرار کے خادموں میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ حضرت نے واقعہ میں دیکھا تھا کہ آپ کی مدد سے شریعت کو تقویت پہنچے گی۔ آپ کے مبارک دل میں آیا کہ یہ بات سلاطین کی مدد کے بغیر حاصل نہ ہوگی۔ اس غرض سے آپ سمر قند کی طرف آئے۔ اس وقت میر زا عبد اللہ بن میر زا ابراہیم بن میر زا شاہرخ بن امیر تیمور ولایت سمر قند کا حاکم تھا۔ میں اس سفر میں آپ کی خدمت میں تھا۔ جب آپ سمر قند میں پہنچے تو میرزا عبد اللہ کا ایک امیر آپ کی خدمت میں آیا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ یہاں آنے سے ہماری غرض تمہارے میرزا کی ملاقات ہے۔ اگر تمہارے ذریعہ سے یہ کام ہوجائے تو خوب ہے۔ اس امیر نے بے ادبی سے جواب دیا کہ ہمارا میرزا بے پروا جوان ہے۔ اُس سے ملاقات مشکل ہے۔ درویشون کو ایسی باتوں سے کیا مطلب۔ آپ نے خفا ہوکر فرمایا کہ ہم کو سلاطین کی ملاقات کا حکم ہوا ہے۔ ہم اپنے آپ نہیں آئے۔ اگر تمہارا میرزا پروا نہیں کرتا تو دوسرا لایا جائے گا جو پروا کرے گا۔ جب وہ امیر چلاگیا تو آپ نے اس کا نام سیاہی سے اُس مکان کی دیوار پر لکھا اور اپنے لعابِ دہن سے مٹادیا اور فرمایا کہ ہمارا کام اِس بادشاہ اور اس کے امیروں سے نہیں چل سکتا۔ اور اُسی روز تاشقند کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ امیر مرگیا اور ایک مہینے کے بعد سلطان ابو سعید مرزا بن محمد میر انشاہ بن امیر تیمور اطراف ترکستان سے ظاہر ہوا اور اُس نے میرزا عبد اللہ پر حملہ کر کے اُسے (۸۵۵ھ میں) قتل کر ڈالا۔
میرزا بابر پر توجہ:
میرزا بابر بن میرزا بایسنغر بن میرزا شاہرخ بن امیر تیمور ایک لاکھ سپاہ لے کر خراسان سے سمر قند کی طرف متوجہ ہوا۔ میر زا سلطان ابو سعید نے حضرت کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ مجھے اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ کیا کروں۔ آپ نے اسے تسلی دی۔ جب میرزا دریائے آمو سے گزرا تو سلطان ابو سعید کے امیروں کی ایک جماعت نے اتفاق و مشورہ کیا کہ میرزا کو ترکستان میں لے جائیں۔ اور وہاں قلعہ نشین ہوجائیں۔ چنانچہ کل سامان اونٹوں پر لدوا دیا گیا۔ حضرت کو جو خبر لگی تو شتر بانوں پر خفا ہوئے اور سامان اتروادیا۔ اور خود میر زا کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا کہ کہاں جاتے ہو۔ جانے کی ضرورت نہیں۔ یہیں کام بن جائے گا۔ میں نے تمہاری مہم اپنے ذمہ لے لی ہے۔ امیر گھبرا گئے۔ یہاں تک کہ بعضوں نے اپنی پگڑیاں زمین پر پھینک دیں اور کہنے لگے کہ حضرت خواجہ ہم کو مروا رہے ہیں۔ چونکہ میرزا کا اعتقاد صادق تھا اس نے کسی کی نہ سنی اور سمر قند ہی میں قلعہ نشین ہوگیا۔
