حضرت میراں سید شاہ بھیکہ
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1046 | رجب المرجب | 07 |
یوم وصال | 1131 | رمضان المبارک | 05 |
حضرت میراں سید شاہ بھیکہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت میراں سید شاہ بھیکہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت میران شاہ بھیکہ شیخ وقت تھےاورقطب زماں تھے۔
حسب و نسب:
آپ کانسب نامہ پدری کئی واسطوں سےحضرت امام حسین پرمنتہی ہوتاہے۔۱؎پس آپ حسینی ہیں، آپ کا سلسلہ مادری سیدزیدکےلشکرسےجاملتاہے۔
خاندانی حالات:
سرورعال حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےزیدکوجوآپ کےاجدادسےتھے،ہندوستان جانےکی بشارت دی۔حسب اشارت بربشارت حضرت زید مع متعلقین ترمذ سےہندوستان آئےاور سیانامیں قیام فرمایا۔سیاناکوایک برہمن رئیس نےاپنےنام پرآبادکیاتھااوروہی اس شہرکاحاکم تھا۔
حضرت زید نے معرکہ جنگ میں وفات پائی،ان کی وفات کےبعدسیدسلیمان نےسیاناپرچڑھائی کی۔ سیاناکوفتح کرنےکےبعداس کانام سیوانہ رکھا۔۱؎
والدماجد:
آپ کےوالدماجدکانام سیدیوسف ہے،وہ سیدقطب الدین کےصاحب زادےتھے۔
والدہ ماجدہ:
آپ کی والدہ ماجدہ کانام بی بی ملکوہے۔۲؎
ولادت:
آپ ۷ رجب ۱۰۴۶ھ کوپیداہوئے۔۳؎
نام:
آپ کانام محمدسعیدہے۔
کنیت:
آپ کی کنیت"میران سیدشاہ بھیکہ ہے"اورآپ اسی کنیت سے مشہورہیں۔
بچپن کاصدمہ:
آپ کی عمرجب سات سال کی ہوئی،آپ کےوالدنےجام شہادت نوش فرمایا۔
ترک سکونت:
آپ کےوالدکےانتقال کےبعدخاندانی جھگڑوں اوراہل خاندان کےحسدکےباعث آپ کی والدہ ماجدہ آپ کوہمراہ لےکرسیوانہ سےکہرام آئیں اورکہرام میں سکونت پذیرہوئیں۔
تیرعشق:
آپ کی والدہ نےکہرام پہنچ کرآپ کو ایک مکتب میں داخل فرمایا۔وہاں آپ کوایک ہندولڑکےسے محبت ہوگئی۔محبت چھپنےوالی چیزنہیں۔مکتب میں چرچاہونےلگا۔ایک دن مکتب کےلڑکوں نےاس ہندولڑکےکوملامت کی اوراسےکہاکہ فقیرکےلڑکےسےمحبت کرنامناسب نہیں ہے۔۴؎جب آپ کویہ معلوم ہواتوآپ کوان کایہ کہناناگوارگزرا۔آپ نےایک لڑکےکوجوسب کاسرغنہ تھا،ایسے زوردارطمانچہ ماراکہ اس کےجبڑے ٹوٹ گئے۔
سزا:
معلم کےپاس آپ کی شکایت گئی۔معلم نےآپ کومکتب سے نکال دیا۔
کھیل کود:
مکتب سے نام کٹ جانےکےبعدآپ نےلکھناپڑھناچھوڑدیا،دن بھرلڑکوں کےساتھ گلی کوچوں میں کھیلتے پھرتےتھے۔
غیبی امداد:
آپ اسی طرح گلی کوچوں میں کھیلتےپھرتےتھےکہ ایک دن شاہ جلال جوشاہ فاضل مجذوب کےبھائی تھے۔مریدوں کی تعلیم وتربیت کےواسطےکہرام میں تشریف لائے،انہوں نےآپ کودیکھ کرآپ کے متعلق دریافت فرمایا،جب ان کو یہ معلوم ہواکہ آپ سیدیوسف کےفرزند ہیں توان کوآپ سے ہمدردی پیداہوئی،بہت محبت سےآپ پیش آئے۔
