حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1309 | ||
یوم وصال | 1377 | ربيع الأول | 07 |
حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری ۔لقب: حضرت ثانی لاثانی۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے:حضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ شرقپوری بن میاں عزیز الدین شرقپوری بن محمد حسین بن مولانا غلام رسول بن حافظ محمد عمر بن حضرت صالح محمدعلیم الرحمہ۔حضرت ثانی حضرت میاں شیر ربانی کےچھوٹےاورحقیقی بھائی تھے۔آپ کو اپنے برادر اکبر سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں فیض ملا۔آپ کے والد گرامی ایک صوفی منش بزرگ اورسلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت تھے۔اکثر سلسلہ قادریہ کےاوراد وظائف میں مصروف رہتے۔رہتک (انڈیا) میں ملازمت کرتےتھے۔اسی جگہ سفر آخرت اختیار کیا۔آپ کےجدِامجد حضرت مولانا غلام رسولاپنےوقت کےعالم وعارف اور صاحبِ کرامات بزرگ تھے،ان کےوالد بزرگوار جناب حافظ محمد عمرایک ماہر کاتب اور حاذق حکیم،اور بہت ہی سعادت مند اور صالح تھے۔حضرت شیر ربانی کے جداعلیٰ حضرت میاں صالح محمدقرآن مجید کی کتابت کیا کرتےتھے۔صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔حضرت شیر ربانی کےآباؤ اجداد افغانی پٹھان تھے۔افغانستان میں شاہی خاندان کے اساتذہ و اتالیق کا شرف حاصل تھا۔ہندوستان میں جب اسلامی فتوحات کاسلسلہ شروع ہوا تو عرب وعجم کے دیگر علماء ومشائخ کی طرح یہ حضرات بھی دیپالپور میں وارد ہوئے۔کچھ عرصہ بعد دیپالور میں جب قحط سالی کا شکار ہواتو اس خانوادےنےوہاں سےنقل مکانی کرکےقصور کو اپنا مسکن بنالیا۔قصور اس وقت علم وفن کا بہت بڑا مرکز تھا۔بعد میں مولانا غلام رسول نے شرقپور کو اپنا مسکن بنالیا۔(تاریخ وتذکرہ خانقاہ شرقپور:33/ انوار جمیل:49)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 1309ھ مطابق 1891ء کوشرقپور شریف ضلع شیخوپورہ پنجاب پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ نے اپنے بھائی شیرِ ربانی حضرت میاں شیرمحمد شر قپوریسے تیس سال چھوٹے تھے ۔ ابھی پانچ سال کے تھے کہ والدِ گرامی کاسایہ سر سے اٹھ گیا اور تمام تر پرورش حضرت میاں شیر محمد شر قپوری قدس سرہ نے کی ۔ چونکہ حضرت میاں صاحب کی اولاد نرنیہ نہ تھی اس لئے آپ نے تمام ترتوجہ انہی پر صرف فرمائی ۔دینی تعلیم کےساتھ عصری علوم میں میٹرک پاس کرنے کے بعدآپ نے طبیہ کالج لاہور سے حکیم حاذق کا امتحان دیا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد شرقپور شریف میں علاج معالجہ شروع کردیا۔حضرت میاں صاحب قدس سرہ انہیں روحانی طیب بناناچاہتے تھے اس لئے اس شغل سے منع فرمادیا۔آپ نے یہ سلسلہ ترک کرکے میونسپل کمیٹی میں بطور سیکرٹری ملازمت اختیار کرلی ۔ حضرت میاں صاحب کوپتہ چلا تو سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔میاں صاحب آپ کی ساری کیفیت پر گہری نظر رکھےہوئے تھےاور وہ یہ چاہتےتھے کہ جلد ازجلد اپنا سارا علم وعرفاں اپنے بھائی کےسینے میں منتقل کردیں۔
بیعت وخلافت: آپ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں اپنے برادر اکبر حضرت شیر ربانی میاں شیر محمد شرقپوریسےبیعت ہوئے،اور میاں شیر ربانی کےوصال کے بعد ان کے جانشین منتخب ہوئے۔
