حضرت میراں سید شاہ بھیکہ

حضرت میراں سید شاہ بھیکہ رحمۃُ اللہ علیہ

آپ حضرت شاہ ابوالمعالی چشتی قدس سرہ کے خلیفۂ اعظم اور جانشین تھے بڑے صاحب مقامات اور مدارج تھے ذوق شوق وجد و سماع استفراق و عشق و محبت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے متاخرین میں آپ کے مقابلے میں کوئی دوسرا ولی اللہ نہیں تھا۔ آپ کے اکثر مرید قطب۔ ابدال اور اوتاد کے مراتب تک پہنچے تھے آپ ہندی زبان میں شعر اور دوہڑے کہا کرتے تھے ان اشعار میں تو صبدو عرفات کے مضامین ہوتے تھے ان کے کلام کو کئی قوال مجالس سماع میں پڑھا کرتے تھے جس سے صوفیا اور درویش کے ذوق و شوق میں اضافہ ہوتا تھا۔

آپ صحیح النسب حسینی سید تھے اور ترمذی سادات کی شاخ سےتھے آپ کا شجرہ نسب چند واسطوں سے حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے محمد سعید میراں بھیکہ بن سیّد محمد یوسف سوانیہ بن سید قطب شاہ بن سید عبدالواحد بن سید احمد بن سید امیر سعید بن سید نظام الدین سید عزیز الدین بن سید شاہ تاج الدین بن غرالدین نوبہار بن سید عثمان بن سید شاہ سلمان کفار شکن بن شاہ زید سالار لشکر بن سید امیر احمد زاہد بن سید امیر حمزہ بن سید ابابکر علی بن سید عمر علی بن سید محمد تختہ بن سید علی شاہ رہبر کا کی بن سید حسین ثانی الملقب بہ حمیص بن سید محمد مدنی لقب حمیض بن سید حسن شاہ ناصر تاحد ترمذی بن سید موسیٰ حمیص بن سید علی حسن حمیص بن سید حسین علی اصغر بن زین العابدین بن سید الثقلین امام حسین رضی اللہ عنہ۔

حضرت میران شاہ بھیکھہ کی والدہ ماجدہ بی بی ملکہ بھی سادات سے تھیں آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے شاہ زید سالار لشکر سے جا ملتا ہے حضرت میران بھیکھہ کے آباؤ اجداد سے شاہ زید سالار لشکر پہلے شخص ہیں جو ترمذ سے ایک زور دار لشکر لے کر ہندوستان میں جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور یہاں آکر سیوانہ میں قیام کیا وہاں کا راجہ سیوانہ بڑے حاسد اور غصیل تھے اس نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے شہید کردیا آپ کے صاحبزادگان نے جنگ شروع کی اور راجہ سیوانہ شکست کھا کر بھاگ گیا۔ ان سادات کرام نے سیوانہ میں قیام کیا حضرت سلطان شمس الدین التمش شہنشاہ دہلی آپ کی کرامت سے متاثر ہوکر تو اپنی بیٹی سید شہاب الدین کے نکاح میں دے دی۔ سید شہاب الدین سید زید شہید کے بیٹے تھے یہ خاندان دولت اور ثروت کا مالک بن گیا۔

ثمرۃ الفواد کے مولّف نے لکھا ہے کہ حضرت سید میراں بھیکھہ نو سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی پرورش میں بڑا گہرا حصہ لیا اور اخوند فرید کی خدمت میں لے گئیں جہاں آپ کو ظاہری اور باطنی تعلیم ملی تحصیل علوم کے بعد آپ سید شاہ ابوالمعالی چشتی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ہوئے اور آپ درجۂ کمالات کو پہنچے۔