انہوں نےآپ کوسمجھاتےہوئےفرمایا۔۵؎
"میاں صاحب زادے!یہ کھیل کودکانہیں ہے،یہ زمانہ لکھنےپڑھنےکاہے"۔
آپ نےجواب دیا۔
"اس سے قبل میں پڑھتاتھا،اب کیاکروں کہ معلم نےمجھ کومکتب سے نکال دیا"۔
حضرت شاہ جلال نےیہ سن کرآپ کی تسلی و تشفی کی اورآپ سےفرمایاکہ گھبرانےکی کوئی بات نہیں ہے،وہ ہرطرح کی سہولت پہنچانےکی کوشش کریں گےاورمعلم کو بھی آپ کی تعلیم کے متعلق ہدایت فرمائیں گے۔
اسی رات کوانہوں نےاپنے چارمریدوں کوہدایت فرمائی کہ وہ آپ کی ہرطرح کی خبرگیری کریں اور آپ کےخوردونوش ،پوشش اورخرچ کاغذ وغیرہ کامعقول انتظام کریں اورآپ کی تعلیم سے کسی طرح کی غفلت نہ برتیں۔
آپ کوبلاکرحضرت شاہ جلال نےاپنےساتھ کھاناکھلایااورتھوڑاکھاناآپ کودیاکہ اپنی والدہ کوجاکر دیں،اس پرآپ نےشاہ جلال سے کہا۔
"ان کارزاق حق تعالیٰ ہے"۔
دوسرےدن علی الصبح حضرت شاہ جلال مٹھائی،کاغذ اورپوشاک لےکرآپ کےیہاں آئے،آپ سورہےتھے،آپ کوجگایا،کپڑےپہناکرآپ کومعلم کےپاس مکتب میں لےگئے۔
سفارش:
وہاں پہنچ کرانہوں نےمعلم سے فرمایاکہ۔
"تمہارےپاس ایک سفارش لےکرآیاہوں"۔
معلم سمجھ گیاکہ کس کی سفارش کےواسطےتشریف لائے ہیں۔اس نےشاہ جلال سے عرض کیا:
"جوکچھ آپ فرمائیں،دل و جان سےقبول ہے،لیکن سیدشاہ بھیکہ کےبارے میں سفارش نہ کریں"۔
اس پرشاہ جلال کو غصہ آیااورانہوں نےمعلم سے فرمایا:
"تومردودہےکہ پیرکےحکم سے سرتابی کرتاہے"۔
معلم نےمعافی مانگی اورحضرت شاہ جلال کاحکم بجالانےپرآمادہ ہوگیا۔
حضرت شاہ جلال نےمعلم کوتاکیدکرتےہوئےفرمایا:
"یہ تمہارےپاس قرآن مجید،گلستان اوربوستان پڑھیں گےاورکچھ ہی دنوں میں خلیفہ مکتب ہوجائیں گے"۔
حضرت شاہ جلال نےمعلم کےکان میں آہستہ سے کہاکہ۔
"تم نہیں جانتےہوکہ سیدزادہ قطب زمان ہے،تم کو چاہیےکہ اس کی خدمت خوب کرواوراس کی تعلیم میں کسی قسم کی غفلت یاتغافل نہ برتو"۔
تعلیم:
اسی روزسےمعلم نےآپ کی تعلیم پرخاص توجہ دی،آپ نےچھ مہینےمیں"کلام اللہ"،گلستاں" اور "بوستاں"ختم کرکےخلیفہ مکتب کےفرائض بحسن وخوبی انجام دئیے۔۶؎
معلمی:
کہرام کےایک شخص کاعہدہ فوجداری پرتقررہوا،جب وہ اپنےعہدہ کاچارج لینےکی غرض سے
کہرام سے روانہ ہواتواس نےاپنےلڑکےکی تعلیم کےواسطے آپ کواپنےہمراہ لیا۔۔۔۔کچھ عرصے تک آپ اس لڑکےکوپڑھاتے رہے،لیکن جب اس نےیہ دیکھاکہ آپ ہرمذہب و ملت کے فقیروں کےپاس جاتے ہیں اوران سے طالب ہوتےہیں،اس شخص کویہ خیال ہواکہ معرفت الٰہی کے شوق میں آپ ان فقیروں میں سے کسی کے ساتھ نہ چلےجائیں،اس لئےآپ کوآپ کی والدہ کے پاس کہرام پہنچادیا۔