جب میر زا بابر سمر قند کے قلعہ کے گرد پہنچا تو خلیل جو اس کے مقدمہ لشکر پر تھا عید گاہ سمر قند کے دروازے پر ٹہر گیا۔ شہر سے تھوڑے سے آدمی نکل کر خلیل سے لڑے۔ خلیل گرفتار ہوگیا۔ میرزا بابر سمر قند کے پرانے قلعہ میں اترا۔ اس کے لشکری سامان معیشت کے لیے جس طرف جاتے ہیں اہل سمر قند ان کو پکڑ کر ناک کان کاٹ دیتے۔ اس طرح میرزا بابر کے لشکر کے بہت سے سپاہیوں نے اپنے ناک کان کٹوا لیے۔ میرزا بابر کا لشکر نہایت تنگ آگیا۔ اور چند روز کے بعد ان کے گھوڑوں میں وباء نمودار ہوئی۔ جس سے بہت گھوڑے تلف ہوئے۔ آخر کار میرزا بابر نے مولانا محمد معمائی کو حضرت کی خدمت میں بھیج کر صلح کی درخواست کی۔ مولانا محمد نے اثنائے گفتگو میں کہا کہ ہمارا میرزا نہایت غیور اور عالی ہمت بادشاہ ہے۔ جس طرف متوجہ ہوتا ہے بغیر اسیر کیے واپس نہیں آتا۔ حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اُس کے دادا میرزا شاہرخ (متوفی ۸۵۰ھ) کے زمانہ میں ہرات میں تھا۔ مجھے اُس کے طفیل سے بڑی فراغت اور جمعیت حاصل تھی۔ اگر شاہرخ کے حقوق نہ ہوتے تو معلوم ہوجاتا کہ میرزا بابر کا کیا حال ہوتا۔ آخر الامر حضرت کے خاص مرید مولانا قاسم کی وساطت سے صلح ہوگئی۔
دشمن پر غلبہ:
جب میرزا سلطان ابو سعید بتاریخ ۲۵؍ رجب ۸۷۳ھ شہید ہوگیا تو اُس وقت اُس کے گیارہ بیٹوں میں سے چار برسرِ حکومت تھے۔ چنانچہ میرزا الغ بیگ کابل میں میرزا سلطان محمود حصار و قندوز و بدخشاں میں حکمران تھا۔ میرزا سلطان محمود نے سمر قند کے محاصرہ کا رادہ کیا۔ جب حضرت خواجہ کو یہ خبر لگی تو آپ نے بذریعہ رقعہ و پیام میرزا سلطان محمود کو اس حرکت سے منع فرمایا۔ مگر وہ روبراہ نہ ہوا۔ اور ولایت حصار سے سمر قند کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ سامان و لشکر بے شمار تھا اور چغتائی لشکر کے علاوہ چار ہزار ترکمان ہم رکاب تھے۔ میرزا سلطان احمد میں مقابلہ کی طاقت نہ تھی۔ اس لیے اس نے بھاگنا چاہا اور حضرت خواجہ سے اجازت چاہی۔ حضرت شہر سمر قند کے مدرسہ میں مقیم تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم بھاگ جاؤ گے تو سمر قند کے تمام باشندے قید ہوجائیں گے۔ تم گھبراؤمت۔ میں تمہارے معاملہ کا ذمہ دار ہوں۔ اگر دشمن مغلوب نہ ہوا تو تم مجھ سے مواخذہ کرنا۔ پھر آپ نے میرزا سلطان احمد کو مدرسہ کے ایک حجرے میں اتارا جس کا ایک ہی دروازہ تھا اور آپ اس دروازے میں بیٹھ گئے۔ خادموں نے آپ کے حکم سے ایک تیز رفتار اونٹنی لاکر اس حجرے کے آگے بٹھادی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میرزا سلطان محمود سمر قند پر قابض ہوجائے اور اس دروازے سے کہ جہاں لڑائی ہو شہر میں داخل ہوجائے تو تم اس اونٹنی پر سوار ہوکر دوسرے دروازے سے بھاگ جائیو۔ آپ نے تدبیر سے میرزا سلطان احمد کو تسکین دی۔ بعد ازاں آپ نے مولانا سید حسین اور مولانا قاسم اور میر عبد الاول اور مولانا جعفر کو جو آپ کے اکابر اصحاب سے تھے طلب فرمایا اور حکم دیا کہ تم فوراً اس دروازے کے برج میں جاکر مراقبہ کرو۔ چنانچہ وہ وہاں جاکر مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ مولانا قاسم کا بیان ہے کہ مراقبہ میں بیٹھتے ہی ہم نے دیکھا کہ ہم نیست ہیں۔ تمام حضرت ہی حضرت ہیں اور تمام عالم آپ کے وجود مبارک سے پر ہے۔لڑائی وقت چاشت تک جاری رہی۔ قریب تھا کہ دشمن غالب آجائے۔ شہر والے حیران و پریشان تھے کہ ناگاہ دشت قبچاق کی طرف سے ایک سخت آندھی اٹھی اور میرزا سلطان محمود کے لشکر و لشکر گاہ میں گرد و غبار کا وہ طوفان برپا ہوا کہ کسی کو آنکھ کھولنے کی مجال نہ رہی۔ ہوا پیادوں اور سواروں کو زمین پر گراتی۔ اور خیمہ و سرا پردہ خرگاہ کو اکھاڑ کر اوپر کی طرف اڑاتی اور زمین پر پھینک دیتی۔ میرزا سلطان محمود اپنے امیروں اور ترکمانوں کی جماعت کثیر کے ساتھ ایک تالاب کے کنارے دیوار کے پشتہ کے نیچے گھوڑے پر سوار کھڑا تھا۔ کہ ناگاہ پشتہ کا ایک حصہ پھٹ گیا۔ جس کے ہولناک دھماکہ سے قریباً چار سو مرد اور گھوڑے جو اس کے نیچے کھڑے تھے دب کر مرگئے۔ ترکمانوں کے گھوڑے بھاگنے لگے۔ سواروں نے ہر چند رو کا مگر نہ رکے۔ القصہ لشکر پراگندہ ہوگیا۔ میرزا سلطان محمود کوشکست ہوئی میرزا سلطان احمد کے لشکر اور شہر کے لوگوں نے قریباً پانچ کوس تک ان کا تعاقب کیا۔ اور بہت سے سوار اور گھوڑے پکڑ لائے اور بہت کچھ سامانِ غنیمت ہاتھ آیا۔
بدکاری سے بچالیا:
مولانا شیخ ابو سعید مجلد جو میرزا شاہرخ کے زمانہ میں نہایت خوبصورت جوان تھے بیان کرتے ہیں کہ جوانی میں ایک بار ایک خوبصورت عورت سے اتفاقاً میری ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے مکان میں آگئی۔ میں نے چاہا کہ خلوت میں اس سے بات چیت کروں۔ اس اثنا میں ناگاہ میں نے حضرت خواجہ کی آواز سنی کہ فرماتے ہیں۔ ابو سعید! چہ کار مے کنی؟ (یہ کیا کام کر رہے ہو )یہ سن کر میری حالت بدل گئی اور میرے دل پر ہیبت طاری ہوگئی اور میرے اعضا میں رعشہ پیدا ہوگیا۔ میں نے اٹھ کر فوراً اس عورت کو اپنے مکان سے نکال دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد تشریف لائے۔ جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمانے لگے کہ اگر حق تعالیٰ کی توفیق تیری یاوری نہ کرتی شیطان تجھ کو برباد کردیتا۔
گمشدہ غلام کی واپسی:
حضرت خواجہ کے مخلصوں میں سے ایک بزرگ نقل کرتے ہیں کہ سمر قند میں میرا ایک غلام غائب ہوگیا۔ اس غلام کے سوا میرا مال و متاع اور کچھ نہ تھا۔ چار مہینے میں نے اس کی تلاش کی۔ سمر قند کے نواح میں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں میں کئی بار نہ گیا۔ پہاڑ اور صحرا میں بہت پھرا۔ مگر کہیں اس کا نشان نہ پایا۔ اس پریشانی میں ناگاہ حضرت خواجہ مجھے صحرا میں ملے۔ آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب و خدام بھی تھے۔ میں حالت اضطراب میں حضرت کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ اور نیاز مندی سے اپنا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم تو دہقانی آدمی ہیں۔ ایسی باتوں کو کیا جانیں۔ میں نے سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ ایسا تصرف کیا کرتے ہیں کہ غائب کی خبر دے دیتے ہیں۔ بلکہ غائب کو حاضر کر دیتے ہیں۔ اس لیے میں نے اصرار کیا اور گھوڑے کی باگ نہ چھوڑی۔ جب آپ نے کوئی چارہ نہ دیکھا تو ایک لحظہ سکوت فرمایا اور پوچھا کہ یہ گاؤں جو نظر آ رہا ہے کیا اس میں بھی تم نے اسے تلاش کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو بار ہا اس میں گیا ہوں مگر محروم واپس آیا ہوں۔ فرمایا پھر تلاش کرو مل جائے گا۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا۔ جب میں اس گاؤں کے نزدیک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس غلام نے پانی کا گھڑا بھرا ہوا آگے رکھا ہے اور خشک جگہ پر حیران کھڑا ہے۔ جب میری نظر اس پر پڑی میں نے بے اختیار نعرہ مارا اور کہا اے غلام! تو اس عرصہ میں کہاں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کے گھر سے نکلا تو ایک شخص بہکا کر مجھے خوارزم میں لے گیا۔ اور وہاں مجھے ایک شخص کے ہاتھ فروخت کردیا۔ میں اس شخص کی خدمت میں تھا۔ آج اس کے ہاں ایک مہمان آیا اس نے مجھ سے کہا کہ پانی کا گھڑا پھر لاؤ تاکہ کھانا تیار کریں۔ میں گھڑا اٹھا کر پانی کے کنارے پر پہنچا اور پانی سے بھر لیا۔ جب میں نے پانی سے نکالا تو اپنے آپ کو یہاں حاضر پاتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں یہ معاملہ بیداری میں دیکھ رہا ہوں یا خواب میں۔ حضرت خواجہ کا یہ تصرف دیکھ کر میرا حال بدل گیا۔ میں نے غلام کو تو آزاد کردیا اور خود حضرت کا غلام بن گیا۔
سورج کا ٹھہر جانا:
مولانا زادہ فرکنی مولانا نظام الدین کے مرید تھے وہ اپنے مرشد کی وفات کے بعد حضرت خواجہ کی خدمت میں بہت رہے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت خواجہ کے ہمراہ ایک گاؤں کو جا رہا تھا۔ جاڑے کا موسم تھا اور دن چھوٹے۔ ہم نے عصر راستے میں پڑھی۔ شام ہونے کو آئی۔ آفتاب زرد ہوگیا۔ منزل تک پہنچنے میں دوشرعی (کوس) باقی تھے۔ اس صحرا میں کوئی پناہ وآرام گاہ نہ تھی۔ میرے دل میں آیا کہ دن ختم ہوگیا۔ راستہ خطر ناک، ہوا سرد اور فاصلہ زیادہ ہے کیا حال ہوگا۔ جب یہ خیال کئی بار میرے دل میں آیا تو حضرت نے منہ پھیر کر فرمایا کہ ڈرو مت۔ گھوڑا دوڑاؤ۔ ممکن ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے ہم منزل پر پہنچ جائیں۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کو تیز دوڑایا۔ میں بھی آپ کے پیچھے تیز دوڑا رہا تھا۔ اور پلٹ پلٹ کر آفتاب کی ٹکیہ کو دیکھتا جاتا تھا۔ آفتاب اسی طرح افق پر ٹھیرا ہوا تھا۔ گویا کسی نے اس میں میخ ٹھونک دی ہے جس سے وہ افق پر ٹھیرا ہوا ہے۔ جب ہم گاؤں میں پہنچے تو یک بیک آفتاب ایسا غروب ہوا کہ شفق کی سرخی و سپیدی جو غروب کے بعد ہوا کرتی ہے اس کا کوئی نشان نہ رہا۔ اور عالم میں ایسی تاریکی پھیل گئی کہ شکلوں اور رنگوں کا نظر آنا نا ممکن ہوگیا۔ یہ دیکھ کر حیرت و ہیبت مجھ پر طاری ہوئی اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ حضرت خواجہ کا تصرف ہے۔ آخر کار بے اختیار ہوکر میں نے حضرت خواجہ سے عرض کیا کہ خدا کے لیے فرمائیے یہ کیا راز تھا جو میں نے دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بھی طریقت کے شعبدوں میں سے ایک شعبدہ تھا۔
شہد شراب میں بدل گئی:
خواجہ کلال فرماتے ہیں ! کہ حضرت کا ایک خادم سمر قند کو جا رہا تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ ہمارے واسطے سمر قند سے چند ڈبے خالص شہد کے لانا۔ وہ سمر قند سے کئی ڈبے شہد سے بھر کر اور ان کے منہ پر مہر لگا کر روانہ ہوا۔ اتفاقاً بازار سمر قند میں کسی کام کے لیے بزاز کی دکان پر ٹھیر گیا اور اس نے شہد کے ڈبوں کو اپنے سامنے رکھ لیا۔ ناگاہ ایک خوبصورت مست عورت جو اس بزاز کی آشنا تھی وہاں آئی اور دکان کے ایک طرف بیٹھ کر بزاز سے باتیں کرنے لگی۔ اس خادم نے دو تین بار نظر حرام سے اس عورت کو دیکھا۔ پھر وہ ڈبوں کو اٹھا کر تاشقند لے آیا۔ جب وہ حضرت کے دولت خانہ میں پہنچا تو آپ جنگل تشریف لے گئے تھے۔ اُس نے آپ کے پیچھے جانا چاہا۔ اتنے میں حضرت تشریف لے آئے۔ اس نے وہ ڈبے پیش کیے۔ جب حضرت کی نظر ان ڈبوں پر پڑی تو خفا ہوکر فرمایا کہ ان ڈبوں سے شراب کی بو آتی ہے۔ اے بد بخت! میں نے تجھ سے شہد لانے کو کہا تھا۔ تو میرے واسطے شراب لے آیا۔ خادم نے عرض کیا کہ میں تو شہد لایا ہوں۔ آپ کے ارشاد سے جب کھول کر دیکھا گیا تو ہر ڈبہ شراب سے بھرا ہوا پایا گیا۔
وصال مُبارک:
آپ کی تاریخ وفات شب شنبہ ۲۹ ربیع الاول ۸۹۵ھ ہے۔ شام و خفتن(سونے کاوقت) کے درمیان جب آپ کا نفس شریف منقطع ہونے لگا تو مکان میں بہت سی شمعیں روشن کی گئیں۔ جن سے وہ مکان نہایت روشن ہوگیا۔ اس حال میں اچانک دیکھا گیا کہ آپ کے دو ابروئے مبارک کے درمیان ایک نور چمکتی بجلی کی طرح نمودار ہوا۔ جس کی شعاع نے شمع کے نور کو ماند کردیا۔ حاضرین نے اس نور کا مشاہدہ کیا۔ بعد ازاں آپ کا وصال ہوگیا۔ اور محلّہ خواجہ کفشیر میں محوطہ ملایاں میں دفن ہوئے آپ کی اولاد بزرگوار نے آپ کے مرقد مبارک پر عالیشان عمارت تعمیر کردی اور قبر مبارک کو نہایت عمدہ وضع پر بنایا۔
(مشائخِ نقشبندیہ)