حضرت شاہ بھیکھہ کا ایک مرید موضع نوندہن میں رہا کرتا تھا اتفاقاً اس کا دس سالہ بچہ فوت ہوگیا اسی وقت حضرت شاہ اس کے گھر تشریف لائے اس نے مردہ بچے کو ایک علٰیحدہ کمرے میں بند کردیا اور خود اور اس کی اہلیہ حضرت کی خدمت میں سر و قد کھڑے ہوگئے جب تک حضرت پیر و مرشد اور ان کے ساتھ مہمان کھانے کے دسترخوان پر نہ بیٹھے کسی نے بچے کی موت کی اطلاع نہ دی کھانا کھانے سے پہلے حضرت سید میراں بھیکھہ نے اپنے مرید کو کہا کہ اپنے بیٹے کو لاؤ وہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھائے اس نے بتایا وہ گاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے گیا اس وقت اس کا حاضر ہونا نا ممکن ہے مگر آپ نے اصرار فرمایا وہ جہاں ہو اسے تلاش کر کے لایا جائے ہم اس کے بغیر کھانا نہیں کھائیں گے چنانچہ میزبان نے ساری صورت حال بیان کردی اور زار زار رونے لگا۔ آپ نے فرمایا تمہارا بیٹا مرا نہیں سویا ہوا ہے اسے اٹھا کر لاؤ وہ اندر گیا بیٹے کو اٹھایا وہ اُٹھ کر باہر آگیا اور حضرت سیّد کے قدموں میں آگرا حاضرین میں ایک نعرہ بلند ہو گیا اس واقعہ کو دیکھ کر ہزاروں لوگ آپ کے مرید بن گئے ایک ہندو جس کا نام بیربر تھا۔ وہ موضع بی بی پور رہتا تھا۔ اُسے مسلمانوں سے بہت دشمنی تھی وہ صبح سویرے کسی مسلمان کا منہ دیکھنا بھی پسند نہ کرتا تھا اتفاقاً وہ کسی لڑائی اور سرکاری حکام سے مقابلہ کرنے کے جرم میں گرفتار ہوگیا صوبہ سرحد کے حاکم نے اُسے موت کی سزا دی چنانچہ اُسے جیل سے باہر لاکر بازار کے چوک میں پھانسی لگانے کے لیے جارہے تھے راستے میں حضرت شاہ میراں بھیکھہ کی سواری آرہی تھی اُس نے آپ کو دیکھا تو سپاہیوں سے بھاگ کر آپ کے پاؤں میں جاگرا۔ اور رو رو کر کہنے لگا مجھے زندگی کی اُمید ختم ہوچکی ہے کوتوال میرے قتل کے لیے انتظار کر رہا ہے جلاد ہاتھ میں تلوار پکڑے لہرا رہا ہے اور لوگ میرے قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے جمع ہیں اس مشکل وقت میں اگر آپ میری مدد کریں تو میں کلمۂ توحید پڑھ کر مسلمان ہوجاؤں گا۔ آپ نے فرمایا فکر نہ کرو تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ آپ یہ کہہ کر اپنی سواری کو آگے لے گئے سپاہیوں نے بیربر کو قتل گاہ پہنچادیا۔ ابھی اس کو قتل نہ کیا گیا تھا تو کو توال کو نیا حکم پہنچا کہ بی بی پور کے زمیندار کو ہمارے دربار میں حاضر کیا جائے وہ دربار میں لایا گیا تو حاکم وقت نے اس کی سزائے موت معاف کردی اس کو آزاد کردیا گیا اور نیا لباس پہنا کر اُسے رخصت کردیا گیا وہ اُسی وقت حضرت شاہ کی خدمت میں حاضر ہوا کلمۂ پڑھا اور مرید ہوگیا آپ نے اُس کا نام پیر شاہ رکھا۔

ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ مرید بن سکے لیکن دل میں خیال کیا کہ اگر یہ پیر کامل ہے تو مجھے ایک خربوزہ دیں گے حالانکہ یہ خربوزوں کا موسم نہیں تھا حضرت شاہ نے اس کے دل کی بات نور باطن سے جان لی اور ایک خادم کو کہا کہ آج میں نے حجرے کے تاک میں نصف خربوزہ اس شخص کے لیے رکھا تھا وہاں سے اُٹھا لاؤ اور اُسے کھلا لاؤ۔ سائل نے خربوزہ لے لیا اور سچے دل سے مرید ہوگیا ایک دن ایک ہزار چار سو سنیاسی فقیر جو ہندو تھے حضرت میراں کی خانقاہ میں مہمان بن کر آگئے کیونکہ آپ کا لنگر ہندو مسلمان سکھ عیسائی سب کے لیے عام تھا۔ لنگر کے ملازموں نے حضرت کی خدمت میں گزارش کی کہ آج ہمارے پاس صرف ایک سیر آٹا ہے اور چند من غلہ موجود ہے اب کیا حکم ہے آپ نے فرمایا آٹا اور چینی اور دوسری چیزیں میرے پاس لے آؤ اور ایک بڑے برتن میں ڈال لو۔ آپ نے اس برتن میں ہاتھ ڈالا اور فرمایا اب ہر ایک فقیر کو دو دو روٹیاں ایک ایک پاؤ شکر اور ایک پاؤ گھی دیتے جاؤ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر دیتے جاؤ۔ اللہ برکت دے گا۔ خادموں نے تقسیم شروع کردی اور ایک ہزار چار سو فقیر پیٹ بھر کر اٹھے ابھی آٹا اور شکر باقی بچے ہوئے تھے کہ وہ کھا کر چلے گئے۔

ایک بار حضرت شاہ میراں بھیکھہ دہلی شہر میں نواب تہوار زمان کے گھر تشریف فرما تھے ایک خادم چند پان لے کر اور اسے تشتری میں رکھ کر آپ کی خدمت میں لایا آپ نے یہ پان حاضرینِ مجلس کو تقسیم کیے۔ مگر تہوار خان کو پان نہ دیا۔ تہوار خان کے دل میں خیال گزرا کہ خدا معلوم مجھے کیوں نظر انداز کیا گیا ہے یہ خیال آتے ہی تشتری سے ایک پان خود بخود اڑا اور تہوار خان کے ہاتھ میں چلا گیا آپ نے فرمایا تہوار خان تمہاری مراد پوری ہوگئی وہ اُٹھا سرجھکا کر آپ کے قدم چومنے لگا۔

آپ نو ماہ رجب بروز اتوار ۱۰۴۶ھ ہجری کو پیدا ہوئے تھے اور پانچ رمضان ۱۱۳۱ھ ہجری کو فوت ہوئے آپ کی عمر چوراسی سال تھی جب آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کو قصبہ کہڑام میں دفن کیا گیا۔ آپ کے مرید نواب روشن الدولا نے آپ کا روضۂ مبارک تعمیر کروایا۔ ثمرۃ الفواد کے مصنف نے آپ کی تاریخ وفات شاہ بھیکھہ مقبول (۱۱۳۱ھ) خدا کے لفظوں سے نکالا ہے۔

ہم یہاں وضاحت کردینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ شاہ میراں بھیکھہ کے بے شمار خلفاء تھے یہاں ان بزرگان دین کا تذکرہ کرنا مشکل ہے تاہم چند خلفاء کے اسمائے گرامی مجملاً بیان کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔

اوّل: شاہ محمد باقر قدس سرہ جو شاہ ابوالمعالی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند تھے۔

دوم: شاہ امام الدین جو حضرت شاہ محمد باقر کے بیٹے تھے۔

سوم: شاہ نظام الدین جو حضرت شاہ محمد باقر کے دوسرے بیٹے تھے۔

چہارم: شاہ محمد جنہوں نے حضرت پیر و مرشد کی موجودگی میں ایک مجلس سماع میں جان دے دی۔

پنجم: شاہ عابد کوٹلہ والا قدس سرہ

ششم: سید عبدالمومن جنہیں ارادت توشاہ ابو المعالی سے تھی مگر خرقۂ خلافت آپ سے حاصل کیا تھا۔

ہفتم: شاہ نعمت اللہ آپ بھی شاہ ابوالمعالی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے مگر خلافت شاہ بھیکھہ سے ملی۔