ملوی میں قیام:
کہرام سےپندرہ کوس کےفاصلےپرموضع ملوی واقع ہے،وہاں ایک درویش مسمی بےنواشاہ قاسم رہتےتھے۔آپ ان کےپاس موضع ملوی چلےگئےاوروہاں قریب ایک سال قیام فرمایا،آپ کے سپرد خدمت تھی کہ بھاڑ کےلئےلکڑیاں جمع کیاکریں۔
ایک دن کا واقعہ ہےکہ بےنواشاہ قاسم نےاپنےگھرکی چھت پاٹنےکےلئے شہتیربنوایا،انہوں نے اپنےمریدوں سےاس شہتیرکےاٹھانےکےلئےفرمایا،وہ شہتیراتناوزنی تھاکہ کسی سےنہیں اٹھا، سب زورکرکےرہ گئے۔آپ نے اس شہتیرکوتن تنہااٹھاکردیوارپر رکھ دیا،وہ شہتیرکسی قدر چھوٹا تھا،آپ کاہاتھ لگنےسےوہ پوراہوگیا۔
یہ بات بےنواشاہ قاسم کےمریدوں کوناگوارگزری۔انہوں نےشکایت کی کہ وہ اتنےدنوں سے ہیں، انہیں کچھ حاصل نہیں ہوااورآپ کےمتعلق کہاکہ اس شخص کواتنی کم مدت میں صاحب تصرف کردیا۔
حضرت شاہ قاسم نےان لوگوں کواس طرح سمجھایاکہ۔۷؎
"قاسم حقیقی حق تعالیٰ ہے،یہ خود سیدزادہ ہیں،باپ داداان کےصاحب کمال تھے،مجھ کودخل اس میں نہیں ہے"۔
رخصت:
اتفاق سےبےنواشاہ قاسم کےپیرومرشدبھی وہاں مقیم تھے،انہوں نےبےنواشاہ قاسم سےفرمایا کہ:
"ہم اورتم حوض صغیرکےہیں اورمیران جی ماننددریائےعظیم کےہیں،ان کی سیرابی ہم سے نہ ہوگی،ان کو رخصت کرو"۔
بےنواشاہ قاسم نےاپنےپیرومرشدکااشارہ پاک رخصت کیا۔
رہنمائی:
اب آپ کےسامنےسوال یہ تھاکہ کہاں جائیں۔۔شاہ بھاول نےآپ کی رہنمائی کی اورآپ سے حضرت شاہ ابوالمعالی کےپاس چلنےکوکہا،آپ نےشاہ بھاول کامشورہ قبول کیااورآپ اورشاہ بھاول اینٹہ روانہ ہوئے،جہاں حضرت شاہ ابوالمعالی رہتےتھے۔
بیعت:
جب اینٹہ کےقریب پہنچے،آپ ایک جگہ بیٹھ کرحقہ پینےلگےاورشاہ بھاول آپ سےپہلے حضرت شاہ ابوالمعالی کی خدمت میں حاضرہوئے۔
حضرت شاہ ابوالمعالی نےان سے پوچھا:
"رفیق کوکہاں چھوڑا"۔
انہوں نےعرض کیاکہ پیچھےآتےہیں۔
تھوڑی دیرکےبعدشاہ بھاول آپ کولینےکی غرض سے وہاں سے اٹھے،آپ راستہ میں مل گئے، دونوں باتیں کرتےہوئےحضرت شاہ ابوالمعالی کےپاس روانہ ہوئے۔راستے میں شاہ بھاول نےآپ کو بتایاکہ حضرت شاہ ابوالمعالی بہ طرف پائیں چارپائی پربیٹھے ہیں۔
آپ جب حضرت شاہ ابوالعالی کی خدمت میں حاضرہوئےتوانہوں نےآپ کودیکھتے ہی فرمایا:
"بیامیران۔من رفیق توکجاست یعنی حقہ"
(آؤ میرےمیران۔تمہارارفیق کہاں ہے،یعنی حقہ)
آپ نےعرض کیاکہ اس کو میں نےچھوڑدیا،اس وقت سے آپ نےحقہ پیناچھوڑدیا۔بعدازاں حضرت ابوالمعالی نےآپ کومریدکیا۔آپ کوتعلیم فرمائی اورذکرکی تلقین کی۔
واپسی:
آپ کےپیرومرشدنےآپ کورخصت کیا۔وہاں سے روانہ ہوکرآپ ملوی پہنچےاوروہاں تین دن بے ہوش رہے۔آپ کےمنہ سے کف جاری تھا۔تین دن کےبعدآپ کوہوش آیا۔