سیرت وخصائص: محبوب ومنظورِ نظرحضرت شیر ربانی،صاحبِ اسرار ومعارف ِ رحمانی،ثانی لاثانی،حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری۔ آپ نےحضرت شیر ربانیکی جانشینی کا صحیح معنوں میں حق اداکردیا۔دین اسلام کی ترویج اور عوامی فلاح وبہبود میں ایسے مصروف ہوئے کہ ہر طرف دین کی بہاریں نظر آنے لگے۔ایک دفعہ حضرت خواجہ امیر الدین قدس سرہ کے بھتیجے حکیم بابا اکرام خاں نے حضرت میاں صاحب سے عرض کیا،آپ کے بعد کیا ہوگا ؟ حضرت میاں صاحب نے حضرت میاں غلام اللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’وہ جو ہے ‘‘! حکیم صاحب نے عرض کیا ان کی طبیعت تو تبلیغ و ارشاد کی طرف مائل نہیں ہے۔آپ نے پر جوش لہجے میں فرمایا:’’میں اسی کو دوں گا ‘‘۔اور واقعی ایک مرد ِکامل کی نگاہ نے ان میں وہ صلاحیت پیدا کردی کہ دیکھنے والے حیران ششد ر رہ گئے ۔
حضرت میاں صاحب نے وفات سے پہلے آپ کو خلافت اور جانشینی کا شرف بخشا ۔میاں شیر ربانی یہ چاہتےتھے کہ برادراصغر کو اسی راستے کامسافر بنادوں جوسیدھا جنت کی طرف جاتاہے۔جمعۃ المبارک کادن تھا نماز جمعہ کےوقت سے کچھ دیر پہلے ہی میاں غلام اللہ صاحب مسجد میں داخل ہوئے وضو فرمایا دونوں بھائیوں کا مسجد میں آمنا سامنا ہوگیا۔حضرت میاں صاحب نےآپ کوپہلی مرتبہ خاص توجہ کی نظر سے دیکھا۔توجہ کافرمانا ہی تھا کہ آپ کا عجیب حال ہوگیا۔کھڑے کھڑے گر پڑے،اور فرش پر مرغ بسمل کی طرح لوٹ پوٹ ہوگئے۔گریبان چاک کرلیا۔اسی حالت میں لوگ آپ کو مسجد کی چھت پرلےگئے۔حضرت میاں صاحب نمازِ جمعہ سےفراغت حاصل کرنےکےبعد مسجد کی چھت پرتشریف لےگئےاور اپنے بھائی کواسی حالت میں پایا۔آپ نے انہیں اٹھاکر سینے سےلگایاتو یکدم طبیعت کوقرار آگیا۔بس سینے سےلگانا ہی تھا کہ آپ کی کایا پلٹ گئی۔طبیعت میں روحانی طورپرایسا انقلاب برپا ہوگیا کہ جس سےایک زمانہ فیض یاب ہوا۔
پھرایسی صلاحیت وکمال پیدا ہوگیا کہ آپ نے حضرت میاں شیر ربانی کی روشن کی ہوئی شمع کو بجھنے نہ دیا اور اسی طرح تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔ اس سلسلے میں دور دراز کے سفر بھی کئے اور خلق ِخدا کو فیض یاب کیا ۔ آپ کی شخصیت پُرکشش اور گفتگو پر تاثیر ہوا کرتی تھی۔ایک دہر یہ لڑکا آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ آپ نے اسے صرف اتنا فرمایا ’’نماز پڑھا کرو ‘‘ اس مختصر سے جملے کا اس پر اتنا اثر ہوا کہ وہ لڑکا دین متین کا پابند ہو گیا اور وجود باری تعالیٰ پر ایسی ایسی دلیلیں قائم کرتا کہ سننے والے حیران رہ جاتے ۔حضرت میاں صاحب سادہ لباس زیب تن فرماتے اور کسر ِنفسی کا یہ حال تھا کہ صاحب سجادہ ہونے کے باوجود فرمایا کرتے تھے کہ میں تو اسی قدر ہوں کہ جو کوئی حضرتِ اعلیٰ کامہمان آئے اس کے ہاتھ دھلا دیا کروں اور کھانا کھلادیا کروں ! حضرت میاں شیر محمد شر قپوری قدس سرہ نے شرق پور شریف میں جو متعدد مساجد تعمیر کرائی تھیں انہیں آپ نے پختہ بنادیا ور بعض مساجد کو وسیع کردیا ۔ حضرت میاں شیر محمد صاحب شر قپور ی قدس سرہ کے ایک خلیفہ حضرت الحاج عبد الرحمن نے آپ کو ثانی لاثانی کا لقب دیا جو زبان زد خاص و عام ہے ۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:297)