ہشتم: شاہ نورنگ قدس سرہ۔

نہم: خواجہ مظفر نواب روشن الدّولہ (ظفر خان بہادر)

دہم: نواب بکہاری خان ولد روشن الدّولہ جنہوں نے لاہور کی سنہری مسجد بنائی تھی۔

یاز دہم: شیخ امان اللہ رحمۃ اللہ علیہ۔

دواز دہم: سید محمد جواد رحمۃ اللہ علیہ آپ شاہ زبیر شہید کی اولاد سے تھے۔

سیزدہم: میاں اللہ بندہ رحمۃ اللہ علیہ۔

چہار دہم: سید محمد نعیم رحمۃ اللہ علیہ۔

پانز دہم: مرتضیٰ گردیزی قدس سرہ

شانز دہم: سید غلام اللہ آپ حافظ قرآن کریم تھے۔

ہفتدہم: میاں محمد شاہد رحمۃا للہ علیہ آپ پہلے مغلیہ فوج میں سہ ہزاری منصب پر فائز تھے۔ پھر ترک دنیا کر کے آپ کی خدمت میں آگئے۔

ہژدہم: شاہ سجاول قدس سرہ۔

نور دہم: حاجی بیت اللہ صاحب حال و قال تھے آپ نے حضرت بھیکھہ قدس سرہ کے احوال و آثار پر بہت بڑی کتاب لکھی تھی۔

بستم: میاں کرم علی جو آپ کے محرم راز اور یاران پاک باز میں سے تھے تمام مرید آپ کی وساطت سے بار یابی پاتے آپ کا مزار کم عقلہ میں ہے۔

بستِ ویکم: شیخ محمد حیات مدفون سارنگ متصل انبالہ

بست و دوم: خواجہ عبد اللہ میر شاہ جو بی بی پور کا متعصب ہندو تھا مگر آپ کی نگاہ سے مسلمان ہوا اور صاحب کمال ہوا۔

بست و سوم: شاہ عبدالرحمٰن بہلول پور

بست و چہارم: شاہ عنایت مدفون بہلول پور

بستِ و پنجم: میاں غلام محمد بیس سال تک معتکف رہے۔

بستِ و ششم: شیخ موسیٰ خان مدفون گم تھلہ۔

بستِ و ہفتم: مولوی غلام حسین مدفون بحتی نزد سہارنپور

بست و ہشتم: شیخ محمد قدس سرہ

بست و نہم: محمد افضل سامانہ آپ دریائے جمنا کو کشتی کے بغیر عبور کرتے اور آپ کا پاؤں بھی تر نہ ہوتا۔

سی سیّم: میاں محمد اعظم جو لنگر اور وظائف کی تقسیم پر مقرر تھے۔

سی ویکم: شیخ چھجو جن کا مزار حضرت کے دائرے میں ہے۔

سی د دوم: میاں محمد طاہر قدس سرہ

سی و سوم: میاں محمد افضل خان آپ کا مزار حضرت کے دائرے میں ہے۔

سی و چہارم: شیخ محمد منیر شاہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ

سی و پنجم: جعفر علی خان ولد مرزا یار بیگ آپ پہلے مغلیہ افواج میں ہفت ہزاری منصب پر فائز تھے۔

سی ششم: میاں اللہ بخش قدس سرہ

سی و ہفتم: سید علیم اللہ جالندھری قدس سرہ

سی و ہشتم: صوفی محمد صدیق قدس سرہ

سی و نہم: میاں محمد مراد قدس سرہ

سی چہلم: شیخ جبوں قدس سرہ

یہ چالیس خلفائے نانداروہ تھے جن سے سلسلہ چشتیہ کو بڑا فروغ ملا۔ ان دنوں (مولّف مفتی غلام سرور لاہوری قدس سرہ کے زمانہ تصنیف میں) آپ کے سجادہ نشین حضرت سید بہادر علی شاہ ہیں جو جامع صفات اور صاحب اخلاق حمیدہ اور پسندیدہ ہیں رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔

خزینۃ الصفیاء چشتیہ

تجویزوآراء