وہاں سےروانہ ہوکرآپ کہرام پہنچےاورمحمد فاضل قانون گوکی مسجدمیں رہنےلگے،کچھ عرصےاس میں قیام کیا،پھرایک دوسری مسجدمیں جوآپ کےمزارکےقریب ہے،رہناشروع کیا۔
آپ نےایک شخص سے کھانےکےواسطے فرمایا،وہ روزانہ آپ کےواسطےکھانالاتاتھا،لیکن آپ چھ سات روزکےبعدایک روٹی پانی میں ترکرکےتناول فرماتےتھے۔
کشف:
ایک دن آپ کوبذریعہ کشف معلوم ہواکہ آپ کےپیرومرشدحضرت شاہ ابوالمعالی کی داڑھی کا ایک بال بوریہ پر گراہے،آپ اس بال کولینےکی غرض سے اینٹہ آئے،تلاش کرکےوہ بال بوریہ پر سے اٹھاکراپنےپاس رکھا۔
آپ کےپیرومرشدکوآپ کی اس بات سے یہ خیال پیداہواکہ کہیں ایسانہ ہو کہ آپ اس قسم کی مکشوفات میں الجھ کررہ جائیں اورمقصد حقیقی سے دوررہ جائیں،چنانچہ آپ کےپیرومرشد نےآپ سے فرمایاکہ۔۸؎
"میران!یہ فقرنہیں ہے،فقردوسری چیزہے"۔
آپ کےپیرومرشدنےآپ کوایک مرغ مرغن تین روزتک بھون کرکھلایا،اس کےکھانےسے آپ کو صفائی قلب حاصل ہوئی،پھرانہوں نےآپ کو رخصت کیااورآپ کوخداکےساتھ مشغول
رہنےکی ہدایت فرمائی۔
پس آپ کہرام واپس آئےاوریادحق میں مشغول ہوئے۔
طلبی:
چنددنوں کےبعدآپ کےپیرومرشدنےآپ کوایک رقعہ بھیجا۔آپ کواینٹہ طلب فرمایاتھا۔آپ کثرت مجاہدہ،ریاضت اورکم کھانےاورکم سونےکی وجہ سے اتنےکمزورہوگئےتھےکہ آپ کا سفرکرنا دشوارتھا،چنانچہ آپ نےاپنےپیرومرشدکویہی لکھاتھاکہ کمزوری اتنی ہے کہ سفرکی ہمت نہیں،البتہ جلد ہی خدمت بابرکت میں حاضرہوں گے۔
آپ کےرقعہ کاجواب لےکرجب آدمی روانہ ہوگیاتوآپ کو خیال آیا کہ پیرومرشد کےبلانے پر ضرور جاناچاہیے۔اس خیال کےآتے ہی آپ اس آدمی کے پیچھےاینٹہ روانہ ہوگئےاورآفتاب غروب ہونےسے ذراپہلےآپ اینٹہ پہنچ کراپنےپیرومرشدکی قدم بوسی سےمشرف ہوئے۔
آپ کےپیرومرشدجےآپ سے دریافت فرمایاکہ کہرام سےکب چلےتھے۔
آپ نےسب قصہ بیان کیااورعرض کیاکہ آج ہی دوپہرکہرام سے روانہ ہوئے تھے۔پھرآپ کے پیرومرشدنےپوچھاکہ یہ توبتاؤ کہ دریاکس طرح پارکیا؟
آپ نےعرض کیا۔
"پانی کےاوپرچلاآیااورپاؤں میرے ترنہیں ہوئے"۔
سوال وجواب ختم ہوئے،آپ کےپیرومرشدنےآپ کو رخصت کیااورآپ سےفرمایا۔۹؎
"اسباب ظاہرکی رعایت ضروری ہے"۔
عبادت ومجاہدہ:
اینٹہ سے کہرام واپس ہوتے ہوئے کشتی سے دریاپارکیا۔کہرام پہنچ کرعبادت و ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوئے،رات کو کنویں پرایک تختہ بچھاکراس پربیٹھ کرعبادت کرتےاوراپنے نفس کو آگاہ کرتےکہ اگرسویاتوکنویں میں گرےگا،پوشاک کایہ حال تھاکہ پرانےکپڑے گلیوں میں سے اٹھاکر پانی سےدھوکراورسی کر پہنتے تھے۔
