حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری
حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت لاثانی میاں غلام اللہ شر قپوی ابن حضرت میاں عزیز الدین قدس سرہ ۱۳۰۹ھ؍۱۸۹۱ء میں شر قپور شریف میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے بھائی شیر ربانی حضرت میاں شری محمد شر قپوری قدس سرہ سے تیس سال چھوٹے تھے ۔ ابھی پانچ سال کے تھے کے والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تمام تر پرورش حضرت میاں شیر محمد شر قپوری قدس سرہ نے کی ۔ چونکہ حضرت میاں صاحب کے اولاد نرنیہ نہ تھی اس لئے آپ نے تمام ترتوجہ انہی پر صرف فرمائی ۔ میٹرک پاس کرنے کے عد آپ نے طیبہ کالج لاہور سے حکیم حاذق کا امتحان دیا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد شرق پور شریف میں علاج معالجہ شروع کردیا۔حضرت میاں صاحب قدس سرہ انہیں روحانی طیب بناناچاہتے تھے اس لئے اس شغل سے منع فرمادیا۔آپ نے یہ سلسلہ ترک کرکے میونپل کمیٹی میں بطور سکیریٹری ملازمت اختیار کرلی ۔ حضرت میاں صاحب کوپتہ چلا تو سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔
حضرت میاں صاحب نے پندرہ سالک کی عمر میں آپ کی شادعی کردی اور نہ صرف اپنی تمام زمین حوالے کردی بلکہ ان کے نام لگوادی ۔ ایک دفعہ حضرت خواجہ امیر الدین قدس سرہ کے بھتیجے حکیم بابا اکرام خاں نے حضرت میاں صاحب سے عرض کیا،آپ کے بعد کیا ہوگا ؟ حضرت میاں صاحب نے حضرت میاں غلام اللہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’وہ جو ہے ‘‘! حکیم صاحب نے عرض کیا ان کی طبیعت تو تبلیغ و ارشاد کی طرف مائل نہیں ہے۔آپ نے پر جوش لہجے میں فرمایا:
’’میں اسی کو دوں گا !ا‘‘
ور واقعی ایک مرد کامل کی نگاہ نے ان میں وہ صلاحیت پیدا کردی کہ دیکھنے والے حیران ششد ر رہ گئے ؎
کیمیا پیدا کن از مشت گلے
بوسہ زن بر آسان کا ملے
حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے وفات سے پہلے آپ کو خلافت اور جانشینی کا شرف بخشا ۔آپ نے حضرت میاں صاحب کی روشن کی ہوئی شمع کو بجھنے نہ دیا اور اسی طرح تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔ اس سلسلے میں دور دراز کے سفر بھی کئے اور خلق خدا کو فیض یاب کیا ۔ آپ کی شخصیت پر کشش اور گفتگو پر تاثیر ہوا کرتی تھی۔
ایک دہر یہ لڑکا آپ کی خدمت مین پیش کیا گیا ۔ آپ نے اسے صرف اتنا فرمایا ’’نماز پڑھا کرو ‘‘ اس مختصر سے جملے کا اس پر اتنا اثر ہوا کہوہ لڑکا دین متین کا پابند ہو گیا اور وجود باری تعالیٰ پر ایسی ایسی دلیلیں قائم کرتا کہ سننے والے حیران رہ جاتے ۔
حضرت میاں صاحب سادہ لباس زیب تن فرماتے اور کسر نفسی کا یہ حال تھا کہ صاحب سجادہ ہونے کے باوجود فرمایا کرتے تھے کہ مین تو اسی قدر ہوں کہ جو کوئی حضرت اعلیٰ کامہمان آئے اس کے ہاتھ دھلا دیا کروں اور کھانا کھلادیا کروں ! حضرت میاں شیر محمد شر قپوری قدس سرہ نے شرق پور شریف میں جو متعدد مساجد تعمیر کرائی تھیں انہیں آپ نے پختہ بنادیا ور بعض مساجد کو وسیع کردیا ۔ اس کے علاوہ ایک مدسہ تعمیر کرایا جس میں دینی تعلیم کیلئے بہترین اساتذہ کو متعین کیا ، جو اب بھی جاری رہے اور ’’درس حضرت میں صاحب ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔حضرت میاں شیر محمد صاحب شر قپور ی قدس سرہ کے ایک خلیفہ حضرت الھاج عبد الرحمن رحمہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ثانی لاثانی کا لقب دیا جو زباں زد خاص و عام ہے ۔
آپ کے دو صاحبزادے حضرت میاں غلام احمد مد ظلہ ( فرزند اکبر ) اور حضرت میاں جمیل احمد صاحب شر قپوری مدظلہ ( فرزند اصغر ) آپ کے طریق پر قائم ہیں اور دین متین کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔حضرت میاں جمیل احمد شر قپوری مدظلہ العالی نے ایک تبلیغی ادارہ دار المبلغین قائم کیا ہے جس سے علماء اور حفاظ مستفید ہو رہے ہیں ۔ حال ہی میں حضرت میاں جمیل احمد شر قپوری مدظلہ کی سر پرستی میں ماہ نامہ نور اسلا کا امام اعظم نمبر (شمارہ ستمبر، اکتوبر ۱۹۷۵ئ) مین شائع ہو اہے ۔ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد مین اتنا عمدہ اور ضخیم نمبر آج تک پاک و ہند میں شائع نہیںہوا ہوگا، مولائے کریم ان حضرتا کے ذریعہ دین اسال کو عام فرمائے۔
حضرت میاںغلام اللہ شر قپوری متدد بزرگان دین کے مزارات پر حاجر ہوئے اور تینمرتبہ حج و زیات کی سعادت سے مشرف ہوئے ۔ پہلی دفعہ اپنی طرف سے، دوسری مرتبہ والدئہ ماجدہ کی طرف سے اورتیسری مرتبہ حضر ت میاں شر محمد شر قپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حج کیا ، تقریباً تیس سال تک تبلیغ دین کا فریضہ دیتے رہے۔
۷ ربیع الاول ، ۳ اکتوبر(۱۳۷۷ھ؍۲۹۵۷ئ)بروزبدھ تین بجے دن محبو ب حقیقی سیجا ملے اور حضرت میان شیر محمد شر قپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے پہلو میں دفن ہوئے[1]
[1] ابو سعید ایم اے ، قاضی : ماہنامہ نور اسلام ، شر قپور (اکتوبر ۱۹۷۲ئ)ص ۴۷۔۴۸
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)