صاحبزادہ محمد عمر بریلوی فرماتےہیں: مرض الموت میں حضرت شیر ربانی نےاپنے برادرِاصغر کوبلاکر فرمایا : ’’میاں جمعہ پڑھایا کرنا اور مسجد شریف کو آباد رکھنا،کوئی آجائے تو اس کو کچھ بتلادینا‘‘۔پھر کیاتھا کہ ان کےوصال کےبعد آپ نےخانقاہ کانظام اپنے ہاتھ میں لیا،اور حضرت کے چالیسویں پربہت بڑے اجتماع سےپر اثر خطاب کیا۔مخلصین کوایسی امید نہ تھی کہ حضرت کا خلا پر ہوجائےگا۔لیکن شرقپور شریف کےمئے خانہ عشق میں پھر سےوہی بہاریں ورونقیں نظر آنے لگیں۔ہر طرف انواروروحانیت کی بارش ہونےلگی۔یہاں تک کہ حضرت میاں غلام اللہ ثانی لاثانی کےلقب سےملقب ہوکر اس دنیاسے رخصت ہوگئے۔آپ نےعلاقے میں مساجد ومدارس کی تعمیر میں خوب حصہ لیا۔شرقپور میں بدمذہبی کےجراثیم ظاہر ہونےلگےتو آپ نے’’جامعہ حضرت میاں صاحب‘‘ کی بنیاد رکھی،جس میں اس وقت کےجید علماء کرام تدریس کےلیے مدعو کئےگئے۔بہت قلیل عرصے میں ایک عظیم الشان اہل سنت کامرکز بن گیا۔ہرطرف دین کی بہاریں نظر آنے لگیں،اسلام کےانوار سےلوگوں کے قلوب منور ہونےلگے۔اس کی برکت سےلادینیت وبدمذہبیت کےاندھیرےدور ہوگئے۔
تحریکِ پاکستان میں خدمات: تحریک پاکستان ایک ایسی تاریخ ہے جس کےپیچھے علماء،صوفیاء،اور مشائخِ اہل سنت کی بھرپور کوششیں اور قربانیاں ہیں۔یہ ایک سنہری باب ہےجس میں علماء ومشائخ اہل سنت کاعظیم کردارہے۔اس تحریک میں کسی دوسرے مسلک کاکوئی لیڈرنہیں ملےگا۔البتہ اس کی مخالفت میں ان کی پوری تاریخ ہے۔یہ بات یقینی ہے کہ اگر علماء ومشائخ اہل سنت تحریک پاکستان کی حمایت نہ کرتے توپاکستان کاخواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا۔تحریک پاکستان میں حصہ لینےوالےہزاروں علماء ومشائخ میں سےایک نام حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری کابھی ہے۔
سرزمین شرقپور میں پاکستان کی حمایت میں ہونےوالا پہلاجلسہ آپ کی صدارت میں ہوا۔اس کےجملہ اخراجات آپ نےاپنی گرہ سےادا فرمائے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جس میں پاکستان کانام لینا جرم تھا۔مگر آپ کی ہمت واستقامت نےمسلم لیگ کواس علاقےمیں عوام کی دلوں کی دھڑکن بنادیا۔ آپ اکثر مسلم لیگ کی مالی مددفرماتےرہے۔(انوار جمیل:169)
ان علاقوں میں آپ کی کوشش سےمسلم لیگ کوکامیابی ہوئی۔بالآخر پاکستان دنیا کےنقشےپر نظام مصطفیﷺکےلئےمعرض وجود میں آگیا۔لیکن جس مقصد کےلئے اسے حاصل کیاگیا تھا،وہ حاصل نہ ہوا۔مخلصین توبناکرپیچھےہٹ گئے،وہ سادہ لوح،پاک باطن یہ سمجھےتھے کہ ہم اپنا فرض اداکرچکے،اب اس ملک میں اسلام کانفاذ ہوگا۔لیکن اس پر جاگیرداروں،انگریز کےغلاموں،وڈیروں،اورچوہدریوں کاقبضہ ہوگیا۔ستر سال ہوگئے اس ملک کوقائم ہوئے۔لیکن جس مقصد کےلئےاس کوحاصل کیاگیا تھا وہ پورا نہ ہوا۔اس وقت ملک میں جمہوریت کےنام پر وڈیرہ شاہی،خاندانی،اور انگریزکا قانون چل رہاہے۔حکمران طبقہ اس ملک کوسیکولر بنانےمیں مصروف ہیں،بےحیائی،بےراہ روی،اور دین سےدوری کاسلسلہ عروج پرہے۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اس ملک کونظام مصطفیٰﷺکا گہوارہ بنائے۔
تاریخِ وصال: 7/ربیع الاول 1377ھ مطابق 12/اکتوبر1957ءکوواصل باللہ ہوئے۔حضرت شیرربانی کےپہلومیں آخری آرامگاہ ہے۔
ماخذ ومراجع: تذکرہ اکابر ِاہل سنت۔انوار ِجمیل۔