خرقہ خلافت:
آپ کےپیرومرشدنےرخصت کرتے وقت آپ کوہدایت فرمائی تھی کہ اینٹہ نہ آئیں،جب مناسب ہوگا،وہ خودہی کہرام آئیں گے۔کچھ عرصےکےبعدآپ کےپیرروشن ضمیرکہرام میں رونق افروزہوئےاورآپ کوپیراہن،کلاہ،جامہ اورچادرعنایت فرمائی۔
آپ نےبصد عاجزی عرض کیا۔۱۰؎
"بندہ کواس لباس کےپہننےکی لیاقت نہیں ہے"۔
آپ کےپیرومرشدنےفرمایاکہ:
"میں کہتاہوں اورتم عذرکرتےہو"۔
بحکم پیرومرشدآپ نےوہ لباس پہنا،آپ کےپیرومرشدنےآپ کو خلافت سے سرفرازفرمایا۔
شاہی دربارسےتعلقات:
محمدشاہ کےعہدمیں ایک سال بارش نہ ہونےکی وجہ سے مخلوق بہت پریشان تھی۔بادشاہ کوآپ کانام بتایاگیاکہ اگرآپ دعاکریں تویقیناًبارش ہو۔محمدشاہ نےسرہندکےحاکم کےنام ایک فرمان جاری کیا، جس میں اس نےآپ کو دہلی لانے کی تاکیدکی اورایک عریضہ آپ کی خدمت میں بھیجا۔آپ نے معذرت چاہی،جس وقت آپ کوخط ملاوہاں خوب بارش ہوئی،محمدشاہ نےآپ کو نذرانہ بھیجا،جوآپ نے بہ مشکل قبول فرمایا۔
ایک مرتبہ محمدشاہ نےنواب روشن الدولہ کوآپ کی خدمت میں بھیجا،آپ کی خدمت میں کچھ مٹھائی اورکچھ کپڑے محتاجوں کوتقسیم کرنےکےلئےبھیجےاورآپ سے اس امرکی دعاچاہی کہ اس کی اولاد میں ہمیشہ سلطنت رہے۔آپ نےمراقبہ کیااورفرمایاکہ محمدشاہ کوحضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی سفارش سلطنت ملی ہےاورحضرت نظام الدین اولیاءرحمتہ اللہ علیہ نےدوپشت سفارش کی تھی ،اس میں کس کی مجال کہ دخل دے۔
وفات:
آپ ۵ رمضان المبارک ۱۱۳۱ ھ کو واصل بحق ہوئے۔ مزار پر انوار کہرام میں حاجت روائے خلق ہے۔
خلفاء:
آپ کےبیالیس خلیفہ تھے،آپ کےمشہورخلفاءحسب ذیل ہیں۔۱۱؎
شاہ محمد باقر،شاہ نظام الدین،سید فاضل،سیدعبدالمومن،شیخ نعمت اللہ۔۔۔۔میاں شاہ اورنگ، خواجہ مظفر،غلام محمد،محمدافضل شاہ لطف اللہ جالندھری،سیدمحمد سالم ترمذی روپڑی۔
سیرت:
آپ اپنےوقت کےقطب تھے۔عبادت،ریاضت اورمجاہدہ میں مشغول رہتے تھے۔نذرانہ جو آتا، اس میں سےخادموں کےخرچ کےواسطے نکال کرباقی اپنےپیرومرشدکوپیش کرتے،آپ کالنگرعام تھا۔
تعلیمات:
ایک مرتبہ آپ کی مجلس میں آیت کریمہ:
لایمسہ الاالمطھرون
کےمعنی ومضمرات پربحث شروع ہوئی۔ایک عالم جو وہاں موجودتھا،اس نےکہا کہ:
"اس جگہ معنی انشاء میں ہے(یعنی یہ ہیں چاہےکہ نہ چھوئیں قرآشریف کو،لیکن پاک لوگ"جو حدث اصغرسےپاک ہوں")۔
آپ نےیہ سن کرفرمایاکہ"کیاضرورت ہےکہ اخبارکومعنی انشاءمیں حمل کرین،یہ کیوں نہیں کہتے، مس نہیں کرے(قرآن وادراک معنی واسرارکےکو)مگرپاک لوگ(کہ پاک ہوں آلائش بشری سے"۱۲؎
آپ اپنےمریدوں کوآدھی رات سےزیادہ سونےکی اجازت نہیں دیتےتھے۔
فرمان:
پیرکومریدشناسی چاہیے۔
درودووظیفہ:
آپ اپنےمریدوں کوذکراسم ذات جہرکےساتھ تلقین کرتےتھے۔آپ فرماتے ہیں کہ۔
"فقیرکوچاہیے کہ ایک لاکھ مرتبہ ذکراسم ذات کیاکرکے،اگرچالیس مرتبہ ہرروزانہ کرے تواس کو لقمہ درویشی ودلق حرام ہے"۔
کشف و کرامات:
آپ کےپیرومرشدکےحجرےکی چھت خراب ہوگئی۔سب مریدوں نےچھت کی مرمت کی، لیکن چھت ٹھیک نہیں ہوئی،آپ کےپیرومرشدنےمسکراکرفرمایاکہ "میران جی سے چھت درست ہوگی۔آپ اس زمانےمیں چلہ میں تھے۔آپ کوبلایاگیا۔آپ چلہ سے باہر آئےاورچھت درست کرنےمیں مصروف ہوئے۔آپ نےگھاس اکھاڑی،پھرمٹی اورپانی ڈال کرچھت کوکوٹنا شروع کیا،جتنی بارکوٹتےتھے،ہربارہرضرب پرایک مقام ظاہرہوتاتھا۔
آپ کاایک مریدموضع نوندھن میں رہتاتھا،اس کاایک لڑکاتھا،جس کی عمردس سال کی تھی۔ایک دن اس لڑکےکاانتقال ہوگیا،اتفاق سے اسی دن آپ اس موضع میں رونق افروزہوئے۔اس مریدکو جب یہ معلوم ہوا،آپ کواپنےگھرلایااورلڑکےکی نعش کوایک کوٹھری میں بندکردیا،جب آپ کے سامنےکھانالایاگیاتوآپ نےکھانےسےانکارکیااورفرمایا"جب تک اس کالڑکا نہ آئےگااورکھانانہ کھائےگا،آپ بھی کھانانہیں کھائیں گے۔مریدنےبہانہ کیااورعرض کیاکہ لڑکاکہیں کھیلتاہوگا، معلوم نہیں کب آئے۔اس کاانتظار بےکار،آپ نےفرمایاکہ جب بھی آئےگا،تب ہی کھاناکھائیں گے۔اب اس مریدنےمجبورہوکرعرض کیاکہ"لڑکاآپ کےآنےسے دوساعت پہلےمرگیا، اس کی نعش کوٹھری میں رکھی ہے"آپ نےفرمایا"لڑکامرانہیں ہے،جاکردیکھو،اگرسوتاہوگاتوجگاکرلاؤ" وہ شخص جب کوٹھری میں گیاتودیکھاکہ لڑکاسانس لیتاہے،اس کو ہلایا،وہ اٹھ بیٹھااوراپنےباپ کے ساتھ باہر آکرآپ کا قدم بوس ہوا۔
حواشی
۱؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۳
۲؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۳
۳؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۳
۴؎بستان معرفت ص۱۰۹
۵؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۴
۶؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۴
۷؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۵
۸؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۵
۹؎بستان معرفت ص۱۱۱
۱۰؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۶
۱۱؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۶
۱۲؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۷
۱۳؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۱۷
۱۴؎انوارالعارفین(فارسی)ص۴۲۰،۴۱۴
۱۵؎بستان معرفت ص۱۱۴
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)